دنیا کی سیاست میں عالمی طاقتوں، عالمی بلاکز اور معاشی جنگ کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اس ناہموار دنیا میں مختلف طاقتیں اپنے معاشی، فوجی اور سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی سطح پر پیچیدہ گٹھ جوڑ بنا رہی ہیں جس کا مقصد اپنے اثر و رسوخ کو مستحکم کرنا اور عالمی نظام پر غالب ہونا ہے۔ یہ گٹھ جوڑ نہ صرف سیاسی و معاشی پہلوؤں کو متاثر کر رہا ہے بلکہ عالمی سلامتی، توازن اور ترقی کے امکانات پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ عالمی طاقتیں وہ اقوام یا ریاستیں ہوتی ہیں جو اپنے فوجی، معاشی، سیاسی اور سماجی اثرات کے سبب بین الاقوامی سطح پر انتہائی اہمیت رکھتی ہیں۔ تاریخی طور پر عالمی طاقتیں وہ اقوام ہوتی ہیں جو اپنے خطے میں اور اس سے باہر اثر و رسوخ رکھتی ہیں اور جن کے فیصلے عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ انہی پیچیدہ گٹھ جوڑ، عالمی طاقتوں کے مفادات اور معاشی جنگ کی چکی میں بلوچستان و بلوچ قوم پِس رہی ہے۔
بلوچستان اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے ہمیشہ سے عالمی طاقتوں کی دلچسپی کا محور رہا ہے۔ یہ سرزمین وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے درمیان ایک پل کا کام کرتا ہے اور اس کے ساحلی علاقے خصوصاً گوادر بندرگاہ بحر ہند تک براہ راست رسائی فراہم کرتے ہیں۔ اس خطے کی اہمیت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جب ہم عالمی معیشت اور توانائی کے ذرائع کو مدنظر رکھتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر اور وسطی ایشیا کی توانائی کے وسائل کو عالمی منڈیوں تک پہنچانے کے لیے بلوچستان ایک اہم گزرگاہ ہے۔ عالمی طاقتوں کے درمیان جاری معاشی جنگ میں بلوچستان کا کردار نہایت اہم ہے۔ ایک طرف چین اپنی معیشت کو مستحکم کرنے اور توانائی کے ذرائع تک رسائی کے لیے بلوچستان کی بندرگاہ اور قدرتی وسائل کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب امریکہ، بھارت اور دیگر عالمی طاقتیں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے مختلف حکمت عملیاں اپنا رہی ہیں۔ امریکہ اور مغربی طاقتیں چین کی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کو ایک بڑے چیلنج کے طور پر دیکھتی ہیں اور اس منصوبے کو محدود کرنے کے لیے مختلف معاشی اور سفارتی اقدامات کر رہی ہیں۔ بلوچستان میں چین کی موجودگی نے بھارت کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ بھارت کو خدشہ ہے کہ چین اس بندرگاہ کو بحیرہ عرب میں اپنی بحری طاقت بڑھانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ اسی وجہ سے بھارت نے مغربی بلوچستان میں چابہار بندرگاہ کے منصوبے میں دلچسپی لی ہے تاکہ گوادر کا متبادل فراہم کیا جا سکے اور چین کے بڑھتے ہوئے اثر کو محدود کیا جا سکے۔
چین کی بین الاقوامی حکمت عملی میں بلوچستان کی جغرافیائی اور معاشی اہمیت نہایت کلیدی ہے۔ 21ویں صدی کے آغاز سے چین نے اپنی عالمی معاشی اور جغرافیائی سیاست میں جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، اور مشرق وسطیٰ کے درمیان ایک اہم رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے چین کی نگاہیں بلوچستان پر مرکوز ہیں۔ چین کا عالمی معاشی منصوبہ جسے “بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو” (BRI) کہا جاتا ہے درحقیقت 21ویں صدی کی شاہراہ ریشم کی ایک جدید شکل ہے۔ اس منصوبے کا مقصد ایشیا، یورپ اور افریقہ کو زمینی اور سمندری راستوں کے ذریعے آپس میں جوڑنا ہے تاکہ چین اپنی تجارتی اور توانائی کی ضروریات کو پوری دنیا سے مربوط کر سکے۔ اس حکمت عملی کا ایک اہم جزو چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) ہے جس میں بلوچستان مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ گوادر بندرگاہ کو چین اپنی معاشی منصوبوں کے لیے نہایت اہم تصور کرتا ہے۔ یہ بندرگاہ بحر ہند کے اہم بحری راستوں کے قریب واقع ہے اور یہاں سے مشرق وسطیٰ، مشرقی افریقہ اور یورپ تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ چین کے لیے یہ بندرگاہ ایک ایسا متبادل فراہم کرتی ہے جو اسے آبنائے ملاکا پر انحصار کم کرنے میں مدد دے گا جو اس وقت چین کی تجارت کا ایک اہم سمندری راستہ ہے لیکن جغرافیائی اور سیاسی طور پر غیر مستحکم ہے۔ گوادر بندرگاہ کے ذریعے چین نہ صرف اپنی توانائی کی سپلائی کو متنوع بنانے بلکہ اپنے تجارتی راستوں کو بھی محفوظ کرنے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔
چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور توانائی کی زبردست ضرورت رکھتا ہے تاکہ اپنی صنعتوں اور تیز رفتار ترقی کو جاری رکھ سکے۔ چین زیادہ تر اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ کے تیل اور گیس پر انحصار کرتا ہے۔ گوادر بندرگاہ کے ذریعے چین ان وسائل کو براہ راست حاصل کر کے مشرق وسطیٰ سے شنجیانگ تک توانائی کی ترسیل کا ایک مؤثر اور کم قیمت ذریعہ پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں معدنیات کی موجودگی بھی چین کے مفادات کو تقویت دیتی ہے۔ خاص طور پر ریکوڈک کے سونے اور تانبے کے ذخائر کو چین اپنی صنعتی ضروریات کے لیے نہایت اہم تصور کرتا ہیں۔ چین اپنی بڑھتی ہوئی صنعتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے معدنی وسائل کی تلاش میں ہے اور بلوچستان کے یہ ذخائر کئی عرصے سے چین کے ناپاک نظروں میں ہیں۔ چینی کمپنیوں نے ریکوڈک اور دیگر معدنی منصوبوں میں باقاعدہ دلچسپی ظاہر کی ہے تاکہ وہ ان وسائل کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر سکیں۔ چین کی بلوچستان میں بڑھتی ہوئی موجودگی نے عالمی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ اور بھارت کو چوکنا کر دیا ہے۔ امریکہ کو خدشہ ہے کہ چین کی اقتصادی اور فوجی طاقت میں اضافہ اس کے عالمی اثر و رسوخ کو چیلنج کر سکتا ہے جبکہ بھارت کو گوادر بندرگاہ کے ذریعے چین کے بحری اثر و رسوخ میں اضافے سے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ بھارت اور امریکہ دونوں اس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لیے مختلف حکمت عملیاں اپنا رہے ہیں۔ دوسری جانب چین بلوچستان کو نہ صرف ایک اقتصادی مرکز کے طور پر دیکھتا ہے بلکہ اسے اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے اور عالمی طاقت کے طور پر اپنے قدم مضبوط کرنے کا ذریعہ بھی سمجھتا ہے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) اور بھارت کا چابہار منصوبہ ایسے عالمی اقتصادی و سیاسی منصوبے ہیں جو نہ صرف جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی سیاست کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ ان کے بلوچستان پر اثرات بھی بہت گہرے اور پیچیدہ ہیں۔ ان منصوبوں کے درمیان رقابت نہ صرف عالمی اور علاقائی طاقتوں کے درمیان معاشی تسلط کی جنگ کا حصہ ہے بلکہ بلوچ قوم اور بلوچستان کی شناخت و آزادی پر بھی اثرانداز ہو رہی ہے۔ جب چین اور پاکستان نے CPEC کا آغاز کیا تو بھارت نے اپنی جغرافیائی و معاشی پوزیشن کو محفوظ کرنے کے لیے چابہار بندرگاہ کے منصوبے میں دلچسپی لی۔ ایران کے زیرِ قبضہ بلوچستان میں واقع چابہار بندرگاہ جس کا بنیادی مقصد بھارت کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک تجارتی رسائی دینا ہے، CPEC کا متبادل تصور کیا جاتا ہے۔ بھارت کے لیے چابہار کی اہمیت نہایت واضح ہے کیونکہ اس کے ذریعے وہ پاکستان کو بائی پاس کر کے وسطی ایشیا اور افغانستان تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کی چابہار بندرگاہ میں دلچسپی کا ایک اور پہلو چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو محدود کرنا بھی ہے۔ بھارت کو خدشہ ہے کہ گوادر بندرگاہ کے ذریعے چین بحیرہ عرب اور بحر ہند میں اپنی بحری طاقت کو بڑھا سکتا ہے اور بھارت کی بحری حدود میں مداخلت کر سکتا ہے۔ چابہار اس لیے بھارت کے لیے ایک تزویراتی منصوبہ ہے تاکہ وہ چین کی اقتصادی اور فوجی پیش رفت کو روک سکے۔
