پنجشنبه, سپتمبر 26, 2024
Homeآرٹیکلزکتاب: زیرو پوائنٹ پر کھڑی عورت

کتاب: زیرو پوائنٹ پر کھڑی عورت

تبصرہ نگار: ساحل بلوچ

ھمگام تبصرہ

 یہ ناول مصر کے لوگوں پر لکھی گئی ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو یہ ناول ہمارے یہاں رہنے والے لوگوں سے بھی کافی حد تک ملتی جلتی ہے ہمارے ہاں بھی عورتوں کو ہزار طریقے سے بے عزتی اور ہوس بھری نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ عورتوں کو سالوں سال بے گناہ زندانوں میں درد ناک عزیت دی جاتی ہیں۔ یہ ناول نگار ایک بہت بڑی رائٹر ہے اور اس ناول میں پردوس اپنی زندگی کی حقیقت خود بیان کررہے ہیں۔ یہ ناول انیس سو ستاسی (1987)میں عربی زبان میں پبلش کی گئی۔ اس کے پبلشنگ کے بعد پورے مصر میں اس ناول کے خلاف کارروائی اور پروٹیس کی گئی پر آخر کار اس ناول پر مصر میں پابندی عائد کردی گئی۔مگر اس کے باوجود یہ ناول مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور تاحال اس ناول کو پورے دنیا میں پڑھا جارہا ہے۔

اس ناول میں پردوس ایک طائفہ لڑکی ہے جو ایک لڑکے کو قتل کرتی ہے اور اس کو پھانسی کی سزا ہوتی ہے۔ مصنفہ ڈاکٹر نوال السعدوی اس سے ملنے کیلئے بے چین ہو جاتی ہے وہ بار بار فردوس سے ملنے کی خواہش کرتی ہے لیکن ہر مرتبہ فردوس نا کہتی ہے ایک دن فردوس مصنفہ سے ملتی ہے اور اسے اپنی کہانی بتاتی ہے۔

وہ کہتی ہے کہ اسکا بچپن مفلسی,لاچاری، تکلیف درد اور اور فاخہ کشی سے گزرا ہے۔ وہ بچپن میں دین محمد نامی لڑکے سے کھیلتی تھی اور وہ دونوں ایک دوسرے کے جسم سے کھیلتے تھے لیکن وہ اس وقت نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا کر رہی ہے لیکن اسے مزہ بہت آتا تھا۔جو اسے بہت پسند تھا۔

وہ اپنے باپ سے نفرت کرتی تھی کیونکہ باپ اس کو بہت مارتا تھا اور کھانا نہیں دیتا تھا۔ ایک دن وہ بہت بھوکی تھی تو وہ باپ کے پاس بیٹھ گئی جب وہ کھانا کھا رہا تھا اس نے پلیٹ سے نوالہ اٹھایا تو اسکے باپ نے اسے بہت مارا۔ وہ ماں سے کہتی کہ سارے محلے والے ایک جیسے ہیں وحشی۔ وہ اپنے باپ سے بہت نفرت کرتی ہے کیونکہ باپ نے زندگی میں انہیں کچھ نہیں دیا ہوتا۔ وہ کہتی کہ جب وہ مسجدوں میں قدم رکھتے ہیں تو بہت شریف ہوتے ہیں جب باہر نکلتے ہیں تو وحشی سے بھی بدتر ہوتے ہیں۔ وہ بہروپیہ ہیں۔اسے اپنا چچا بہت پسند ہوتا ہے کیونکہ وہ اسے بہت پیار کرتا ہے اور پیسے دیتا ہے زندگی میں اسے اس کے باپ نے کبھی پیسہ نہیں دیا تھا۔

