یہ غالباً 2007 کا سرما تھا، جب بی ایس او آزاد کے ایک سینئر رہنما سے ملاقات کے دوران میں نے بی ایس او کے مرکزی عہدوں پر تعینات کئی ذمہ داروں کے صلاحیت و اہلیت پر شدید نکتہ چینی کرکے خاص طور پر اس سے وضاحت طلب کی تھی کہ مرکزی کمیٹی کے دو خواتین ارکان کو قابلیت و اہلیت کے کس معیار پر پرکھ کر مرکزی کمیٹی جیسے ذمہ دار ادارے تک رسائی دی گئی ، اس وقت شنید یہی تھی کہ ان کے چناو میں صلاحیتوں کے بجائے اس وقت اسیری کی زندگی گذارنے والے شہید غفار لانگو اور استاد واحد قمبر کی رشتہ داری تھی ، جن میں سے اول الذکر فریدہ بلوچ شہید غفار لانگو کی کزن اور آخر الذکر کریمہ بلوچ استاد واحد قمبر کی بھتیجی تھی ، دونوں کوئی بھی قابلِ الذکر کردار ادا کیئے بغیر اس وقت کی متحرک ترین تنظیم کے مرکزی کمیٹی کا حصہ بن گئے تھے۔
اس سوال پر مجھے یہ جواب ملا کہ” ہمارا مقصد بلوچ خواتین کو اس جدوجہد میں برابری کے بنیاد پر موقع دینا ہے اور انکی حوصلہ افزائی کرنی ہے تاکہ انکی شرکت زیادہ سے زیادہ ہو اور کریمہ و فریدہ بلوچ کو مرکزی عہدوں پر بٹھانے کا واحد جواز یہی ہے ” سینئر لیڈر کے ان باتوں پر راقم الحروف کا یہ موقف تھا کہ ” بالکل بلوچ خواتین کو برابری کے ساتھ بلا امتیاز موقع ملنا چاہئے لیکن صلاحیتوں کو بالائے طاق رکھ کر اگر صرف خاتون ہونے کے ناطے ہم کسی کو استثنیٰ دیکر ذمہ داری دینگے تو یہ نا خواتین کے ساتھ برابری و انصاف ہوا اور نا ہی یہ تحریک کے ساتھ انصاف ہوگا ، اگر کل کو اسی امتیاز کو استعمال کرتے ہوئے محترمہ انتہائی ذمہ دار عہدے تک پہنچ گئیں پھر انکے صلاحیتوں کا پول کھل جائے گا اور نا صرف تنظیم بلکہ تحریک ایک بحران کا شکار ہوجائے گا”
اس واقعے کے چند ماہ بعد ہی اخباروں میں ایک بیان نظر سے گذرا جس میں کریمہ بلوچ کے ایک تقریر کا حوالہ تھا جو انہوں نے بلوچستان کے علاقے خضدار کے گرلز ڈگری کالج میں دی تھی ، انہوں نے براہوی اور بلوچی زبان کے حوالے سے کہا تھا کہ ” براہوی آنے والے کچھ وقتوں میں بلوچی میں مدغم ہوکر ختم ہوجائے گی ” کریمہ بلوچ کے اس تقریر پر کافی احتجاج اور نکتہ چینی ہوئی تھی ، انکے تاریخ شناسائی، بلوچ قوم کے مختلف زبانوں کے بارے میں فاشسٹ رائے پر براہوئی زبان کے ادبی حلقوں میں کافی نکتہ چینی ہوئی تھی ، یہاں تک شنید میں آیا کہ کچھ خواتین احتجاجاً اس سیمینار سے اٹھ گئے تھے ، یاد رہے کہ بلوچ ایک کثیر السانی قوم ہے بلوچی کے بعد براہوی اسکی سب سے بڑی زبان ہے جس کے بعد لاسی ، کیتھرانی ، دہواری وغیرہ آتے ہیں۔ اسی نقطے کو لیکر جب دوبارہ راقم نے اسی سینئر لیڈر سے استفسار کیا کہ صلاحیتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اگر ذمہ داریاں بانٹی جائیں گی تو ایسے حساس مسئلے مزید سر اٹھاتے جائیں گی ، یہ نا اہلی کی ایک سادہ سی مثال ہے جو ایک نہایت مہلک شکل اختیار کرسکتی ہے، تو موصوف بس اتنا ہی کہہ سکا کہ ” ہمیں کچھ مزید وقت دینا چاہئے شاید یہ سیکھ جائیں انکے میڈیا میں آنے سے ہمیں کافی فائدہ ہوگا اور ہمارا سیکیولر چہرہ دنیا کے سامنے آئے گا “
