کوہلو ( ہمگام نیوز) اسلام آباد میں بلوچ نسل کشی کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے سے اظہار یکجہتی کے طور پر بلوچستان میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، آج پنجاب اور بلوچستان کے دیگر شہروں کی طرح ضلع کوہلو میں بھی بلوچ ایکجہتی کمیٹی کے مرکزی کال پر احتجاجی ریلی نکالی گئی، ریلی بینک چوک سے برآمد ہوئی جو مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے ٹریفک چوک میں مظاہرے کی شکل اختیار کر گئے۔

ریلی میں سیاسی و سماجی کارکنان سمیت نوجوانوں کی کثیر تعداد شریک تھے، شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے سیاسی و سماجی رہنماء میر نعمت مری، وڈیرہ اشرف مری، مرزا غالب مری، کریم شاہجہ مری، ظفر مری، اعلی مری، حفیظ مری، عطاء اللہ مری، مولا بخش مری و دیگر کا کہنا تھا کہ ریاست اسلام آباد میں بیٹھی لاپتہ افراد کے لواحقین کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے لاپتہ افراد کے احتجاجی کیمپ کے سامنے ڈیتھ اسکواڈ بیٹھا کر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے۔

 انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے وسائل کو مال غنیمت سمجھا جاتا ہے مگر یہاں کے لوگوں کے جائز مطالبات تسلیم کرنے کے بجائے انہیں دہشت گرد سمجھ کر اٹھایا جا رہا ہے جبکہ پرامن احتجاج کرنے والے بلوچوں پر جعلی ایف آئی آر درج کرکے انہیں اپنے حق سے دستبردار کرنے کی کوشش کیا جا رہا ہے، بلوچستان سے نکالنے والی گیس آج پاکستان بھر میں استعمال ہو رہی ہے مگر جب بلوچستان سے لاپتہ افراد کے لواحقین اسلام آباد میں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج کرنے گئے تو خود کو اسلامی جمہوریہ کہنے والی ریاست نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنان کو مسجدوں میں نماز تک پڑھنے نہیں دی گئی۔

 انہوں نے کہا کہ بلوچوں کو زبردستی مذمت کروانے والی ریاست سے ہم پوچھتے ہیں کہ جب نواب نوریز خان کو قرآن کا واسطہ دے کر مذکرات کے لیے پہاڑوں سے نیچے اتر کر پھانسی دی گئی آپ لوگوں نے مذمت کی؟ ہم پوچھتے ہیں کہ کیا آپ لوگوں نے 80 سالہ نواب اکبر بگٹی، بالاچ مری اور بلوچ نسل کشی پر مزمت کی؟ کہتے ہیں آپ لوگوں کو بیرونی مملک میں مقیم بلوچ رہنما کیوں سپورٹ کرتے ہیں ہم انہی کے بچے ہیں وہ ہمیں سپورٹ نہیں کرے گا تو کون کرے گا؟

انہوں نے کہا کہ اگر ریاست ماں کی درجہ رکھتی ہے تو بلوچ ماں، بہن اور بیٹیوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کی آواز سنیں اور انکے جائز مطالبات تسلیم کریں، یاد رہے کوہلو میں بلوچ نسل کشی کیخلاف جاری احتجاج کے دوران علاقے میں موبائل انٹرنیٹ سروس مکمل بند رہی جس پر مظاہرین کا کہنا تھا کہ بلوچ مسائل پر میڈیا کی کردار ہمیشہ زیرو رہا ہے واحد راستہ سوشل میڈیا ہے جس پر بلوچ اپنے حق کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں مگر علاقے میں انٹرنیٹ سروس بند کرکے بلوچ نسل کشی کیخلاف جاری احتجاج کو سبوتاژ اور بلوچوں کی آواز دبانے کے مترادف ہے،