مظلوم تو بہر صورت مظلوم ہے لیکن بعض موقعوں پر یہی مظلوم یا تو غاصب بن جاتا ہے یا پھر غاصب کا ہم نوا بن جاتا ہے، اسکے زہن میں چھین کر حاصل کرنے کا جو چھاپ ہے وہ ماضی کی یادوں سے متعلق ہے، وہ یہ جانتا ہے کہ اس سے چھین لیا گیا لہذا اب وہ چھین کر حاصل کرنا چاہتا ہے، لیکن مظلوم جب تلک مظلوم ہے اور جد و جہد کررہی ہے بھلا اسکی جد و جہد سے کیسے انکار اور چشم پوشی کی جاسکتی ہے، کیونکہ اکیلے ہم تو نہیں ہیں کہ جو اس دنیا میں مظلوم و معتوب بن کر جد و جہد کی راہیں تلاش رہے ہیں بلکہ کثیر القومی اور کثیر النسلی اس دنیا میں ہم جیسے بہت ساری دیگر اقوام و نسلیں بھی ہیں جو ستم رسیدگی کی کشٹ اٹھا رہے ہیں، وہ جد و جہد کررہے ہیں اپنے حقوق کے لئیے اپنے وطن کے لیئے یا اپنی جینے کی حق کے لیئے، بلوچ ان تمام قوموں سے الگ بھی نہیں ہے، لیکن اسکی اپنی ایک جد و جہد ہے جسے ہم آزادی کی جد و جہد کہتے ہیں، لفظ ” آزادی ” بہت ساری دیگر ہونے والی جد و جہد سے بلوچ کو ممتاز مقام عطا کرتی ہے، اور اس میں ہم بات کرتے ہیں عظیم تر بلوچ وطن کی خواب کا جو کہ انگریز سرکار نے مقامی گماشتوں سے ملکر مختلف حصوں میں نہ صرف بانٹا بلکہ آج وہ سرحدیں کثیراللسانی بنیادوں پر تنازع کی وجہ ہیں، ویسے تو بلوچ کا موقف بغیر کسی لگی لپٹی کے سیدھا سادھا ہے یعنی اسے اپنے وہ تمام علاقے جو کسی بھی وقت، کسی بھی وجہ سے اور کسی بھی قوم کے ساتھ ملکر تقسیم کیے گئے ہیں وہ واپس بلوچ آزاد وطن کے سرحدوں کے اندر چاہئیں اور اسی وجہ سے آج بلوچ کا مسئلہ کثیر الجہتی شکل اختیار کرچکا ہے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ ایران اور پاکستان کے اندر بسنے والی دیگر اقوام سے بھی اسی طرح کے باہمی تنازعات موجود ہیں چاہے بلوچستان کو کاٹ کر سندھ میں شامل کیا گیا ہو یا پھر اسے پنجاب و پشتون علاقوں میں ضم کیا گیا ہو یا پھر خود پشتون قوم سے متعلق بسا علاقوں کو بلوچ بندوبست میں شامل کرکے اس مسئلے کو مزید پچیدہ بنانے کی سعی کی گئی ہے، یہ تمام مسائل اپنے اندر ایک مشترکہ خصوصیت یہ رکھتے ہیں کہ بلوچ مسئلے کا حل ان تمام قوموں یا علاقوں سے اپنے تاریخی حصے کی زمین کو واپس حاصل کرنا ہے، افغانستان بھی اس تقسیم کا حصہ ہے کہ بلوچ کے کئی علاقے اس میں شامل ہیں لیکن افغان معاملے میں امید افزاء بات یہ ہے کہ افغان قوم چاہے وہ کوئی بھی ہو، شاہوں کی حکومت ہو، سوشلسٹ و کمیونسٹوں کی دور اقتدار ہو، ملا ہوں یا پھر جہموریت پسند کرزئی و اشرف غنی کی حکومت ہو انہوں نے بلوچ مسئلے کو بنیادی طور حل کرنے کی طرف کوئی خاص دلچسپی تو نہیں دکھائی مگر ان کا اپنی اپنی ترجیحات کے تناظر میں یہ مشترکہ موقف کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو حتمی سرحدی لائن نہیں مانتے یہ بات خوش آئندہ اس لیئے ہے کہ اس کو نہ ماننا ہی بلوچ قومی جد و جہد کی موقف کا اعادہ اور ایک حد تک عکاسی کرتا ہے، یعنی