انقلابی تحریکوں کے دوران معمول کے حالات نہیں ہوتے ، ہر آن حالات اور حالات کے مطابق تقاضے و ضروریات بدلتے رہتے ہیں ، ان غیر معمولی حالات میں قائدانہ صلاحیت ، اہلیت اور لیاقت کے مالک لیڈروں کی ضرورت ہوتی ہے جو پر کٹھن اور پیچیدہ حالات میں صورتحال پرکھ کر غیر معمولی فیصلے لے سکے اور قوم کو راہ دِکھاسکے ، لیکن بلوچ طلباء سیاست کو ایک طرف لابینگ کی صورت میں ایک موذی مرض لاحق رہی ہے جس کی وجہ سے اہلیت کے بجائے چالبازی کی مدد سے ذمہ داریاں نصیب ہوتی رہی ہیں اور دوسری طرف ذاتی تعلقداری یا خاص امتیاز کی وجہ سے نا اہل قیادت سامنے آتی رہی ہے جس کی ایک مثال بانک کریمہ بلوچ ہیں ، مرکزی کمیٹی کے رکن کے حیثیت سے کریمہ بلوچ کم و بیش تین سال ذمہ داری پر براجمان رہنے کے باوجود اس عرصے میں کوئی بھی قابلِ ذکر کام سر انجام نہیں دے سکی اور نا ہی تین سال کے اس عرصے میں محترمہ اپنے اندر سیاسی شعور و بالغ پن پیدا کرسکی لیکن اسکے باوجود بی ایس او آزاد کے 2009 کے کونسل سیشن میں محترمہ نے الیکشن کے دوران جونیئر وائس چیئرپرسن شپ کیلئے کاغذاتِ نامزدگی جمع کردیئے ، اس کونسل سیشن میں بی ایس او آزاد دو لابیوں میں تقسیم تھی اور چیئرمین شپ سے لیکر مرکزی کمیٹی کے ہر ایک عہدے پر دونوں لابیوں میں کانٹے کا مقابلہ تھا لیکن حیران کن طور پر جونیئر وائس چیئرپرسن کے اہم عہدے پر بانک کریمہ کے مقابلے میں کسی نے بھی کاغذات جمع نہیں کیئے اور محترمہ اپنے گذشتہ دور کے خراب ترین کارکردگی کے باوجود صرف خاتون ہونے کے بنا پر جونیئر چیئر پرسن کے اہم عہدے پر بلا مقابلہ منتخب ہوگئی اور دوسری طرف فریدہ بلوچ بی ایل ایف کے ایک سینئر کمانڈر سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوکر ہمیشہ کیلئے سیاست کو خیرباد کہہ گئی۔
آنے والا وقت بی ایس او آزاد پر بہت گراں گذرنے والا تھا ، دشمن پاکستان کی طرف سے کارکنوں اور لیڈروں کو اغواء کرکے شہید کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا ، بی ایس او آزاد کے چیئر مین بشیرزیب بلوچ مکمل روپوش ہوگئے تھے اور سینئر وائس چیئرمین ذاکر مجید بلوچ خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغواء ہوگئے اور اس ہنگامی حالت میں بی ایس او آزاد جونیئر وائس چیئر پرسن ہونے کے ناطے بانک کریمہ کے ہاتھوں میں آگئی۔ میں نے کریمہ بلوچ کے ایک دیرینہ سیاسی رفیق سے دریافت کیا کہ ” جب ریاست بی ایس او آزاد کے کارکنوں کو چن چن کر مار رہا تھا تب کریمہ بلوچ کیا کررہی تھی ؟ ” بغیر توقف کو وہ بولنے لگا ” وہی کررہی تھی جس خاطر انہیں بی ایس او آزاد کی اتنی بڑی ذمہ داری دی گئی تھی ، اس پرکٹھن وقت میں انکو کچھ سجھائی نہیں دیتی تھی کہ کیا کِیا جائے ، محترمہ شروع سے ہی تنظیمی امور کے صلاحیتوں سے خالی تھیں ، انکا سیاسی ادراک کسی ادنیٰ رہنما کے بھی شایانِ شان نہیں تھے ، انہیں تو شامل صرف دنیا کو اور میڈیا کو دِکھانے کیلئے کیا گیا تھا ، یہی ایک کام انکو آتا تھا سو وہ یہی کرتی رہی یہاں لاشیں گرتی تھی وہاں محترمہ کسی احتجاج یا جلوس کے سامنے بلوچی کپڑے پہنے ، محض سبز آنکھوں کو عیا ں کرتے ہوئے ہاتھ میں جھنڈا لیئے سامنے سامنے چلتی اور کسی کیمرہ کے سامنے رک جاتی “۔
