‫برطانوی استعمار کی برصغیر اور اس کے آس پاس والے مقبوضہ ریاستوں میں صرف طاقت کے استعمال کے بل بوتے پر محدود نہیں تھی بلکہ قابض برطانوی سامراج نے طاقت کے ساتھ ساتھ اپنے قبضہ گیر طریقوں کو برقرار رکھنے کے لئے اس قوم کو ذہنی طور پر مفلوج کرنے کے لئے مختلف طریقے اپنایا تھا۔جیسے کہ جب قابض برطانیہ کے خلاف ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کے بعد لوگوں میں قابض سامراج کے خلاف آزادی اور مسلح جدوجہد کی جزبات شدت کے ساتھ پیدا ہوئے تو تب برطانوی سامراج نے کئی طرح کے منصوبے بنایا جیسے کہ پہلے ہندو اور مسلمان جو کہ تعداد کے اعتبار سے اکثریت میں تھے سب سے پہلے ان کو مزہب کے نام پر لڑا کر ان کے درمیان نفرت پیدا کرکے انکو تقسیم کردیا لیکن اس کے باوجود ہندوستان میں چھوٹی موٹی نوعیت اور برطانوی سامراج کے خلاف نفرتیں ختم نہ ہوسکے ‫-کیونکہ برطانوی سامراج کو ہمیشہ یہ 1857 کی جنگ آزادی کی طرح کا دوسری بار کی بغاوت کا خدشہ تھا ‫جب انگریز سامراج نے لوگوں کو ذہنی غلام بنانے کا طریقہ اپنایا۔ جس میں ان کیلئے سب سے موثر ذہنی غلامی رکھنے کیلئے اس میں صوفی ازم ثابت ہوا‫ -کیونکہ صوفی ازم مذہب یا انسانی طور پر ایک ایسا نظریہ ہیں جو دنیا کو بھائی چارے ، امن وآشتی، پیا ر و محبت اور باہمی اخوت کا پیغام دیتے ہیں ‫اور اس کو پرچار کرنے والے لوگوں کو انسانی دل کی درستی اور اسے رب العزت کی محبت کے سوا ہر دنیاوی ہر چیز سے بے نیاز کرکے رہبانیت کی طرف دکھیلتا ہے- اس وجہ سے صوفی ازم یا دوسرے الفاظ میں پیر پرستی کو مانے والے لوگوں میں مزاحمت کی جزبات کم یا ختم ہوتے ہیں ‫- اس کی بہترین مثال سندھ ہے‫- برطانوی سامراج 1875 کے بغاوت کے بعد سندھ میں پیر پرستی کی ایک نئی روجھان پیدا کیا گیا اگر دیکھا جائے تو وہ سامراجی اسلوب اب تک بھی برقرار ہے- سندھ میں غلام مرتضیٰ سید یا جی ایم سید جیسے رہنما کے باوجود سندھ میں قابض ریاست پاکستان کے خلاف مزاحمت بڑے پیمانے پر شروع نہیں ہوسکی اور آج تک یہ مثال دوسرے اقوام بلخصوص بلوچ اقوام جو خود کو سندھ میں آباد ہے کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ سندھی جنگ اور جھگڑے سے اس طرح بھاگتا ہے جیسا کہ تیز آگ سے جنگلی جانور – اگر عملی طور پر دیکھا جاۓ تو انسان جسمانی و ذہنی طور پر یکساں کمزور ہے – سندھی قوم پر مزاحمت کی کمی برطانوی سامراج کی پیدا کردہ ہے -اور آج تک سندھیوں میں پیر پرستی شدت سے رائج ہے۔ اور برطانوی سامراج نے اپنے مفادات کت تعفظ کیلئے اس دور میں کئی پیر پیدا کیے جو پہلے انگریز سامراج کی استعمار پسندی کو فوقیت دی اور آج ان کے نسل پاکستانی سامراج کو فوقیت دی جا رہی ہے – اسی طرح احمدی فرقہ کی تشکیل بھی انگریز سامراج کی مرہون ‫منت ہے -جس میں احمدی فرقہ کے پیغمبر مرزا غلام احمد قادیانی نے انگریز سامراج کے خلاف مزاحمت کو اپنے مانے والوں کے بیچ حرام قرار دے دیا تھا – آپ کو ایسے ہزاروں واقعات ملے گے کہ انگریز سامراج نے کس طرح پیر پرستی ،مزہب ،سیاسی ،نیشنل ازم میں سیاسی طور پر کیسے کیسے لوگوں کو بیوقوف بنایا اور برصغیر کو لوٹ کر چلا گیا اور اب تک اس کے ذہنی غلامی طریقہ کار قوموں کو مزاحمت سے دور رکھ رہی ہیں – یہ تھا برصغیر کی حال احوال اب بات کرتے ہے بلوچستان کے اوپر انگریز سامراج کی غلامی کی طریقہ واردات