 جب وہ اپنے چچا کے پاس بیٹھتی تو چچا اسکے سارے جسم پر ہاتھ پھیر دیتا۔ جب کوئی آتا تو وہ اپنا ہاتھ پیچھے کر دیتا۔ وہ کہتی جو مزہ اسے دین محمد کے ساتھ آتا وہ چچا کے ساتھ بالکل مشابہت نہیں رکھتا تھا۔ باپ کے وفات کے بعد وہ چچا کے ساتھ چلی جاتی ہے۔ چچا دارلعلوم میں پڑھائی کرتا ہے۔ جب وہ نئے شہر جو لائیٹس سے بھرا ہوا ہے دیکھتی ہے تو حیران ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے چچا کے ساتھ رہتی ہے جو اکیلا ہوتا ہے۔ چچا اسکو اپنے پاس بٹھاتا ہے اور اسکے سارے جسم پر ہاتھ پھیر دیتا ہے اور جنسی عمل کرتا ہے۔ چچا دارلعلوم سے فارغ ہونے کے بعد اپنے استاد کی بیٹی سے شادی کرتا ہے۔ فردوس کہتی ہے کہ جب چچا کے فیملی والے گھر آتے ہیں تو چچا انکی خاطر مدارت نہیں کرتا جب بھابھی کے گھر والے آتے ہیں تو انکے لئے عمدہ کھانا تیار کرتا ہے اور ان سے باتیں کرتا ہے ۔بھابھی فردوس کو پسند نہیں کرتی اور اس پر الفاظ کھستی ہے۔ وہ فردوس کو بورڈنگ اسکول میں داخل کراتی ہے۔ فردوس کو وہاں بہت سکون ملتا ہے اور وہ اپنی پڑھائی پر توجہ دیتی ہے وہ ہر وقت کتاب پڑھنے میں گزارتی ہے .