افغان جب اسکو نہیں مانتے تو معاملات اسی ڈیورنڈ لائن کہ جو 12 نومبر 1893 کو پاراچنار میں ترتیب پایا تھا سے پہلے والے حالت میں واپس چلے جائیں گے، گو کہ ممکنات کے حوالے مسقبل میں ایسے کسی بھی معاملے میں عملی میدان کے اندر کچھ بھی اوپر نیچے ہوسکتا ہے مگر جو آج کی افغان قومی بیانیہ ہے وہ بلوچ قوم کے لیئے حوصلہ افزاء ہے، اسی طرح بلوچ بھی کسی ایسی زبردستی یا مجبوری کی سرحدی لیکروں چاہے وہ میکموہن لائن ہو یا گولڈ اسمتھ لائن ہو، کو نہ مانتے ہوئے ایک متحد اور عظیم بلوچ سرزمین کے مطالبے پر ابھی تک ساکت ہیں، یعنی بلوچ سرزمین کو بزور شمشیر اور بلوچ منشاء و خواہش کے برعکس جہاں جہاں اور جن مختلف ادوار میں تقسیم کیا گیا اور اس تقسیم کے مابعد جو حق حکمرانی بلوچ قوم سے چھن گئی اور دوسروں کے ہاتھوں میں چلی گئی بلوچ اسی حق حکمرانی، اپنی آذاد حیثیت اور وطن کی متحدہ پہچان کو واپس پانے کی ایک جد و جہد میں مصروف ہے، اس میں کوئی لگی لپٹی نہیں ہے یعنی کہ بلوچ محض آزادی چاہتے ہیں اور اسی نقطے پر بلوچ کا کسی بھی قوم خطے یا نسل سےمخاصمت یا دوستی ہوسکتی ہے، باقی دنیا میں جتنی بھی تحریکیں ہیں وہ بلوچ کے اخلاقی امداد کے نہ صرف حقدار ہیں بلکہ بلوچ کو جہاں تک انکی مجبوری و تنگدستیاں اجازت دیں، بلوچ کو انکی بھر پور اخلاقی حمایت و امداد کرنی چاہیئے، جیسا کہ احوازی ہوں، کرد آذادی پسند ہوں، لر ہوں، افغان ہوں یا پھر یورپین سماج میں نئی کروٹ لیتی نسلی و قومی پہچانیں ہوں بلوچ نے ان تمام قوموں و نسلوں کی نہ صرف لفظی بلکہ اپنی بساط کے مطابق عملی حمایت بھی کی ہے، ابھی پشتون تحفظ موومنٹ کی جرمنی میں جو مظاہرہ ہوا اس میں فری بلوچستان مومنٹ کے کارکنوں نے شرکت کرکے ایک مثبت پیغام دینے کی کوشش کی، یہ عمل اپنی حمایت کا اظہار تھا جو شاید چند لمحوں کی احتجاج پر محیط تھا۔ چونکہ آپ ایک غلام قوم ہیں خود ہی غلامی کے خلاف برسرِ پیکار ہیں تو یہ بات لازم بن جاتی ہے کہ دنیا کہ دیگر تحریکوں و دیگر اقوام کا دکھ اور درد ایک طرف اور آپکی دکھ اور تکلیف ایک طرف، دنیا میں موجود دیگر مظلوموں کی دکھ محسوس ضرور کرو انکے حق میں ہوسکے تو آواز بھی اٹھاؤ مگر پہلے اپنے باغیچے میں شادابی کی سامان کیجیئے پھر کسی اور کے غم میں حد سے بڑھکر ضرور مبتلا ہوجانا، لیکن آپ کا اپنا قوم غلام ہو اور آپ کو کسی اور کا غم کا کھائے جارہا ہو اور آپ اپنی تحریک کے اندر شدید ترین بد انتظامی، شکست و ریخت اور انتشار کا شکار ہوں اور کسی اور کی طرف دست شفقت سے بھی زیادہ اپنا سارا وقت اپنی قوت اور ہمت اسکے لیئے صرف کریں تو یہ اپنے جاری تحریک سے راہ فرار کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے، ہاں جہاں جہاں آپکو اپنی تحریک کے حوالے سے کوئی ایسا نقطہ نظر آجائے جہاں آپکی شمولیت آپکی اپنی قومی تحریک کو ایک قدم آگے دھکیل سکے تو اس میں ضرور جائیے مگر محض نام و نمود کے