بی ایس او آزاد کے سابق چیئرمین سے 2012 کے کونسل سیشن سے پہلے میں نے ایک بار دریافت کیا کہ ” طلباء سیاست کیلئے حالات بالکل سازگار نہیں ، اب ان حالات میں اگلہ چیئرمین کون آئیگا ” انہوں نے کہا کہ ” میرا مشورہ زاہد بلوچ کا ہے لیکن زاہد کہتا ہے کہ اگر کریمہ نے چیئرپرسن شپ کیلئے کاغذات جمع کردیئے تو پھر میں ان سے مقابلہ نہیں کروں گا ” میں صرف یہی سوچ رہا تھا کہ یہ بلوچ سیاست کس طرف جارہی ہے ، کیا اتنے ذمہ دار عہدے کو لحاظ ، خاطر اور احترام کے نظر کردیا جائے گا ، کچھ وقت بعد اسی تقدیس اور امتیاز کے تحت بانک کریمہ بلا مقابلہ سینئر وائس چیئرپرسن بن گئی خوش قسمتی یہ تھی کہ انہوں نے خود ہی شاید اپنے صلاحیتیوں کا ادراک رکھتے ہوئے چیئرپرسن شپ کیلئے کاغذات جمع نہیں کیئے ورنہ یہ بھی انکے لیئے مشکل نا تھا ، لیکن کیا اتنا بڑا عہدہ و ذمہ داری ایک ایسے شخص چاہے وہ خاتون ہی کیوں نا ہو کو دیا جاسکتا ہے جس کی ماضی کی کارکردگی تنظیم کو ناکامیوں کی طرف دھکیلتی رہی اورانکا وجود ایک تاثر اور پروپگینڈہ ٹول کے حد تک ہی رہی۔
’’ 2012 ایک مشکل دور تھا ایک طرف ریاستی بربریت عروج پر تھا اور دوسری طرف ڈاکٹر اللہ نظر نے بلوچ نیشنل موومنٹ کے بعد بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی آزاد و غیر جانبدار حیثیت ختم کرکے اپنے خفیہ لابینگ سے انہیں بلوچستان لبریشن فرنٹ کا پاکٹ آرگنائزیشن بنادیا ، بی ایس او آزاد کو قابو میں رکھنے کیلئے انہیں کچھ بااعتماد لوگوں کی ضرورت تھی ، ایسے حالت میں بانک کریمہ ایک بہترین چناو تھی جو ایک طرف سے میڈیا شہرت رکھتے تھے دوسری طرف سے وہ بی ایل ایف کے کمانڈر واحد قمبر کی بھتیجی تھی اور اس پر طرہ انکا سیاسی شعوری سطح سوال اٹھانے کے بجائے تعمیل کرنے تک موقوف تھا اس لیئے بدترین کارکردگی کے باوجود انکا وائس چیئرپرسن بن جانا کوئی انوکھی بات نہیں ” یہ بات بی ایس او آزاد کے مرکزی کمیٹی کے ایک سابق رکن نے کہا جو ان 10 مرکزی ارکان میں سے ایک ہے جنہوں نے ڈاکٹر اللہ نظر کا بی ایس او آزاد میں مداخلت اور بانک کریمہ کی من مانی کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا۔
2014 میں بی ایس او آزاد کے چیئرمین زاہد بلوچ کابینہ کے ایک اجلاس کے دوران بانک کریمہ اور کابینہ کے دیگر ممبران کی موجودگی میں خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغوا ہوجاتے ہیں اور حیرت ناک طور پر کریمہ بلوچ سمیت باقی کابینہ کے ممبران محفوظ رہتی ہیں ، جس پر زاہد بلوچ کے بھائی اور بی ایس او آزاد کے سابق زونل صدر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے کریمہ بلوچ سمیت باقی کابینہ ارکان کے کردار پر سوال اٹھاتا ہے لیکن اس واقعے کے بعد کریمہ بلوچ تنظیم کا چیئرمین بن کر اسکے مختار کل بن جاتے ہیں ، انکے چیئرپرسن بنتے ہی تنظیم کا دیرینہ موقف اور ڈھنگ مکمل بدل جاتا ہے ، گراونڈ سے تنظیم روز بروز ختم ہوکر محض میڈیا کی زینت بن جاتا ہے ، بلوچ آزادی پسند دیگر جماعتوں کے بجائے بی ایس او آزاد کے مراسم پاکستان پرست میڈیا سیشن سوشلسٹ انقلابیوں سے بن جاتے ہیں ، اور کریمہ بلوچ ایک ایسے مقبول میڈیا شخصیت کے طور پرابھرکر سامنے آتے ہیں جو ایک طلباء رہنما ہونے کے باوجود بلوچ طلباء میں غیر مانوس اور میڈیا میں مقبول بن جاتی ہیں۔ ایک سیاسی رفیق کہتا ہے ” وہ پسماندہ بلوچ سماج سے تعلق رکھتی ہے ، ایک خاتون ہیں ، اسکے نام کے ساتھ ایک ایسے تنظیم کے چیئر پرسن ہونے کا سابقہ لگا ہوا ہے جس نے گذشتہ ادوار میں ریاست کو تنگ کرکے رکھا ہوا تھا ، میڈیا کو اس سے بہتر کوئی اسٹوری نہیں مل سکتی تھی لہٰذا ایک ایسا وقت شروع ہوگیا کہ کریمہ بلوچ کا امیج روز بروز میڈیا میں مضبوط ہوتا گیا اور بی ایس او آزاد گراونڈ سے روز بروز ختم ہوتی گئی “
کریمہ بلوچ کے دور اقتدار میں بی ایس او آزاد تقریباً بلوچستان کے تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں سے ختم ہوچکی ہے ، اسکی سب سے بڑی وجہ محترمہ کی ناپید قائدانہ صلاحیتیں اور بی ایس او آزاد کو زبردستی ایک مسلح تنظیم بی ایل ایف کا پاکٹ بنانے کی کوششیں ہیں ، اس صورتحال پر بی ایس او آزاد کے ایک اور ناراض مرکزی ممبر سے میں نے جب پوچھا کہ چیئرپرسن بننے کے بعد انہوں نے کریمہ بلوچ کو کیسا پایا، تو موصوف کے جواب نے مجھے مزید پریشان کردیا ” کریمہ بلوچ قائدانہ صلاحیتیوں اور تنظیم چلانے کے ہنر سے کوسوں دور ہیں ، وہ معمولی معمولی فیصلوں میں بھی اللہ نظر کی طرف دیکھتے ہیں ، انکے صلاحیتوں کا معیار یہ ہے کہ تنظیم کا چیئرپرسن ہونے کے باوجود گذشتہ چار سالوں میں وہ مکران سے باہر صرف کراچی اور کوئٹہ تک کو ہی دیکھ سکی ہیں باقی پورے بلوچستان میں بی ایس او کے زون کجا اب کارکن تک نہیں ہیں ، محترمہ اپنے کالم کسی اور سے لکھواتی ہیں، انکے ٹویٹ تک بیرون ملک مقیم ایک اور بلوچ لڑکی لکھتی ہے ، اور ان کو سہارا دینے کیلئے اپنے کیمپوں کے قریب ڈاکٹر اللہ نظر جلسے منعقد کراکے اسے تقریریں کرواکے زندہ رکھتی ہے ، لیکن انہیں میڈیا اور خبروں میں رہنے کا ہنر آتا ہے ، پاکستانی سوشلسٹوں سے مراسم کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کے ذریعے سے انہیں ایسے سیمیناروں میں شرکت کا موقع ملتا ہے جہاں میڈیا کوریج ہوتی ہے ، وہ اکثر صحافیوں کے نمبر لیتی رہتی ہیں ، یہی انکی واحد صلاحیت ہے یعنی ایک میڈیا تاثر دینا سو وہ بخوبی سر انجام دے رہی ہے اور بی ایس او آزاد کو میڈیا کی حد تک زندہ رکھنے کی بہت کوشش کررہی ہے ، تنظیمی صلاحیتیں نا شروع دن سے ان میں موجود تھیں نا آج ہیں “