چابہار اور گوادر بندرگاہیں نہ صرف معاشی لحاظ سے اہم ہیں بلکہ ان کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے ان کا فوجی اور سکیورٹی پہلو بھی نمایاں ہے۔ گوادر چین کے لیے بحر ہند میں بحری اڈے کے طور پر استعمال میں لانا چاہتا ہے جبکہ بھارت چابہار بندرگاہ کے زریعے ایران اور افغانستان میں اپنی موجودگی کو مستحکم کرنے کے درپے ہے۔ دونوں منصوبے اس بات کا اظہار ہیں کہ عالمی اور علاقائی طاقتیں اپنے مفادات کو محفوظ کرنے کے لیے جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں نئے تجارتی راستوں اور فوجی اڈوں کی تعمیر کر رہی ہیں۔ گوادر اور چابہار جیسے منصوبے صرف تجارتی اور اقتصادی ترقی کے منصوبے نہیں ہیں بلکہ ان کے پیچھے چھپے عالمی اور علاقائی سیاست کے مفادات بھی واضح ہیں۔ چین اور بھارت کے درمیان جاری جغرافیائی و تزویراتی مقابلہ ان منصوبوں کو ایک وسیع تر بین الاقوامی تنازعہ کا حصہ بنا رہا ہے۔ چین اور بھارت دونوں اپنی اقتصادی ترقی اور عالمی طاقت کے حصول کے لیے ان منصوبوں کو استعمال کر رہے ہیں جبکہ بلوچ قوم کو ان منصوبوں کی وجہ سے نہ صرف اپنے حقوق اور وسائل سے محرومی کا سامنا ہے بلکہ ہماری ثقافت، زبان اور شناخت بھی خطرے میں ہے۔ عالمی اور علاقائی طاقتوں کی رقابت میں بلوچ قوم کی آزادی کو نظرانداز کرکے جبر اور طاقت کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔
گوادر بندرگاہ کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ یہ دنیا کے اہم ترین بحری راستوں کے قریب واقع ہے۔ یہ بندرگاہ آبنائے ہرمز کے قریب ہونے کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر کو عالمی منڈیوں تک پہنچانے کے لیے ایک اہم گزرگاہ بن سکتی ہے۔ چین اور دیگر عالمی طاقتیں بلوچستان کی اس جغرافیائی پوزیشن سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ وہ مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے تیل اور گیس کے ذخائر کو اپنے ملکوں تک باآسانی منتقل کر سکیں۔ عالمی معاشی جنگ میں بلوچستان کا کردار صرف معدنی وسائل اور جغرافیائی اہمیت تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ خطہ عالمی طاقتوں کی سیاست اور اقتصادی مفادات کے توازن کو بھی متاثر کرتا ہے۔ چین جو عالمی معیشت میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے، بلوچستان کی گوادر بندرگاہ کو اپنے منصوبوں کا حصہ بنا کر اپنی توانائی اور تجارتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک اہم راستہ تلاش کر رہا ہے جس کی وجہ سے گوادر میں اپنے فوجی اڑے بنانے کی سر توڑ کوشش میں لگا ہوا ہے۔
بلوچ قومی تحریک میں تیزی و سامراجی منصوبوں کی ناکامی نے پاکستان اور چین کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ پاکستان کی ناپاک ریاست پچھلے کئی دہائیوں سے بلوچ سرزمین پہ قابض، بلوچ قومی وسائل لُوٹنے اور بلوچ نسل کُشی میں سرگرم ہے۔ بلوچ سرزمین ایک طویل عرصے سے مختلف مظالم کا شکار ہے۔ بلوچ قومی جنگ ہمارے حقوق، ثقافتی شناخت اور مکمل آزادی کے لیے ہے۔ اس جنگ کو کاؤنٹر کرنے کے لیے پاکستان اور چین جیسے ممالک اپنی فوجی اور اقتصادی طاقت کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی فوجی شراکت داری بلوچ قوم کی آزادی کی جنگ کو کاؤنٹر کرنے کے لیے ہے جبکہ چین سی پیک جیسے سامراجی منصوبے کے تحت بلوچستان کے وسائل پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوششیں کررہا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان یہ اتحاد نہ صرف بلوچ قوم کی حقوق کی خلاف ورزی کی عکاسی کرتا ہے بلکہ یہ عالمی سطح پر ایک سنگین جرم ہے جہاں ایک قوم کی آزادی کو کسی دوسرے ملک کے مفادات کے لیے کُچلا جا رہا ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان جاری عسکری شراکت داری بلوچ قوم کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ بلوچ قوم کی سرزمین پر چینی فوجیوں کی موجودگی اور پاکستانی فوج کی حمایت سے نہ صرف نسل کُشی میں تیزی آئیگی بلکہ غلامی کی زنجیریں بھی مضبوط کرنے کی کوشش کی جائیں گی۔ بلوچ مسلح مزاحمت و عالمی حریفوں کے خطرے کے پیش نظر چین نے باقاعدہ طور پر ناپاک ریاست سے گوادر میں فوجی اڑے کی درخواست کی ہے جس کا وجاہت سعید خان جیسے پاکستانی صحافی بھی انکشاف کررہے ہیں۔ گوادر و بلوچستان کے دیگر شہروں میں چینی انجینئرز پر مسلسل حملوں نے چین کو اس قدر مجبور کردیا ہے کہ اب پاکستان سے گوادر میں اپنی فوجی اڑے کے حصول کے لیے کوششیں کررہا ہے کیونکہ پاکستان کی موجودہ سیاسی و معاشی حالات اس قدر گھمبیر ہیں کہ ریاست نام نہاد سی پیک منصوبوں اور چینی شہریوں کو تحفظ دینے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