لیئے صرف اپنی سیاسی جگالی کی خاطر اور وقت گزاری کے واسطے سیاسی رومانس کے لیئے کسی اور کے دکھ درد میں ایسے شریک ہوجانا کہ جیسے آپ کا اپنا تو سب کچھ راہ راست پر ہے تو یہ رویہ نہ آپکی اجتماعی عمل کو فائدہ پہنچائیگی اور نہ ہی آپ کی سیاست کو کسی دوسرے مظلوم اقوم کی حقیقی مدد کے قابل بنائیگی، پاکستان کے زیر قبضہ بلوستان کے بہت سارے بلوچوں کا ایران کے مقبوضہ بلوچستان کے اندر جاری بدترین ریاستی جبر اور وہاں کے بلوچوں کے دکھ درد میں شریک ہونے اور ان دونوں غاصبوں کے خلاف مہم چلانے پروپیگنڈا کرنے اور دنیا تک انکی اصلیت پہچانے اور اپنی مظلومیت کی داستان سنانے میں تو پیٹ سے مروڑ اٹھتے ہیں مگر آئے روز کبھی دیکھو تو پشتون تحفظ موومنٹ سے تقابل اور اسکی باتیں، اس سے امیدیں ان سے اپیلیں انکی تشہیر، ان سے شکوے شکایتیں اور ان سے خوش ہوجانے کا جو زعم ہے وہ لبرل سیاست کی خانہ پری تک تو ٹھیک ہے کہ مگر ایک عام بلوچ کہ جسکا اپنا نہ حال اچھا ہے اور نہ مسقبل کی کوئی واضح امید تو اسکے لیئے بلوچ قومی تحریک ہی سب امیدوں کا محور ہے(اگر امیدوں پر پورا اترے تو وگرنہ چار اطراف تاریکیوں کے علاوہ کچھ نہیں) اس بلوچ مظلوم کے لیئے وہ تمام غاصب ہیں جو کہ آج بلوچ سرزمین پر بیٹھ کر اسکی وسائل کو لوٹ کر اسکی شناخت کو مسخ کررہے ہیں، یہ چیز تو محض پنجابی یا گجر پر موقوف ہر گز نہیں، ہر کوئی دہائی دے رہا ہے کہ بلوچ سرزمین پر ہونے والی کشت و خون کے خلاف خاموشی گناہ ہے (ہزارہ نسل کشی کے تناظر میں) لیکن یہ کیسی گناہ ہے کہ جہاں آپ خود اسی کشت و خون سے بہتی ہوئی لہو کی ندی میں نہلائے جارہے ہو اور آپکو تکلیف ہے کہ میری سرزمین پر یہ کشت و خون نہیں ہونا چاہیئے، بھائی کاہے کا سرزمین کونسی سرزمین پہلے اپنی سرزمین کو واگزار تو کرو پہلے اس سرزمین کا مالک تو بن جاؤ اسی ملکیت کی دفاع کی خاطر جو جد و جہد چل رہی ہے اسکو تو ایک سمت دو اور اپنی جد و جہد میں سرخرو ہونے کے بعد یہ زمہ داری تم پر ہوگی کہ اپنی سرزمین پر ہونے والی کسی طرز کی کشت و خون کی حوصلہ شکنی کرو، مبادا ایسا ہوا تو خاموشی یقینا گناہ ٹہرجائیگی، لیکن ابھی تو ہزارہ ہو یا پٹھان ہو یا پنجابی ہو بلوچستان میں انکے تحفظ و سیکیورٹی جیسے ڈھکوسلوں کی آڑ میں بلوچ قوم کی زندگی اجیرن کردی جاتی ہے، ایسے میں بہک جانے اور راستہ موڑنے اور قومی آذادی کے سیاست سے لبرل نظریات کی لنڈے بازار میں چورن بیچنے سے کس کا فائدہ اور کس کا نقصان، ویسے کیا آپکے کہنے یا مہم چلانے سے یا پھر آپکی طرف سے ہونے والے اس موہوم سی واویلے سے ڈر کر کشت و خون کرنے والے رک جائیں گے یا انکے ہاتھ تھم جائیں گے اگر ایسا ہوتا تو کیا ان بد نصیب بلوچ ماؤں کی آہوں اور سسکیوں سے یہ خون سے رنگے ہاتھ نہ رک جاتے، ہم سب کو پتہ ہے کہ بلوچستان میں چاہے پشتون مرے، بلوچ خاک کا رزق ہوجائے کوئی ہزارہ پناہ گزین جان سے جائے، یا پنجابی سیٹلرز کی