مقبوضہ بلوچستان میں فوجی جاریت کے لیے پاکستانی فوج اور اس کا پالتو اسمبلی متفق ہے کہ بلوچستان میں فوجی جاریت کے ذریعے مکمل خاتمہ کریں مگر پنجابی دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں کہ ہارڈ اسٹیٹ دنیا میں جہاں کئی نافذ ہوا ہے وہاں آزادی کی تحریکیں کامیاب اور جمہوری نظام نافذ ہوا ہے ، بلوچ قوم کی آزادی کی تحریک قربانیوں کا مجموعہ ہے اور اس کو کوئی بھی شکست نہیں دے سکتا بہرحال تاریخ میں کسی بھی ملک میں ہارڈ اسٹیٹ کو نافذ کیا گیا ان کو منہ کی کھانی پڑھ گئی ہے ، ویسے بھی پنجابی ریاست نے جس دن بلوچستان پر قبضہ کیا اس دن سے بلوچستان میں ہارڈ اسٹیٹ نافذ ہے اور بلوچ قوم نے 27 مارچ 1948 قبضہ کے دن سے اب تک پنجابی کے ہارڈ اسٹیٹ کلیہ سے نبرازما ہے اور بلوچ قوم کی یہ مزاحمت اپنے منزل کے حصول تک جاری رہے گی۔
،ہارڈ اسٹیٹ (Hard State) ایک ایسا ریاستی ڈھانچہ ہوتا ہے جو زیادہ تر فوجی طاقت، سیکیورٹی اداروں اور سخت گیر بیوروکریسی پر انحصار کرتا ہے۔ اس میں عوامی شمولیت کی گنجائش کم ہوتی ہے، اور یہ اپنی پالیسیوں کو سخت گیر طریقے سے نافذ کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرتا ہے۔ ایسے ریاستی ماڈلز میں سول اداروں کی نسبت فوجی اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔
دنیا میں ہارڈ اسٹیٹ کے خلاف کئی تاریخی مزاحمتی تحریکیں اور ردعمل سامنے آئے ہیں۔ چند اہم مثالیں درج ذیل ہیں:
سوویت یونین اور اس کے زیرِ اثر مشرقی یورپی ممالک (جیسے پولینڈ، ہنگری، اور چیکوسلواکیہ) میں ریاستی طاقت زیادہ تر سخت گیر سیکیورٹی اداروں پر مبنی تھی۔ تاہم، 1989-1991 میں مشرقی یورپ میں عوامی احتجاج اور اصلاحات کی تحریکوں (جیسے پولینڈ میں سولیڈیرٹی موومنٹ) کے نتیجے میں یہ حکومتیں گر گئیں اور جمہوری نظام نافذ ہوا۔
چلی، ارجنٹائن، اور برازیل میں 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں فوجی آمروں کے خلاف عوامی احتجاج ہوئے، جس کے نتیجے میں ان ممالک میں جمہوریت بحال ہوئی۔
ہارڈ اسٹیٹ کے خلاف نظریاتی مزاحمت
فلسفیانہ اور سیاسی لحاظ سے بھی ہارڈ اسٹیٹ کے خلاف کئی بیانیے موجود ہیں
لبرل ازم: جو فرد کی آزادی اور جمہوریت پر زور دیتا ہے۔سوشلزم: جو ریاستی طاقت کو عوامی فلاح کے لیے محدود کرنے کی وکالت کرتا ہے۔
عوامی مزاحمتی تحریکیں: جو انسانی حقوق اور جمہوری حقوق کے لیے لڑتی ہیں۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہارڈ اسٹیٹ اگرچہ وقتی طور پر استحکام لا سکتی ہے، لیکن طویل مدت میں عوامی ردعمل اور سیاسی اصلاحات کے نتیجے میں یا تو اسے کمزور ہونا پڑتا ہے یا مکمل طور پر بدلنا پڑتا ہے۔
دورِ نپولین (1799-1815)
نپولین بوناپارٹ نے ایک مضبوط مرکزی ریاست قائم کی، جہاں فوجی طاقت اور بیوروکریسی کا بڑا کردار تھا۔
اس دور میں سخت قوانین، پریس پر پابندی اور وسیع فوجی فتوحات دیکھی گئیں۔
نپولین کی شکست کے بعد فرانس میں کئی بار سخت گیر اور جمہوری حکومتوں کا اتار چڑھاؤ رہا۔
چارلس ڈیگال اور جدید فرانسیسی ریاست دوسری جنگِ عظیم کے بعد، چارلس ڈیگال نے ایک مضبوط صدارتی نظام (پانچویں جمہوریہ) متعارف کروایا۔
1968 میں طلبہ اور مزدور تحریکوں کے نتیجے میں حکومت کو اصلاحات پر مجبور ہونا پڑا، جس نے ہارڈ اسٹیٹ کے اثرات کم کیے۔
قیصری جرمنی (1871-1918)
بسمارک کے دور میں ایک سخت گیر بیوروکریسی اور فوجی ریاست قائم کی گئی، جس میں آزادیوں پر قدغن تھی۔
پہلی جنگِ عظیم کے بعد جرمن بادشاہت ختم ہو گئی اور جمہوری ویمر ریپبلک بنی، لیکن یہ زیادہ دیر نہ چل سکی۔
نازی جرمنی (1933-1945)
ایڈولف ہٹلر کی قیادت میں نازی جرمنی ایک انتہائی سخت گیر ریاست بن گیا۔
