لندن (ہمگام نیوز) فری بلوچستان موومنٹ کے ترجمان نے اپنی جاری کردہ بیان میں بیان میں کہا ہے کہ مقبوضہ بلوچستان میں گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے ہونے والی سرگرمیوں کے دوران کراچی کے اندر نہتے خواتین و بچوں پر قابض پاکستانی پولیس اور نیم فوجی دستوں کی جبر و استبداد ہمارے اور اُنکے درمیان موجود رشتے کی لکیر کو مزید واضح کررہی ہے کہ قابض ریاستیں ہمیشہ اپنی مقبوضہ قوموں پر جبر کی پہاڑ توڑ دیتی ہیں تاکہ انکے اندر موجود الگ قومی پہچان و سیاسی شعور کو تشدد کے زور سے ختم کرکے انہیں اپنی قومی بنیادوں سے بیگانہ کیا جاسکے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ دنیا بھر کے آزادی کی تحاریک ایسے جبر و تشدد کی داستانوں سے عبارت ہیں جہاں کالونئیل طاقتوں نے اپنے مقبوضہ علاقوں میں موجود لوگوں کو نہ صرف خود سے حقیر و کمتر درجے کا سمجھا بلکہ ان کو ہر طرح کی شہری، سیاسی، سماجی و بنیادی حقوق سے محروم رکھا تاکہ اُن نوآبادیاتی علاقوں میں قابض اپنی جاری مظالم کے بنیاد پر ڈر کا ماحول پیدا کرکے عوام کو سیاسی و سماجی سرگرمیوں سے دور رکھ سکے۔

انہوں نےکہا کہ پنجابی قابض آرمی کا رویہ اور بلوچ خواتین و بچوں پر روا رکھے ہوئے جبر و تشدد کا معیار سربین آرمی کی ننگی جارحیت کی یاد دلاتی ہے اور خود پنجابی آرمی کی اُس وقت کی مشرقی پاکستان یعنی بنگلا دیش میں اُنکی منفی کردار کی آثار اب بلوچستان میں دکھائی دی جارہی ہیں جہاں بلوچ خواتین و بچوں سے انکی جائز اور قانونی مطالبات کے لئیے بھی سیاسی اسپیس چھینی جارہی ہے اور ان پر بے جا اور بے پناہ تشدد کے حربے آزمائے جارہے ہیں۔

ایف بی ایم کے ترجمان نے مزید کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ بلوچ سیاسی کارکنان بندر عباس سے لے کر کراچی تک بلوچ زمین کے ہر ایک انچ پر بلوچ قوم کے خلاف روا رکھے ہوئے ظلم و جبر اور تشدد کی پنجابی و فارس قوم کی رویوں اور ننگی جارحیت کو دنیا کے سامنے آشکار کریں اور برطانوی سامراج کے نوآبادیاتی اور غیر فطری سرحدوں کے دونوں اطراف رہنے والے بلوچ عوام اپنے دکھ اور درد کو سانجھا سمجھ کر ایک دوسرے کی دکھ درد اور تکالیف کو اپنا سمجھتے ہوئے اسے دنیا کے سامنے آشکار کرنے کی کوشش کریں۔

بیان میں کہا گیا کہ جس طرح گروہی و پارٹی مفادات کو بنیاد بنا کر متحدہ بلوچستان کی نام لینے سے بلوچ قوم کو ممکنہ نتائج سے ڈرایا جارہا ہے کہ اگر متحدہ بلوچستان کا مطالبہ زور پکڑلے تو بلوچ قوم کی نسل کشی اور جبر و تشدد میں اضافہ ہوجائے گا افسانوی دنیا میں رہنے والے نام نہاد لوگوں کو ہمیشہ یہ عادت رہتی ہے کہ وہ حقیقت سے چشمِ اغماض برت لیتے ہیں وگرنہ سچائی یہ ہے کہ آج ایران و پاکستان دونوں کے اندر بلوچ نسل کشی کی رفتار یکساں ہے۔

ایف بی ایم کے ترجمان نے مزید کہا کہ کراچی جدی پشتی و تاریخی ہر اعتبار سے بلوچ قوم کا مسکن رہا ہے قبضے اور تاریخ کا پرانا ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ لمبے عرصے منقسم اور زیرتسلط رہنے کے بعد کوئی اپنی سرزمین کی دعویداری سے دستبردار ہوجائے، پاکستان کے زیر تسلط دیگر اقوام کی احترام اپنی جگہ لیکن بلوچ اپنی تاریخی زمین سے نہ کبھی دستربردار ہوا ہے اور نہ ہی ہوگا، اگر پشتون و بلوچ سرزمین کی آپس میں تقسیم کو دیکھا جائے تو بلوچ قوم نے ہمیشہ اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ وہ پشتونوں کی تاریخی زمین کے حصوں پر کبھی بھی اپنا حق نہیں جتائے گا بلکہ بلوچ قوم کو جب بھی فیصلہ کا اختیار ملے تو بلوچ قوم پشتونوں کے ساتھ ملکر انگریز سامراج کی پیدا کردہ سرحدی قضیے کا تصفیہ کرنے کی پر خلوص کوششیں کرے گا، بلوچوں کی نیک نیتی سے سبق سیکھتے ہوئے پاکستانی زیر تسلط دوسرے اقوام کو بھی بلوچوں کی تاریخی سرزمین پر انکی حق ملکیت کو تسلیم کرنا چاہئیے، محض تاریخ پرانی ہونے کہ بنا پر بلوچ قوم مائی کلاچی ( کراچی ) کی حق ملکیت سے کبھی بھی دست بردار نہیں ہوسکتی، اگر یہی روایت جڑ پکڑ لے تو وہ دن دور نہیں کہ پاکستانی قبضے کو بھی اسی بنیاد پر تسلیم کیا جائے کہ اب وہ پاکستانی قبضے والی بات تاریخ کے پنوں میں پرانی ہوچکی ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ بلوچ قوم آج جس طرح پنجابی و فارس نوآبادی طاقتوں کے جبر و تشدد کے سایے میں جی رہی ہے اور قومی نسل کشی سمیت گمشدہ پیاروں کی تکلیف کو سہہ رہی ہے ان تمام دکھوں کا مداواہ متحدہ بلوچستان کی آزادی کی شکل میں ہی ممکن ہے جہاں برطانوں سامراج کی کھینچی گئی غیر فطری سرحدی لکیروں کو مٹاتے ہوئے پورے بلوچستان کی سرزمین کو ایک اکائی اور آزاد حیثیت میں دنیا کے سامنے متعارف کروایا جائے۔