تحریر: ڈاکٹر حضور بخش بلوچ
بنی نوع انسان کی تاریخ میں اِتحاد کی ضرورت اُس وقت پیش آئی جب انسان جوڑوں، گروہوں اور چھوٹی چھوٹی جہتوں میں بکھرے ہوئے تھے۔ جو خود کو قدرتی آندھیوں، آفتوں،مصیبتوں اور خونخوار جانوروں سے محفوظ رکھنے کیلئے اتحاد کی جانب بڑھنے لگے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے روِزمین کے ہر کونے پر انسان جوڑوں اور گروہوں سے نکل کر بڑے بڑے قبائل کی شکل میں سامنے آنے لگے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے کہ انسان جانوروں کی طرح جنگلوں، درّوں اور پہاڑیوں میں بسیرا کیئے ہوئے تھے۔ جو ہر قسم کی تخلیق و تحقیق سے محروم تھے۔ لیکن تاریخ دانوں اور دانشوروں کے مطابق انسان کی سب سے پہلی ایجاد مشترکہ دفاعی قوت (اتحاد) تھی جِس کے ذریعے وہ خود کو اور اپنے بچوں یا ساتھیوں کو تحفظ فراہم کر سکتے تھے۔ یہ قدیم غلامانہ دور سے بھی ہزاروں سال پہلے کی بات ہے۔ جب انسان اور حیوانوں میں کوئی تمیز نہیں تھی۔ پھر آہستہ آہستہ انسانوں میں عقل و شعور آنے لگی اور پھر انسان نے سر ڈھانپنے کیلئے چھت اور پیٹ بھرنے کیلئے کھانے کا اہتمام کرلیا۔ گلہ بانی کے دور سے پہلے انسان خوش ذائقہ درختوں، پودوں اور جھاڑوں کے پتوں میووں کے علاوہ جنگلی جانوروں کی گوشت سے بھوک مٹاتے تھے۔ شاید اسی دور میں انسان نے اجناس کی زخیرہ اندوزی سیکھ لی تھی جو آج تک انسان کی فطرت بن گئی ہے۔الغرض انسان کی زیست و بقاء کیلئے اتحاد اولین ترجیح ٹہری جو اِس علمی و سائنسی دور میں بھی انسان کی سب سے بڑی ضرورت بن گئی ہے۔
دنیا کے سینکڑوں قدیم اقوام میں سے ایک قوم بلوچ بھی ہے جو خود کو مہر گڑھ تہذیب کا وارث سمجھتی ہے۔ بلوچ کی تاریخ قابضین و حملہ آروں کی جنگی داستانوں سے بھی بھری پڑی ہے لیکن بلوچ قوم نے آپسی لڑائیوں اور قبائلی جنگوں میں بھی بہت کچھ کھویا ہے۔ عصرحاضر کی خونریز جنگ سولویں صدی کے دو بلوچ قبائلی سرداروں ( چاکر و گہرام ) کی کمان میں لڑی گئی۔ جس میں تیس ہزار سے زائد قیمتی جانیں آسودہ خاک ہو گئیں۔
بیسویں صدی سے اکیسویں صدی تک بلوچستان کے مختلف قبائل آپس میں دست گریباں رہے ہیں جنکے اثرات آج بھی قبائلی علاقوں میں نمایاں ہیں لیکن ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ بلوچ قوم آج کے اِس دور میں بھی متحد نہیں جہاں دو قابض قوتیں ( ایران و پاکستان ) بڑی بے دردی کیساتھ بلوچ نسل کُشی میں مصروف عمل ہیں۔
مقبوضہ مغربی بلوچستان میں جب شنہشاہ ایران کے خلاف انقلاب آیا تو اُن آزادی پسند بلوچوں نے بھی جنگ میں حصہ لیا جو ایک عرصے سے شاہ کے خلاف بغاوت پر اُتر آئے تھے اور اُن میں تودائی( کمیونسٹ) بلوچ بھی شامل تھے لیکن ایران پرقبضےکے بعد شعیہ رجیم نے مغربی بلوچستان پر پنجے گھاڈ کر آزادی پسند بلوچوں کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں ڈالا کچھ کو پھانسیاں دیں۔ اِسی دوران باقی ماندہ بلوچ اپنے گھر جائیدادیں چھوڑ کر سندھ میں بسنا شروع ہو گئے جو آج تک کراچی و دیگر شہروں میں قیام پزیر ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد امریکہ و یورپ جانے میں کامیاب ہوگئی۔ جو وہاں وقتاََ فوقتاََ بلوچستان کی آزادی اور ایران کی قبضہ گیریت کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ہیں لیکن مغربی بلوچستان کے برعکس مشرقی بلوچستان کے بلوچ آزادی پسند قوتیں بلوچستان کی جبری الحاق سے لیکر مختلف ادوار میں مختلف تحریکیں چلاتی آ رہی ہیں جسکی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے سن 2000 میں ایک نئی جنگ کی ابتدا کی گئی جو تاحال جاری ہے۔ اِس جنگ کو بیس سال پورے ہو گئے اور یہ جنگ پچھلی جنگوں سے قدرے مختلف اور منظم سمجھی جا رہی ہے کیونکہ اس بار جنگ قبائلی علاقوں تک محدود ہونے کے بجائے بلوچستان کے کونے کونے تک پھیل چکی ہے۔ جنگ کی شروعات انتہائی خوبصورت و شاندار تھی اور اس جنگ کو بھر پور عوامی پزیرائی ملی۔ لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ 2009 کے بعد جنگ بڑی تیزی کیساتھ انہدام کا شکار ہو گئی۔ کچھ دوست اتنی تیزی کیساتھ اِس تنزلی کو مکران میں بی این ایم کے لیڈر شہید غلام محمد کی شہادت اور قبائلی علاقوں میں شہید نواب اکبر خان اور شہید بالاچ خان کی شہادت سے نتھی کرتے ہیں۔ اُنکے مطابق سرفیس میں شہید غلام محمد کی شہادت کے بعد سیاسی قیادت کمزور ہاتھوں میں آگئی۔ جبکہ قبائلی علاقوں میں شہید نواب اکبر خان اور شہید بالاچ خان کی شہادت نے تحریک پر گہرے اثرات ڈال دیئے۔ لیکن میری ذاتی رائے کچھ مختلف ہے۔ میرا خیال ہے کہ تحریک پر مذکورہ شہدا کی شہادت نے گہرے اثرات ضرور چھوڑے ہیں لیکن تحریک کی تنزلی اور دشمن کی پے در پے کامیابیوں کی اصل وجہ بہتر حکمت عملی کا نہ ہونا اور قوائد و ضوابط کا فقدان ہے کیونکہ بہت کم لوگ اپنی بہتر منصوبہ بندی اور خود احتسابی و قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے ایک طویل جنگ کو اُن لوگوں سے کہیں زیادہ بہتر لڑ سکتے ہیں جن کے پاس ہجوم ہو مگر کوئی ڈسپلین کا وجود نہ ہو، ہمارے دوستوں کے ساتھ بھی وہی ہوتا آ رہا ہے۔
ایک ریاست کے خلاف جنگ لڑنا کوئی سیر و تفریح نہیں کہ آپ گلی محلوں سے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر کیمپوں میں منتقل کریں اور دو چار ہفتے کی جنگی ٹریننگ دے کر اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دیں۔ مکران میں 90 فیصد سرمچاروں کا تعلق پندرہ بیس سال کے غیر تعلیم یافتہ و غیر تجربہ کار لڑکوں پر مشتمل تھی یا ہے۔ جن کا اِس جنگ کیساتھ صرف جذباتی وابستگی ہے۔ ورنہ نظریاتی لوگوں کی تعداد دس سے پندرہ تک بھی نہیں بنتی۔
