کل عید ہے، عید خوشیاں منانے کا دن ہے؛ اپنوں سے، اپنے پیاروں سے گل ملنے ملانے کا دن!!۔ مگر کیا ہے کہ یہاں سے خوشیاں، عید کی پرچھائیاں کب کی رخصت ہوگئی ہیں۔ ہمارے لوگ خوشی کا نام تک بھول گئے۔ انہیں غموں کی تہہ درتہہ کھائیوں میں یوں دھکیلا گیا ہے کہ اب ہمیں مسرت اور شادمانی کا لمس تک محسوس نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں غموں، المیوں، افسوس، تکالیف اور دکھوں کی کہانیاں ہیں؛ اَن گنت کہانیاں جنہیں ہم روز سنتے ہیں، ہروقت دیکھتے ہیں اور لمحہ بہ لمحہ محسوس کرتے ہیں۔ کیوں کہ اب ہم ان سے جڑے ہیں۔ یہ انہی میں سے کچھ کہانیاں ہیں، جنہیں عید کے دن کے لیے، آیئے سنتے ہیں۔ کہانی گو سنا رہا تھا کہ کسی زمانے میں، ہزاروں برس قبل جب تہذیبِ انسانی محض ایک خواب تھا، انسانیت سے ناواقفیت تھی، انسان اور درندے ایک جیسے تھے، اسی زمانے کی بات ہے کہیں ایک پیر مرد اپنے چند نواسے نواسیوں کے ہم راہ اس لیے پیدل پا عازمِ سفر ہوا کہ اس کے کچھ عزیز غائب ہوئے تھے۔ غائب ہوئے نہیں تھے بلکہ کر دیے گئے تھے۔ کہانی گو نے وضاحت کی تاکہ سننے والوں کو الجھن نہ رہے۔ تو پیر مرد کئی مہینوں کے سفر پر نکلا۔ ہزاروں کلو میٹر چلتا رہا، دیکھتا رہا۔ ” کیا اسے معلوم تھا کہ اس کے گم کردہ عزیز کہیں ہیں اور وہ ان کی تلاش میں سفر کر رہا تھا؟” اچانک کسی نے پوچھ لیا۔ “نہیں، اسے یہ تو نہیں معلوم تھا مگر اس نے سن رکھا تھا کہ کہیں ایک بستی ایسی ہے جہاں انسان رہتے ہیں، وہ انسانوں کے غم گسار ہیں اور انسانوں سے ہم دردی رکھتے ہیں، پیر مرد اسی بستی کی جانب جا رہا تھا۔” داستان گو نے پھر وضاحت کی۔ “پیر مرد اور ان کے نواسے نواسیاں پہاڑوں پہ، چٹیل میدانوں میں، جنگل بیابانوں میں روز و شب چلتے رہے۔ وہ تھکے مگر رکے نہیں۔ انہیں اس بستی کی تلاش تھی، جہاں انسانیت کا شائبہ تھا۔ ان کے پیر چھلنی ہوگئے، پیروں میں آبلے پڑ گئے، جن پتھروں پہ وہ اور ان کی نواسیاں گزرتی گئیں ان کے زخم زدہ پاؤں کے نشانات اور خون کے چھینٹے وہاں پیوست ہوتے گئے، زخموں کے نشان سڑکوں پر پھیلتے گئے، پیروں سے نکلتے تازہ خون کے دھبے نقش بناتے گئے…..” اچانک کسی نے زوردار چیخ ماری…. کہانی گو کہتے کہتے رک گیا۔ وہ شخص نم دیدہ کہہ رہا تھا کہ، “یہ تو ہماری کہانی ہے، خون کے ایسے دھبے شال سے جھالاوان تک پھر وہاں سے دور دور تک آج بھی دِکھتے ہیں، وہی پاؤں کے نشانات، وہی خون کے دھبے، یہ ہماری ہی کہانی ہو سکتی ہے….” مگر کہانی گو مصر رہا کہ یہ قبل از تہذیب کی کہانی ہے۔ ” تو، پو پھٹنے میں اب بھی کچھ لمحے باقی تھے۔ پوری بستی گہری نیند میں تھی۔ اچانک کہیں سے کچھ لوگ آئے۔ بستی کو گھیر لیا اور بوڑھی خاتون کے سامنے اس کے جواں سال بیٹے کو ہاتھ پاؤں میں بیڑیاں اور آنکھوں پر سیاہ پٹی ڈال کر لے گئے۔ جاتے جاتے بوڑھی عورت کے جھونپڑی نما مسکن کو جلا دیا۔ سورج نکلنے تک جھونپڑی جل چکی تھی اور اب اس کی راکھ باقی تھی جس کی تپش سے انسان جل سکتے تھے۔ شام تک جھونپڑی کی راکھ کی تپش بھی اپنی زندگی کی بازی بھی ہار گئی۔ تب بوڑھی خاتون کو یقین آ گیا کہ اب اس کے سونے کے لیے گھر نہیں رہا۔ اس لیے وہ نواسوں کو لے کر شام سے پہلے خدا جانے کہا چلی گئی…. کئی سال گزر گئے، جلتی جھونپڑی کے کچھ نشانات اب بھی باقی ہیں۔” رات گہری ہوتی جا رہی تھی۔ کہانی گو نے کل ایک اور کہانی کا کہہ کر سننے والوں کو الوداع کہا کہ رات کو باؤلے کتے گائوں میں پھیل جاتے ہیں۔ ایک ماں خواب میں دیکھ رہی تھی کہ کہیں سے ایک خونی درندہ آیا اور اس کے پاؤں کی آخری انگلی زور سے کاٹ لی، وہاں سے خون پہلے نکل آیا، درد بعد میں محسوس ہوا۔ اچانک ایک بلند چیخ مارتی ہوئی، ماں نیند سے اٹھ بیٹھی۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ کچھ برا خواب دیکھ رہی تھی۔ لیکن اسے پاؤں میں درندے کے کاٹنے کا درد اب بھی ہو رہا تھا۔ وہ حیران اس لیے نہیں ہوئی کہ ایسے دردناک اور بھیانک خواب وہ کب سے دیکھ رہی تھی، یہ خود اسے بھی معلوم نہ تھی۔ وہ پاؤں پر ہاتھ پھیر کر درد سہلا رہی تھی کہ اچانک کہیں دور سے عورتوں اور بچوں کی چیخیں سنائی دیں۔ سر اٹھا کر اس نے دیکھا کہ قریب کی بستی سے آگ کے سرکش شعلے نظر آئے۔ اب صبح ہونے میں کچھ وقت باقی تھا۔ اس نے قریب پڑے اپنے دونوں بچوں کو دیکھا، جو کھلے آسمان تلے بظاہر سورہے تھے مگر ماں کو محسوس ہوا کہ وہ سو نہیں رہے۔ “کل عید ہے…..” اس خیال سے اس کے آنسو نکل آئے۔