موت واقع ہو اسکے پیچھے جو محرکات ہیں وہ میرے اور آپ کے ان بے وقت کی راگنی سے نہیں رکنے والے تو اس میں وقت کا زیاں کرنے اور اپنی تحریک سے مڑ کر کسی دوسرے سمت میں خود اور قوم کے دیگر طبقات کو لگانے سے کیا وقت اور طاقت کو ضائع نہیں کیا جارہا، اس بڑھکر کیا انجانے میں خود تحریک کی مجموعی بیانیے کو رد نہیں کیا جارہا، اظہار ہمدردی تک بات رک جاتی تو پھر بھی ٹھیک تھا مگر یہاں تو ؑعالم یہ ہے کہ لوگ باقائدہ وقت گزاری اور ایک مکمل مسئلے کے طور ان تمام واقعات کو اپنے اوپر حاوی کرچکے ہیں، اپنی تحریک اور اس میں پیدا شدہ تعطل و انجماد سے نمٹنے کو کوئی حکمت عملی نہیں، روز روز کے بنیاد پر تنظیموں کو توڑ کر ان میں اپنی ڈیڈھ انچ کی مسجدیں بنائی جارہی ہیں اور مروڑیں اٹھ رہی ہیں دوسرے اقوام یا نسلوں پر ہونے والی مظالم کا۔ ہزارہ پناہ گزینوں کی تاریخی سچائیاں بلوچ کے حوالے سے کافی تلخ ہیں، کوئی مانے یا مانے لیکن ہزارہ بلوچستان کے نہیں ہیں بلکہ وہ افغانستان میں جاری ظلم و ستم کی وجہ سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں، افغانستان کے امیرعبدالرحمان خان 1880- 1902 کے دور اقتدار کے دوران ہزارہ برادری پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے گو کہ اس سے پہلے وہ بلوچستان میں آباد تھے مگر متشر اور عارضی بنیادوں پر محض آمد و رفت و کاروباری غرض سے آئے ہوئے تھے، لیکن اسکے بعد وہ بلوچستان میں جان کی امان پانے کے لیئے آئے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے، امیر عبدالرحمان کے درباری لکھاری فیض محمد کاتب کے مطابق تقریبا 20 لاکھ ہزارہ افغانستان سے ہجرت کرکے دوسرے ملکوں میں گئے، جب پاکستان میں مذہبی فرقہ واریت ایران سعودی چپقلش کی آگ نہیں بھڑکی تھی تب تک ہزارا نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بلوچستان کے حوالے سے اپنا کیا موقف رکھا تھا وہ ہمارے سامنے ہے، کوئٹہ کہ گرد و نواح میں باقاعدہ سگینوں سے مسلح ان لوگوں نے بلوچوں کے ساتھ کئی دفعہ خون کی ہولیاں کھیلیں، گو کہ وہ ماضی ہے، لیکن ابھی جب مذہب کے نام پر کوئٹہ میں واقع ہزارہ پناہ گزین برادری کے افراد کو مارا جارہا ہے تو اسی مذہب کے نام پر ہمیں بھی قتل کیا جارہا ہے دکھ تو سانجھی ہے اور دشمن بھی سانجھی مگر وجوہات مختلف ہیں اور یکسر مختلف ہیں، اور ان وجوہات کی جو توجیح بیان کی جاتی ہے وہ مختلف ہیں، یعنی بلوچ فوج کو قاتل سمجھتی ہے اور ہزارہ فوج سے تحفظ کا خواہاں ہے، آج ہزارہ کو نام نہاد مذہبی منافرت کا نشانہ بناکر پاکستانی ریاست ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتی ہے، ایک تو سعودی کی قربت اور ایران سے سنی شیعہ کی بنیاد پر رقابت کا حساب چکتا کرنا، دوسری طرف اپنی حقوق اور آزادی کی جاری بلوچ تحریک کی اثرات کو زائل کرکے اسکی مقاصد و اہداف کو دھندلا کرنا، تیسری طرف اپنے لیئے جنگی و حربی