اگر 2000 سے کچھ نوجوانوں کی فکری تربیت کیجاتی اور یہ سلسلہ آج تک جاری رہتا تو اِس وقت محاذ پر بہت اچھے سولجر لڑ رہے ہوتے اور اسی طرح گاؤں دیہاتوں میں سیاسی سرکل کیلئے ہزاروں نوجوانوں کی ذہنی و فکری تربیت ہو چکی ہوتی۔ بجائے اس کے کہ لوگوں میں سطحیت و جزباتیت کو پروان چھڑایا جاتا مگر جو ہوا سو ہوا اب کیا کرنا ہے۔ اس جنگ کو کس طرح جاری رکھنا ہے۔ اِس جنگ سے اپنی قوم کو کیسے محفوظ کیا جا سکتا ہے قابض پاکستان و قابض ایران کے خلاف رائے عامہ کیسے ہموار کی جا سکتی ہے؟ آ س بارے میں نا کوئی نئی حکمت عملی دکھائی دے رہی ہے اور نا ہی خامیوں ، کوتاہیوں اور غلطیوں کا ازالہ کرنے کیلئے کوئی سنجیدہ غور و فکر ہو رہی ہے ۔ ابھی تک وہی روش وہی جذباتی پن وہی ضد و انا اور وہی گروہ بندی تھمنے کا نام نہیں لے رہی مگر منافقانہ انداز میں اتحاد و یکجہتی کے بے سرے گیت بھی گائے جا رہے ہیں۔ جب ہر طرف سے اتحاد اتحاد کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں تو وہ کونسی بات ہے جو اتحاد کی راہ میں رکاوٹ ہیں؟
آئیے ہم آپ کو سمجھانے کی ناقص کوشش کریں۔ جب کسی تحریک یا کسی مقصد کیلئے اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے تو وہاں زیادہ فوکس اتحاد پر ہوتا ہے اتحاد کرنے والوں پر نہیں۔ یہ سبق تاریخ ہمیں فلسیطینی دھڑوں، کشمیریوں اور افریقی ممالک کی تحریکوں سے سکھاتی ہے کہ وہاں پر کتنے مختلف الخیال دھڑے ایک دوسرے کی مجبوری بن گئے۔ موجودہ بلوچ آزادی پسند تنظیموں میں اُس پیمانے کے نظریاتی اختلافات بلکل نہیں جس سے کسی تنظیم کو اپنی فکر و نظریہ یا مؤقف سے روگردانی کرنی پڑے بلکہ اس کے برعکس تمام تنظیموں کی جد و جہد قومی آزادی کے حصول پر استوار ہے۔ یہاں کوئی صوبائی خود مختاری، یا حق خود ارادیت کی حمایت نہیں کر رہا سب کا ایک ہی مؤقف اور ایک ہی مقصد ہے تو سبب کیا ہے کہ لوگ اتحاد سے خوفزدہ ہیں۔ یقیناََ کچھ لوگوں کے مفادات گروہی سیاست سے وابستہ ہیں۔ اگر کل کو ایک وطن گیر قومی پارٹی بن جاتی ہے تو اُن لوگوں کے مفادات خطرے میں ضرور پڑ سکتے ہیں جن کے مفادات گروہیت سے منسلک ہیں کیونکہ جب ایک پارٹی ہوگی تو اسکے آمدن و اخراجات کا بھی ایک ادارہ ہوگا۔ اُس کا ایک مشترکہ منشور ہوگا۔ اور منشور میں کئی قوانین ہونگے جن پر سب کو عمل کرنا ہوگا۔ کوئی اپنی الگ شناخت و پہچان نہیں بنا سکتا۔ جہاں صرف ایک ہی لیڈر ہوگا۔ جس سے کئی موجودہ لیڈروں کے عہدے خطرے میں پڑ سکتے ہیں اس لیئے وہ لوگ کبھی ایسے اتحاد کیلئے تیار نہیں رہینگے جہاں انکے نام و مقام خطرے میں ہوں اس لیئے آپ نے غور کیا ہوگا کہ جب بھی قوم کی طرف سے اتحاد کا دباؤ بڑھتا ہے تو کچھ لوگ اپنے اپنے گروہ کے ایکٹویسٹس کو میدان میں اُتار کر کردار کُشی اور الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔
” براس “
بلوچ راجی آجوئی سنگر کے نام سے بی ایل ایف قیادت نے بی ایل اے سے بیدخل بشیر ذیب اور بی آر اے سے بیدخل گلزار امام کیساتھ ملکر اسے اتحاد کا نام دیا ہے جو کہ تاریخ میں پہلا اور انوکھا اتحاد ہے۔
اول تو اتحاد ایک تنظیم کا دوسری تنظیم کیساتھ ہوتا ہے مگر مذکورہ دونوں دوست تنظیموں سے نکالے گئے لوگ ہیں۔ اگر آپ کسی تنظیم کے سزا یافتہ شخص کو اپنا حصہ بناکر اسے اتحاد کہتے ہیں تو یقیناََ آپ اتحاد کے بدترین دشمن ہیں مثال کے طور پر واحد قمبر اللہ نظر کو بی ایل ایف سے بیدخل کردے یا اللہ نظر واحد قمبر کو نکال دے تو بی ایل اے یا بی آر اے اسے اپنا حصہ بنا کر واحد یا نظر کو اتحادی کہدے تو کتنا عجیب لگ جاتا ہے۔
