زربار بلوچ

 

دنیا کی تاریخ عورتوں کے بغیر نامکمل ہے۔عورتوں نے جب بھی ظلم جبر اور زوراکی کے خلاف اواز اٹھائی تو اس سماج میںجہد اور موومنٹ کو پختہ اور سنجیدگی سے لیا گیا۔ 

 

بلوچ تاریخ میں چاکر خان کی کہانی ہو یا کہ داد شاہ کی یاکہ خان مہراب خان کی دستان ان میں عورتوں کی بغیر نامکمل ہے۔اسی طرح جنوبی افریقہ کی نابرابری کے خلاف جہد ہو یا کہ امریکہ میں سیاہ فام کی حقوق کے لیے جہد ہو اس میں عورتوں نے اول دستہ کا کردار ادا کرتے ہوئے تاریخ میں عظیم کارنامہ سرانجام دیکر ان جدوجہد کو کامیاب کرنے میں کردار ادا کیا۔

 

اسی طریقہ سے زمبابوے کی قومی آزادی کی جنگ میں خواتین نے بھی نمایاں کردار ادا کرکے تاریخ میں الگ دستان رقم کیا۔ 

 

زمبابوے نے برطانیہ سے 1980میں آزادی لی۔ اس قومی آزادی کی جنگ میں سب سے زیادہ کردار عورتوں کا تھا۔ کتابGun and Guerrila Girlکے مصنف Tanya Lyonsنے اس جہد پر تحقیق کرکے کتا ب لکھا ۔جس کے مطابق عورتوں کے ایک ہاتھ میں بندوق تو دوسرے ہاتھ میں انکے بچہ تھے جنہوں نے قابض کے خلاف جنگ لڑی اور بہتریں انداز میں جنگ لڑی۔

 

زیمباوے میں پہلا خواتین کا سیمینار جو 1979میں ہوا اس نے خواتین کی جہد کو ایک رخ دیا۔اس کے بعد خواتین نے خود کو قابض کی زوراکی سے بچانے کی خاطر بندوق اٹھایا اور اپنا دفاع کیا۔

 

اسی طرح نمیبیا کی جہد میں خواتین کا سب سے بڑا کردار تھا جنہوں نے قابض کے جبر اور زوراکی کے بعد کہا کہ ایک نمیبیا ایک قوم جس میں قوم کے تمام لوگ مرد عورت امیر غریب اور تمام مکاتب فکر کے لوگوں نے قومی جہد کو اپنا کر اس میں اپنی اپنی گنجائش کے مطابق حصہ ڈالنے کی کوشش کی ۔SWAPO جس نے سائوتھ ویسٹ افریکن ارکنائزیشن کے نام سے کام کیا اور جس میں ایک لمبی اور صبر ذزما جہد کے بعد 21مارچ 1990میں ان لوگوں نے غلامی سے نجات پایا۔SWAMPOنے ثابت کیا کہ قومیں جب یکجا اور یک مشت ہوکر جابر اور قابض کے خلاف کام کرتے ہیں تو وہ کامیاب اور کامران ہوتے ہیں۔

 

 ایک عورت نے کہا کہ جب میں چھوٹی تھی تو ہمارے لیڈر ساول اور روسا درخت کے نیچے ان کو قومی آزادی اور برابری، کرپشن کے خلاف لیکچر دیا کرتا تھا اور اسکے لیکچروں سے بہت سے خواتین متاثر ہوکر جنگ کا حصہ بن گئے۔

 

 نمیبیا میں زیادہ تر عورتین اس لیے بھی جنگ اور جہد کا حصہ بن گئیں کہ ان کے بھائیوں اور باپ کی جگہ ان پر تشدد ہو جس کے رد عمل میں وہ جہد میں شرکت کرنے لگے اور جہد میں اچھا کردار ادا کیا۔ نمبییا میں عورتوں کی جہد میں ٹرننگ پوائنٹ اس وقت آیا جب وہ لانگ مارچ کررہے تھے تو 10دسمبر 1959میں انکے بڑے لانگ مارچ پر فائرنگ ہوا اور بہت سی عورتین ماری گئیں جس نے بعد میں انکو قبضہ گیر کے خلاف ایک راستہ دیا کہ جس پر چل کر ان عورتوں نے مردوں کے شانہ بشانہ قبضہ گیر کے خلاف جہد کیا اور اس جہد نے آزادی کا سورج ان کے غلام اور زنجیروں میں جکڑے قوم میں طلوع کروایا اور ان کو جبر اور نجات سے بچایا۔

 

  اسی طرح زمباوے میں ZANUکے 1984کے کانفرنس میں Nehandaبھی ایک ہیروئن کی طرح یاد کیا جاتا ہے کہ جو ظلم وزوراکی اور قبضہ گریت کے خلاف ایک سمبل تھا۔ جس نے برطانیہ کے خلاف جنگ لڑی ۔اور آج آزادی کے بعد اسکی حکو مت اسکا مجسمہ برطانیہ میں رکھنا چاہتا ہے تاکہ اسکی قربانی اور بہادری کو پوری دنیا یاد کرسکے اور آج اسکو زمباوے کے دادی کا لقب دیاگیا ہے۔ 

 

پوری دنیا میں جہاں ایمانداری اور مخلصی سے خواتین نے جہد میں حصہ لیا تو تحقیق سے ظاہر ہوا کہ ان کوروحانی اورجسمانی طاقت حاصل تھی کہ جس کی بدولت ان لوگوں نے ظلم وزوراکی اور قبضہ گیریت کے خلاف ایک سیسہ پلائی دیوار قائم کیا جو ظالم اور جابر کے خلاف روک سولڈ اور آئرن کلاڈ کی مانند ثابت ہوئے۔ 