سرمایے کی شکل میں مدارس کی بھر مار اور انکی خفیہ و ظاہری امداد و تربیت تاکہ بوقت ضرورت ان سے کام لیا جاسکے اور چوتھی اور سب سے اہم یہ کہ ہزارہ یا دیگر کی آواز پر بلوچستان میں فوج کی استعداد و گرفت کو توسیع دے کر بلوچ آزادی پسندوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا، اور ساتھ ہی ساتھ بلوچ جیسے روادار و مہمان نواز معاشرے میں مذہب کی بنیاد پر معاشرے کو بانٹنا اور اس کام میں ہمارے کچھ اپنے بھی ماشااللہ سے ریاست کی کام اور بیانیے کی قبولیت کو بہت آسان بنائے ہوئے ہیں، لیکن کیا واقعی یہ مذہبی معاملہ ہے یا پھر دو ملکوں کے درمیان کوئی سیاسی چقپقلش کا معاملہ یا اس بھی بڑھ کر ہے، ہم اپنی بات پر قائم ہیں کہ بلوچستان میں کوئی مذہبی فرقہ واریت کی جنگ نہیں ہے بلوچستان میں ایک آذادی کی جنگ ہے جسکو رد کرنے کے لیئے مذہبی فرقہ واریت کے نام کا سہارہ ضرور لیا جارہا ہے اور اس سہارے میں خود بلوچ بھی محفوظ نہیں ہے، آج بلوچ بھی ریاست کے ان زر خریدوں کے ہاتھوں میں مررہے ہیں جنہیں ہم مذہبی جنونی کہتے ہیں اگر یہ مذہبی جنونی ہیں اور ہزارہ کو شیعہ ہونے کی وجہ سے ماررہے ہیں تو اس میں پھر بلوچ کیوں مررہا ہے بلوچ تو اکثریتی لحاظ سے سنی مسلک سے وابستہ ہے اور جہاں جہاں یہ واقعات کی زور ہے وہاں تو بلوچ آبادی کی اکثریت ہی نہیں بلکہ سو فی صدی سنیوں پر مشتمل ہے اور مارنے والے بھی مسلکی اعتبار سے سنی ہیں اور نسلا بلوچ ہیں، جب 1999 میں صوبائی وزیر نثار علی ہزارہ کی گاڑی پر حملہ کیا گیا تھا تو اسی وقت یہ سمجھ لیا گیا کہ بلوچ کی نئی تحریک سے خوف زدہ ریاست کس طرح اسکو مذہبی و لسانی رنگ میں الجھانا چاہتی ہے اور بہت سارے ہزارہ بھی اس کو بلوچ تحریک میں جاری عسکری جد و جہد سے جوڑتے رہے، اسکے بعد ہزارہ برادری کی نسل کشی میں شدت لائی گئی جو جاری ہے، ہمارے پیش رو اور سیاسی و زمینی حقائق تو یہی کہتے رہے ہیں کہ ہزارہ اپنے آپ میں مظلوم ضرور ہیں کہ انکو افغانستان میں جینے نہیں دیا گیا اور پھر ایران نے بھی انکو ” باربری ” یعنی منگولین کہہ کر کسی حدتک پناہ گزینی کے دروازے ان پر بند کردیئے تو وہ در بدر مارا مار پھرتے پھراتے بلوچستان میں آبسے، بلوچ مہمان نواز ہے سو اس نے مہمان نوازی کی بھرم رکھی اور انکو جگہ دی اور انکی نسلی بنیادوں پر قتل عام نہیں کیا نہ پہلے کیا نہ آج کی اس تحریک کے دوران بلوچ لیڈرشپ یا تحریک کی بنیادوں میں اس حوالے سے کوئی شائبہ موجود ہے، لیکن خود ہزارہ نے اپنی پناہ گزینی کی حیثیت پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ بلوچ و بلوچستان کے سیاست میں باقاعدہ فریق اور مالک بن جانے کی تگ و دو میں لگ گیا اور ریاست کی طرف سے اس کو دسیوں محازوں پر ترجیحی حیثیت سے نوازا بھی گیا، اور تاریخ گواہ ہے کہ ہزارہ پناہ گزین ریاست کی ان نوازشوں سے خوب لطف اندوز ہوتا رہا، وہ آج تک اپنی سیاسی معاشی معاشرتی اور