دوسری بات قومی تحریکوں میں ہمیشہ ماس پارٹیاں اپنی عسکری وینگز چلاتی ہیں مگر ہمارے پاس یہ معاملہ بھی اُلٹا ہے یہاں عسکری وینگز پارٹیوں کو اپروچ کرتے ہیں دوسری طرف بی آر اے اور یوبی اے دو عسکری تنظیم ییں جن کا اتحاد ہے مگر اُن کا نہ بی ایل ایف ” براس” سے اتحاد ہے نا بی ایل اے اور لشکر بلوچستان سے۔
اگر اتحاد ہونا ہے۔ تو بی آر پی بی این ایم اور ایف بی ایم کا ہونا چاییے جن کا ایک کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم ہو جسکے ذریعے وہ عسکری تنظیموں کی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ اُنکی کمانڈ اپنے ہاتھ میں لے۔ اگر سب ایک دوسرے میں مرج ہو کر ایک قومی پارٹی بنانے پر راضی ہو گئے تو اس کا تو کوئی جواب نہیں لیکن اگر تینوں پارٹیاں چند نکات پر بھی اتحاد کریں تو ہر پارٹی سے مناسب تعداد میں کچھ لوگوں کو اتحاد کے عہدے سونپ کر ایک مضبوط قیادت سامنے لائی جاسکتی ہے لیکن ہر حال میں عسکری تنظیموں کو ماس پارٹی کی پالیسیوں کا پابند بنانا لازمی ہے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار معاملہ یا واقعہ کو کنٹرول کیا جا سکے لیکن اتحاد کیلئے حیربیار مری کے دو نقاط پر اتفاق کرنا سب کیلئے ضروری ہے تاکہ مغربی بلوچستان پر ایرانی قبضے کے خلاف بیانیہ مشترکہ ہو اور عوام کی عطا کردہ طاقت عوام کے خلاف استعمال نہ ہو باقی تمام چھوٹے بڑے نقاط پر اتفاق کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آسکے گی البتہتہ بی ایل اے سمیت تمام عسکری تنظیموں سے سرزد ہوئی غلطیوں کا احتساب ہونا لازمی ہے تحریک کو نقصان پہنچانے والے تمام کرداروں کا احتساب ہر حال میں ہونا چاہیے اور ایک ایسی کمیٹی بھی تشکیل دینی ہوگی جو قومی نقصانات پر قوم سے رجوع کرکے معافیاں مانگ لے اور پھر اگر کسی پر کوئی بڑا جرم ثابت ہو گیا تو اسے سزا ملنی چاہیے اگر معاف کیا گیا تو معافی بھی ملنی چاہیے لیکن بیس سالہ تمام بُرائیوں اور تحریک دشمن و قوم دشمن اقدامات و رویوں کو منظر عام پر لانا ضروری ہے تاکہ آئیندہ ہر ایک کو اصولوں کا پابند بنایا جا سکے۔
بغیر احتساب ہر اتحاد ناکامی کی طرف جائیگا کیونکہ جب سب الگ الگ تھے تو کوئی کسی کو نہ روک سکا جب سب ایک ہوجاہینگے تو کوئی کسی کو نہیں پوچھے گا اس لیئے ضروری ہے کہ اتحاد کیلئے سب سے پہلے سیاسی قیادت آگے آئے اور سیاسی قیادت ہی احتسابی کمیٹی تشکیل دے کر سب کو احتساب کے مرحلے سے گزار کر اتحاد کا حصہ بنالے وگر اپنا وقت اور قوم کی قربانیوں کو ضائع نہ کیا جائے۔ دشمن نے بلوچستان کی طول و ارض میں اپنے پنجے گھاڈ دیئے ہیں دشمن کو پسپا کرنے اور تحریک کو کامیاب بنانے کیلئے تمام پیچیدہ مسائل اور مشکل معاملات کا واحد حل اتّحاد ہے اور اتّحاد کا واحد حل احتساب ہے۔