ہمگام کالم :
گزشتہ روز جبری طور پر اغواء کئے گئے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات شبیر بلوچ کے بہن اور بیوی بچوں نے انصاف کی امید لیے کوئٹہ میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جہاں انکے اغواء شدہ بھائی کا نام لیتے ہی شبیر کی بیوی بچوں اور بہن کے آنکھوں میں آنسوؤں کے سمندر کا منظر پیش کرنے لگے، پاکستانی دہشت گرد پولیس نے ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کا مظاہرہ کیا اور انکو فوراً احتجاج ختم کرنے کی دھمکی دی جس کی ویڈیو بلوچ سوشل میڈیا کارکنوں نے سوشل میڈیا پر وائرل کیا تھا۔ یہ پہلی دفعہ نہیں اس سے پہلے بھی جبری طور پر اغوا کیے گئے فرزندوں کے فیملیز کو اسی طرح دیوار سے لگایا گیا ،2014 کو کوئٹہ ٹو اسلام آباد لانگ مارچ کے دوران جبری طور پر اغوا کیے گئے بلوچوں کے خاندانوں کو کئی مقامات پر پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنایا گیا، فون کالز کے ذریعے ان کو لانگ مارچ ختم کرنے کی دھمکی دی گئی، مگر اغوا شدہ بلوچ اسیران کے رشتہ داروں نے اپنے پیاروں کی رنج و غم اپنے سینوں میں لیے ہوئے ثابت قدم رہے۔بلوچستان وہ مقبوضہ وطن ہے جہاں سے پاکستانی فورسز نے ہزاروں کی تعداد میں پڑھے لکھے بلوچ نوجوان، دانشور، ڈاکٹر، وکلاء کو جبری طور پر اغوا کیے گئے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں بلوچ اپنے پیاروں کے میتوں کو کندھا دے چکے ہیں ۔انسانیت سوز اذیتیں دیکر لوگوں کو شہید کیا جا چکا ہے ۔ کئی سالوں سے بلوچ مائیں اور بہنیں اس انتظار میں اذیتیں کاٹ رہے ہیں کہ آخر ایک دن ان کے لخت جگر واپس اپنے گھروں کو لوٹ آئیں گے۔ توتک خضدار سے ایک سو ساٹھ جبری اغوا شدہ بلوچ اسیران کی ناقابل شناخت لاشیں برآمد ہوئی تھیں ،جن کو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں اور اس کے مقامی بلوچ دشمن ڈیتھ اسکواڈ نے بیدردی سے شہید کرکے اجتماعی قبروں میں دفنا دیا تھا۔ اس طرح کے ظالمانہ اقدام کی خبر دنیا میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے جہاں سرزمین کے حقیقی فرزندوں کو اُسی کے سرزمین پر اس طرح بیدردی سے کچلا جائے،مگر بعید از امکان ایسا کچھ نظر نہیں آتا جس کی بنیاد پر ہم یہ یقین کر سکیں کہ اغواء کئے گئے فرزندوں کو صحیع سلامت منظر عام پر لایا جائے گا۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور فوجی ڈکٹیٹر اس بات کا بارہا اعتراف کر چکے ہیں کہ انکو بلوچ کے زندہ ہونے یا نہ ہونے سے کوئی مطلب نہیں انہیں صرف بلوچ سرزمین چاہیے جو معدنی وسائل کے ساتھ ، ساتھ تزویراتی اہمیت کا حامل خطہ ہے، جہاں سے ایشیاء سمیت افریقہ اور یورپ تک اقتصادی اور فوجی ضرورتوں کو بہ آسانی پورا کیا جا سکتا ہے.