وہاں اسکی ایک دوست ہوتی ہے جس کا نام وفیہ ہے وہ دونوں اچھے دوست ہوتے ہیں۔ فردوس کو اپنی ایک استانی مس اقبال بہت پسند ہوتی ہے۔ جب اسکول میں فائنل کے پیپر ہوتے ہیں تو وہ اپنے اسکول میں دوسری اور پورے مصر میں ساتویں نمبر پر آتی ہے۔ لیکن انعام لینے کےوقت اسکی فیملی ممبر موجود نہیں ہوتے تو مس اقبال ایوارڈ اور سند لینے اسکے ساتھ اسٹیج تک جاتی ہے۔ اسکول ختم ہونے کے بعد وہ مایوس ہوتی ہے کیونکہ اسکے اچھے دن اسکول میں ہی گزرے ہیں۔ وہ بار بار گیٹ کو دیکھتی ہے جب اسکے چچا اسے لینے آتا ہے ۔ فردوس کے گھر آنے کے بعد چچا اور بھابھی دونوں پریشان ہوتے ہیں۔ وہ یونیورسٹی میں پڑھنا چاہتی ہے لیکن چچا تنگ نظر ہوتا ہے کیونکہ وہاں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے ہیں اور چچا جانے نہیں دیتا۔بھابھی کہتی ہے کہ وہ مفت میں کھانا کھاتی ہے تو دونوں اسکی شادی کے متعلق باتیں کرتے ہیں۔ بھابھی اپنے چچا کے ساتھ فردوس کی شادی کرانا چاہتی ہے جس کی عمر 60 برس ہے۔ جو پینشن لے رہا ہے اور بہت کنجوس ہے اور اسکے جسم پر ایک سوجن ہے جس سے بار بار پیپ اور خون نکلتا رہتا ہے۔ فردوسِ گھر سے بھاگ جاتی ہے تو دو آنکھیں اسکا پیچھا کرتی ہیں وہ ان دو آنکھوں سے ڈرتی ہے اور آنکھیں آگے بھی اسے نہیں چھوڑتیں۔وہ بھوک محسوس کرتی ہے اور واپس گھر آتی ہے تو اسکی شادی بوڑھے سے کرواتی ہے۔ بوڑھا بہت کنجوس ہوتا ہے وہ فردوس کو کہتا ہے کہ وہ کھانا بہت ضائع کرتی ہے۔ وہ پلیٹ میں چاول کے دانے دانے کو دیکھ کر کھاتا ہے اور ایک دانہ بھی نہیں بچاتا ہے۔فردوس کو اس سے بالکل بھی پیار نہیں ہوتا جب وہ فردوس سے ہمبستری کرتی ہے تو اسکی بدبو فردوس کو بالکل پسند نہیں ہوتی جب وہ فارغ ہوتی ہے تو اچھے طریقے سے نہاتی ہے۔ فردوس کی عمر صرف 17 سال ہوتی ہے جب اسکے چچا اسکی شادی 60 سال کے بوڑھے سے کرواتا ہے۔ وہ جسم کا بھوکا ہوتا ہے۔ ہر روز گھر میں پڑا رہتا ہے اور باہر جاتا بھی نہیں۔ وہ فردوس پر نظر رکھتا ہے کہ وہ چیز کو ضائع نہ کرے۔فردوس کو اس سے نفرت ہوتی ہے ۔ وہ بات بات پر فردوس کو مارتا رہتا ہے تو فردوس اپنے چچا کے گھر چلی جاتی ہے۔ تو چچا کہتا ہے اسلام عورت پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت دیتا ہے بھابھی بھی کہتی ہے کہ اس کا شوہر اسے مارتا ہے۔فردوس کہتی ہے کہ جب عورت شادی کرتی ہے تو وہ بے بس ہو جاتی ہے ۔تو فردوس واپس چلی جاتی ہے اب شوہر اس ہر بہت ظلم کرتا ہے اور اسے ڈنڈے سے مارتا ہے ایک دن وہ فردوس کو اس طرح مارتا ہے کہ اس کے ناک سے خون بہنے لگتا ہے۔تو فردوس اپنا بیگ اٹھا کر بھاگ جاتی ہے۔ وہ ایک چائے کی دکان پر جاتی ہے ویٹر اسے دیکھ کر پریشان ہوتا ہے اور اسے چائے دیتا ہے۔ بایومی ہوٹل کا سیٹھ اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاتا ہے۔ بایومی پہلے اس پر بہت مہربان ہوتا ہے لیکن پھر اسکے جسم کو استعمال کرتا ہے جس طرح دین محمد ، اسکے چچا اور اسکے شوہر نے استعمال کیا تھا۔ جب فردوس جانا چاہتی ہے تو بایومی اسے مارتا ہے۔بایومی صبح کمرے کو باہر سے لاک کرتا ہے اور رات کو اسے مارتا ہے اور اس کے جسم سے کھیلتا ہے اب بایومی اپنے ساتھ اپنے دوستوں کو بھی فردوس کی جسم تک رسائی کا موقع دیتا ہے۔ بایومی فردوس کو بہت بری گالیاں دیتا ہے فردوس بھی اسکا جواب گالیوں سے دیتی ہے یہاں پر فردوس اچھی طرح گالیاں بھی سیکھ جاتی ہے کہ مردوں کو کیسی گالیاں دی جائیں۔ایک دن فردوس گھر سے نکل کر بھاگ جاتی ہے۔تو وہ دریا نیل کے کنارے آ کر بیٹھ جاتی ہے تو شریفہ نامی بازاری عورت اسکے پاس آ جاتی ہے اور اس سے باتیں کرکے اسے اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔ فردوس عالی شان محل اور اچھے اور صاف ستھرا کمرہ دیکھ کر حیران ہو جاتی ہے کیونکہ اسکی ساری زندگی گاؤں میں گوبر اٹھاتے گزری تھی۔ شریفہ اسےاس کی اصلیت بتاتی ہے کہ وہ کون ہے اور معاشرہ کیا چاہتا ہے۔ شریفہ کہتی ہے کہ آپ کو صرف اپنا جسم مرد کے حوالے کرنا ہے روح نہیں۔شریفہ کہتی ہے ” زندگی بہت کھٹن ہے صرف وہ لوگ ہی زندگی گزارتے ہیں جو زندگی سے بڑھ کر سخت ہوتے ہیں۔ مذید کہتی ہے” ایک مرد کسی عورت کو کبھی نہیں سمجھ سکتا۔ وہ فردوس سے دھندہ کرنے کے متعلق کہتی ہے کہ “عورت جب اپنی قیمت بڑھائے تو مرد ہر طریقے سے قیمت ادا کرکے اسکو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ فردوس اچھے کپڑے اور عالی شان کمرے میں مختلف مردوں کے ساتھ رات گزارتی ہے۔ان میں وہ بھی شامل ہوتے ہیں جو معاشرے میں اپنے آپ کو پاکدامن اور مہذب سمجھتے ہیں ۔اسے وہ مرد پسند ہوتے ہیں جن کے ناخن صاف ہوتے ہیں اور جسم بدبو سے پاک ہوتا ہے وہ بڑے ناخن والے اور بدبودار لوگوں سے ملتی بھی نہیں۔ ایک دن فوزی نامی شخص اسکے ساتھ سوتا ہے تو فوزی ہمبستری کرتے وقت اس سے کہتا ہے کہ آپ کو تکلیف نہیں ہو رہی تو وہ حیران ہو جاتی ہے کیونکہ پہلے لوگ اس سے پوچھتے تھے کہ آپ کو مزہ آ رہا ہے لیکن فوزی واحد شخص تھا جس نے مختلف ایک علیحدہ سوال کیا۔ وہ فردوس کو نکلنے کا کہتا ہے۔ فوزی شریفہ سے لڑتا ہے کہ وہ فردوس کو جانے دے تو دونوں بہت لڑتے ہیں اور اسکے بعد فوزی شریفہ سے ہم بستری کرتا ہے تو فردوس حیران ہو جاتی ہے اور اپنا بیگ جس میں اسکی سیکنڈری سکول کی سند بھی موجود ہے لے کر چلی جاتی ہے۔ اب وہ سارے زندگی گزارنے کے سارے گر جان چکی ہوتی ہے۔ کس طرح رہنا ہے اور کس طرح مردوں کو منانا ہے وہ اس کے اب بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ گھر سے نکل کر ایک پولیس والا اسے پکڑتا ہے اور اسے زبردستی اپنے ساتھ سونے پر مجبور کرتا ہے اور بعد میں پیسے بھی نہیں دیتا۔ فردوس وہاں سے نکل جاتی ہے باہر جا کر بارش شروع ہوتی ہے تو اسکے سارے کپڑے گیلے وہ جاتے ہیں اور سارا جسم نظر آتا ہے تو ایک شخص اسے اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور رات گزارتا ہے۔ وہ جاتے وقت اسکو دس پاونڈ تھما دیتا ہے۔ وہ پیسے لے کر بہت خوش ہوتی ہے کیونکہ اس نے زندگی میں پیسے استعمال نہیں کئے۔ اس کے باپ نے اسے ایک روپیہ بھی نہیں دیا تھا۔ وہ پیسے لیکر ہوٹل میں جاتی ہے اور عمدہ کھانا مگنواتی ہے۔ اسے یاد آتا ہے کہ” واحد چیز پیسہ ہے جس کو لوگ چھپاتے ہیں۔ جب کوئی آئے تو سامنے والا اپنا پیسہ چھپا دیتا ہے۔” یہی زندگی کی حقیقت ہے کہ انسان پیسے کیلئے جیتا اور مرتا ہے۔

اب فردوس ایک علیحدہ کمرہ لیتی ہے اور اپنے طریقے سے دھندہ کرتی ہے۔ اس کا جب موڈ چاہے منہ مانگا معاوضہ لے کر مرد کے ساتھ سوتی ہے لیکن وہ اپنا زیادہ وقت اپنی لائبریری میں کتابیں پڑھتے ہوئے گزارتی ہے۔ ایک دن ایک صحافی اسکے پاس آتا ہے تو وہ فردوس سے کہتا ہے ” طائفہ مہذب نہیں ہوتی” تو فردوس حیران ہوتی ہے اور سوچ میں گم ہوتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے کہ وہ پیشہ چھوڑ دے گی اور پیشہ چھوڑ دیتی ہے۔ اپنے سیکنڈری سکول کی سند لے کر مختلف دفتروں میں نوکری کیلئےاپنے دستاویز جمع کرتی ہے ۔فردوس کو ایک کمپنی میں ملازمت مل جاتی ہے وہ وہاں پر ایک اچھی اور پاکدامن عورت کے طور پر اپنے آپ کو منواتی ہے۔ کئی آفیسرز اس سے جنسی تعلق بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ ان کو منہ نہیں لگاتی۔ وہ ایک کرائے کے کمرے میں رہتی ہے اور بہت تکلیف دہ دور گزارتی ہے کیونکہ ایک دور میں وہ اچھے طریقے سے رہتی تھی۔ ہر روز بس اسٹاپ میں رش ہونے کی وجہ سے اسے جلدی پہنچنا ہوتا تھا۔ ایک دن وہ بس اسٹاپ میں لیٹ پہنچ جاتی ہے تو اسکے ایک آفیسر اسکو دیکھ لیتا ہے تو وہ فردوس کو اپنی گاڑی میں بٹھانے کی آفر کرتا ہے تو فردوس سیدھا سمجھ جاتی ہے اور کہتی ہے آپ میری قیمت ادا نہیں کر سکتے میں بہت بھاری قیمت وصول کرتی ہوں تو وہ سیدھا نکل جاتا ہے۔ فردوس کہتی ہے” انتہائی کم قیمت پر بکنی والی عورت شادی شدہ عورت ہوتی ہے“ ۔