 

کسی دانشور نے کہا کہ کوئی بھی مکمل آزادی خواتین کی آزادی کے بغیر آزادی نہیں ہوسکتا ہے۔ اسی طرح سے افریقہ سے پہلے دنیا کی تاریخ میں قبضہ گیریت کے خلاف بودیقہBoudiccaایک سمبل کے طور پر یاد کیا جاتا ہے کہ جس نے دوہزار سال قبل رومن قبضہ گیریت کے خلاف برطانیہ کی آزادی کی خاطر جہد کیا اور اس نے آزادی کی تحریک میں عظیم کارنامہ سرانجام دیا۔

 

 بقول رومن دانشور اور محقق Tacitusٹے سی ٹس بودیقہ نے روم اور اسکے باجگزار خیمہ بردار 70000لوگ مارے اور اسکے 9ریجن اس سے کٹ کیا ،اس نے جنگ میں بہادری کی تاریخ رقم کیا۔

 

اسی طرح بلوچ قومی تحریک میں پہلی بار خواتین حصہ لے رہی ہیں اور یہ بلوچ قومی تاریخ اور تحریک دونوں کا رخ بدل سکتا ہے۔ اگر بلوچ عورتین ایک وژن سوچ اور اتحاد اور اتفاق کی پالیسی کے تحت کام کریں اور اپنے ریڈ لائن کراس نہ کریں تو یہ جہد بھی دشمن اور قابض کے لیے ایک نیا فرنٹ کھول سکتا ہے۔ اور عورتیں بھی بلوچستان میں آدھی آبادی ہے اگر وہ جہد میں سرگرم حصہ لیں تو دشمن کی نیندیں حرام ہونگیں اور ساتھ ہی ساتھ بلوچ تحریک اور آزادی کے بعد ایک بہتر سماج کا قیام بھی آسان ہوگا جہاں برابری اور انصاف پر مبنی ایک نظام قائم ہوگا۔

 

 اگر بلوچ خواتین کی طرح باقی مرد اور عورتیں جو باہر کے ممالک میں ہیں یا خلیج میں ہیں وہ ذھنی عیاشی اور ذاتی مفادات اور حیلہ بہانہوں سے نکل کرہر ایک اپنے دائرے میں قومی ذمہ داری ایمانداری سے ادا کرتے ہوئے کام کرے تو دشمن کے لیے بہت زیادہ مشکلات ہوسکتے ہیں اور قابض کے لیے اب وہ ٹائم ہے کہ دشمن مختلف فرنٹ کا شکار ہے اور اسکو مذید سوشل میڈیا میں ِجنگ میں،ڈپلومیسی میں اور میڈیا میں بلوچ کام کرکے کمزور کرسکتے ہیں اور اپنے قوم اور سرزمین کو غلامی سے نجات دلا سکتے ہیں ۔

 

 غلامی کے دوران اور غلامی کے بعد سب سے بڑا قومی مسئلہ نااتفاقی، کرپشن،اقربا پروری اور کام چوری ہے جسکو ذھنی عیاشی کہا جاتا ہے ۔ اور جتنی بھی جلدی ہو سکے جہد کو ان سے صاف کیا جائے ۔اتنا ہی جلدی ہماری قربانیاں قوم اور وطن کو آزادی اور خوشحالی سے نزدیک کریں گی۔

 

 ایک طرف ایک بلوچ کا طبقہ چاہے عورتیں ہو یا مرد ہوں سرمچار ہوں یا سیاسی جہد کار ہوں وہ اپنا سب کچھ تیاک کرقوم اور ملک کی خدمت کریں  تو دوسری طرف ایک طبقہ ہے جو قومی جہد کو گائے کی طرح سمجھ کر صرف اسکا دودھ اور گوشت کھا رہا ہے۔ وہ تحریک کے نام پر صرف کمانا چاہتا ہے بدلے میں گائے کو دودھ دینے اور دیکھ بال کے لیے اس کے پاس وقت نہیں ہے۔ ایسے لوگ جہد اور تحریک کے لیے فائدے کے بجائے وقت اور قومی وسائل کے زیاں کا سبب ہیں۔ 

 

اس لیے جہد کے تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو اپنے اپنے وقت اور وسائل طاقت سے قومی تحریک میں شامل ہوکر اس کو توانا اور طاقتور اور کرپشن اقربا پروری اور ذھنی عیاشی سے بچانا ہے کیونکہ پھر ہزاروں سال تک تحریک اور ملک ہماری نسلوں کی مستقبل کو بھی محفوظ کرسکے گا جس طر ح امریکہ کی جنگ آزادی میں تین سو سال پہلے ان لوگوں نے اپنے تحریک کو کرپشن اقربا پروری اور ذھنی عیاشی سے پاک کیاآج تین سو سال تک انکی آنے والی نسلیں ان کے ثمرات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جبکہ افغانستان،پاکستان،سوڈان سمیت ترقی پزیر ممالک نے شروع میں کرپشن اقربا پروری اور ذھنی عیاشی کو پروان چڑھایا آج تک انکی نسلیں انکے تباہ کن اثرات سے نکل نہیں پا رہی ہیں۔

 

 بلوچ قوم کو آج فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہونا چاہتاہے یا کہ بدحالی اور تباہی کے راستے پر جانا چاہتا ہے۔ اس کا فیصلہ تحریک کے دوران کیاجاتا ہے کیونکہ تحری

ک ریاست کا نیم البدل ہے۔