تحریر: جمال بلوچ

ھنگام آرثیکل

ماں کی ممتا، محبت اور عظمت کے بارے میں لب کشائی کرنا یا لکھنامیرے لیئے ہمیشہ محال رہا ہے۔ کیونکہ اس کا تقاضا بہت افضل ہے اور میں اس تقاضے کو پورا نہیں کرسکتا۔ تاہم، جب وجہ تلاش کرنے کی جتن کرتا ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے میرے اندر اظہار یا ترجمانی کی وہ حقیقی صلاحیت نہیں جس سے ایک ماں کی حق ادا ہوسکے۔ کبھی سوچتا ہوں کہ نہیں دراصل،ماں کائنات کا ایک عظیم بے مثال کردار ہے جو کسی بھی الفاظ و اظہار سے ماوراء ہے۔یہ ایک حسین صداقت ہے۔ اسکی ممتا، محبت اور عظمت کو فقط احساس کیا جاسکتا ہے اظہار نہیں۔ کیونکہ احساس دل سے کیا جاتا ہے اور دل کا کوئی زبان نہیں۔ اگر دل کا کوئی زبان ہوتا تو شاہد اس ممتا، محبت اور عظمت کا اظہار ممکن ہوتا لیکن ستم ظریفی دیکھیں کہ دل بے زبان اور بے آواز ہے۔ بس اتنا سمجھتا اور جانتا ہوں کہ ماں اور بیٹے کی محبت و عقیدت ایک دوسرے کو زندہ رہنے کے قابل بناتی ہیں۔ ایک دوسرے کو یک جان دوقالب بناتی ہیں۔ ایک دوسرے کے غم و خوشی لازم و ملزوم ہیں۔ ماں خوش تو بیٹا خوش اور اگر بیٹا پریشان تو ماں پریشان ہوجاتی ہے۔ یہ فطرت کا ایک معمہ ہے۔ ایک معجزہ ہے۔ اس کو سمجھنا محال ہے۔

آئیں ایک ایسی عظیم ماں کی ریاست پاکستان کے ہاتھوں حالت زار سے خود کو آگاہ کریں۔

8 سالوں سے قابض اور سفاک پاکستانی فوج کے ہاتھوں لاپتہ خالد نواب اور شہید مقبول نواب کی ماں، وہ ماں جس کی عظمت و حرمت میں اللّٰہ تعالیٰ نے جنت کو ان کے پیروں تلے رکھا اور جس کے لئے جنت خود رشک کرے، وہ ماں آج ریاست پاکستان کے ہاتھوں کس طرح کے دکھ، درد اور ازیتیں سہہ رہی ہے اور اس کی عظمت پاکستان کے درندہ صفت فوج کے ہاتھوں کس طرح ریزہ ریزہ ہوئی ہے۔

لاپتہ خالد نواب اور اس کے چھوٹے بھائی مقبول نواب کو 16 فروری 2013 رات کی تاریکی میں قابض اغواکار پاکستانی فوج نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر گاڑی میں دھکیلا اور پھر انھیں اغوا کرکے لاپتہ کیا۔ لاپتہ ہونے کے 20 دن بعد گمشدہ خالد نواب کے چھوٹے بھائی مقبول نواب کی بے دردی سے مسخ شدہ نعش کو کراچی کے ایک ویران جنگل میں پھینک دی گئی تھی۔ جس کو زبح کرنے سے پہلے تین بار ڈِرل مشین سے ڈِرل کیا گیا تھا۔ جبکہ خالد نواب ہنوز لاپتہ ہے اور کوئی خبر یا اتا پتا نہیں کہ وہ کہاں اور کس حالت میں ہے جو کہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔

جب خالد نواب اور مقبول نواب کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انھیں اغوا کیا گیا۔ تو ان کی فیملی نے فی الفور ایف آئی آر بھی درج کروایا تھا۔ لیکن روز اول کی طرح کوئی ایسا آزاد ادارہ نہیں جو ریاست پاکستان کی بدمست اغواکار فوج سے پوچھ گچھ یا تفتیش کرے۔ ان کے غیر قانونی و غیر انسانی اعمال و حرکتوں کے خلاف کوئی کاروائی کرے۔ مزید برآں، ان کی فیملی نے مسنگ پرسنز کیمپ میں بھی شرکت کی تھی۔ وہاں بھی اسکی فیملی نے گمشدہ خالد نواب کی باحفاظت بازیابی کے لئے اپنا احتجاج بھر پور ریکارڈ کرایا تھا۔ لیکن سب کچھ پہلے کی طرح کوئی خبر نہیں، کوئی سراغ نہیں، کوئی امید ِکعئی سہارا نہیں، بس ہر چارسُو اندھیر ہی اندھیر۔