قومی و گروہی مفادات بلوچ سے بالکل الگ رکھے ہوئے ہیں، اگر کل کو بلوچ تحریک اپنی منطقی انجام تک پہنچے اور اپنی مقصد میں سرخرو ہوجائے تو ہزارہ کا مسئلہ اپنی جگہ برقرار ہے، وہ ایک حل طلب مسئلہ ہے، تو ایسے میں محض مظلومیت کی بنیاد پر اپنی تحریک اور اس سے جڑی ان تمام بنیادی حقیقتوں کو بھلا کر صرف اس لیئے ہزارہ نسل کشی پر ٹسوئے بہائیں کہ آپ کو انسانی جانوں کی زیاں پر زک پہچتی ہے، ہزارہ سے تو دسیوں گنا زیادہ بلوچ اس ریاست میں سنگین نسل کشی کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں، ہمیں ہزارہ پناہ گزینوں کی اس طرح سفاکانہ قتل اور نسل کشی پر حد درجہ افسوس ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم اس ضمن میں کچھ کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ ہم خود اسی نوعیت کے قابضانہ جبر کا شکار ہیں اور شاید ہمارے اپنے غم و آلام کے پہاڑ اتنے بڑے ہیں کہ ہم چاہ کر بھی ہزارہ پناہ گزین برادری کے لیئے اظہار افسوس کے ؑعلاوہ کچھ نہیں کرسکتے، ہر ابھرتی تحریک اور ہر بلند ہوتی ہوئی آواز سے متاثر ہونے کی ریت بلوچ نے ابھی تک ترک نہیں کی ہے اسکی وجہ یہی ہے کہ بعض بلوچ سیاسی کارکن اپنی تحریک، اپنے کردار اور اپنے نظریات سے مطمئمن نہیں ہے وہ بیک وقت لبرل بھی بن جانا چاہتا ہے، کٹر قوم پرست بھی، قومی حوالے سے سخت گیر و بنیاد پرست بھی اور بسا اوقات تو سوشلزم و کمیونزم پر ہاتھ صاف کرنے کی منشا دل میں چپھائے رہتا ہے، اگر آپ قوم پرست ہیں تو وہ بات کریں جو کہ آپکے قوم کے مفاد کی ہو اگر وہ مفاد پشتون سے جڑی ہو تو اس سے راہ رسم بڑھائیں اگر وہ مفاد کسی اور سے جڑی ہو تو اسکے ساتھ کام کرلیں لیکن جہاں مفادات آپس میں ٹکرا گئے تو پھر اپنی ترجیحات کا فیصلہ آپ خود کرلواور وہاں سے اپنی قدم روک لو، کل کو محمود خان اچکزئی بلوچ سرزمین کو پشتون/بلوچ صوبہ کہہ کر حقائق کو توڑ مروڈ کر پیش کرے تو ایک بلوچ کی حیثیت سے یہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس بات پر آواز اٹھائیں اس سے قطع نظر کہ محمود خان اچکزئی اور دیگر کئی سارے پشتون اور خاصکر پشتون تحفظ مومنٹ کے زیر اثر لوگ ریاست کے تئیں تند و تیز رویے اور دبے لفظوں میں بیزاری کا اظہار کرچکے ہیں، لیکن کسی آزادی پسند بلوچ کارکن کے لیئے یہ پیمانہ تو نہیں ہے کہ کوئی بھی ریاست بیزاری کا اعلان کرے وہ میرا ساتھی ہے، نہیں بلکہ ہمارے لیئے پیمانہ بلوچ وطن اور اسکی تاریخی سرحدوں کی مسلمہ حیثیت ہے جو بھی اس حیثیت کو چیلنج کرے یا چیلنج کرنے والوں کا ساتھ دے اس سے معاملات ہرگز پرامن یا برادرانہ نہیں ہوسکتے، چاہے وہ بلوچستان میں آباد ہو چاہے باہر ہو یا اسے بلوچستان میں بسایا گیا ہو۔ ابھی کچھ دنوں سے دیکھ رہا ہوں کہ کوئٹہ میں ہزارہ نسل کشی یا اہدافی قتل میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے تو اس کے خلاف ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے بعض کارکن سامنے آئے اور انہوں نے احتجاج اور ہڑتال کئیے جب مزید اہدافی قتل کے واقعات رونما ہوئے تو ہزارہ برادری سے سیاسی کارکن جلیلہ حیدر نے باضابطہ تادم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کیا، جلیلہ حیدر اس لیئے بھی قابل قدر ہیں کہ وہ سیاسی حوالے سے ہونے والی ان تضادات کی بنیادوں میں موجود اپنی برادری کی نسل کشی کی بنیادی محرکات سے کماحقہ واقفیت رکھتی ہے اور حیدر کارمل کی بیٹی ہیں جو کہ خود ایک باکمال ہزارہ مشاہیر رہے ہیں، اور ایک تاریخ ساز فیصلے میں وہ بغیر کچھ کہے ریاستی جبر کے پالیسیوں کے سامنے سینہ سپر ہیں، جلیلہ چونکہ نسلاَ بلوچ نہیں ہیں اور تاریخی اعتبار سے وہ بلوچستان کے بھی نہیں ہیں گو حالات کے جبر سے مجبور آج وہ اسی سرزمین سے اپنے جینے کی حق کے واسطے جد وجہد کررہی ہیں اگر وہ دنیا کے کسی بھی کونے سے اپنی جد وجہد کررہی ہوتیں تو میرے لیئے وہ اپنی جرات و پایہ استقامت کے حوالے سے اتنی ہی معزز ٹہر جاتیں، یہ ایک بہت بڑا فیصلہ ہے ” تادم مرگ ” بھوک ہڑتال ایسے فیصلے جذباتوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ مکمل شعور اور خود آگہی کے جبر کے سایے میں کیئے جاتے ہیں، ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ بلوچ سیاسی کارکن اور زعما ہزارہ پناہ گزینوں کی نسل کشی کی محرکات کے بارے میں بلوچ تحریک کے تناظر میں بات کرتے اور ان وجوہات کو تلاشتے جو بلوچستان میں ہزارہ نسل کشی کا موجب بن رہے ہیں کیونکہ ہزارہ اپنی نشستوں میں بسا اوقات بلوچوں کو اس عمل کا دوش بھی دے چکے ہیں اور شاید آج بھی انکے بسیارے نوجوان یہی سمجھتے ہیں کہ بلوچ ہزارہ برادری کی نسل کشی اگر نہیں کررہے مگر کرنا ضرور چاہتے ہیں، اعتماد کا فقدان ہے اور تاریخی جبر کی وجہ سے شاید ہوتا رہے گا، بلوچ سیاسی کارکن و سوشل میڈٓیا ایکٹیوسٹ بجائے خود ہزارہ بن جانے کے بلوچ رہ کر اپنی موقف پر ایستادہ ہوتے ہوئے ہزارہ نسل کشی کی مزمت ضرور کرتے مگر اپنی غم کی آگ کو بجانے کی بجائے بلوچ اپنا کٹورہ پانی لے کر ہزارہ کے گھر میں لگنے والی آگ کو ٹھنڈا کرنے میں مصروف ہے، اتنی کشادہ دلی جب خان کلات نے دکھائی جناح کو سونے جواہرات میں تول کر اس کشادہ دلی کا نتیجہ بلوچ آج تک بھگت رہا ہے، اور بلوچ سیاسی کارکنوں کی طرف سے مبنی بر حقائق بات کرنے اور سیاسی معاملات کی نازکی و سنگینی کو دیکھے بغیر ایک طوفان شروع کیا گیا کہ ” بلوچستان کی بیٹی نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کردیا” ایک منٹ ٹہرو بھائی، کونسی بلوچستان کی بیٹی، گو کہ جلیلہ حیدر کی سیاست اور اسکی بلوچ تحریک کے حوالے موجود ہمدردی، اسکی ایکٹویزم اور اسکی طرف سے بسا اوقات بلوچ گمشدہ افراد کی خاطر موقف سے ہم چنداں انکار نہیں کرتے، اسکی پاکستان کے الٹرا رائیٹسٹ قوتوں کے خلاف موثر و معتبر آواز اور ہزارہ برادری کے