گیسٹاپو (خفیہ پولیس) اور دیگر ادارے ریاستی کنٹرول کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیے گئے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد جرمنی کو جمہوریت کی طرف لے جایا گیا اور ہارڈ اسٹیٹ کے اثرات کم کیے گئے۔
میجی دور (1868-1912) اور جنگی جاپان (1930-1945)
میجی دور میں جاپان نے جدیدیت اختیار کی، مگر سخت گیر بیوروکریسی اور فوجی اثر و رسوخ قائم رہا۔
1930 کی دہائی میں جاپانی سلطنت نے توسیع پسندانہ پالیسی اپنائی اور ایک سخت فوجی ریاست میں بدل گئی۔
دوسری جنگِ عظیم میں شکست کے بعد، امریکہ نے جاپان میں ایک جمہوری آئین نافذ کیا، جس سے ہارڈ اسٹیٹ کا خاتمہ ہوا۔
آزادی کے بعد انڈونیشیا میں صدر سوکارنو نے ایک سخت گیر حکومت قائم کی، جہاں سیاسی آزادی محدود تھی۔
1965 میں کمیونسٹ مخالف قتلِ عام اور فوج کے بڑھتے اثر و رسوخ کے بعد سوکارنو کا اقتدار ختم ہو گیا۔
سوہارتو کا آمرانہ دور (1967-1998)
جنرل سوہارتو نے “نیو آرڈر” کے تحت ایک سخت گیر ریاست قائم کی، جہاں فوج، انٹیلیجنس اور بیوروکریسی کا بڑا کردار تھا۔
1998 میں عوامی احتجاج اور اقتصادی بحران کے بعد سوہارتو کا زوال ہوا، اور انڈونیشیا میں جمہوریت کی بحالی ہوئی۔
نسلی امتیاز (1948-1994)
جنوبی افریقہ میں اپارتھائیڈ (Apartheid) نظام کے تحت ایک سخت گیر ریاست قائم رہی، جہاں سیاہ فام آبادی کو حقوق سے محروم رکھا گیا۔
ریاست نے پولیس، فوج اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے ذریعے سخت کنٹرول قائم رکھا۔
1990 کی دہائی میں عوامی مزاحمت، عالمی دباؤ اور نیلسن منڈیلا کی قیادت میں جمہوری اصلاحات آئیں، جس کے نتیجے میں اپارتھائیڈ کا خاتمہ ہوا اور جنوبی افریقہ ایک جمہوری ملک بن گیا۔
دنیا میں کبھی نہ کبھی ہارڈ اسٹیٹ رہے ہیں، مگر عوامی تحریکوں، بین الاقوامی دباؤ اور اندرونی اصلاحات کی بدولت وقت کے ساتھ جمہوریت کی طرف بڑھ گئے۔ کچھ ممالک، جیسے جرمنی اور جاپان، سخت گیر ریاست سے مکمل جمہوری معاشروں میں بدل گئے، جبکہ انڈونیشیا اور جنوبی افریقہ میں بھی جمہوریت مضبوط ہوئی۔
ہارڈ اسٹیٹ نے عرب اسپرنگ (Arab Spring) ایک سلسلہ وار عوامی احتجاج کو جنم دیا ، مظاہروں، بغاوتوں اور انقلابات کا مجموعہ تھا، جو 2010 کے آخر میں تیونس سے شروع ہوا اور پھر مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے کئی ممالک تک پھیل گیا۔ اس تحریک کا مقصد حکومتوں کی بدعنوانی، بے روزگاری، جبر، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔
عرب اسپرنگ کا آغاز 17 دسمبر 2010 کو تیونس میں ہوا، جب ایک نوجوان سبزی فروش محمد بوعزیزی نے پولیس کی زیادتیوں کے خلاف خودسوزی کی، جس نے ملک بھر میں مظاہروں کو جنم دیا۔ جس کے اثرات بعد میں
تیونس مصر، لیبیا، یمن، شام، بحرین اور دیگر ممالک تک پہنچا۔
تیونس: صدر زین العابدین بن علی کی حکومت ختم ہوگئی، اور ملک میں جمہوری اصلاحات ہوئیں۔
مصر میں حسنی مبارک کی حکومت کا خاتمہ ہوا، لیکن بعد میں فوج نے اقتدار سنبھال لیا۔
لیبیا میں معمر قذافی کی حکومت کا خاتمہ ہوا، مگر ملک خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔
یمن علی عبداللہ صالح کی حکومت کا خاتمہ ہوا، لیکن ملک بدامنی کا شکار رہا۔
شام بشار الاسد کے خلاف مظاہرے خانہ جنگی میں بدل گئے، جو اب تک جاری ہے۔
اور کچھ ممالک میں جمہوریت کی راہ ہموار ہوئی، جبکہ کچھ میں مزید عدم استحکام پیدا ہوا۔
شام اور لیبیا جیسے ممالک میں جنگ اور انسانی بحران پیدا ہوئے۔
مشرقِ وسطیٰ کی سیاست اور عالمی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
عرب اسپرنگ کا مکمل اثر آج بھی کئی ممالک میں محسوس کیا جاتا ہے، اور یہ تحریک مشرقِ وسطیٰ کی جدید تاریخ کا ایک اہم باب بن چکی ہے۔