گمشدہ خالد نواب کی ماں اور اسکی فیملی تب سے لیکر آج تک ایک ناقابل برداشت دکھ اور درد سے دوچار ہیں۔ خیر جو اس کی ماں اور فیملی پر بیت رہی ہے، وہ جس درد اور غم سے گزر رہے ہیں اس درد اور غم کو الفاظ کے موتیوں میں پرونا میری بس کی بات نہیں۔ البتہ اتنا بتاتا چلوں کہ خالد نواب اور مقبول نواب کی گمشدگی اور پھر مقبول نواب کی شہادت نے اس کی ماں فیملی اور دیگر قریبی رشتہ داروں کو بری طرح متاثر کیا ہے حتیٰ کہ مسلسل گریہ و زاری سے اسکی ماں کے آنکھوں کی بینائی چلی گئی ہے۔ مسلسل بے خوابی کی سبب اسکی دماغی توازن کافی حد تک متاثر ہوچکی ہے۔ اپنے آبائی علاقہ نارو کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے ہجرت کرگئے ہیں۔ خالد نواب اور مقبول نواب اپنے گھر اور فیملی کے واحد کفیل تھے۔ وہی اپنی فیملی کی کفالت کرتے تھے۔ بالاخر اس کفالت سے اسکی ماں اور فیملی بھی ہاتھ دو بیٹھے۔ آج وہ جس طرح کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یقین کریں، وہ ناقابل بیان ہے۔ تاہم، وہ ماں جس کی آنکھیں گئی۔ وہ ماں جس کی دماغی توازن متاثر ہوگئی۔ وہ ماں جو طرح طرح کے بیماریوں کا شکار ہوگئی۔ وہ ماں جس کی پاک آنکھیں دریا کی مانندبہتی رہتی ہیں۔ اب تک اسکی آنکھوں میں ایک معجزاتی امید جلوہ افروز ہے۔ اب تک وہ ماں اپنے گمشدہ بیٹے کی رہائی اور آمد کے لئے اسکی راہ تک رہی ہے۔ وہ ماں اب بھی کچھ حسین خواب سجا کر منتظر ہے کہ ایک نہ ایک دن اس کا جگر گوشہ آئے گا اور وہ اسے گلے سے لگائے گی۔ ایک دوسرے کے پیشانیوں کو بوسہ دیں گے۔ 8 سالوں کی دوری، جدائی وصال میں بدل جائے گا۔ بوڑھی ماں کا 8 سالوں سے مسلسل سُلگتے جِگر کو یک دم ٹھنڈک پڑجائیگا۔ خالد نواب کی بازیابی سے اس کے خشک ساکن ہونٹ پھر سے اپنی ہنسی و مسکراہٹ بحال کریں گی۔ اس کی کھوئی ہوئی سوبینائی پھر سے روشن ہوجائے گی اور اس خوشی میں زمین و آسمان جھوم اٹھیں گے۔

کیا کوئی ایسا کردار ہے جو اس بوڑھی ماں کی امید اور خواب کو حقیقت میں بدل دے؟ کیا کوئی ایسا چارہ ساز ہے جو اس بوڑھی ماں کی دردناک انتظار کو ختم کرسکے۔ کیا کوئی ایسا انسان ہے جو اس غریب بوڑھی ماں کو اس کے بیٹے سے ملادے۔ آئیں ہم سب مل کر خالد نواب کی بازیابی کے لئیے آواز اٹھائیں۔ ایسی آواز جو کانوں کے پردوں کو چھیر دے۔ ایسی آواز جو اغوا کار کو خوف و خطرے میں ڈال کر خالد سمیت دیگر اغواشدہ بلوچ فرزندوں کو آزاد کردے۔