مجھے یاد ہے سکول کے زمانے میں جب میں شعوری باتیں کرتا تو گھر میں ایک ہلچل مچ جاتی ۔۔۔۔۔۔۔ یہ باتیں اس لئے میرے لکھے پڑھے والد محترم و گھر کے دیگر لوگوں کو تشویش ناک محسوس ہوتی تھیں کیونکہ میں اپنے ہم جماعت دوستوں سے الگ سوچتا اور باعمل رہتاہوں۔ گھر کی دہلیز کو خیرباد کہہ کر دور بھی نہیں جا سکتا تھا جبکہ ایسا کوئی ہم خیال دوست بھی نہیں تھا جسے میں اپنی مشکلات کے بارے میں آگاہ کرتا اور وہ مجھے حوصلہ دیتا، کہ تبدیلی، شعور و آگاہی ایک تسلسل کا نام ہے۔ اسے روکنے والے بھی روک نہیں سکتے! ہاں! ایک جگری دوست تھا، لیکن وہ تو آدھے راستے میں بنا بتائے الگ ہوا جس کا دکھ مجھے زندگی بھر رہے گا، مگر اس کی جدائی کی وجہ میری ذات سے نہیں بلکہ میرے باغی خیالات سے تھے۔ اس کے بارے میں آج بھی میں زبان پہ گلہ شکوہ نہیں رکھتا مگر ایک بات کا اسے پیغام بھیجتا رہا کہ میں اپنی تنہا ہمت و خود حوصلہ افزاء خیالات سے ضرور شعور و آگاہی کے نام قدمیں آگے بڑھاتا رہوں گا۔ یہ پیغام اسے ملے ہیں یا نہیں، مگر مجھے اس بات کا انتظار نہیں ہے۔ اکیلے قدم بڑھانا بہت مشکل تھا اور کبھی ہاتھ سر پہ رکھ کر خود کو کوستا تھا کہ جو کچھ میں کرنے جا رہا ہوں وہ کیا ممکن ہے؟ اُن لمحوں کی نحوست مجھے مایوس ہونے پر اکساتا تھا مگر ایک انا ایک باہمت حوصلہ کہ تاریخ تو مشکل سے بنتا ہے تاریخ بنانا مشکل ہے اور تاریخ تو سو سال کے بعد بھی بنتا ہے مگر تم ایک مختصر مسافت کا تہیاکیے ہوئے ہو اس لئے تم تاریخ بنانے والوں کی صفوں میں نہیں ہو بلکہ ایک کوشش کے نام کچھ قدمیں اور آگے بڑھاتے رہو، در در، گلی گلی، کوچہ کوچہ دلیل و استدلال سے باتیں کرتا، کوئی نہیں سنتا، پھر خود کو تسلی دیتا کہ انسانی ذہن پر مہر نہیں لگ سکتا ہے، بلکہ مشکلات کا سامنا کرنا، مزید ہمت و صحت مند جستجو کے ساتھ چیزوں کو پرکھنے کا فن پیدا کرو، یہ تمام باتیں زہن کو سُن کرنے والی خالی خولی تسلیاں لگتی تھیں، پھر تنہائی کے آغوش مجھے دھر لیتے تھے خود کو تنہا محسوس کرنا، کوئی نہیں ہے یہاں اکیلے پرچار کرتے رہو گے۔ یہ باتیں اتنی بار ستانے لگتیں کہ ایک حل کی طرف سوچھنے یا ایک حل کو پانے کی بجائے اب قدم آگے بڑھانے کے جذبات بھی تھم کر مجھ پر ایک بے زاری طاری کردیتے جزبات کو بھڑکانے والے تمام فن بے کار ہوتے، اب راسکوہ کی بلند چوٹی ہی ہمت کو حوصلہ دے، مگر اٹھتی دھول کے جھونکوں کے ساتھ اپنی مٹی بھی بے وفا و بیگانہ لگتی تھی۔ ایک ہی خود کو تسلی دینے کا فن کہ جب سرشام ہوتی تھی تو میں کلان کی ندی کے بلند لٹ پر بیٹھ کر اپنے شہر کی ان جھلملاتی روشنوں کو دیکھتا تھا، جو بے خودی سے ان لوگوں پر جھلملا رہے تھے کہ میں سمجھتا یہاں تمام بے حس اور غور فکر سے کوسوں دور ہیں، پھر میں سوچتا تھا کہ ان کو جگانا اور خاموش اکثریت کو آگاہ کرنا میرا کام ہے، یہی کام یہی عمل، یہی سوچ ہےجو اتنی ساری کیفیتوں کا بوجھ میرے ناتواں کندھوں پر بھاری ہے کچھ راتیں ایسی تھیں کہ شہر کے چراغاں سرشام بج جاتے تھے یا کچھ راتیں ایسی دھیمی ہوتی تھیں کہ ان کی کمزور روشنی میرے حوصلوں پر حملہ آور ہونے جیسے بھاری محسوس ہوتے،۔۔۔۔۔ دیر تک انہی مناظر کا نظارہ کر کے آنے والے وقت کا تجزیہ کرتا خود سے سینکڑوں سوالات کرتا کہ وہ دن بھی آئے گا کہ یہاں کے نوجوان شعور و آگاہی کے ہتھیار سے لیس ہوں گے ان سوالات کے جواب ادھورے ہی رہ جاتے کہ بہت جلد زہن ہر تھکاوٹ کا احساس مجھے کچھ نہ ہونے والا ہے کی سوچ کے ساتھ میں گھر کی طرف پلٹ جاتا۔ واپس جاتے ہمارے محلہ کے گھروں کی چمنیوں سے دھواں تو نکلتا تھا مگر روشنیاں سرے سے ہی نظر نہیں آتی تھیں۔۔۔۔اندازاً چمنیوں کے دھواں ظاہر کرتے کہ لوگ تو یہاں رہتے ہیں مگر اندھیروں کی لپیٹ میں ہیں، جب پیچھے مڑ کر شہر کی طرف دیکھتا تو لڑکڑاتے حوصلے پھر سے زندہ رہتے، اب بھی میں سوچتا ہوں کیسا ہے میرا شہر؟ کلان کی گلیاں؟ وہ عشق بازیاں، وہ محبوبہ، وہ میدان جہاں ہم کھیلتے کودتے، اپنوں کے ساتھ تھے، سب اپنے تھے، مگر شعورو آگاہی کی مہم جوئی ہمیں شہر سے دور بہت دور لے گئی، مگر اب بھی سنا ہے شہر کے اوپر چراغ جھلملا رہے ہیں، اب بھی سرشام لڑکے شہر کے اوپر جھلملاتے چراغاں کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں!!!