کریمہ بلوچ کے میڈیا میں رہنے کے انہی صلاحیتوں کا ثبوت ہمیں ایک ہسپانوی صحافی کارلوس زرتوزوا کے آرٹیکل میں ملتا ہے ، جہاں موصوف بی ایس او آزاد کے حقیقی حالت اور کریمہ بلوچ کے صلاحیتوں سے مکمل بے خبر محض محترمہ کے میڈیا شخصیت سے متاثر ہوکر انہیں بلوچ قومی تحریک کا چہرہ قرار دیتے ہیں ، جہاں انٹرویو میں کریمہ بلوچ اپنے ذات کے بارے میں مبالغہ کرتے ہوئے نظر آتی ہیں کہ وہ نقاب اس لیئے کرتی ہیں کیونکہ انکے جان کو خطرہ ہے اور نقاب سے انہیں کوئی پہچان نہیں پاتا ، لیکن کارلوس اگر بلوچستان کے حالات سے باخبر ہوتی تو وہ ضرور کریمہ بلوچ سے پوچھتا کہ اگر آپ کے جان کو خطرہ ہے تو پھر زاہد بلوچ کے اغواء کے وقت آپ اسکے ساتھ ہی تھیں وہیں آپکو کیوں نقصان نہیں دیا گیا اور ہروقت کراچی میں آزادانہ کھلم کھلا گھومنے کے دوران آپکو کیوں نقصان نہیں دیا جاتا، لیکن ایک نہتی بہادر لڑکی کا امیج میڈیا میں بہت بکتا ہے۔
کارلوس زرتوزوا جیسا عالمی سطح کا صحافی ہو یا کوئی مقامی صحافی انکو بلوچ سیاست میں کسی کے مقام کے تعین سے پہلے بلوچ سیاست کے حقیقی صورتحال سے آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے ، جہاں کریمہ بلوچ کو اس تحریک کے رہنما کی حیثیت سے روشناس کرانا مقصود ہو تو ان حقائق پر توجہ ضروری ہے کہ کریمہ بلوچ بی ایس او کی تاریخ کی واحد شخصیت ہیں جو ہر الیکشن میں حتیٰ کے چیئرپرسن شپ تک بغیر مقابلے کے آگے بڑھتی گئی ، کریمہ بلوچ ایک غیر آئینی کونسل سیشن کے تحت وائس چیئرپرسن بنی ہیں انکے گذشتہ 3 سالہ دور میں بی ایس او آزاد کے 10 رکنی مرکزی کمیٹی سے 10 ارکان محض انکے پالیسیوں سے اختلافات کے بنا پر تنظیم سے مستعفی ہوئے ہیں جن میں اسی تنظیم کا مرکزی ترجمان بھی شامل ہے ، انہی اختلافات کی وجہ سے بی ایس او آزاد کے آدھے زیادہ زون اور اکثریتی کارکن تنظیم سے مستعفی ہوچکے ہیں جن میں سے کئی اب آزاد حیثیت سے بی ایس او آزاد کو اپنے طور چلا رہے ہیں اور بانک کریمہ سمیت موجودہ مرکز کو تسلیم نہیں کرتے ، انہی کے دور میں بی ایس او آزاد ایک مسلح تنظیم کا باجگزار بنادیا گیا اور اس وقت تنظیم صرف انکی نااہلی کی وجہ سے 80 فیصد بلوچستان میں ختم ہوچکی ہے ، بلوچ سیاسی حلقوں میں انہیں آج سے ہی بی ایس او آزاد کے نااہل ترین چیئرپرسن کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔
حقیقی صلاحیتیوں سے پہلو تہی کرکے محض ایک سطحی خیال اور میڈیا امیج کے تحت قیادت کے چناو سے جو منفی اثرات کسی تحریک یا تنظیم پر پڑسکتی ہیں انکا منہ بولتا ثبوت آج بی ایس او آزاد ہے ، کیونکہ ایک غلط شخص کے ہاتھوں اختیار آنے سے جتنا نقصان مل سکتا ہے وہ سالوں کے شبینہ روز محنتوں پر پانی پھیر سکتا ہے ، آج بلوچ سیاست خاص طور پر طلباء سے وقت یہ تقاضہ کررہا ہے کہ وہ اپنے صفوں میں جھانک کر ایک مخلص اور باصلاحیت قیادت کو سامنے لائیں ، محض میڈیا امیج پر اکتفاء کرنے سے انکے نام بیرونی ممالک کے اخباروں میں تو آسکتے ہیں لیکن وہ اپنے ذمین میں بیگانے ہوجاتے ہیں۔