شال:(ہمگام نیوز) بلوچ آزادی پسند رہنما حئیربیار مری نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ پاکستان و ایران کی طرف سے مشترکہ طور پر پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کے علاقے پنجگور سبز کوہ میں بمبارڈمنٹ اور بلوچوں کی شہادت سے اس موقف کو مزید تقویت مل جاتی ہے کہ بلوچ متحدہ قومی قوت کی شیرازہ بکھیرنے میں دونوں قوتوں کا آپس میں رابطہ کاری و شراکت جاری و ساری ہے۔
یہ مشترکہ حملے ایک ایسے وقت میں کئے گئے جب قابض ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اسلام آباد کے دورے پر تھے، اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دونوں قابضین بلوچ کی آزادی کے خلاف صف بستہ اور شراکت دار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم عرصہِ دراز سے یہ کہتے رہے ہیں کہ ہمسائیگی یا مذہبی یکسانیت کے باوجود ایران اور پاکستان دونوں کبھی بھی بلوچ قوم کا دوست نہیں بن سکتے بلکہ وہ خفیہ و مشترکہ طور پر جہاں ضرورت پڑی بلوچ قومی آزادی کی تحریک پر کاری ضرب لگانے کے لئیے شانہ بشانہ کام کررہے ہیں۔
بلوچ رہنما نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے کچھ لوگ ایران دوستی کی مالا جپتے ہیں اور دوسری جانب کچھ قوتیں پاکستانی حمایت و امداد کی آس لگائے بیٹھے ہیں، لیکن بلوچوں کے خلاف پنجگور سبز کوہ میں کی جانے والی ایرانی و پاکستانی مشترکہ *کارروائی* سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ قابض ایران و پاکستان بلوچ تحریک آزادی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئیے اپنی طاقت یکجاہ کرچکے ہیں۔
بحیثیت بلوچ آزادی پسند ہم سب کے لئیے یہ امر خطرے کی گھنٹی کی طرح ہے اور ہم سب کو یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ قابض ایران و پاکستان دو الگ قوتیں ہوکر بھی اپنی مشترکہ مفادات کی تحفظ کے لئیے بلوچ قوم کے خلاف ایک ہوسکتے ہیں تو متحدہ بلوچ قومی آزادی کو مقدم جانتے ہوئے ہم بحیثیت بلوچ آزادی پسند کیوں *متحدہ بلوچستان کی آزادی کے بنیادی نقطے* پر یک دست و یکجاہ نہیں ہوتے۔
حئیربیار مری نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ہمارا یہی ماننا ہے کہ جب بلوچ قابضین سے آزادی لینے کے لئیے دنیا میں مستعمل تمام تر سیاسی اصطلاحات و طریقہ کار جیسا کہ سیکیولرزم، لبرلرزم، اشتمالییت پسند و اشتراکی معاشی و سماجی نظریے کو اپنا سکتے ہیں تو پھر وہ متحدہ بلوچستان کی آزادی اور قومی بنیادوں پر فیصلہ سازی کی اختیار کی حصول کے لئیے کیوں ایک دوسرے کی مذہبی وابستگی و سیاسی جھکاؤ کی بنیاد پر ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہوئے ایک دوسرے کی مخالفت میں لگے ہوئے ہیں، *حیرانگی کی بات ہے کہ ایرانی قابض ملا رجیم کو تو بلوچ پر قابض ہونے کے باجود تسلیم کرتے ہوئے ان کو نجات دہندہ سمجھا جاتا ہے لیکن ایرانی قابض کے خلاف برسرپیکار بلوچ جہد کاروں کو مذہبیت کے نام پر دھتکارہ جاتا ہے، جو کہ بذات خود