(ہمگام کالم ) انا پرست، خود نما، اور کمزور نظریے کے حامل انسان کے لیئے غصے کو اس وقت قابو میں کرنا زیادہ مشکل ہوجاتا ہے جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ کسی معاملے میں آخری فیصلہ اس کے بالکل خلاف آرہا ہے، تب اس کے لیئے اناپرستی ہی آخری پناہ گاہ بچ جاتی ہے، وہ پھر خود نمائی اور اناپرستی کے آگ میں ایسا جلتا ہے کہ قرب و جوار میں موجود سبھی چیزوں اورسبھی رشتوں کو بھسم کرکے رکھنے سے بھی نہیں ہچکچاتا، وہ اپنی انا کی آگ میں سب کوجھونکتا چلا جاتا ہے، (شہید ریحان اسلم بلوچ کے اپنے ہی بیٹے تھے)، ایسا اس لیئے نہیں ہوتا کہ اس کا غصہ جائز ہوتا ہے اور اس کے خلاف آنے والے فیصلے میں کوئی نظری یا عملی سقم موجود ہے بلکہ ایسا محض اس لیئے ہوجاتا ہے کہ مندرجہ بالا خصائل میں گرے ہوئے لوگ کسی بھی معاملے میں اپنے ناک سے آگ کی دنیا کو جوتے کی نوک پر رکھ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں، ان کے لیئے ان کی ذات نہ صرف مقدم ہوتا ہے بلکہ وہ اٹل اور نا قابل احتساب ہے، وہ اس سوچ سے کبھی نکل ہی نہیں سکتے کہ ہمارے علاوہ بھی کوئی اور ہے جو ہماری طرح کام کرسکتا ہے بلکہ اچھا کرسکتا ہے، ان کو پاگل پن کی حد تک یقین ہوتا ہے کہ ہماری جگہ کوئی اور شخص سازش اور ریشہ دوانیوں سے تو لے سکتا ہے لیکن عملا کبھی نہیں، یعنی خالص فکری نرگسیت اور خودنمائی، وہ اس بشری خصلت کو کہ انسان غلطیوں کا پتلا ہے کبھی مان کر نہیں چل سکتے وہ یہی سمجھتے ہیں کہ وہی عاقل و دانا ہیں اور جو ہے انہی کے دم سے ہے اور وہ نفی تو سب نفی، یہی خود نمائی اور نرگسیت پسندی کا بدترین ماجرا ہے کہ انسان حقیقت بینی کی اعلی سیاسی معیار سے بے بہرہ ہوجاتا ہے، ایسے لوگوں کی اس طرح کے رویوں کا ایک خاص وجہ ان کی نرگسیت پسندانہ زہنیت ہے، وہ دوران عمل اپنے کسی بھی انفرادی عمل کو اجتماعی عمل کے ایک حصے کے اعتبار سے دیکھنے اور اسے کل کے قالب میں ڈال کر مزید عمل کے لیئے آگے جانے پر قطعا تیار نہیں ہوتے، وہ اپنے عمل کو لیکر اس کی نتائج کی کیفیت کی سرور میں کھو جاتے ہیں، تب ان کے لیئے حج کرکے بھی سور کھانا حلال ٹہر جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو اس بات پر میرا اتفاق ہے کہ یہ تحریک کسی شخص، فرد، میر، سردار، ٹکری، نواب، جہدکار، حتی کہ کسی شہید چاہے ان کی قد کاٹ کتنا ہی بلند اور کردار کتنا ہی معتبر کیوں نہ ہو، لیکن یہ کسی ایک انسان کی انفرادی میراث ہرگز نہیں ہے، بلکہ یہ تحریک اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ بلوچ قومی اجتماعی سوچ و فکر کی پیداوار ہے، اس میں کتنوں کی لہو شامل ہے، وہ ان گنت ہیں جن کا کوئی حساب نہیں، ان میں کتنوں کا اشک اور محنت کا پسینہ شامل ہے اس کا بھی کوئی حساب نہیں، جن لوگوں کو تاریخ جانتی ہے تو وہ انہیں اپنے اپنے حساب سے یاد رکھتی ہے، لیکن کتنے ایسے ہیں جو گمنامی کی زندگی گزارتے ہوئے تحریک کو بنیادیں فراہم کرکے اس جد و جہد کے راہ میں کام آگئے ان جیسے گمنام کرداروں کا بھی کوئی حساب نہیں، تاریخ ہر کسی کو اپنے طور پر یاد رکھتی ہے، منفی یا مثبت کا اختیار اگر خود فرد کے ہاتھوں میں ہوتا تو تاریخ میں منفی کردار ہی ناپید ہوجاتے لیکن ایسا نہیں ہے اسی لیئے تاریخ ہر فرد کو اس کی کرداری حیثیت کی بنیاد پر یاد رکھتی ہے، میرمحراب خان کو بعد میں آنے والے بلوچ قوم نے ممتاز نہیں بنایا بلکہ وہ اپنی کردار و عمل سے ممتاز مقام کے لائق ٹہرے، یہی بات میر یوسف عزیز مگسی، میر عبدالعزیز کرد اور آغا عبدالکریم و بابو نوروز دیگر کئی اور لوگوں پر صادق آتی ہے، مندرجہ بالا ناموں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو رہنما نہ تھا، مگر عملی اعتبار سے سب کے انداز الگ الگ تھے اس الگ نوعیت کے کردار کی وجہ ہر وقت کے اپنے اپنے اغراض و مقاصد تھے، تحریکوں میں فرد کا کردار اس کی حیثیت کا تعین کرتا ہے ناکہ اس کی حیثیت کردار کے تعین میں معاون ہوتا ہے، محراب خان سے پہلے بھی محراب خان جیسے حیثیت والے لوگ تھے، اسکے معاصر بھی ایسے لوگ تھے اور بعد میں بھی بہت سارے گزرے مگر وہ اپنی کردار میں محراب خان نہیں بن سکے لہذا تاریخ نے انہیں در خور اعتنا نہیں سمجھا، ویسے تو سماجی و سیاسی حیثیت کی آج ہر اونے پونے دام کے لوگ دعوی کرتے ہیں لیکن تاریخی حیثیت کردار کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔ بلوچ تحریک آزادی کے حوالے اگر دیکھا جائے تو آخری پڑاؤ اور منزل کہاں ہے، یہ تحریک ہزارہا بلوچ فرزندوں کی صدیوں پر محیط جد و جہد کا نتیجہ ہے اور اس میں انفرادی عمل کی حیثیت ایک آزاد ریاست کی حصول کے بعد ہی شرمندہ تعبیر ہوسکے گی، کسی کی بھوک، کسی کا لٹ جانا، کسی کا تاریک راہوں میں گم نام ہوکر بھچڑجانا اور کسی کی اشک و لہو کی قیمت و توقیر کا منزل سے پہلے تلنے کی نفسیات اگر نرگسیت نہیں تو اور کیا ہے ؟ شہادت ان سب معرکوں میں اس لیئے افضل ٹہرجاتا ہے کہ شہید بعد از شہادت اپنی اس حتمی اور قطعی حیثیت کی کبھی تلنا نہیں کرتے، شہید کی شہادت کے بعد بے لوث اور بے غرضیت کا ایک دورِ بے کراں ہے اور کچھ نہیں، جو رہتی دنیا تک چلتی چلی جاتی ہے، لیکن ایک جہد کار اگر کسی منڈی کی جنس گراں بہا کی طرح اپنی کردار کی اوصاف و اصناف گنوا کر اس کی تشہیر کرنے لگ پڑے اور تحریک کے اندر اپنی اس کردار و فرض کی ادائیگی کے بدلے اپنی حیثیت کو ثابت کرنے اور احسانات جتانے کی کوششوں میں لگ جائے تو یہی سے تحریک میں اجتماعی مفادات کو نکیل ٓ ڈالنے اور انفرادی نمود و نمائش کے کہانی کی ابتداء ہوجاتی ہے، چاہے وہ اللہ نظر کرے یا اسلم و بشیر زیب کریں، مبادیات سب کے یکساں ہیں اور رہیں گے۔ سنگت حیربیار کی تحریکی عمل میں کردار کی تاریخی حیثیت کیا ہے اور کتنا اونچا ہے اور آگے چل کر وہ کس حیثیت میں یاد رکھے جائیں گے یہ فیصلہ تاریخ پر اور آنے والے نسلوں پر چھوڑتے ہیں، مگر ماضی میں اسلم و بشیر زیب اور اسی گروہ کے دیگر لوگوں نے خود اپنی زبان و قلم سے کیا لکھا اور کیا کہا ان حقائق کا تجزیہ ضرور کرینگے، قطع نظر اس حقیقت کے کہ سنگت حیربیار اس تحریک کے معمار اور بنیاد رکھنے والے شخص ہیں اور سنگت حیربیار کی کردار چاہے کتنا ہی بلند اور اعلی مرتبت کیوں نہ ہو وہ اس تحریک والی ہرگز نہیں ہیں اور یہ تحریک انکی میراث نہیں ہے، باالفاظ دیگر یہ تحریک کسی کی بھی میراث و ملکیت نہیں ہے، خوش آئند بات یہ ہے کہ عملا سنگت حیربیارمری اس چیز کی واضح مثال قائم کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں کیونکہ وہ عملی اور فکری بنیادوں پر اس بات کا ثبوت بہم فراہم کرچکے ہیں کہ وہ اس تحریک میں ایک سنگت اور ساتھی کی حیثیت سے شامل ہیں، تحریکی میراث و ملکیت کا تاثر اپنی جگہ سنگت حیربیار نے کبھی رہنما ہونے کا بھی دعوی نہیں کیا، وہ الگ بات ہے کہ اسکی کردار و عمل نے نہ صرف انہیں اس حالیہ تحریک کا معمار ثابت کیا ہے بلکہ وہ واحد رہنما ہیں جو کہ اس تحریک میں شروع سے لے کر آج تک اپنی کسی بھی بات یا نظریے سے روگردانی کے مرتکب نہیں ہوئے، کبھی تحریکی ضروریات پر ذاتی مفادات کو غالب نہیں آنے دیا، الزامات ہزارہا لگے مگر کسی دوسرے ملک یا خفیہ ایجنسی کی پروکسی بننا گوارا نہیں کیا، اور قومی ںظریات و تحریکی اصولوں پر آج بھی اسی طرح ثابت قدمی سے جمے ہوئے ہیں جیسے کہ آج سے دس یا اٹھارہ سال پہلے تھا، لیکن سب سے زیادہ الزامات بھی سنگت حیربیارمری پر ہی لگتے ہیں، یہ فطری قانون ہے کہ آپ جتنا بلند اڑتے ہیں اتنے ہی گرانے والے آپ کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، دشمن اور دشمن نما دوستوں کے لیئے وہی لوگ زیادہ خطرناک ہوتے ہیں جو کہ طویل المعیاد دورانیے میں تحریک کو جڑیں مہیا کرتے ہیں لہذا ان کے خلاف الزامات، پروپیگنڈا اور بدزبانیوں کی تاریخ کافی پرانی ہے، جب کسی شخص، گروہ، پارٹی یا اجتماع کی بات اور نظریہ لوگوں کے درمیان کامیابی سے جگہ بنانا شروع کرتا ہے تو پھر اسی شخص، گروہ تنظیم یا پارٹی کو لوگوں کے سامنے متنازعہ بنانے کا عمل شروع کیا جاتا ہے ایسے لوگ عموما تنازعات میں گھسیٹے جاتے ہیں جو کہ کامیابی کے ساتھ عوام تک اپنی بات تحریکی ضروریات کے عین مطابق پہنچا رہے ہوتے ہیں تاکہ دشمن کا کام آسان ہوسکے اور دوست نما دشمنوں کو اپنے ہتکھنڈے آزمانے میں زرا آسانی ہو، الزامات کا لگنا اور لگے ہوئے الزامات کا ثابت ہونا دو علیحدہ باتیں ہیں، بلوچ قومی تحریک آذادی میں چلتی ہوئی ماضی کو آج کی تحریک کے تناظر میں دیکھیں یا پھر دنیا کی کسی اور تحریک کو لے کر دیکھیں اختلافات اور الزامات کی سطح برابر دکھائی دیگی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ماضی میں میڈیا تک رسائی عام نہیں تھی تو الزامات کا لگانا اور عوام تک ان کی تشہیر کرنا آسان نہیں ہوتا تھا اس لیئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ الزامات اور فرضی کہانیاں گھڑ کر کسی کی ٹانگ کھینچنے کا عمل محض بلوچ کے حصے میں آئی ہے ایسا بالکل بھی نہیں ہے، یہ سوشل میڈیا ہی کی مرہون منت ہے کہ آج کل ہر کوئی منہ اٹھا کر الزامات لگاتا جاتا ہے اور اسے قارعین تو مل ہی جانے ہیں، کیونکہ سوچوں کی اختلافات اور سیاسی طریقہ کار میں الگ رائے رکھنے والے لوگ ہمیشہ سے موجود رہے ہیں لیکن بات تو جب ہے کہ جب کسی پر لگائی گئی الزامات کو ثابت کیا جائے، سنگت حیربیار پر الزامات کی نوعیت اس لیئے بھی الگ ہے کہ سنگت پر وہی لوگ انہی معاملات کو لے کر الزام تراشی کررہے جو آج سے تین ، چار سال قبل سنگت کی سیاسی بصارت اور عملی سنجیدگی کے دم بھرتے نہیں تھکتے تھے، آج ان کی ماضی کی لکھی ہوئی باتیں حرف بہ حرف سوشل میڈیا پر محفوظ ہیں، جس سے بہت ساری باتیں لے کر ان کی آج کی باتوں کو ان کی کل کی کہی ہوئی باتوں اور دعووں کے سہارے یکسر غلط ثابت کیا جاسکتا ہے۔ ایک بات جو کہ مضحکہ خیز حد تک غیر سیاسی اور بچگانہ ہے وہ ہے کہ جب قبائلی بنیادوں پر ہونے والے معاملے اور مسائل جہاں کئی افراد مارے جاچکے تھے( مری بگٹی معاملے کے تناظر میں) جب ان جیسے بڑے اور مشکل مسائل کا تصفیہ ہوسکتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایک تنظیم کے اندر معاملات اس قدر بگڑ جاتے ہیں کہ وہ حل ہوکے نہیں دیتے، اس میں صرف اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ قبائلی جنگوں میں اپنے ہی قوم کے ساتھ مڈ بھیڑ اور تحریکی جد و جہد کے دوران دشمن سے لڑنے میں کیا کوئی فرق نہیں ہے، قبائلی جنگ آپسی ہوتے ہیں جہاں کوئی قبائل کسی اصول کا تابع نہیں وہ محض ایک دشمنی ہوتی ہے، اگر کسی آپسی چپقلش میں تین لوگ مارنے ہیں اور دس مارے گئے تو اس میں کوئی کسی کو جوابدہ نہیں بناتا بلکہ قاتل کی دلیری اور بہادری پر ان کی واہ واہ کی جاتی ہے لیکن قومی جنگوں میں اصول و اخلاقیات کے تابع ہونا پڑتا ہے، ہر چیز کا حساب لے کر چلنا پڑتا ہے، بسا اوقات اپنی انا اور ذاتی ضد کو مارنا پڑتا ہے تاکہ اجتماعی مفادات کی نگہبانی کی جاسکے، فرض کریں، مری بگٹی مسئلے میں اگر سو لوگ ایک طرف اور ایک سو پچاس دوسری طرف مارے گئے ہیں، اگر ان میں ایک فریق مکمل طور پر قصور وار ہے اور اس خون ریزی کی زمہ دار ہے، مگر پھر بھی بالاچ مری اکبر خان بگٹی سے ملتے ہیں اور اسے قومی تحریک میں کردار ادا کرنے اور آپسی چپقلشوں کو ختم کرنے کے بارے میں پیش کش کرتے ہیں اور اکبر خان بگٹی بھی جب ڈیرہ بگٹی سے نکل کر پہاڑوں کا رخ کرنا چاہتے ہیں تو سنگت حیربیار سے تمام پہلوؤں کے بابت صلاح و مشورہ کرتے ہوئے کوئی قدم اٹھاتے ہیں، یہ اس بات کی ثبوت ہے کہ قبائلی جنگوں میں آپ مصلحت، برداشت اور رواداری سے کام لیکر تصفیہ طلب مسائل کو حل کرکے مجموعی اعتبار سے قومی مفادات کے حصول کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ قبائلی جنگوں پر خرچا جانے والا ایندھن قومی جد و جہد میں کام آسکے، اور اس میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ غلطی کس کی تھی، زیادتی کہاں پر ہوئی اور کون قصور وار تھا کیوں کہ جو ہوا وہ ماضی تھا اور اس مخصوص معاملے میں مصلحت و برداشت و تصفیے کے ساتھ جو ہوگا وہ مستقبل ہوگا اور قومی مفادات کی خاطر ہوگا، لیکن قومی جد و جہد کے دوران سیاسی و جنگی بنیادوں پر جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے وہ ہے اصول پرستی اور مسقل مزاجی، سیاسی و جنگی اخلاقیات اور قوم سے مخلصی، اگر ان سب چیزوں کو پس اے پشت ڈال کر ڈاکٹر اللہ نظر کی برادر کش پالیسیوں پر خاموش رہ جاتے، ایرانی پروکسی بن جانے پر اس کی پیٹھ پہ تپکی دے کر اسے شاباشی دے دیتے، مہران مری کی کرپشن اور تنظیمی انتظامی ڈھانچے کو تتر بتر کرنے پر چپ سادھ لیتے اور ابھی اسلم و بشیر زیب کی سیاسی مہم جوئیوں پر بھی تماشائی بنے رہتے تو سوچیئے اس جد و جہد کی کیا درگت بنتی، آذادی کی تحریکوں میں مقبوضہ خطوں کے لوگ قومی طاقت کی برتری کے احساس پر نہیں لڑتے بلکہ وہ اپنی اخلاقی اقدار، سیاسی اصول پرستی، احتساب کی سخت رویوں اور جد و جہد کی مستقل مزاجی جیسی چیزوں کے زیر اثر ہوکر کامیابی سے اپنی جد و جہد کو منزل مقصود تک لے جاتے ہیں۔ باقی کی باتیں کرنے سے پہلے ایک گزارش یہ ہے کہ ہمارا مسئلہ معلومات کا ہے، جب معلومات نہیں ہونگے تو صحیح کہتے ہیں کہ لوگ انہی معلومات پر ہی اکتفا کر کے چلتے رہتے ہیں کہ جو معلومات مجھ تک پہنچ گئی ہے نہ صرف مکمل ہے بلکہ وہ مکمل سچ بھی ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں، اس میں ایک اور پہلو بھی ہے جس پر وہ لوگ کبھی بات نہیں کرتے جو کہ خود اسی کم معلوماتی ماحول یا جھوٹ کی بنیاد پراپنی سیاسی گزربسر کرنا چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جب کسی معاملے پر معلومات کم دستیاب ہونگے تو اس معاملے پر کچھ لوگ افسانوی رنگ میں اپنی کتھا بیان کرنا شروع کردیتے ہیں، اور اس میں سو جھوٹ بھی شامل کرلیتے ہیں، کیونکہ انہیں یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہے کہ عام لوگوں کی معلومات تک رسائی محدود ہے لہذا ہم جو بھی کہیں لوگ اس پر یقین کرلینگے اور اگر یقین نہ بھی کریں پھر بھی یہی ہوگا کہ وہ ہماری بات کو جھٹلانے کے لیئے معلوماتی ذرائع کی اس حد تک کھوج نہیں کرسکتے کہ وہ حقیقت حال تک پہنچ جائیں تو یہ یقین انہیں مزید جھوٹ لکھنے، لکھوانے اور تشہیر کروانے میں انگیخت بنا دیتا ہے، اس پر یہ بھی سوچا جاسکتا ہے کہ کیا حقیقت میں معلوماتی زرائع بالکل ناپید ہیں، اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہے کیونکہ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ یہ یک طرفہ تشہیری مہم ہے جو کسی نیوز پورٹل پر کچھ لوگ بیٹھ کرانتھک محنت سے انگلش سے اردو، براہوی سے بلوچی، بلوچی سے انگلش اور انگلش سے اردو میں ترجمہ کرکے لکھتے رہتے ہیں، لیکن دوسری طرف ایسا نہیں ہے، کیونکہ وہاں ایک حد بندی ہے، ایک اصول اور ایک پیمانہ ہے، سنگت حیربیار مری اور دوستوں کا یہ اصول ہے کہ ہر تحریکی بات ہمگام نیوز کی ویب سائٹ پر نہیں ڈالی جاسکتی، ہاں کمیاں او کمزوریاں ضرور ہیں کیونکہ ہر پانچ آٹھ سال بعد کوئی اٹھ کر لیڈر بن جانے کے سپنے سنوارتے ہوئے تحریکی سفر کے سامنے شکست و ریخت کی بند باندھ دیتا ہے، لیکن دوسری طرف جب آپ ضد انا پرستی خود نمائی اور بچگانہ پن پر آجائیں تو پھر سب کچھ ممکن ہوگا ما سوائے سنجیدگی اور مستقل مزاجی کے، یہ کوئی کریانے کا دکان نہیں آذادی کی تحریک ہے جسمیں دشمن تمھاری اور تم دشمن کی چھپی بھیدوں سے پردہ ہٹا کر اپنے لیئے راہ تلاش کرتے رہتے ہو، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ کچھ غیر سنجیدہ اور اصولوں سے عاری لوگ محض اپنی انا کی تسکین اور ہٹ دھرمی کو منوانے کی خاطر ہر اس چیز کو بیچ چوراہے( دی بلوچستان پوسٹ) میں لاکر رکھ دیتے ہیں جو کہ راز داری کی انتہائی حد اور سنجیدگی اور مستقل مزاجی کی حتمی پڑھاؤ ہونا چاہئے، اگر تحریکی معلومات و رازوں کو افشا کرکے اور اپنی خاص مقصد کے لیئے توڑ مروڑ کر عام لوگوں کو گمراہ کرنے کی سعی کرتے ہوئے روز کی بنیادوں پر لوگوں کو لیڈر ثابت کرنے کے لیئے ان کی انٹرویوز چھاپے جائیں، انڈیا میں جاکر وہاں اپنی تنظیمی نام سمیت باقی سبھی رازوں کو اور ان کی حساسیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی کرایے کی لکھاری سے کتابچے لکھوا کر شائع کی جائے، کوئی سا انڈین سنتوش کمار جیسے فرضی نام گھڑ کر اسکے نام سے ایک مبینہ آرٹیکل ترجمہ کرکے کسی نیوز پورٹل پر لگا دی جائے اور روز روز یہی اوچھی حرکتیں دہرائی جائیں اور پھر اس کو کامیابی اور فخر سے تعبیر کیا جائے یہ اگر سیاسی نرگسیت اور خودنمائی و اناپرستی نہیں تو اور کیا ہے ؟ دوسری طرف سنگت حیربیار ہے اس تحریک کے شروعات سے لے کر آج تک انہوں نے کبھی کوئی ایسی متنازعہ بات ہی نہیں کی جو کہ آگے چل کر تحریک اور تحریکی دوستوں کے لیئے کوفت کا سبب بن جاتا، رازوں کا افشا اور اندرونی معاملات پر بات کرنا تو خیر بہت دور کی بات ہے، یہی ہے ایک زمہ دار شخص کی نشانی اور ایک غیر زمہ دار، اصولوں سے بھاگی ہوئی خود سر اور خود نما بندے کی کہانی ہے، لیکن اسکے باوجود سنگت حیربیار ہی الزامات کی زد میں ہیں، اور یہاں طرفہ تماشہ یہ ہے کہ الزامات لگانے والے آج جو الزامات لگا رہے ہیں یہی لوگ ماضی قریب میں ڈاکٹر اللہ نظر گروہ کی طرف سے لگائے گئے انہی الزامات کی سنگت حیربیار کے حوالے نہ صرف سختی سے تردید کرچکے ہیں بلکہ وہ خود سنگت حیربیار مری کے حق میں دلیلیں دیتے ہوئے پیش پیش رہے ہیں، اب اس میں یہی ہوسکتا ہے یا تو یہ لوگ کل غلط تھے اور آج صحیح ہیں، یا پھر کل صحیح تھے اور آج غلط ہیں، ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ آپ ایک ہی مسئلہ پر کل اتفاق میں تھے اور آج مخالف ہیں اور آپ کل بھی صحیح تھے اور آج بھی صحیح ہیں، اگر یہ سقراطی پود نئی بلوچ نسل میں سرایت کرچکی ہے تو پھر ہم ماضی کے سقراطی دلیلوں کو نظرانداز ہی کردینگے لیکن کوئی ہمیں سمجھائے کہ ہم سمجھیں کیا؟ سب سے پہلا جو الزام سنگت حیربیار کے سر تھونپنے کی کوشش کی گئی ہے وہ ہے جنگ بندی، اس پر تحیر کا اظہار بھی ہے کہ ایک کمزور فریق کیسے یک طرفہ جنگ بندی کرسکتی ہے، کردوں کی ایک طویل تاریخ کا حامل جد و جہد ہے، انہوں نے ترکی کے ساتھ ماضی قریب میں جنگ بندی کی اور اب وہ ٹوٹ چکی ہے، اسکے علاوہ بھی دنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں، یہ صرف بلوچ کی تاریخ کا حصہ نہیں ہے، اس سے ایک چیز ظاہر ہوتی ہے کہ وہ پاکستانی قبضہ گیر کے ساتھ جنگ کو ایک مجبوری کی سیاسی عمل نہیں مانتے، یعنی جنگ بلوچ قومی غلامی کی زندگی کو ختم کرنے کے لیئے ہی لڑی جارہی ہے اور غلامی خلاف ہونے والے سیاسی جد و جہد کا یہ ایک حصہ ہے، بلکہ اہم ترین حصہ ہے، اس میں حیرانگی کم علمی یا زہنی جہالت کا پتہ اس لیئے دیتی ہے کہ سیاسی عمل کے دوران آپ کو اپنی تحریک کے لیئے کوئی عمل بہتر لگے، وقتی مفادات کی بنیاد پر دائمی مفادات کو محفوظ بنانے کے لیئے اگر ایک قدم آگے جاکر چار قدم پیچھے آتے ہوئے پھر سنبھل کر دس قدم کی جست مارنے کا سودا سیاسی بنیادوں پر عقلی فیصلہ ہے، تحریکیں جذبات کی بنیاد پر نہیں بلکہ شعور و ادراک کی بنیاد پر چلتے ہوئے کامیاب ہوجاتی ہیں، کہتے ہیں کہ سنگت حیربیار مری کی خواہش پر جنگ بندی کی گئی، کیا یہ حقیقت ہے، ماضی کو ٹٹول کر دیکھیے جب سنگت حیربیار اسی تحریکی جد و جہد کی وجہ سے وہاں پابند سلاسل تھے تو انتظامی امور اٹھ کر مہران مری کے ہاتھوں میں چلے گئے تھے، رسد کی قلت اور سامان کی کمیابی کا عالم یہ تھا کہ سارہ سسٹم ہی جام ہوکر رہ گیا تھا، اسی بنیاد پر جنگ بندی کی گئی تھی یہ ہم نہیں کہتے بلکہ وہ خود کہہ رہے تھے اور دلیلیں دے کر کہہ رہے تھے جو آج اپنے ہی باتوں سے انکاری ہوکر قبلہ بدل چکے ہیں، اس بارے میں اسلم اپنے ایک مضمون بعنوان ” مہران مری کا موقف حقائق کے تناظر میں” جو چودہ اکتوبر دوہزار چودہ کو شائع ہوا تھا میں لکھتے ہیں کہ “حیر بیار مری کے گرفتاری کے بعد جب زامران مری کے نا اہلی اور کرپشن کی وجہ سے مشکلات زیادہ ہوئے تو دوستوں نے یہ اندازہ لگایا کہ شاہد زامران مری کو تنظیمی ڈھانچے کا صحیح اندازہ نہیں اس لیے زامران مری کو دوستوں سے صحیح اور بروقت رابطے میں مشکلات پیش آ رہے ہیں اسی سلسلے میں نواب خیربخش مری سے صلح و مشورے کے بعد جس میں بذات خود میں موجود تھا کبیر مری کا نام نامزد کیا گیا تاکہ کبیر مری کو بطور مشیر زامران مری کے پاس بھیجا جائے تاکہ زامران مری کو تنظیمی معاملات چلانے میں آسانی ہو لیکن کبیر مری کو روانہ کرنے کے بعد بھی تنظیمی معاملات چلانے میں زامران مری ویسے کے ویسے ہی رہے سنگت حیر بیار مری کی رہائی کے بعد کبیر مری نے ان تمام کمزوریوں کے وجوہات دوستوں کے سامنے رکھے جن میں سب سے زیادہ عمل دخل زامران مری کے عیاش طبیعت کا تھا “. جنگ بندی سنگت حیربیارمری کی خواہش نہیں تھی البتہ حالت مجبوری میں ایک قائدانہ صلاح ضرور تھا، کیونکہ وہ واحد لیڈر اور رسد کی مکمل زمہ دار شخص کی حیثیت سے اس تمام انتظامی ساخت کے زمہ دار تھے، اب اوپر دیئے ہوئے اسلم کے اقتباس میں دیکھیئے کیا جنگ بندی کی بنیادی وجہ سنگت حیربیار کی خواہش تھی یا وہ حالات جو وہاں بیان فرمائے گئے ہیں، ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ اسلم اور بشیر سمیت کئی دیگر اعلی زمہ داران سے خود میری نشست ہوئی ہے اور ان نشستوں میں وہ اس بات کا برملا اظہار بھی کرچکے ہیں کہ سنگت حیربیار کی گرفتاری اور بعد از رہائی معاملات کس طرح بگھاڑ کی جانب چلے گئے، میرے اس سوال کے جواب میں کہ جیل میں تو حیربیار گئے تھے پھر سب نے کیوں اور کیسے جنگ بندی کی، خود اسلم ہی نے مجھ سے کہا تھا اگر مجھے یاد ہو تو یہ دو ہزار گیارہ کی بات ہے کہ “اس وقت تمام زمینی ضروریات کے لیئے رسد کا مرکز، زمہ داری اور ترتیب ایک ہوتا تھا اسکا مطلب ہے کہ جب وہ مرکز ہی بد انتظامی کا شکار ہوا تو باقی سارے کام الل ٹھپ ہوگئے اور نتیجتا سنگت حیربیار مری نے تمام زمہ داران سے صلاح و مشورے کے بعد ہم نے جنگ بندی کا اعلان کردیا تاکہ اس ٹوٹی ہوئی انتظامی ربط کو دوبارہ بحال کیا جاسکے اور اس میں بنیادی نقطہ یہی تھا کہ فی الحال اس تمام انتظامی ڈھانچے کو دوبارہ کارآمد بنانے کی خاطر ہمیں مختلف سطحوں پر اکھاڑ پچھاڑ کرکے زمہ داریوں کا از سرِ نو تعین کرنے کے ساتھ ساتھ دوستوں کو ایک سے دوسری جگہ زمہ داریوں پر متعین کرنا ہوگا لہذا اس کے لیئے ایک وقفہ درکار تھا اس موقع کو غنیمت جان کر ہم نے آپسی صلاح و مشورے سے جنگ بندی کے امکان کو بہتر پایا”، لیکن اب یہی لوگ شوشہ چھوڑ رہے ہیں کہ یہ جنگ بندی قومی تحریک کے مفاد میں رہ کر نہیں بلکہ سنگت حیربیار کے خواہش کے مطابق کیا گیا، اور اس پر اضافہ یہ کرتے ہیں کہ مبصرین کہتے ہیں کہ اس جنگ بندی کے پیچھے کسی کو یقین دہانی کرانے کی کوشش کار فرما تھی تاکہ یہ تاثر شدت پکڑے کہ سب کچھ سنگت حیربیارمری کے ہاتھ میں ہے، لیکن کوئی اس پر سوچے کہ یہ مبصرین کون ہیں ؟ بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے چند گنے چنے لکھاری ہیں اور ان میں کئی تو آج قلابازیاں کھانے میں مصروف ہیں باقی پتہ نہیں یہ مبصرین کس آسمان سے آٹپکے اور حیربیار کے بارے اپنے تاثرات کا اظہار کیا، ایسے تبصرے ہمارے سامنے تو نہیں آئے البتہ زبانی باتیں جو صاحب رائے و معلومات لوگوں کے بیٹھکوں میں ہوتی رہی ہیں ان میں تو یہی کہا گیا تھا جو اوپر بیان کی گئی ہے، ایسا کیوں کیا جاتا ہے، ایسا محض اس لیئے کیا جاتا ہے کہ اپنی بات کو منوانے اور خود اپنی حیثیت کو ثابت کرنے کے لیئے آج کسی ایک بندے کو متنازع بنانا ہے اور وہ ہے سنگت حیربیار، لیکن اناپرستی اور خود نمائی کی اتنی موٹی پٹی ان صاحبان کے آنکھوں پر بندھی ہوئی ہے انہیں زرہ برابر شرم بھی نہیں آتی کہ وہ خود کل بھری محفلوں میں اس حوالے سے کیا عرض کرچکے ہیں اور آج کیا کہہ رہے ہیں، یہ لوگ اسلم، بشیر زیب اور انکے دیگر چیلے چھپاٹے یہی سمجھتے ہیں کہ بلوچ عوام بیوقوف ہے اور کچھ نہیں جانتی، معلومات تک انکی رسائی نہیں اور جن لوگوں کی رسائی ہے وہ تحریکی اصولوں کی بنیاد پر ان پر آسانی سے بات نہیں کرتے (جیسا کہ آج تک سنگت حیربیار نے کسی بھی عوامی سطح پر جنگ بندی، اپنی گرفتاری یا تحریک سے جڑے دیگر مسائل پر دو ہزار نو کے بیان کے علاوہ کوئی براہ راست بات نہیں کی ہے)، لہذا یہ لوگ اسی نقطے پر اپنی سیاسی ارمانوں کا محل تعمیر کرنا چاہتے ہیں، اگر یہ لوگ عام بلوچ نوجوان کو بے وقوف اور جاہل نہیں سمجھتے تو اتنی آسانی کے ساتھ کس طرح اپنی کل کی باتوں پر پشیمانی کا اظہار کیئے بغیر ان کو رد کرکے مخالف سمت میں چلنا شروع کردیتے۔ کیا واقعی میں سنگت حیربیارمری تحریک کے اس طویل سفر میں نشان عبرت بنے ہوئے ہیں جیسا کہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے، کمزور نظریات کے حامل ہونے اور مستقل مزاجی سے یکسر عاری لوگ اگر بیچ رستے میں تھک ہار کر یا اپنی انا کی بوجھ تلے دب کر مزید سفر کرنے سے انکار کرے تو کیا باقی ٹیم یا گروہ کے کاموں میں رکاوٹ پڑنا اور رفتار میں سستی کیا ایسا ہونا نشانِ عبرت بن جانا ہے، ایک تحریک ہے جس میں زمہ داریوں کا تعین ہوا ہے اور ہر کسی کو اس کے زمہ داری و فرائض سمجھا کر اسے ضروری سازوسامان اور اختیار کے ساتھ میدان عمل میں بھیجا گیا ہے، ہر محاز پر ایک یا ایک سے زیادہ زمہ داران ہیں جو کہ تنظیمی و تحریکی زمہ داریوں کے حوالے سے روز مرہ کی بنیاد پر چیزوں کو دیکھتے ہیں اور رہنمائی کرتے ہیں، سنگت حیر بیارمری اس تحریک کی بلاشرکت غیرے معمار ہیں جو اس تحریک کو جلا بخشنے کے ساتھ ساتھ اسے ابتدا سے آج تک ایندھن فراہم کرتے ہوئے آرہے ہیں، وہ اپنی فہم و فراست اور معاملہ فہمی سے اس تحریک کو مضبوط و توانا کرکے اسے ایک بنیاد فراہم کرنے میں کامیاب ہوگئے لیکن پھر بھی ایک انسان ہیں جو کہ ہر فن مولا نہیں اور ہر جگہ پہنچنا اور بذات خود معاملات کو سنبھالنا کسی بھی ایک انسان کے بس کی بات نہیں، یہ ایک خالص ٹیم ورک ہے جسے ہم خیال لوگ مل کر احسن طریقے سے چلاتے ہیں، ہر کامیاب لیڈر کے کامیابی کے پیچھے انکے اپنے لوگوں پر بھروسہ کرنا اور انہیں زمہ داریاں دینے سے نہیں ڈرنا اور اپنے لوگوں کو اس قابل سمجھنا کہ وہ ان زمہ داریوں کے ساتھ نہ صرف انصاف کرینگے بلکہ جہاں ، جہاں کوئی کمی کمزوری ہوگی اسے تحریکی مفادات کے پیش نظر بہتر انداز میں نمٹانے کی کوشش کریں گے، یہ تمام عوامل مل کر ایک حقیقی رہنما کی خدوخال کو وضع کرتے ہیں، اور سنگت حیربیار مری اپنے ساتھیوں کو تحریکی میدان میں زمہ داریاں دینے سے کبھی نہیں کتراتے، یہاں میں بشیر زیب کی مشہور مضمون ” آزادی کی شاہراہ پر مختصر سفر…کچھ تضاد میرے سامنے ” کا ضرور حوالہ دوں گا جہاں وہ مندرجہ بالا سوچ و فکر کی سنگت حیربیار کے اندر موجودگی کا خود ثبوت فراہم کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ” ایک مرتبہ کسی دوست نے انہی حالات اور بد قسمتیوں کے تناظر میں حیر بیار مری کے سامنے یہ سوال رکھا کہ آپ اب بھی بلوچ نوجوانوں پر بہت زیادہ بھروسہ کرتے ہیں اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بہت سے دوستوں پر اندھا اعتماد کر کے ماضی کی طرح ان کو بھی ہر طرح کی طاقت فراہم کرنے میں پوری طرح سیاسی اور ان کی اخلاقی مدد میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں اگر خدانخواستہ یہ بھی ماضی کے تجربے جیسا ثابت ہو اور یہ دوست بھی الگ تنظیم اور الگ شناخت کے چکر میں پڑ جائیں اور اپنے حقیقی مقصد کو بھول جائیں اور ساتھ ہی ساتھ آپ کی مخالفت شروع کر دیں تو آپ کیا کریں گے ؟ تو حیر بیار مری نے کہا کہ میں اپنے قومی فرض اور ضمیر کے مطابق کسی تیسرے بلوچ کو بھی اسی طرح دشمن کے خلاف اور اپنے قومی مقصد کے حق میں اپنی بساط کے مطابق قوت مہیا کروں گا وہ جو بھی کریں گے وہ انکے ضمیر اور سوچ کے مطابق ان کا فیصلہ ہو گا اور یہ تو تاریخ یاد رکھے گی “۔ اگر اس نظریے کے تحت کوئی لیڈر اپنے ماتحت کسی شخص کو کوئی زمہ داری دے دیتا ہے اور پھر وہ شخص ایک اختلافی نقطے کی وجہ سے اپنی انا پرستی کے ہاتھوں مجبور ہوکر اور اصولوں سے باغی بن کر تحریک اور لیڈر کو دھوکہ دیتے ہوئے کسی اور بے اصول اور عوام کش پالیسیوں کے حامل گروہ کے گود میں جاکر پناہ لے تو اس میں دوستوں کے قدم ضرور تھوڑے بہت لڑکھڑا جائیں گے، زمہ داریوں کی ادائیگی میں مشکلات درپیش ہونگی، کاموں کا رفتار سست ہوگا، جو چل رہا تھا وہ رک جائے گا، خود بشیر زیب نے مندرجہ بالا اقتباس میں کیا کہا ” اگر خدانخواستہ یہ بھی ماضی کے تجربے جیسا ثابت ہو اور یہ دوست بھی الگ تنظیم اور الگ شناخت کے چکر میں پڑ جائیں اور اپنے حقیقی مقصد کو بھول جائیں اور ساتھ ہی ساتھ آپ کی مخالفت شروع کر دیں” یہ ماضی کے تجربے کو دہرانے والے کوئی اور نہیں اب کی بار بشیر زیب کی اس خدشے کو خود بشیر زیب اور اسلم نے ہی عملی جامہ پہنایا ہے، ایسے میں اگر تحریکی زمہ داریوں میں رکاوٹیں آئی ہیں تو یہ سنگت حیربیار کا نشان عبرت بن جانا ہر گز نہیں بلکہ پوری تحریک کے ساتھ دھوکہ دہی کا مرتکب ہوجانا ہے جو کہ اسلم اور بشیر زیب اور دیگر کرچکے ہیں، اس عمل کا جبر پوری تحریک کو بھگتنا پڑ رہی ہے، یہی جھوٹی پروپیگنڈٓا ہے جو کہ عام عوام کے زہنوں کو پراگندہ کرتی ہے، تحریک کا ستیاناس کردیتی ہے محض اپنی انا کی تسکین کے لیئے پوری تحریکی مفادات کو قومی مفادات سمیت نکیل ڈالنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور یہی رویہ ہے جو سمجھتا ہے کہ ہم سے آگے کچھ نہیں جو ہے وہ ہم سے ہی ہوکر گزرتا ہے اگر ہم نہیں تو ہم باقی سب کو اسی طرح رگید دیں گے جس طرح ہمیں سزا کا مستعجب بنایا گیا ہے۔ سنگت حیربیارکو انکے والد نواب خیر بخش مری کی وفات پر تعزیتی بیان کے حوالے سے مستقل مزاجی کا طعنہ دیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے انٹرویوز اور بیانات میں نواب خیر بخش کی تعریف میں زمین آسمان ایک کردیئے مگر اپنے والد کے حیاتی میں انکا رویہ اپنے والد کے حوالے سے یکسر مختلف تھا، کل میں نے بی بی سی کی اس حوالے سے چپھی ہوئی رپورٹ کو اول تا آخر دیکھا اس میں ایسی کون سے بات تھی جو کہ وہ اپنے والد کے حوالے زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے پائے جاتے ہیں، سنگت حیربیار اپنے والد کے حوالے کہتے ہیں کہ ” انہوں نے ہمیشہ یہی درس دیا کہ دشمن کے سامنے کبھی تسلیم خم نہیں کرنا “، شائستہ اختلاف اپنی جگہ لیکن جو باتیں سنگت حیربیارمری نے اپنے اس انٹرویو یا بیان میں کہے ہیں کیا وہ نواب خیر بخش مری کے حوالے غلط ہیں ؟ نواب خیر بخش مری کے تحریک میں ادا کی گئی کردار سے کوئی انکار نہیں کرسکتا البتہ طریقہ کار سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور اختلاف کیا گیا ہے، جسکا ذکر سنگت حیربیار مری اپنی اس بیان میں کرچکے ہیں، اختلافات کا اسے پوچھا نہیں گیا ہوگا، موقع محل بھی نہ تھا سو ہر جگہ منہ کھول کر اختلافی نقاط پر ہلڑ بازی کرنا کون سا سیاسی رویہ ہے، جو اختلاف نواب خیر بخش سے سنگت حیربیار کے رہے ہیں وہ آج بھی اصولی بنیادوں پر اپنی جگہ قائم ہیں، البتہ اسلم اور اسی گروہ کے دیگر دریدہ زہنوں کی طرح سیاسی اختلافات پر گالیاں دینے کا نہ سنگت حیربیار کبھی روادار رہے ہیں اور نہ ہی انہوں نے ہمیں کبھی ایسا کرنے دیا ہے، یہی ایک لیڈر کی نشانی ہوتی ہے جو کہ اختلافات کی انتہائی حد تک جاتے ہوئے بھی اپنی سیاسی و تہذیبی اقدار اور اخلاقی قدروں کا پاس رکھے، اس میں ہم نے بہت ساروں کو گالیاں نکالتے دیکھا ہے لیکن سنگت حیربیارمری کی سیاست قومی تحریکی اصولوں کے مطابق ہے اگر کسی سے کوئی اختلاف ہے تو تحریکی مفادات کی بنیاد پر اور اصولوں کے حوالے سے ہے، زاتی جنگ نہیں کہ میں کسی کا گریبان پکڑ کر کسی کا بھری محفل میں پگڑی اچھالتا پھروں، لیکن اسلم اور بشیر کے گروہ نے اسے زاتی جنگ بنا دیا ہے، اسی لیئے کل بھی اور آج بھی سیاسی اختلافات کی بنیاد پر وہ شخصی ضد و اناپرستی کے زد میں آکر بد تہذیبی و بد زبانی کے مرتکب رہے آج بھی وہ جھوٹ اور پروپیگنڈے کا سہارا لے رہے ہیں۔ لگے ہاتھوں سنگت حیربیار پر یہ الزام بھی لگایا جارہا ہے کہ انہوں نے اپنے اثر رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے بی این ایف کے ذریعے اپنے آپ کو عالمی نمائندہ مقرر کروانا چاہا، پہلی بات تو یہ ہے کہ سنگت حیربیار کی تحریک میں قد کاٹی کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسے اس قسم کی کسی سیاسی مہم جوئی کی ہرگز ضرورت نہیں تھی، اگر وہ چاہتے تو بہت ہی پہلے یہ کام نہایت ہی سہل طریقے سے کروا سکتے تھے لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ اسے عالمی نمائندہ بننے کے لیئے کسی پارٹی یا اتحاد کی سند و حمایت کی ہرگز ضرورت نہیں تھی وہ ویسے ہی عالمی سطح پر بلوچ تحریک آزادی کی جد و جہد کی نمائندگی کررہے تھے اور ہر فورم اور ہر جگہ سنگت حیربیار اپنی بات بغیر کسی دقت کے پہنچاتے رہے تھے، کیونکہ وہ اس تحریک کے معمار تھے اور اس تحریک کے نوک پلک سنوارنے اور اسے ایک بنیاد فراہم کرنے میں سنگت حیربیار کی محنت اور قربانیوں سے کوئی زی شعور انکار نہیں کرسکتا، اس بارے میں بشیر زیب اپنے مضمون ” آزادی کے شاہراہ پر کچھ تضاد میرے سامنے” میں مزید لکھتے ہیں کہ ” اگر ہم فکری ہم آہنگی اور اداروں کی حدبندی کو مدنظر رکھ کر کام نہیں کرتے اور ہمارے دوستی کی بنیاد صرف اور صرف شخصیت پرستی پر استوار ہوتا تو جب حیربیار مری کے سفارتی نمائندہ مقرر کرنے پر بی این ایف دو گروہوں میں تقسیم ہوا جہاں شروع میں حیربیار مری کو سفارتی نمائندہ مقرر کرنے کا بیان جاری کیا گیا اور پھر دوسرے دوستوں کی طرف سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا تو کیا اس موقع پر میں بحیثیت بی ایس او کے چیرمین حیربیار مری کے حق میں ایک بیان بی ایس او کے طرف سے جاری نہیں کرسکتا تھا ؟میں نے چیئرمین ہونے کے باوجود یہ فیصلہ تنظیم اور اس کے اداروں پر چھوڑ دیا اور یہ سب کچھ ہونے کے باوجود نا تو حیربیار مری نے اور نا ہی اس کے قریبی ساتھیوں نے مجھ پر کسی بھی قسم کا دباو ڈالا کہ میں ان کی حمایت میں کچھ کہوں سب اپنے سیاسی اور اخلاقی حدود میں تمام مسئلوں کو لے کر کام کررہے تھے” لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر نمائندگی کا شوشہ کیوں چھوڑا گیا بی این ایف کا بیان اور پر اس کی تردید اس میں حقیقت کیا تھی ؟ دراصل جب غلام محمد بلوچ شہید کیئے گئے تو اسکے بعد بی این ایم اور بی ایل ایف نے مشترکہ طور پر یہ تاثر پیدا کرنے کی کوششیں کیں کہ “سردار برابر سرکار”، یعنی سرداروں کے ہوتے قومی تحریک کسی بھی طرح کامیاب نہیں ہوسکتی لہذا اس تحریک کو جن کا بنیاد سنگت حیربیار رکھ چکے ہیں کسی طرح کرکے اپنے قبضے میں لایا جائے اور بلاشرکت غیرے اس تحریک کا والی وارث بناجائے، ڈاکٹر اللہ نذر کے کل کے حریف اور آج کے حلیف اسلم نے اپنے ایک مضمون “بلوچوں کے سلطان یا قومی تحریک کا امام مہدی” ( اشاعت اکتیس اکتوبر دوہزار چودہ) میں ایک جگہ لکھا ہے کہ “آج کے آڑ و جنجال پر اگر غور کیا جائے تو صاف طور پر ہمیں قومی تحریک میں ایک نا جائز اور بے بنیاد دوڈ نظر آئے گا جس کے پیچھے اسی ناجائز خواہش اور بے بنیاد خوف کا پورا عمل دخل هے کہ بلوچوں کا سلطان کون قومی تحریک کا امام مہدی کون ؟ اس نا جائز خواہش اور بے بنیاد خوف کو قبل از وقت پروان چڑھانے میں ڈاکٹر اللہ نظر کا بہت بڑا ہاتھ هے کیونکہ شروع دن سے ڈاکٹر اللہ نظر نے اس سوچ کو غیر محسوسانہ انداز میں نہ صرف پروان چڑھایا بلکہ اس کے لئے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مقابلہ بازی کا رجحان بهی پیدا کیا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ڈاکٹر اللہ نظر نے قبائلی اور سیاسی کا بے بنیاد تصور دیا. سردار اور متوسط طبقے کا پرچار کیا، مقدس ادارے اور شخصیت کا گمراہ کن پروپیگنڈہ کروایا اور تو اور ڈاکٹر اللہ نظر نے بیرون ممالک بیهٹے بلوچ قوم دوست ساتهیوں سے بلا وجہ اپنا موازنہ بهی شروع کروا دیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ میں پہاڑوں میں ھوں اس لیے بہتر هوں” یہ ہم نہیں کہہ رہے وہی لوگ ماضی میں کہتے تھے جو آج اپنی ہی تھوک کو چاٹنے میں لگے ہوئے ہیں، ، یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ اس سے پہلے عصا ظفر و بی این ایم کی بنیادی پود کو دھمکانے ڈرانے کے بعد جب پارٹی سے بیدخل کیا گیا تو خلیل آرگنائزر بنے اور بعد میں پارٹی کے کونسل سیشن کے دوران انہوں نے سنگت حیربیار کے حوالے سے کہا تھا کہ ” حیربیار مری بیرون ملک انفرادی ذاتی طور پر نہیں بلکہ ایک ادارے کے نمائندے کے طور پر بلوچ قوم کا بین الاقوامی طور پر سفارتی نمائندگی کررہے ہیں” لیکن اسکے بعد جو پلٹا کھانے کی پاکستانی پارلیمانی سیاسی وطیرہ ہے بالکل اسی طرح ایک سو اسی کی زاویے سے گھوم کر بی این ایف کے پلیٹ فارم کے زریعے سنگت حیربیار کو متنازعہ بنانے کی ناکام سعی کی گئی وہ بھی تاریخ کے پنوں پر درج ہے، چونکہ غلام محمد کی شہادت کے بعد بی این ایم اور بی ایل ایف تحریک کو اپنی دست نگر بنانے کی چکروں میں سب سے بیر لے رہے تھے تو انہی نے آخری حربے کے طور پر سنگت حیربیار کو متنازعہ بنانے کے لیئے یہی کیا اور وہ اپنی حد تک سمجھتے رہے کہ وہ اپنے مقاصد کسی حد تک حاصل کرچکے اور سنگت حیربیار کو سیاسی حوالے سے کافی حد تک بے توقیر و متنازعہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں، لیکن سنگت حیربیار آج بھی اسی طریقہ سے اپنی سفارتکاری اور تحریکی زمہ داریوں میں مصروف عمل ہیں جیسے وہ پہلے تھے، جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ سنگت حیربیار کی تحریک میں وزن اتنی ہے کہ اسے عالمی نمائندہ بن جانے کے واسطے کسی ایسی کمزور و ناتواں سہارے (بی این ایف) کی ہرگز ضرورت نہیں تھی، لیکن اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپانے کے واسطے آج اسلم اور بشیر زیب اپنے ہی کی گئی باتوں کو نہ صرف رد کررہے ہیں بلکہ چاہتے ہیں قوم کی زہن کو مزید منتشر کریں۔ پھر اسکے بعد سنگت حیربیار کی اصولی موقف پر ڈٹے رہنے اور پیچھے نہ ہٹنے کی وجہ سے پریشانی کے شکار اس گروہ نے ہر طرح کے الزامات لگانے کی اپنی طرف سے بھر پور کوششیں کیں، ان میں بی ایل ایف کی نام نہاد سپریم کونسل کا عالمی کارپوریٹ کا ایجنٹ اور تحریک کے لیئے نقصان دہ ہونے کا الزام بھی شامل ہے جو آج تک نہ ثابت کیا جاسکا اور نہ ہی بی ایل ایف نے اسکے بعد اپنی اس دعوے کی اعادے میں کوئی اور بات کی البتہ اسکے بعد خود ڈٓاکٹر اللہ نظر و دیگر نے سنگت حیربیار کو اپنے بیانوں میں سراہا ان کی تعریفیں کیں، جس طرح تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سنگت حیربیار کو بی ایل ایف اور بی این ایم سے اس لیئے مسئلہ تھا کہ وہ یوبی اے والے مسئلے میں غیرجانبدار رہنا چاہتے تھے، سنگت حیربیار مری کو کسی درمیانی شخص یا گروپ سے کوئی مسئلہ نہیں تھا، نہ ہی اس وجہ سے انکے خلاف تنقید ہوئی کہ وہ غیر جابندار تھے، وہ غیرجانبدار تھے ہی نہیں، یوبی اے کا بن جانا اور مہران مری کا سنگت حیربیار اور تحریکی دوستوں کے سامنے جوابدہی سے انکار اور تعلقات میں بگاڑ کو اس گروہ نے موقع غنیمت کے طور پر دیکھا اور جٹ سے وہ جاکر ان سے راہ و رسم بڑھانے کی کوششوں میں لگ گئے اور اندرونی طور پر ریشہ دوانیوں میں مصروف ہوگئے، ہاں البتہ یوبی اے سے تعلقات ہرگز قبول اس لیئے نہیں تھے کہ یوبی اے باقاعدہ طور پر ایک تنظیم کی طاقت کو منتشر کرکے بنائی گئی تھی، اور بی ایل اے نے اسے ریاستی آلہ کار یا تنظیم سے تعبیر کیا تھا اور خود نواب خیر بخش مری اسکی ساخت و بناوٹ اور تعمیر و ترتیب میں کردار ادا کرنے کے شکوک و شبہات سے انکاری تھے۔ ایک اور الزام چارٹر آف لیبریشن کے حوالے سے لگائی جاتی ہے کہ یہ محض اس لیئے کیا گیا کہ تاکہ خیربخش مری سے اختلافات کی اثرات کو زائل کرتے ہوئے قوم کے باقی جہدکاروں کو اپنی حمایت میں لایا جائے، سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ اس میں ایسی کونسی چیز ہے جو کہ لوگوں کو متحد کرسکتی تھی یا اتحاد کی جانب لاسکتی تھی، اتحادی عمل کا اس چارٹر یا آزادی کے بعد کے بلوچ قومی روڈ میپ سے کیا تعلق بنتا ہے، وہ ایک تحریری دستاویز ہے جو کہ بلوچ قومی جد و جہد کے حوالے بلوچ قومی ریاست کی مسقبل کی خد و خال کی بابت بات کرتا ہے اور جد و جہد کے حوالے سخت اصولوں کی بات کرتا ہے، جب وہ سب کو پہنچائی گئی تو ڈاکٹر اللہ نظر نے بذریعہ اخباری بیان اس دستاویز کو صحیح قراردیا، لیکن کیا ہوا کہ پھر چند ہی دنوں میں اپنی بات سے مکرجانے کی نوبت آئی، چارٹر میں دو نقاط کو چھوڑ کر باقی سب پر رائے زنی کا حق نہ صرف موجود تھا بلکہ انہیں ضرورت پڑنے پر تبدیل کرنے کا بھی آپشن موجود تھا، لیکن نیتوں میں فتور کی وجہ سے بی ایل ایف اور بی این ایم ازاں بعد دیگر تنظیموں نے کہا کہ انکی اپنی اپنی روڈ میپس یعنی چارٹر موجود ہیں، ایک دفعہ اسلم سے باتوں باتوں میں بات نکلی تو ہنس کر کہنے لگے سب کہہ رہے تھے کہ ہماری اپنی اپنی چارٹر ہیں مگر جب وہ چارٹر کا معلوم کیا تو پتہ چلا کہ وہ پارٹی آئین کو ہی چارٹر سمجھ بیٹھے ہیں، لیکن آج اس چارٹر کی خلاف بات کرنے والے لوگوں کو کیا واقعی میں چارٹر سے مسئلہ ہے ؟ ہرگز نہیں بلکہ انہیں بنیادی مسئلہ سنگت حیربیار کی اصولی موقف سے ہے، کیونکہ یہ بچگانہ حرکتیں کرنے والے لوگ آج جو کچھ جس بے شرمی اور ڈھٹائی سے کہے جارہے ہیں کل وہ خود انہی تمام چیزوں کی تیاری میں نہ صرف شامل تھے بلکہ بہت ساری جگہوں پر چارٹر کے نقاط میں سے سنگت حیربیار کی بات کو بھی رد کیا کرتے اور انہی کی رائے کی احترام میں اکثریتی نقاط کو چارٹر میں شامل کیا گیا لیکن آج یہی لوگ سنگت حیربیار کو اپنے مرضی کے فیصلے کرنے والا شخص قرار دینے کی کوششیں کررہے ہیں، کہتے ہیں سنگت حیربیار چاہتے ہیں نتائج انکی مرضی کے مطابق آئیں، اگر ایسا ہوتا تو چارٹر کی تیاری میں کس نے کیا صلاح دیا اور کس کی صلاح پر زور رہی اور کسے شامل کیا گیا وہ سب آج بھی مختلف میسجنگ ٹولز کے زریعے ہمارے ہاں ریکارڈ کے طور پر محفوظ ہیں، یہ لوگ جھوٹے الزامات اس لیئے لگاتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ جو باتیں آف دی ریکارڈ ہوچکی ہیں وہ عوام کے سامنے نہیں آئے ہیں اور ہم جو مرضی کہہ جائیں کونسی عوام کو ہماری باتوں کا معلوم ہے، اندازہ کیجئے کئی دفعہ مباحثوں کے درمیان کچھ جذباتی لوگ ایسے بھی تھے جو کہ تحریکی اختلافات کی بنیاد پر کہتے تھے کہ ” ڈٓاکٹر اللہ نظر کو قتل کردینا لازمی ہے، اللہ نظر اور خلیل کو بہرصورت رستے سے ہٹانا پڑے گا تاکہ تحریک کو بچایا جاسکے، سنگت حیربیار اور دیگر سنجیدہ لوگ انکی ان تمام باتوں پر انہیں سمجھاتے کہ سیاسی اختلافات کو سیاسی بنیادوں پر حل کرنے کی ضروت ہے، جذباتی ہونے، گالی دینے، یا اقدار و اخلاق سے ہٹ کر بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور اس پر وہ لوگ برا مان جاتے کہ ہم کچھ کرنا نہیں چاہتے یا ہم سیاسی حوالے سے ڈرپوک ہیں، یہ باتیں آج بھی ہماری ریکارڈز میں، پیغامات کی صورت میں اور وائس چیٹ یعنی آوازوں کی صورت میں محفوظ ہیں” لیکن آج یہی لوگ جاکر ڈاکٹر اللہ نظر اور خلیل کی گود میں بیٹھے انکے گن گاتے جارہے ہیں۔ اسلم کو تحریکی متعین اصولوں سے روگردانی کی سزا کے طور پر جواب طلبی کی گئی تھی، انڈیا کیوں گئے، بغیر اجازت کے اپنی وتاخ کو کیوں چھوڑا، انڈیا جاکر تحریکی راز کیوں افشاء کیئے، اور پیسوں کی ایک خطیر رقم کی لین دین کیوں کی، جس سے وصول کیئے تو کیوں کیئے اور کس کے ایما پر کیئے اور جس کو ادا ہوئے وہ کون تھے اور اسکا آپکی جد وجہد کے ضروریات سے کیا تعلق ؟ سنگت حیربیار نے انہی باتوں کی جواب طلبی چاہی تو کوئی منطقی جواب نہ پاکر وہ بغاوت پر اتر آئے اور اسکے بعد بشیر زیب نے بھی اسلم کی بے اصولیوں کا ساتھ دیا، اور پھر یہ گلہ نما الزام بھی ہے کہ سنگت حیربیار نے اسلم کے گرد گھیرا تنگ کیا اور انہیں اور انکے ہم خیال دوستوں کو بغیر کسی وجوہ کے تنظیمی کاموں سے بیدخل کیا گیا اور کچھ باہر کے لوگوں کے زریعے تنظیمی کاموں میں دخل اندازی کی کوششیں کی گئیں، سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ کچھ حواریوں کے زریعے بیرون ممالک اور بلوچستان کی محاذ پر تنظیمی ساخت اور اسکی لیڈرشپ پر تنازعہ کھڑی کرنے کی کوششیں ہوئیں، یہ ایک واضح گروہ بندی تھی جو کہ آج سے بہت پہلے یعنی تین سال پہلے کی بات ہے، جب لندن گروپ، بولان گروپ اور دیگر کچھ گروپوں کے ناموں سے تنظیمی ساخت کو بانٹنے کی کوششیں شروع ہوئیں، یہ سب اسلم اور در پردہ بشیر زیب کی سازشوں کا شاخسانہ تھا، اس سے واضح طور پر یہی اشارہ ملتا تھا کہ اسلم اپنے گروہ کے ساتھ آج نہیں تو کل تنظیم کو توڑ کر اپنی الگ راہ لے گی اس لیئے اسے تنظیم میں ماضی کی طرح بڑی زمہ داریوں سے برخاست کیاگیا، یہ برخاستگی کوئی زاتی ضد یا انا نہیں تھی بلکہ خود اسلم کی کردار کی وجہ سے یہ سنگین اقدامات اٹھانے پڑے تھے، اگر واقعی میں ایسا ہوتا، اس میں ضد و انا کی عنصر ہوتی تو خود سنگت حیربیار اسلم کو اتنی بڑی زمہ داری پہلے ہی کیوں دیتے ؟ زمہ داری اس لیئے دی گئی تھی کہ وہ تنظیمی کاموں کے حوالے سے نہ صرف اہلیت رکھتے تھے بلکہ ایک متحرک شخص تھے جو سیاسی و جنگی معاملات میں تنظیم کے بیشتر کاموں میں حصہ دار تھے، اور اسکی شخصیت اور رویوں میں ایسی کوئی عنصر کی موجودگی کا احساس نہیں ہوتا تھا کہ وہ آگے چل کر رد تحریکی رویوں پر اتر آئینگے، جب یوبی اے بننے کے بعد اختلافات منظر عام پر آگئے اور ڈاکٹر اللہ نظر و بی این ایم کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے عام عوام تک اپنی بات پہنچانا ناگزیر بن گیا تھا تو اسلم، بشیر زیب، سنگت حسن سمیت دیگر کئی دوستوں نے لکھنے کا بیڑہ اٹھایا اور ان معاملات پر لکھتے رہے، لیکن مسئلہ تب پیدا ہوا جب اسلم اور انکی حمایت یافتہ گروہ کے لوگوں نے سیاسی اختلافات اور تنقید کے نام پر گالم گلوچ کا بازار گرم کیا، اور سنگت حیربیار نے بالآخر ان تمام حرکتوں کو دیکھتے ہوئے کچھ لوگوں کو بہت سارے معاملات پر لکھنے سے باز رہنے کا کہا، تاکہ اختلافات کی نام پر مزید گند اچھالنے اور گالم گلوچ سے بچا جائے، اس سے ہوا یہ کہ اسلم نے اپنے گروہ کے زریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی یہاں ایک نہیں بلکہ دو لیڈرز ہیں یعنی سنگت حیربیار ہی نہیں خود اسلم بھی اب لیڈر ہے، اور وہ بسا معاملات میں تنظیمی ساخت کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، اور مختلف وتاخ میں سنگت حیربیار کے خلاف باقاعدہ پروپیگنڈا شروع کیا، یہیں سے انکے تحریک کے اندر سیاسی حوالے سے توسیع پسندانہ عزائم آشکار ہوئے اور پہلی بار یہ خدشات سچ ثابت ہوئے کہ اسلم اپنے ہم خیال گروہ کے ساتھ بلوچ تحریک آذادی کے اندر اگلے ڈاکٹر اللہ نظر بننے جارہے ہیں، انہوں نے بسا معاملات میں تنظیمی اور تحریکی اصولوں کی دھجیاں اڑائیں، چاہے وہ شفقت رودینی کی اعترافات کی شکل میں ہوں، چاہے وہ ماما قدیر کو سیاسی معاملات میں گسھیٹنے کا مسئلہ ہو یا پھر ابراہیم نیچاری کوبعد از شہادت اپنی ہی غلطیوں اور بے اصولیوں کی چھپانے کی خاطر تحریک بدر کرنے کے لیئے لکھے ہوئے طویل مضامین ہوں، یا اسکے علاوہ اپنی سیاسی ساکھ کو ثابت کرنے اور اپنی انا کو تسکین دینے کی غرض سے کوئٹہ میں ڈمی تنظمیں بنا کر انکے نام سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں قبضہ گیر پاکستانی ریاست کے خلاف احتجاج کرنا ہو، سنگت حیربیارمری نے ان تمام چیزوں کو نہ صرف ناپسند کیا بلکہ انہیں اصولوں کی صریحا خلاف ورزی قرار دیا، یہیں سے اسلم سنگت حیربیارمری کے گڈ بک سے آؤٹ ہوگئے، اور اسلم نے تنظیم کو توڑنے کے لیئے اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی عمل کو مزید تیز تر کردیا۔ اسلم اور بشیرزیب آج اپنے ہی کرموں کے سزا بگھت رہے ہیں جب تک وہ تحریک کی اجتماعی مفادات سے مخلص رہے سنگت حیربیار نے انہیں کبھی زمہ داریوں کے حوالے سے دور نہیں رکھا لیکن جب انکی حرکتیں اس قابل ہی نہیں رہیں کہ انہیں مزید تحریکی زمہ داریوں پر براجمان رکھا جائے تو انہیں محض اس وجہ سے زمہ داریوں سے برخاست کیا گیا تاکہ تحریک میں مزید گروہ بندی کی گنجائش کو کم سے کم تر کیا جاسکے، جس طرح کہا جارہا ہے کہ سنگت حیربیار نے اسلم کو بلاوجہ تنظیمی زمہ داریوں سے فارغ کیا اور باہر کے لوگوں کے زریعے تنظیم میں دخل اندازی کی گئی، مندرجہ بالا تمام باتوں کو جاننے اور پرکھنے کے بعد یہ سوچ ضرور تقویت پکڑے گی کہ یہ تنظیم کسی کی میراث نہیں کوئی بلوچ جو تحریک کے اندر اخلاص نیت کے ساتھ زمہ داریاں ادا کرنے پر تیار ہو وہ کسی بھی صورت میں باہر کا بندہ نہیں ہوسکتا، ہر کوئی اپنی کردار اور حرکات کی بنیاد پر ہی معتبر ٹہرجاتا ہے، کل اسلم اور بشیر زیب بھی معتبر تھے مگر آج جب وہ اپنی کل کی کہی ہوئی باتوں کو کمال بے شرمی و ڈھٹائی سے جھٹلا کر ایک بار پھر سے بی ایل ایف کے ہاں پناہ گیر بن چکے ہیں تو وہ قوم کے نظروں میں اپنی ماضی کی کہی ہوئی باتوں اور آج کی حرکتوں کی وجہ سے یقینا قابل تضحیک و مزاق بن چکے ہیں، اگر آپ میں سے کسی کو بھی سیاسی اخلاقیات کی اعتبار سے کوئی قابل رحم بندہ دیکھنا ہو تو بشیر زیب اور اسلم سے بڑھ کر کوئی تصویر گری نہیں ہوسکتی !