شنبه, اکتوبر 12, 2024
Homeآرٹیکلزڈرون حملے، ایف اے ٹی ایف کی ڈر، اندرونی مشکلات

ڈرون حملے، ایف اے ٹی ایف کی ڈر، اندرونی مشکلات

تحریر: آرچن بلوچ

ھمگام آرٹیکل
ڈرون طیارے موجودہ جنگی ہتھیاروں میں اسٹراٹیجک اھمیت حاصل کر چکے ہیں، اور پاکستان ان ہتھیاروں کو بلوچ مزاحمت کے خلاف بے دریغ استعمال کر رہا یے! حال ہی میں پاکستانی غاصب فورسز نے ڈرون حملوں کے زریعے کئی بلوچ جھدکاروں کو شھید کر دیا ہے۔پاکستان کو ڈرون ٹیکنالوجی چین ایران اور ترکیہ کی حکومتیں فراہم کر رہے ہیں، اور بدقسمتی سے یہ تینوں بلوچ دشمن ممالک ہتھیاروں سے لیس ڈرون ٹیکنالوجی کے ماہر اور ایکسپورٹرز بھی ہیں اور پاکستان کے ساتھ انکے اچھے تعلقات ہیں، بلوچ دشمن کیمپ سے انکا تعلق ہے۔

جبکہ دوسری طرف بلوچ مزاحمت کے پاس ان ہتھیاروں کا توڑ اور توازن نہ ہونے کے برابر ہے۔ دوست ممالک بلوچ تحریک کا حمایت کرنے اس لیے قاصر ہیں کیونکہ بلوچ تحریک ان شرائط پر پورہ نہیں اترتی جہاں ممکنہ دوست ممالک کو حمایت دینے میں آسانیاں پیدا ہوں۔ ان کے شرایط یہی ہے کہ بلوچ عسکری قوتوں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول ایک متفقہ قومی سیاسی قیادت کے تحت ہوں جو اقوام متحدہ کے تمام معاہدات اور conventions یا شرائط پر کاربند بند ہوں. ممکنہ دوست ممالک سپورٹ دینے اس لئے ہچکچاہٹ کے شکار ہیں کیونکہ بلوچ مزاحمت بین الاقوامی طور پر ایک unrecognized entity ہے، ایسے میں اگر کوئی ملک بلوچ عسکری مزاحمت کو سپورٹ کریگی تو اس سے وہ FATF کے قوانین کی زد میں آ جائے گی کیونکہ ابھی تک کسی بین الاقوامی خودمختار ادارے نے ہماری تحریک کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

بین الاقوامی قوانین و مشکلات اپنی جگہ لیکن سنگین ترین مشکلات جن سے قومی تحریک دوچار ہے وہ اندرونی لاپروائیاں ہیں جس سے آپسی اعتبار ختم ہوچکی ہے۔ انفرادی بنیادوں پر استوار گزشتہ 25 سالوں کی مزاحمتی تحریک کی جنتی طاقت تھی یا اب ہے، یہی ہے جو چل رہی ہے، بنیادی اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ تحریک کو کبھی بھی قومی پیٹرن پر استوار ہونے نہیں دیا جا رہا ہے، یہی تحریک کے ساتھ سب سے بڑا مزاق ہے، قومی طاقت کی جمع آوری اور قوت کو اداراتی صورت میں تمرکز کرنے کے بجائے انفرادی تنظیمی ڈھانچوں کو ترجیح دیا جا رہا ہے یہ رویہ تحریک کی بنیادی روح کے خلاف ہے۔
قومی تحریک کوئی پارلیمانی سیاست نہیں ہے جہاں ہر کوئی کچھ سیٹوں کی جیت کیلئے دب کے سیاست بازی کرے، یہ ایک قومی آزادی کی تحریک ہے، اس سے آپ ایک ریاست کو توڑ کر دوسرا ریاست قائم کرنے کی جدوجھد کر رہے ہیں جس کی ہر ایک اینٹ کی پختگی میں بلوچ نوجوانوں کے خون شامل ہے۔
تحریک میں انفرادی بنیادوں پر قائم اکٹر و بیشتر جزئیات نے “تحریک کی سیاسی کردار” کی بیخ کنی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ اگر یاداشت ساتھ دے تو 2013 تک تحریک جب اتنا polarization کا شکار نہیں تھا اور تحریک کا “سیاسی کردار” بحال تھا تو نہ صرف عالمی میڈیا ہماری تحریک کی رپورٹنگ کرتے تھی بلکن بیرونی سفارتکار ہمارے رہنماؤں کے ساتھ رابطے کرتے تھے اور عالمی اسٹراٹیجک اسٹڈیز سینٹرز بھی بلوچ قومی تحریک کے بارے متواتر لکھتے تھے۔ آج کل انتشار کے سبب پاکستانی میڈیا بھی ہمیں گھاس نہیں ڈالتا۔ گو کہ مسلح مزاحمت حسب ضرورت اور بدرجہ اتم جاری ہے لیکن سیاست کی تیز دھار کاٹ سے تحریک محروم ہے۔ تحریک سے ‘سیاسی قیادت کی کردار’ کے غیر موجودگی کی وجہ سے دنیا ہماری تحریک کو اھمیت نہیں دیتا۔ یہ ہمیں جاننا چاہیے کہ صرف سیاسی قیادت ہی عوامی اعتماد کی بحالی، عالمی سطح پر سفارت کاری، تحریک کے لیے وسائل کی حصول جیسے تمام معاملات کا اھتمام کرتا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم پارٹی مفاد پرستی کے چکر میں وسیع قومی اتحاد اور مشترکہ قیادت جیسے ضرورتوں کو صرف نظر کر چکے ہیں۔

ہم یہاں دوستوں کی نازک مزاجی کا احترام کرتے ہوئے ان رکاوٹوں کے بارے نہیں لکھیں گے جہاں اصل کرداروں کے نام آئیں لیکن امید کرتے ہیں کہ وہ حالات کی نزاکت کو دیکھ بالیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک کی شرائط اور لوازمات کو پورہ کرنے کی زمہ داریوں کو ترجیح دیں گے اور اپنی کردار اور حصے کو کل سمجھنے کے بجائے اپنے حصے کو complementary یا تکمیلی عنصر جانیں گے تاکہ تحریک کی اجزاء ترکیبی میں انجذاب ممکن ہوسکے!

یہ بھی پڑھیں

فیچرز