بلوچ اسٹوڈنٹس گزشتہ کئی سالوں سے ریاستی کریک ڈاؤن کا شکار ہیں ۔ شبیر بلوچ سے پہلے طلباء قیادت کیلئے بلوچ سرزمین کو تنگ کیا جا چکا ہے، 2009 کو بلوچ اسٹوڈنٹ لیڈر ذاکر مجید کو بھی ریاستی اداروں نے جبری طور پر اغواء کیا تھا جن کے اغواء کے خلاف مختلف فورمز پر آواز اٹھایا گیا مگر تاحال ذاکرمجید اور ہزاروں جبری گمشدہ بلوچ اسیران کا کوئی پتہ نہیں، اسی طرح دو ہزار چودہ کو زاہد کرد بھی ریاستی فورسز کے ہاتھوں کئی گواہان کی موجودگی میں جبری طور پر اغوا کیے گئے ، مگر نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار اور سول سوسائٹی کے غیر سرکاری تنظیموں نے نے مکمل خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں ۔ پاکستانی میڈیا جبری طور پر اغوا شدہ افراد کے معاملے میں بھی مکمل تماشائی بنی ہوئی ہے ۔انسانیت کا قتل جہاں کئی بھی ہو ایک انسانی المیہ ہی ہوگا۔ اس کے خلاف آواز بلند کرنا ہر کسی کا بنیادی حق ہے مگر ہمارے ہاں معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ بلوچستان کی بات جب آتی ہے تو انسانی ضمیر مر جاتے ہیں اصول پرستی دم توڑ دیتی ہے پاکستانی خفیہ ایجنسی خدائی خدمتگار بنا کر پیش کیئے جاتے ہیں جو ہزاروں بلوچ فرزندوں سمیت سندھی اور پختون بچوں کے قتل عام میں برائے راست شریک ہیں۔ قاتل صرف پاکستانی خفیہ ایجنسی ہی نہیں بلکہ پاکستان میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے آواز اٹھانے والے افراد و تنظیمیں بھی شامل ہیں جنہیں بلوچ ماں اور بہنوں کی کئی سالوں پر محیط سسکیوں پر بھی رحم نہیں آتا۔ بلوچیت کے دعویدار پارلیمانی پارٹیاں بھی اس معاملے پر بےبسی کا اظہار کر چکے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے دور حکومت میں حاصل خان بزنجو نے خود اعتراف کیا تھا کہ جبری اغواء شدہ بلوچ فرزندوں کی بازیابی کیلئے اعلیٰ فوجی قیادت سے بات چیت ہو رہی ہے ، مگر بعد میں حاصل خان نے خود اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ نیشنل پارٹی اپنے دور اقتدار میں جبری اغوا شدہ افراد کی بازیابی میں ناکام رہے ہے۔ ان پارلیمانی پارٹیوں کی پاکستانی پارلیمنٹ میں حصہ لینا جبری طور پر اغوا کیے گئے بلوچ اسیران کے خاندانوں کے زخموں پر نمک پاشی کے سوا کچھ نہیں۔
پاکستانی قانون سمیت یہاں موجود بلوچ پارلیمانی پارٹیاں انسانی حقوق کے ادارے بھی اندھی اور بہری ہو چکی ہیں ۔ لہذا ان سے امید رکھنا بیوقوفوں کے جنت میں رہنے کے مترادف ہوگا۔ لہذا بلوچ سیاسی پارٹیوں اور بلوچ مسنگ پرسنز سے منسلک افراد کو چاہئے کہ وہ عالمی برادری کے دروازوں کو بھرپور اور منظم قوت سے دستک دیں تاکہ جبری اغوا شدہ بلوچ اسیران کو بحفاظت خفیہ اداروں کے چنگل سے بازیاب کیا جا سکے. بلوچ آزادی پسند پارٹیوں کو اس معاملے کو اپنے بساط کے مطابق عالمی برادری کے سامنے پیش کرنا چاہیے کیونکہ بلوچ نوجوان جو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں جبری اغوا کیے گئے ہیں وہ بلوچ قوم کے قیمتی اثاثے ہیں، اور ان کے ساتھ ان غیر انسانی اور غیر اسلامی حرکات کا بدلہ صرف اور صرف ایک آزاد اور خودمختار بلوچستان میں پوشیدہ ہے جس کے حصول کیلئے ہمارے ہزاروں نوجوان پابند سلاسل ہیں.