کسی بہن کے لیے اپنے جبری گمشدہ بھائی کے متعلق لکھنا بالکل آساں نہیں ہوگا۔ یہی حال میرا ہے۔ جب لکھنے کی کوشش کرتی ہوں تو آنسوں اور سسکیاں لکھنے نہیں دیتے۔ سوچ کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ صغیر جان کی گمشدگی کے بعد سے بس رونا اور بے چینیاں میری اور باقی خاندان کا مقدر بنا دی گئی ہیں۔ زندگی کی جنگ میں پہلے ہزاروں مشکلات کے باوجود ہم پر ایک اور عذاب بلاوجہ نازل کروانا اس دنیا کی سب سے بڑی ناانصافی ہے۔ میں تو اب دماغی مریض بن گئی ہوں۔ ڈاکٹر اور دوائیوں کا سہارے لیئے بغیر رہ نہیں جا سکتی۔ ڈاکٹر نے تجویز کیا ہے کہ رونے سے کچھ نہیں ہوگا۔ میں جاؤں اپنے بھائی کی بازیابی کی کوشش کروں۔ یہ کام اپنی بے بسی سے تو پہلے دن سے کر رہی ہوں۔ لیکن دنیا کی خاموشی اور ہر وقت ہمیں نظرانداز کرنے کا رویہ مزید بے چین اور پریشان کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر سے فارغ ہوتے ہی میں نے ایک ویڈیو ریکارڈ کی تھی۔ اُس میں علاقائی اور عالمی انسان دوستوں سے اپیل کی تھی کہ وہ صغیر کی باحفاظت بازیابی کے لیے میری مدد کریں۔ دوسرے دن میری ویڈیو پر کسی نے کمنٹس کیا کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں، میرا بھائی لاپتہ نہیں ہے۔ مجھے ایسا لگا جیسے کہ میں اپنے آپ کو آگ لگا دوں۔ دل میں آئی وہ کون بد بخت ہے جو اپنے پیاروں کا ایسا مذاق بنائے یا انہیں گمشدوں میں شمار کرے؟ یہ درد ہمارا ہے، میں دعا کرتی ہوں کی کسی دوسرے انسان کے نصیب میں ان کے پیاروں کی گمشدگی نہ آئے۔ کسی انسان کو اپنے پیاروں کی تصویر لے کر سڑکوں پر فریاد کرنے کا شوق نہیں ہے۔ یہ ہماری مجبوری ہے۔ ہمیں سڑکوں پر آنے کے لیے مجبور کر دیا گیا ہے۔ ہمارے دن اور راتیں کیسی گزرتی ہیں، وہ ہم جانیں اور ہمارا خدا ! میں نے اپنی پڑھائی چھوڑ کر دنیا کے لوگوں کی مدد حاصل کرنے کے لیے آہ اور پکار کر رہی ہوں۔ ہماری مجبوری اور پکار کو خدارا جھوٹ اور فریب مت سمجھیں۔ ہماری پکار بھی قانونی ہے۔ پاکستان کا اپنے قانوں کسی کو بلاوجہ جبری طور لاپتہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ پھر کیوں میرا بھائی اپنے امتحان کے دوران یونیورسٹی سے دن دیہاڑے اُٹھایا گیا ؟ میں نے صغیر جان کا کیس عدالت میں جمع کر دیا۔ عدالت پیشیاں دیتی رہی لیکن کچھ پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔ پاکستانی عدالت ہمیں سُنتی نہیں تو ہم عالمی اداروں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پھر ہم پہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم ملک کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ ہم کیا کریں، کہاں جائیں۔ اپنی عدالتیں ہماری نہیں سُنتی ، اور اس ریاست کی پولیس ایف آئی آر نہیں کاٹتی۔ لیکں بدقسمتی سے عالمی ادارے و میڈیا بھی کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ ہم نے اقوامِ متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت کئی اداروں میں درخواست داخل کی ہے مگر اب تک کوئی خاطرخواہ نتیجہ ہمیں نہیں ملا ہے۔ ہم دن رات بس صغیر جان کی راہ تکتے رہتے ہیں۔ یہاں تو میڈیا کو گدھوں اور کتوں کا غم ہے لیکن سڑکوں پر رونے والے ہم جیسے انسانوں کا نہیں۔ ہزاروں سندھی، بلوچ اور پختونوں کی مائیں اور بہنیں کسی کیمرہ مین کے علم میں نہیں آتیں۔ صحافی کبھی، کبھی ہماری باتیں ریکارڈ کر لیتے ہیں مگر پھر اخبارات اور چینلوں میں کچھ نہیں آتا۔ پوچھنے پر کہتے ہیں ہمیں مالکان تمہاری باتیں نشر کرنے نہیں دیتے۔ سارے گونگے اور بہرے بن جاتے ہیں، جب کسی جبری گمشدہ فرد کا نام آتا ہے۔ بیس نومبر سے اب تک کسی ماں اور بہن کے لیے بہت لمبی مدت ہوگی۔ پھر ہمارا صغیر جہاں ہے وہاں سے اکثر لاشیں آتی ہیں۔ اگر کچھ بچ نکلے بھی زندگی بھر اپاہج رہ جاتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر یا ان کی کہانیاں سُن کر ہماری پریشانیاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ اگر کراچی یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس اور اساتذہ کیس کو سنجیدگی سے لیتے تو شاید کچھ بنتا ۔ نہ صرف صغیر بازیاب ہوتا بلکہ یونیورسٹی کے کسی اور اسٹوڈنٹ کوکبھی بھی بلاوجہ بنا وارنٹ اٹھا کر جبری لاپتہ کرنے کی کوئی ہمت نہ کرتا۔ لیکن سب خاموش ہیں۔ صغیر ایک عام مزدور کا بیٹا ہے۔ ہمارا سب کچھ صغیر ہی ہے۔ جس سماج میں عورت کا کوئی احترام ہو اور انہیں گھر سے نکلنے کی اجازت مشکل سے ہو، اُس سماج میں گھر کے بڑے بیٹے کو اٹھاکر اُن سے دور کردینے کے بعد اُس خاندان کا کیا ہوگا ؟ بہتر ہوتا کہ ہم صغیر جان کو کراچی یونیورسٹی کے بجائے کسی اور ملک مزدوری کرنے کے لیے بھیج دیتے۔ آج کم از کم مطمئن تو ہوتے کہ وہ سلامت ہے۔ ہماری نظر میں اُس کا گناہ پڑھائی کے ساتھ بس بلوچ ہونا ہے ۔ خدارا اس مرتبہ اُسے بازیاب کر دیں، پھر ہم خود اسے پڑھائی کا نام لینے نہیں لینے دیں‌گے۔