بچپن سے پڑھتے آئے ہیں “ اتحاد میں برکت ہے “ جو کہ سو فی صدی سچ بھی ہے، گھر گرستی اور خاندانی و سماجی معاملات تک رواداری برداشت اور در گزر کا معاملہ یقینا سماجی رویوں کی بہتری کا مظہر ہوتا ہے مگر سیاست سماجی روایات و رویوں سے خاصی حد تک متفرق اساس رکھتی ہے، اور پھر جو سیاست ہم بلوچ آزادی پسند کررہے ہیں اس میں وقتی مفادات و باہمی رواداری سمیت روایات و اخلاقیات کی پاسداری بنیادی نظریات سے وابستگی و پیوستگی کے گرد ہی گھومتی ہے۔
آزادی پسند سیاسی نظریات سے وابستگی کی وجہ سے ہم بلوچ سماجی روایات و بند و بست میں رہنے کے باوجود مالک و ملا اور اختر و جام و جمالی کی سیاسی روایات و رواداری کا متحمل ہرگز نہیں رہ سکتے، کیونکہ ہمارے یہاں اتحاد یا ایجاب و قبولیت کا پیمانہ پانچ سالہ اقتدار، ووٹ و نوٹ کے تحت سیٹ ایڈجسٹمنٹ، پاکستانی پارلیمنٹ آخری منزل اور لوٹ کھسوٹ کی بلوچ دولت کی سویں حصے کی پاکستان سے ملنے والی خیرات کی بندر بانٹ تک محدود نہیں یعنی آزادی پسند سیاست کی اساس چند اصولوں کی بنیاد پر اور ممکنہ حدتک فکری کثافت سے پاک اساس پر مبنی ہوتا ہے یہی فکری و نظریاتی اساس و اصول ہم سب کو ایک لڑی میں پروتے اور بلوچ تحریک آزادی کے ساتھ بغیر کسی ذاتی و گروہی لب و لالچ کے پیوستگی کی مظبوط ترین حدتک لیجاتی ہیں جہاں بلوچ سماجی پرتوں کے اندر موجود اپر کلاس کے بے پناہ دولت و جاگیر کے حامل سردار و نواب سے لیکر ایک تہی دست و تہی دامان شوان و درویش کو انکی فکری و نظری وابستگی کی وجہ سے تمامتر سماجی متفرقات کے باوجود بھی ایک اساس کے گرد جمع کرتی ہے اور وہ سب بغیر کسی لیت و لعل کے اپنے آپ کو ان اصول و آدرشوں کے سامنے سرینڈر کردیتے ہیں جو بلوچ قومی اجتماعی مفادات کی نگہبانی کے لئیے پتھر پہ لکیر جیسی حیثیت رکھتے ہیں، سنگت حیربیار مری کا آزادی کی سفر میں حالیہ تحریکی دورانیے کے ابتدائی ادوار میں تحریک سے وابستگی کی بنیاد پر ہر بلوچ کو بغیر کسی ذاتی نفع و وابستگی کے وسائل و اختیارات بہم پہنچانا اس بات کی بین ثبوت ہے۔ دوسری طرف بلوچ سرزمین بحیثیت ایک اکائی ایران پاکستان و افغان ریاستوں کے اندر تقسیم ہونے کے باوجود متحدہ بلوچ سرزمین بیانیے کی بنیاد پر بلوچ جد و جہد آزادی کی اساس کو ہر گزرتے زمانے میں متعین کرتا رہا ہے، سیاسی و عسکری حالات کی سنگینی سے خائف ہوکر یا گروہیتی مفادات کا جھنڈا کندھے پر اٹھا کر متحدہ بلوچ سرزمین کی بیانیے کی بنیادی اساس سے روگردانی کرکے اسے سنگر بدلنے کا نام دینا سیاسی مصلحت کی بھیانک ترین شکل ہے جو آج ہمارے سامنے ہے، لیکن آزادی پسندی و قوم پرستی کی چوغے میں وہ اپنے لیئے توقیر و نرم گوشے کا اہتمام بڑی کامیابی سے کرچکے ہیں۔