کی- خیر انگزیر سامراج نے بلوچستان میں پیر پرستی کو بڑھاوا نہیں دے سکا لیکن انگریز سامراج نے بلوچستان میں قومی سرداروں کے مدمقابل لاکھڑا کر اپنے من پسند سرکاری سرداروں کو غدار وطن بناکر اور ان کو جزا و سزا اور ان کے اوقات سے زیادہ اختیارات دے کر ریاست قلات پر قابض کروالیا اور ان کے بعد اپنے انہی من پسند سرکاری سرداروں کو انعامات کے ساتھ ساتھ انگریز عہدیداروں کی بگھی کو کھینچنے کا زمہ بھی دیا گیا، اور اسی طرح انگزیر سامراج نے اپنے سازشی منصوبوں کو برقرار رکھا-اب شاید لگتا ہے کہ بلوچ مزاحمت کو روکنا سرکاری سرداروں کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے.لیکن 2000 کے بعد بلوچستان کی مزاحمتی سیاست میں ایک نیا رخ پیدا ہوئی جس میں چند قومی سرداروں کے علاوہ باقی سرکاری سرداروں کو روکنے کے لئے سردار اتنے کارآمد نہیں رہے جتنے پہلے تھے اور ساحلی بلوچستان کے علاقے گوادر ،تربت ،مکران وغیرہ میں خیر سرداری نظام ہے ہی نہیں۔ تو وہاں قابض پاکستان سرکاری قوم پرستی جس میں قوم کو طبقوں میں بانٹنے کے رجحانات کو ہوا دے دی۔ جس کی بہترین مثال نیشنل پارٹی کی ڈاکٹر عبدالمالک کی شکل میں موجود ہے -کچھ وقت تک تو یہ سرکاری یا نامنہاد نیشنلسٹ لوگوں کو بیوقوف بناتے رہے لیکن آخر کار یہ بھی ٹوس ہوگئے – اب دانستہ طور بلوچستان کے ساحلی بیلٹ میں جماعت اسلامی کا رجحان پیدا کیا جارہا ہے شاید آپ لوگوں کو پتہ ہوگا کہ جماعت اسلامی قیام پاکستان سے قبل تین شعبان 26 اگست 1941 کو قیام عمل میں لایا گیا یہ جماعت ابو الاعلیٰ مودودی کی کٹر سوچ پر مبنی ہے اور جنرل ضيا الحق کی نام نہاد جہاد افغانستان اور کشمير ميں پاکستانی فوجی پالیسیوں میں ایک سول عسکری ونگ کے طور پر کارآمد رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ‘1971 کے جنگی جرائم میں جماعتِ اسلامی کے الشمس و البدر والی کردار کو قطعا نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بحیثیت ایک سیاسی کارکن میرے ذہن میں کئی سوالات ہے کہ مولانا نے جو شہری حقوق کیلئے عوامی تحریک شروع کی ہے جس میں خواتین کی بھرپور شمولیت نے بھی سب کو متاثر کیا، اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ سیاسی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ان کا عروج اس لیے ممکن ہوا مولانا کی تحریک کے نتیجے میں بلوچ قوم پرستوں کے درمیان فلحال چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں کہ یہ تحریک کئی بلوچ تحریک اور بلوچ نیشنل ازم کے اثرات پر منفی اثرات ڈالنے کے لئے تو نہیں ہے۔ اگر ہے تو بلوچ آزادی پسند سیاسی پارٹیوں اور لیڈر شپ کے پاس اس بارے قوم کو سمجھانا اور متبادل راہ دکھانے کے لیئے کیا کچھ کرنا چائیے تھا،جو وہ اب تک نہ کرسکے۔ کہی ایسا نہ ہو کہ بہت دیر۔ہوجائے۔لہزا اس پر سنجیدہ سیاسی کارکن سر جوڑ کر بیٹھ جائے آپس میں سیاسی مکالمہ بازی کرے،سوشل میڈیا میں ان کے ہر بیان و نعرہ اور سیاسی سرگرمی کو باریک بینی سے دیکھے اور پرکھے،کہی اس غفلت میں ایسا دن نہ آئے کہ ہم میں سے کوئی یہ کہنے پر مجبور ہوجائے اڈے آں ہم نے ان دنوں یہ کرنا وہ کرنا تھا لیکن ہم ان دنوں میں ایسا نہ کرسکے،بعد میں پھچتاوا و افسوس کرنا کس درد کا علاج ہوگا؟ ماسوائے شرمندگی اور احساس ندامت کے ہر بلوچ فرزند کو متحرک ہونا ہوگا! ‫