وہ کہتی ہے کہ” کچھ عورتوں نے اپنا معیار اتنا گرایا ہوتا ہے کہ ایک گریڈ یا اپنے آفیسر کو خوش کرنے کیلئے اپنی عزت اسکے حوالے کرتی ہیں۔ یہ سب سے گٹھیا اور کم قیمت پر اپنا سودا ہوتا ہے۔”

کمپنی میں کام کرنے کے دوران فردوس کو ابراہیم نامی لڑکے سے پیار ہو جاتا ہے تو وہ اس سے جنسی تعلق بھی قائم کرتا ہے لیکن بعد میں ابراہیم فردوس کو چھوڑ کر کمپنی کے مینیجر کی بیٹی سے شادی کرتا ہے۔ فردوس بہت درد میں مبتلا ہوتی ہے۔ فردوس کہتی ہے” جدائی کا درد جنسی درد سے زیادہ ہوتا ہے یہ کبھی کم نہیں ہوتا بڑھتا جاتا ہے”

فردوس کمپنی کو چھوڑ کر پھر سے اپنا پرانا دھندہ شروع کرتی ہے لیکن اس بار وہ اپنی قیمت خود مقرر کرتی ہے اور ان لوگوں سے تعلق قائم کرتی ہے جو بھاری قیمت ادا کر سکے۔ ایک دن ابرہیم اسکو مجبور کرتا ہے کہ وہ اسکے ساتھ رات گزار دے تو وہ راضی ہو جاتی ہے جب کام ختم ہونے کے بعد ابرہیم جا رہا ہوتا ہے تو فردوس اسکو آواز دے کر کہتی ہے قیمت ادا کرو تو وہ دس پاونڈ دیتا ہے تو فردوس کہتی ہے دس پاونڈ باقی عورتوں کے ہوتے ہیں میں بیس پائونڈ لیتی ہو ابرہیم اسے بیس پاؤونڈ دیتا ہے۔ وہ اب امیروں سے ہمبستری کرتی ہے اور منہ مانگی رقم لیتی ہے اس کے پاس بہت سارے پیسے آتے ہیں نوکر چاکر رکھتی ہے ۔ اپنے لئے ایک ڈاکٹر اور وکیل بھی رکھتی ہے جو مصیبت میں اسکی مدد کر سکے۔ ایک دن اسکی ایف آئی آر درج ہوتی ہے تو وکیل اسکو چھڑاتا ہے اور اپنے آپ کو ایماندار ثابت کرتا ہے ۔ وہ اب اپنے آپ کو اخبار کی سرخیوں میں بھی لاتی ہے۔ کیونکہ وہ ایک اخبار نمائندہ بھی رکھتی ہے۔ ایک دن وہ کسی ٹرسٹ کو چندہ دیتی ہے تو سارے اخبارات میں اسی کی تصویر اور چرچے ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہے “پیسے سے آپ سب کچھ کروا سکتے ہو اور سب کچھ خرید سکتے ہو” وہ مزید کہتی ہے”ہر بندے کی ایک قیمت مقرر ہوتی ہے اور ہر شے کیلئے معاوضہ ادا کرنا پڑتا ہے۔“۔

فردوس کے چرچے پورے ملک میں ہوتے ہیں تو ایک غیر ملکی سفیر آ جاتا ہے تو وہ فردوس سے ہمبستری کرنا چاہتا ہے تو فردوس منع کرتی ہے۔ پولیس کا ڈی آئی جی آتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ ہمارے ملک کی عزت کا سوال ہے اس کے ساتھ ایک رات گزار دو تو فردوس کہتی ہے کہ” اپنی عزت دوسروں کے حوالے کرنے سے کس طرح کی عزت ملتی ہے” وہ کہتی ہے میں اس ملک اور اس کے قانون کو مانتی ہی نہیں جو لوگوں کو زبردستی کام کروائے۔ دوسروں کو خوش کرنے کیلئے لوگوں کی عزت بھیج دے۔ وہ سفیر ناراض ہوکر چلا جاتا ہے ۔