اندازہ لگائیے ایرانی مقبوضہ بلوچستان جو تمام تر حدودی و انتظامی دراندازیوں کے باوجود دوہزار تیرہ سے پہلے ہر بلوچ دانشور، سیاسی کارکن، سیاسی رہنما ( آزادی پسند / فیڈریشنی ) حتی کے عمومی ذہنیت کے سیاسی، فکری اور علمی سطحیت کے باوجود، سب کی طرف سے اسے بلوچستان کا اٹوٹ حصہ ہی جانا اور مانا گیا لیکن اسی فکری کج روی اور سیاسی سطحیت کے بنا پر آج لوگوں کو متحدہ بلوچستان کے اساس و ماضی کے بیانیئے سمیت خود بلوچ قومی ملکیت کے حوالے سے بھی مشکوک کرکے انہیں الجھن میں ڈال دیا گیا ہے، بڑی کمال مہارت سے گروہیت پسندی کی مفاداتی بندوق کو بلوچ اجتماعی مفادات کے کندھے پر رکھ کر تیر چلایا گیا ہے، لہو،بندوق اور باغی کی سانجھ نے بہتیرے سیاسی ذہنوں کو اس عامیانہ روش پر لاکھڑا کیا ہے جہاں وہ اس کھلی اور واضح تضاد کو بھی محسوس کرنے کی اہلیت کھو چکے ہیں۔
پہلے عرض کرچکا ہوں کہ ہمارے یعنی آزادی پسند قوتوں کے درمیان مالک و مُلا اور اختر و جام و جمالی جیسی نوعیت کی اتحاد کی باتیں قطعا لگو بے معنی اور سیاسی و فکری سطحیت کا مظہر ہیں، کیونکہ آزادی پسند سیاست میں اساس و اصولوں کے برعکس سطحی خواہشات کی بنیاد پر باقی تمام عوامل کو نظرانداز کرکے “اتحاد میں برکت جیسی” لغو و لایعنی تکرار کے ساتھ انحرافی عمل کو نارملائز کرنا پوری بلوچ قومی آزادی کی جد و جہد کے بیانیے کو الجھاؤ کا شکار کرنے کا مترادف ہے، جس سے شہہ پاتے ہوئے پھر جوابدہی سے فرار و قومی نمائندہ تنظیموں کی بطن سے اپنے جھنڈا برداریت کو دوام دینے کے لئیے الگ تنظیمیں بنانے کا جو روش چل پڑا ہے اسکی بنیادی وجہ انحرافی عمل کو معمول کے مطابق تصور کرنا ہی ہے، عمومی زہنیت انحراف کو شاید اسکی علمی و سائنسی گہرائی و گیرائی میں نہیں سمجھ سکتی لہذا اس میں دورائے نہیں ہوسکتے کہ عمومی زہنیت اپنی بصیرت و بصارت سمیت زہنی و فکری استعداد کے تحت یقینا فوری طور پر اتحاد کا خواہاں ہوتے ہوئے اسکے لئیے ہمہ وقت نوحہ خواں رہتا ہے اور اسکے لئیے وہ اپنی طرف سے ایک توجیح بھی رکھتا ہے، عامیانہ فکری روش کے برعکس آزادی پسند سیاست کی شفافیت اور تحریکی بیانیے کو دیرپا اور ناقابل تسخیر بنانے کے لئیے پالیسی سازیوں کے مسند پر براجمان اذہان کا سیاسی فکر و نظر کی مظبوطی و بالیدگی تحریکی مقاصد کی حصول و کامیابی کے لیئے بنیادی شرط ہے، دو تین دہائیوں تک تسلسل کے ساتھ آزادی پسند سیاست کے میدان میں موجود لوگوں کی ذہنی وسعت و فکری سنگینی کا عمومی فکری و نظری بیانیے سے ہم پلہ ہونا یقینا اچھنبے کی بات ہے، بلوچ آزادی پسند تحریک کی سنگینی اور کھٹنائیوں سمیت بلوچ قوم کے مشترکہ دشمنوں ( ایران و پاکستان ) کی طرف سے بچھائی گئی جال اور عالمی و علاقائی گنجلک اور پیچیدہ صورتحال اور جس خطے میں بلوچستان کا سرزمین موجود ہے اور اس پر عالمی مفاداتی کھیل میں شامل کھلاڈیوں کی نظریں کس تک ہیں اس ساری صورتحال میں بلوچ آزادی پسندوں سے بالغ نظری اور فکری وسعت کے تحت حالات نہایت ہی بڑی زمہ داری کا تقاضا کرتی ہیں، اور یہ زمہ داریاں یقینا سطحی اتحاد کی بے بنیاد خوش فہمیوں سے بہت زیادہ بڑی ہیں اور ان زمہ داریوں سے عہدہ برا ہونا نہایت ہی دقت و مشقت طلب کام ہے اور بچگانہ رویوں کی اظہاریئے کی بنیاد پر زمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کا سنجیدہ و اہم مقاصد کا حصول ممکن ہو ہی نہیں سکتا۔ جہدِ آزادی میں شامل فریقین کے مابین اتحاد یقینا ایک خوش آئند امر ہے لیکن اس اتحاد کی زمینی حقائق و امکانات سمیت موجود تضادات کی باریکیوں کے بارے عمومی زہنیت و سیاسی فکر و نظر کی گہرائی و گیرائی میں یقینا ایک فرق کا ہونا لازم ہے، انڈیا اور پاکستان کے درمیان سرحدی جھڑپوں کی وجہ سے جذباتی ہوکر اتحاد کو آخری اور پوری نوعیت کا تقاضا قرار دینا اور باقی دیگر جملہ مسائل و تضادات، کردار اور فریقین کے مایین غیر مشترک بیانیے کو نظرانداز کرنا سیاسی فکر کی سطحیت کا برملا اظہار ہے، جو ہم نے جذباتی لمحات میں بار بار مشاہدہ کیا۔
عمومی زہنیت نظریاتی الجھنوں کو پیر تلے رکھ کر اس مقام پر پہنچتا ہے جہاں اسکی زہنی، فکری و نظری وسعت کے مطابق جس طرح سے اسے چیزیں سمجھ میں آجاتی ہیں وہ ہر تنقید کو کھنچاتانی کہہ کر اسے رد کرتی ہے اس پر لعن طعن کرتی ہے اور اسکی زہنی و فکری استعداد میں یہ شئے بہت ہی گھٹیا پن اور نیچ حرکت ہے کہ کوئی بندہ کوئی گروہ مسلسل قربانی دے رہا ہے جہدِ عمل میں مصروف ہے اور دہائیوں سے اس راہِ خار زار میں سفر کررہا ہے تو اس سے ہاتھ ملانے میں کوئی بھی شئے یا فکر درمیان میں مانع نہیں ہونا چاہئیے اپنی فکری تہی دامنی کے باوصف وہ یہی سمجھتا ہے کہ کسی بھی طرح کی تنقید محض تن آسانی اور زہنی و فکری کج روی ہی کا نتیجہ ہے وگرنہ بہتی لہو کے دھار اور ازیتناک تشدد سے عقوبت خانوں کی دیواروں سے ٹکرا کر دب جانے والی چیخ و پکار سب ہی کا ایک جیسا ہوتا ہے، کیونکہ اسکی نظر میں تنقید کرنے والے اور تنقیدی افکار کے زد میں آنے والے دونوں فریق اس تشدد اور دربدری کی عذاب کو یکساں طور پر جھیل رہے ہیں اور دونوں کا نظریات و تحریکی فکر سے وابستگی کا پیمانہ ایک ہی درجے اور نوعیت کا ہے، جب مقصد ایک ہو تو پھر اس پر تنقید کیسی، لہذا بے خوف تردد سب کو سب کے ساتھ ہراعتبار سے اتحاد و اتفاق کرکے اپنی منتشر طاقت کو یکجاہ کرنا چاہیے، یہ رویہ نہ صرف نری سیاسی جہالت ہے بلکہ فکری سطحیت کا بدترین مظہر بھی ہے۔
سیاسی فکر کا عامیانہ روش دراصل روایتی و سماجی حدود و قیود کو نہ صرف انتہا کی حد تک سنجیدگی سے لیتی ہے بلکہ سیاسی فکر کی سطحیت کی وجہ سے اور سیاسی و تنقیدی علم سے تہی دامنی کی بنیاد پر وہ روایات میں پناہ ڈھونڈتی ہے، اسکے لئیے فارسی کا یہ معقولہ کہ“ من ترا قاضی بگویم، تو مرا مُلا بگو “ یعنی روایات کی روادری اور پاسداری سیاسی مکالمے پر ہمیشہ بھاری پڑتا ہے اور سخت تنقیدی الفاظ و زبان کو غیر سیاسی رویہ کہہ کر اسے انہی روایات کہ تحت رد کردیا جاتا ہے، وگرنہ سخت الفاظ کا استعمال کسی کی سیاسی و نظریاتی کردار کی لغویات کو سامنے رکھ کر ہی کیا جاتا ہے،
