2001 کو امریکہ نے افغانستان میں اس عزم کے ساتھ پاؤں رکھے کہ وہ ماضی میں افغانستان کو عدم استحکام کا شکار بنا کے اُسے پاکستان اور طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلا گیا تھا جس کا نتیجہ نائن الیون کی صورت میں پیش آیا۔امریکہ کے صدر بش انتظامیہ سے لے کر اوبامہ انتظامیہ تک افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے مکمل خاتمے کے عزم کا اظہار بارہا کرتے رہے لیکن کیا اب امریکہ ایک بار پھر افغانستان کو پاکستان اور طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنی ماضی کی غلطیوں کو کیا ایک بار پھر نہیں دھرا رہا ہے؟ اگر ظاہری طور پر دیکھا جائے تو ہاں بلکل امریکہ کچھ ویسا کرنے جارہا ہےلیکن اس بیس سالہ طویل وعریض جنگ کو آخر کبھی نہ کبھی ختم ہونا تھا۔ بیشک امریکہ افغانستان پر حملہ آور افغانوں کے لئے نہیں ہوا تھا وہ اپنے نیشنل اور انٹرنیشنل مفادات کے لئے افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ امریکی انخلاء کے بعد افغانستان میں دوبارہ طالبان کا ظہور امریکہ کی ناکامی ہوگی یا افغانوں کی؟ تو شاید اس کا جواب افغان حکومت پر ڈالنا بلکل ٹھیک ہوگا کیونکہ اس بیس سال کی طویل ترین جنگ میں امریکہ نے افغانستان ميں طالبان کی طویل ترین حکومت کو ختم کرکے افغانستان کے مفلوج نظام کو دوبارہ کار آمد بنایا اور افغانستان کو وہ سب کچھ دیا جو ایک مستحکم ملک میں ہونا چاہئے جیسے کہ تعلیمی نظام ایک حد تک ایک خود مختار حکومتی نظام اور اس سے بڑھ کر ایک جدید تربیت یافتہ فوج لیکن امریکی انخلاء کے بعد اگر طالبان حکومت کا ظہور ایک بار پھر ہوتا ہے تو اس کا شاید امریکہ پر فرد جرم ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے اگر امریکی انخلاء کے بعد افغانستان میں لاکھوں ڈالرز مالیت سے بننے والا نظام رول بیک ہوتا ہے تو صرف اور صرف افغان حکومت اور اس کے ذمہ داروں کی سیاسی صلاحیتوں کی کمی کے باعث ہوگا کیونکہ اگر لاکھوں ڈالرز امداد افغانستان میں صحیح معنوں میں خرچ کئے جاتے تو شاید چار کروڑ آبادی پر مشتمل ملک میں طالبان کو ختم کرنے کے لئے افغان فوج ہی کافی ہوتی لیکن افغان سیاسی صلاحیتوں میں کمی کی وجہ سے بیس سال کی طويل جنگ اور لاکھوں ڈالرز امداد کے باوجود افغانستان کے اوپر20 سال قبل کے کالے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ایک بار پھر پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابقہ ڈائیریکٹر جنرل حمید گل کے بقول افغانستان پاکستان کا پانچواں صوبہ بننے جارہا ہے۔ اگر دیکھا جائے اب بھی افغانوں کے پاس وقت ہے کہ وہ اپنی نئی نسل جو کہ اس طویل جنگ کے دوران جوان ہوئے ہیں ان کو اور افغان فوج جو کے تین لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے ان کی مدد سے اور پھر سیاسی صلاحیتوں کے ساتھ اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے افغان اپنی صلاحیتوں پر انحصار کرنے کی بجائے امریکہ کو انخلاء نہ کرنے پر مائل اور اپنے ہمسایہ ملک ایران اور پاکستان پر انحصار کا سوچ رہے ہیں جس کی مثال اسلام آباد گورنر ہاوس میں پاکستان، افغانستان اور طالبان مزاکرات ہیں جس کے باعث طالبان اور افغانستان کے مابین کچھ مثبت نتائج تو سامنے نہیں آئے لیکن بہرحال پاکستان افغانستان سے اپنی کچھ شرائط منوانے میں ضرور کامیاب ہوگیا اور افغانوں کو یہ پتہ ہونا چاہئے کہ پاکستان کبھی بھی اور کسی قیمت پر خود مختار افغانستان کی حمایت نہیں کریگا کیونکہ خود مختار افغانستان کا مطلب پاکستان جیو اسٹریٹجک طور پر عدم استحکام کا شکار ہو اور دوحہ مزاکرات کے بعد طالب لیڈران خصوصاً ملا برادران جو پاکستان کے حمایتی سمجھے جاتے ہیں ان کا اسلام آباد دورہ اور کوئٹہ میں زخمی طالبان جنگجوؤں کی علاج و معالجہ کے لئے رفت و آمد اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتے ہیں کہ افغانستان میں اس بیس سال کے عرصے میں تمام عمل کو رول بیک کرنے میں پاکستان کوئی کسر باقی نہیں چھوڑے گا۔پنجابی فوج کبھی بھی اور کسی قیمت پر افغان حکومت کو بخشنے والی نہیں ہے جو پچھلے بیس سال سے پاکستان کے لئے درد سر کا سبب بنے ہوئے تھے۔ طالبان حکومت نہ صرف افغانوں کے لئے ایک بھیانک حقیقت ثابت ہوگی بلکہ اس حکومت کے اثرات انڈیا پر مرتب ہونگے۔ 90ء کی دھائی کی طرح ایک بار پھر افغان سرزمین پاکستانی جہادیوں کے لئے محفوظ پناہ گاہ بن جائے گی جس کے اثرات خطے میں تمام پاکستان اور ایران مخالف قوتوں پر برسیں گے۔ حالیہ جھڑپوں میں یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ پاکستانی حمایت یافتہ طالبان کا مقابلہ افغان فوج میں کچھ کم ہی نظر آتا ہے جس کی تازہ مثال افغان فوج کی دوسو سے زائد تربیت یافتہ کمانڈوز کا طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنا اور ایک کے بعد دیگرے کئی اضلاع پر قبضہ کرنا ہے۔ لگتا ہے ایک بار پھر ڈاکٹر نجیب کی حکومت کی طرح حالیہ افغان نیشنل فوج بھی طالبان کے سامنے گھٹنوں پر آجائے گی اگر حالات اسی طرح رہے۔ لہذا افغانستان کے بدلتے ہوئے حالات بلوچ جہد پر بھی اپنے منفی اثرات مرتب کریں گےلہذا بلوچ لیڈر شپ کو اُس وقت کا انتظار کرنے کی بجائے اپنی تیاری کرنی چاہیے تاکہ ایک بار پھر افغانستان کے ڈوبنے سے کہیں بلوچ لیڈر شپ کو 1990 جیسے چیلنجز کا سامنا نہ ہو کیونکہ جہاں تک 1990 کی بات ہے تو شاید 2021 میں افغانستان میں پیدا ہونے والے حالات کئی درجے زیادہ خطرناک ثابت ہونگے جس کی حالیہ مثال افغانستان میں بلوچ مہاجرین کی سلسلہ وار ٹارگٹ کلنگ ہے۔