ایک تضاد ہے، یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر موجود مسلح جہد کاروں نے آج تک واضح الفاظ میں بلوچ قومی آزادی کی بات نہیں کی ہے لیکن وہ بلوچ قومی حقوق کی حصول کے لئے ایرانی پارلیمنٹ کا حصہ بن کر ایرانی ریاست کی باج گزار بننے کے بجائے ایران کے خلاف جد و جہد میں مصروف ہیں لہذا بلوچ مذہبی یا سیاسی اعتبار سے جو بھی موقف اپنائے*، جب تک وہ بلوچ قومی آزادی کی رستے میں دیوار نہیں بنتا اور قومی جہد آجوئی کی تحریک کے لئیے کوئی مشکلات پیدانہیں کرتا یا پھر مذہبی انتہا پسندی تک نہیں جاتا تو ایسے میں ہمیں چاہئے کہ ہم سب ایک دوسرے کی سیاسی نظریات و مذہبی وابستگیوں کو قبول کرتے ہوئے صرف اس نقطے پر یکجاہ ہوجائیں کہ ہمیں بحیثیت بلوچ ایک آزاد و فیصلہ سازی میں خود مختار متحدہ بلوچستان کی حصول کے لئیے ہی جد و جہد کرنا ہے۔
ایف بی ایم کے صدر نے مزید کہا کہ قابض ایران نے انیس سو ستر میں بلوچوں کی آزادی کی جنگ کو اپنے لیے خطرہ محسوس کرکے قابض پاکستان کو سینکڑوں ملین ڈالرز کی اقتصادی، فوجی و سیاسی امداد کے علاوہ پاکستان کے ساتھ مل کر بلوچ آزادی پسندوں پر فضائی بمباری کی. بلوچ قوم کی آزادی کے خلاف دونوں قابضین کی مشترکہ پالیسی میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
ایران اور پاکستان بلوچستان کے متحدہ سرزمین پر قابض ہوکر ہم بلوچوں کو مذہبی، سیاسی و معاشرتی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی آج تک کوششیں کررہے ہیں، *ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قابض ایران کے اندر کوئی بھی برسراقتدر ہو* *چاہے وہ ماضی کا رضا شاہ پہلوی ہو یا پھر آج کا ملا رجیم یہ سب اپنے تئیں کوئی بھی سیاسی و مذہبی نظریہ رکھتے ہوں لیکن بلوچ قوم کو نیست و نابود کرنے کی پالیسی میں سب ایک جیسی نظریات رکھتے ہیں* ایسے میں اگر غیر فطری طور پر کھینچی ہوئی سرحدی لکیروں کے کسی بھی جانب کوئی بھی بلوچ قوت آپس میں ایک دوسرے پر شک و شبہات اور تحفظات کا اظہار کرے تو ہمیں سمجھ لینا چاہئیے کہ اس عمل سے دونوں قابضین پاکستان و ایران کو ہی بلوچ جد و جہد آجوئی کے خلاف بے پناہ فائدہ پہنچ رہا ہے، بحیثیت بلوچ ہمیں ایران و پاکستان دنوں کو بلوچ سرزمین پر قابض مانتے ہوئے انکے خلاف اپنی جد و جہد کو منظم کرنا چاہئیے۔
ایران اور پاکستان بلوچ قومی نسل کشی اور قومی استحصال کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتے لہذا ان میں سے کسی بھی قابض قوت کو نجات دہندہ مان کر اس سے امداد و خیر سگالی کا امید رکھنا محض دیوانے کا خواب اور سراب ہے جس کے بنیاد پر بلوچ قومی آزادی کی جدو جہد کو تسلسل کے ساتھ زک پہنچتی رہیگی، ایسے میں یہ نہایت لازمی ہے کہ بلوچ اپنی توانائیوں کو دونوں قابضین ایران و پاکستان کے خلاف اور متحدہ بلوچ سرزمین کی آزادی کے لئے استعمال کریں۔ یہی ایک سبیل ہے کہ بلوچ قوم قابض پاکستان و ایران کی مشترکہ مرتب کردہ نسل کشی کی پالیسیوں کے خلاف کامیاب و سرخرو ہوسکتا ہے