جرمن قوم کی طرح “ پادر لینڈ “ کے بجائے ہم بلوچوں نے زمین کو “ مادر سرزمین “ ماتیں وطن “ جیسی لقب و تخلص دے کر ہمیشہ پکارا ہے، بلوچ سرزمین، بلوچ زند و گزران کا گزشتہ ہزاروں سال سے ضامن رہی ہے اور بلوچ راجی روش میں سماجی قدر دانیوں کے باوصف “ ماں “ ہمیشہ ایک باتوقیر رشتہ رہا ہے، جو بدلتی ہوئی زمان و مکان اور جنگ و امن کے دورانیے میں بھی اپنی توقیر و وقعت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، زمین کو مادر وطن یا ماتیں زمین کہہ کر پکارنے کی وجہِ تسمیہ اسی باتوقیر رشتے سے نسبت پاتی ہے جو ماں اور بیٹے یا بیٹی کے مابین ہے، اب اس بات کی تفصیلات پر جانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ ماتین زمین کی غلامی سے چشمِ اغماز برتنے اور اسے دشمن قوتوں کے پاس گروی رکھنے والوں کے لئیے کم ترین سزا اور نرم ترین تنقیدی لہجے کا پیمانہ کیا ہوسکتا ہے؟
سماج اپنے ہر زمانے میں سیاسی وصف تو رکھتا ہے، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا ہے تو سماجی و سیاسی رشتوں میں بہت سے سارے متفرقات رونما ہوتے جاتے ہیں ان متفرقات کے رونما ہونے کی بنیادی وجہ تضادات کا پختہ ہونا ہے، مفادات، روش اور روایتی ڈھکوسلوں اور زہنی کج رویوں میں ملفوف رویے جب تنقیدی افکار و خیالات سے ٹکراتے رہتے ہیں تو تضادات از خود ابھرنا شروع کردیتے ہیں اور پھر ایک عرصے بعد ان میں پختگی آجاتی ہے اور وہ سماج کو سماجی رویوں کو کم یا زیادہ متشدد طاقت کی مدد سے تبدیل کردیتے ہیں کیونکہ تضادات کو کل وقتی طور پر یا ہمیشگی دبانا انسانی تاریخ میں کبھی ممکن نہیں رہا ہے البتہ مصلحت پسندی کے بجائے اصلاح پسندی سے کام لے کر تضادات کی ٹکراؤ کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے، لیکن مصلحت پسندی کے سائے میں دقیانوسی روایات سے لپٹ کر اصلاح پسند نہیں بنا جاسکتا کیونکہ اصلاحات “ چرب زبانی “ سے نہیں بلکہ کرداری امتیاز کے مرہون منت ہوتے ہیں لہذا سماجی تبدیلیوں کے باوصف سماج کے مختلف پرتوں کے درمیان موجود تضادات کو شدید ٹکراؤ سے بچانے اور انہیں ممکنہ حد تک ڈیفیوز کرنے کے لئیے روایتی شاعرانہ مبالغے پر مبنی زہنی پیمانے کا کوئی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ اسکے لئیے لازمی ہے کہ سیاسی بندہ سیاسی فکر و نظر کی بالیدگی کے ساتھ تنقیدی فکر کے ذریعے رونما ہوتے حالات و واقعات کو دیکھے اور انہیں سمجھنے کے ساتھ ساتھ انکے حل کے لئیے ٹھوس اقدامات کی بندوبست بھی کرے۔
ازیت ناک قربانیوں کے بہانے، بہتی لہو کی جذباتی نعرے، ردیف کافیے سے مزین شاعرانہ مبالغے سے حقیقت حال کی تبدیلی کسی بھی طرح ممکن نہیں ہوسکتی چاہے ہم اسکے لئیے روز و شب ہی محنت و مشقت سے کام کیوں نہ لیں، شاعری جذبات کو ضرور ابھارتی ہے، امیدوں کو زندہ رکھتی ہے اور امیدوں پر دنیا قائم رہ سکتی مگر آزادی کی جد و جہد ٹھوس حقائق کا سامنا کرنے اور تضادات کی الجھی ہوئی گھتیوں کو سلجھانے کی بنیاد پر ہی زندہ رہ سکتی ہے، کچے ذہنوں میں مقید روایتی تصورات و لغویات سیاسی تقاضوں کے ساتھ کسی بھی طرح ہم آہنگ نہیں ہوسکتے۔
سیاست میں من مرضی کے مطابق سطحی خواہشات کے زیر سایہ بہتر نتائج کے بارے تصورات گھڑنا حقیقت پسندانہ ہرگز نہیں، سیاست میں کہیں نہ کہیں مسابقت موجود ہے، اور اس مسابقت سے بھاگنا دراصل چور سے گھر کی رکھوالی کروانے جیسا ہے۔