لندن (ہمگام نیوز) بلو چستان موومنٹ کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ گیارہ اگست انیس سوسینتالیس کا دن وہ دن ہے جب بلوچ مزاحمت کی تسلسل کے سامنے قبضہ گیروں نے ہار مان کر بلوچ قومی آزادی کو تسلیم کرلیا اور اسی طرح بلوچ سرزمین ے ایک حصے یعنی بلوچستان کی مشرقی حصے کی برطانیہ سے آزادی حاصل کی گئی، یہ آزادی بلوچ اجتماعی جہد اور مزاحمت کا نتیجہ ہے اور اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بلوچ قوم نے برطانوی قبضے کے باجود اپنے آپ کو غلام مان کر برطانوی سامراج کے سامنے سرِ تسلیم کبھی خم نہیں کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ جو قومیں اپنے قابضین کے خلاف تسلسل کے ساتھ جد و جہد میں مصروف ہوتے ہیں انہیں اپنے آپ کو غلام نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ غلام وہ ہوتا ہے جو قابض کے طرف سے اپنی سرزمین پر ہونے والی قبضے کو من و عن قبول کرکے انہی قابض قوتوں کے ساتھ ہم پیالہ و ہم نوالہ ہوجائے،لیکن تاریخ گواہ ہے کہ بلوچستان پربرطانوی سامراج کا قبضہ ہو، یا پھر برطانیہ کی مدد سے ایرانی استعمار کا قبضہ ہو یا پھر اسکے بعد ایک بار پھر برطانوی سازشوں کے ذریعے پاکستای قبضے کو یقینی بنانا ہو،بلوچ قوم نے پہلےبرطانوی قبضہ گیر کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور اس خطے سے برطانوی انخلا کے وقت بالاخر بلوچ مزاحمت کی تسلسل کو کامیابی ملی اور بلوچستان کے مشرقی حصے کی آزاد حیثیت کو گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کو قبول کیا گیا۔
ترجمان نے کہا کہ علاوہ ازیں ایرانی قبضے کے خلاف بھی بلوچ راجی مزاحمت کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ بلوچ نے کبھی بھی اپنی سرزمین کی ایک انچ سے دست برداری جیسے شرمناک عمل کے بارے میں نہیں سوچا ہے، قابضین اور بلوچ قوم کے درمیان طاقت کے توازن کے درمیان حائل حقیقت نے بلوچ قوم کو اپنی سرزمین کی واگزاری کے لیئے جد و جہد سے کبھی باز نہیں رکھا، اسی لیے بلوچ ہر محاذ پر چاہے وہ ماضی کا برطانوی سلطنت ہو یا پھر آج کے بلوچ دشمن ایران و پاکستان ہوں۔ بلوچ نے ہمیشہ قابضین کے خلاف جہد آزادی کا علم بلند کئے رکھا اور بلوچ قوم ہمیشہ اپنی سرزمین کی مقبوضہ حیثیت کے بارے سوچتا اور فکر و عمل میں مصروف رہا ہے۔
اسی لیے ہمیں آج اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے کہ بلوچ قوم دونوں قابضین ایران و پاکستان کے خلاف ایک مزاحم قوم کی حیثیت سے زندہ ہے اور اپنے کردار و عمل سے ثابت کررہا ہے کہ وہ ایران و پاکستان کے ہاتھوں مقبوضہ ضرور ہے لیکن بلوچ قوم غلام ہرگز نہیں کیونکہ غلامی ایک فکری و ذہنی کیفیت ہے اور بلوچ قوم کو اپنی سرزمین پر ہونے والی قبضہ کا بخوبی ادراک ہے، جب قبضے خلاف جد و جہد ہو رہی ہو تو غلامی کا فکر از خود ختم ہوجاتا ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ البتہ ایسے لوگوں کی فکری غلامی کبھی ختم نہیں ہوسکتی جو کمزوری و بیچارگی کے عالم میں قابض کی تر نوالوں کی طرف پرامید نظروں سے دیکھیں اور قابض کو ہی اپنی نجات دہندہ سمجھ بیٹھیں۔
دنیا میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ کبھی کسی قابض طاقت نے آکر مقبوضہ خطے کی لوگوں کی مدد کی ہو، آج بلوچستان کے منظرنامے میں یہی حقیقت کارفرما ہے ۔آج نا ایران بلوچ کا دوست و غمخوار ہوسکتا ہے اور نہ ہی پاکستان بلکہ ماضی میں تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان و ایران نے مختلف اوقات میں بلوچ قومی جہد مسلسل کی مزاحمتی قوت کو ختم کرنے لیئے اشتراک عمل کیا۔
انیس ستر کی خونی آپریشن میں بلوچ فرزندوں کی بہتی خون کے نقوش دونوں قابضین ایران و پاکستان کے ہاتھوں یکساں طور پر موجود ہے اور دونوں نے ملک کر بلوچستان کے قبضے کے خلاف بلوچ اجتماعی جہد کو ختم کرنے کی کوشش کی، لیکن اگر بلوچ اپنے قابضین کے ہاتھوں استعمال ہونے اور دونوں قابضین کو نجات دہندہ سمجھنے کے بجائے اپنے قومی قوت کو یکجا و یکسو کرکے دونوں قابضین کے خلاف جد و جہد کرے تو کوئی بعید نہیں بلوچ قوم ایک بارپھر گیارہ اگست انیس سو سینتالیس جیسی راجی آجوئی کی صبح طلوع ہوتے دیکھی گی۔
بیان میں کہا گیا کہ غلام قوم یا غلام انسان وہ ہوتا ہے جو ذہنی طور پر کسی بھی قابض قوت کی غلامی کو اپنی ذہن میں تسلیم کرلے یا پھر وہ اپنی سرزمین پر قابض قوت کی طاقت کی حجم سے ڈر کر اپنی اجتماعی جداگانہ قومی حیثیت سے دست بردار ہوجائے لیکن بلوچ قوم جس طرح گیارہ اگست کو برطانوی سامراج کی قبضے سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی بالکل اسی طرح ایک بار پر بلوچ قوم اپنے وطن پر قبضے کے خلاف اپنی جہد و مسلسل مزاحمت کے ذریعے ایران و پاکستان دونوں قابضین سے اپنے وطن کی ایک ایک اینچ کو واگزار کرنے کامیاب ہوجائے گی۔
ترجمان نے آخر میں کہا کہ گیارہ اگست کا دن ہمیں یہ یقین دلاتا ہے جب قوم اپنی متحدہ قوت کو قابضین کے خلاف یکجاہ کرتے ہوئے اپنی ہی بلوچ عوام کو طاقت سرچشمہ سمجھے تو قابضین کتنی طاقتور کیوں نہ ہوں ان سے آزادی کا حصول ایک نہ ایک دن ضرور شرمندہ تعبیر ہوگی۔