ایک دن ایک غنڈا اور لڑکیوں سے دھندہ کروانے والی دلال جانی نامی شخص فردوس سے ملتا ہے۔ وہ زبردستی اس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے فردوس منع کرتی ہے تو وہ فردوس کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتا ہے ۔ فردوس پولیس کے پاس جاتی ہے وہ جانی کا بندہ نکلتا ہے۔ جانی کے پاس وکیل پولیس اور سیاست دان بہت ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان کیلئے لڑکیاں لاتا ہے۔ وہ فردوس کے ساتھ رہتا ہے اور اسکے پیسے خود لیتا ہے۔ ایک دن وہ فردوس سے جنسی تعلق قائم کرنا چاہتا ہے تو فردوس چاقو کے وار سے اسے مار دیتی ہے۔ اس پر اتنی وار کرتی ہے کہ اسکے سارے جسم میں چاقو کے نشان ہوتے ہیں اور وہ وہیں ڈھیر ہو جاتا ہے۔ فردوس کہتی ہے کہ ” عورت تب مضبوط ہوتی ہے جب وہ مرد سے نگاہ سے نگاہ ملا کر بات کرے۔ وہ مرد سے ذرہ برابر بھی نہ ڈرے تب وہ مضبوط ہوتی ہے” وہ کہتی ہے کہ ” میں نے زندگی میں پہلی بار مرد پر ہاتھ اٹھا کر اور اسے مار کر صحیح فیصلہ کیا ہے میں نے یہ فیصلہ پہلے کیا ہوتا تو کوئی مرد اس طرح کی حرکت کے بارے میں سوچتا بھی نہیں۔” جانی کو مارنے کے بعد وہ گھر سے نکل جاتی ہے اور راستے میں اسے ایک شہزادہ ملتا ہے تو شہزادہ اسے تین ہزار پاؤونڈ پر راضی کرکے لے جاتا ہے جب وہ کمرے میں ہمبستری کر رہے ہوتے ہیں تو فردوس کہتی ہے کہ وہ مجھ سے وہی سوال کرتا ہے جو ہر مرد نے مجھ سے کیا ہے وہ یہ کہ” آپ کو مزا آ رہا ہے ” وہ کہتی ہے کہ مجھے ان الفاظ سے بہت نفرت ہے۔ شہزادہ اسے تین ہزار پاؤونڈ دیتا ہے تو وہ اسے وہی پھاڑ دیتی ہے تو شہزادہ حیران ہو جاتا ہے اور کہتا ہے واقعی تم ایک شہزادی ہوں۔ شہزادہ فردوس کے ساتھ بکواس کرتا ہے تو فردوس اسے زور سے چھانٹا مارتی ہے وہ پولیس کو اطلاع دیتا ہے۔ اور پولیس اس پر قتل کا مقدمہ چلاتی ہے۔

وہ جیل میں جب اخبار پڑھتی ہے تو اس میں مرد کی تصویر کو دیکھ کر تھوکتی ہے ۔ وہ کہتی ہے جو مرد اپنے آپ کو مہذب سمجھتے ہیں اصل میں وہی حرامی اور عورتوں کی عزت اور غیرت کو استعمال کرتے ہیں اور ان کے ساتھ رات گزارتے ہیں ۔ فردوس کو جیل میں کہا جاتا ہے کہ آپ رحم کی درخواست پر سائن کریں اور آپ کو پھانسی سے بچایا جائے گا تو وہ کہتی ہے مجھے اب اس دنیا میں نہیں جینا میں اس ملک کے اعلی افسران اور صدر کو اچھی طرح جانتی ہوں۔

فردوس کہانی ختم کرتی ہے تو دو سنتری جیل میں آتے ہیں اور فردوس کو کہتے ہیں کہ اسکا وقت ختم ہو چکا وہ اسکے ساتھ چلے۔ ڈاکٹر نوال السعدوی گھر چلی جاتی ہے اور چند گھنٹے بعد فردوس پھانسی پر چڑھا دی جاتی ہے۔ جہاں ایک نہ ختم ہونے والی کہانی ختم ہوتی ہے اور فردوس عورت زاد کیلئے ایک پیغام دے کر چلی جاتی ہے کہ ” عورت مضبوط ہوتی ہے اس وقت جب وہ اپنے آپ کو پہچان جائے۔ اس کو کوئی بھی ہاتھ نہیں لگا سکتا جب تک وہ خود راضی نہ ہو جائے۔”

یہ بھی پڑھیں

فیچرز