لیئے کی جانے والی اسکی بے مثال جد و جہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن یہ سبھی چیزیں مل کر بھی ہماری طرف سے جلیلہ حیدرکو بلوچستان کی بیٹی نہیں بناسکتے، یہ سیاسی نرگسیت ہے، وہ اگر کام کررہی ہے تو کرنے دو، انکو ہزارہ ہی رہنے دو، بلوچ مت بناؤ اس طرح اسے جبری بلوچ بنانے سے ناں آپکے سر پر تاج سجے گا اور نہ وہ زیادہ معبر ٹہر جائینگی وہ جو ہیں اپنی سیاسی شعور و آگہی کی بنیاد پر ہیں، وہ قابل فخر ہے ہزارہ قوم کے لیئے اور اسی ہزارہ قوم کی وہ بیٹی ہے، البتہ ہزارہ برادری سے مظلومیت کا رشتہ ضرور ہے (مگر غاصب کے ساتھ ہم نوائی کی قصے بھی یاد رکھنے ضروری ہیں اور مسقبل میں ان ممکنات کے حوالے ہوشیار رہنا بھی از بس لازم ہے) اسکو اپنی جد و جہد کی بلند پائیدان سے اٹھا کر اسے بلوچ سرزمین سے شناخت دینا یا اپنی شناخت اس سے جوڑنا لنڈے کی لبرل سوچ اور سیاسی رومانٹسزم کا بدترین اظہار ہے، ایسا لگتا ہے بلوچستان کسی قوم کا سرزمین نہیں بلکہ نیلام گھر میں رکھا وہ جنس ہے جس پر ٹیگ لگا ہوا ہے کہ ” پہلے آؤ پہلے پاؤ” ایک آذادی کے کارکن کی حیثیت سے اولین ترجیح تمام تر لگی لپٹی سے بالاتر ہوکر وہ نقطہ ہونا چاہئے جو بلوچ تاریخی تنازعے کی ترجمانی کرے باقی اگر پاکستان کے لنڈے کی لبرل بن کر سیاست کرنے کا بھوت سر پر سوار ہو تو کیجیئے شوق سے کیجیئے مگر یہ یاد رکھے کہ اس سے آذادی نہیں ملنی والی آزادی کی جنگ ایک قوم لڑتی ہے جہاں سوال اکائی کی پہچان کا ہوتا ہے، گو کہ انسانی ہمدردیوں کی بنیاد پر ہزارہ جو کہ بلوچستان ہی میں مارے جارہے ہیں اس قتل عام کی مذمت اور قاتلوں کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کرنا تو ہر کسی کا حق بلکہ زمہ داری ہے مگر اپنا وقت اپنی قوت اور اپنے زرائعے جو کہ ایک آزادی پسند کارکن کے لیئے محض قوم سے متعلق ہیں ان کو اس طرح خرچنے سے ایک چیز ضرور واضح ہوجاتی ہے آپ خود اپنی تحریک سے دلبرداشتہ ہوچکے ہو، تھک ہار چکے ہو، وقت گزاری کررہے ہو اور سیاسی روماٹسزم کا شکار ہو، اگر بعض بلوچ سیاسی کارکنوں کا بغور جائزہ لیں تو ان میں یہ قدر مشترک پائی جاتی ہے کہ سب ایک نئی ابھرتی ہوئی تحریک یا مہم دیکھ کر اس سے حد درجہ متاثر رہ جاتے ہیں، وہ یہ برملا اظہار بھی کرتے ہیں کہ اس نے بلوچوں کے بارے کیوں کچھ نہیں کہا، یا بلوچ گمشدہ افراد کی بات کیوں نہیں کی، اس طرح کے گلے شکوؤں اور امیدوں کا ایک لامتناہی دائرہ ہوتا ہے جو وہ ان سے باندھ لیتے ہیں، تو اس سے یہی چیز صاف ہوتی ہے کہ اب تھک ہار کر بہت سارے لوگ دوسرے کے کاندھے پر بندوق رکھ کر تیسرے بندے سے گولی چلانے کا مصمم ارادہ کرچکے ہیں، جب انسان قومی تحریک میں در آنے والی سختیوں اور طوالت سے تھک ہار جاتا ہے تو غالب امکان یہی ہے کہ وہ ناکام لبرل بن جاتا ہے، وہ بھی پاکستانی طرز کا لبرل جس کے لیئے ہر شئے نہ صرف معنی رکھتا ہے بلکہ وہ ارد گرد میں رونما ہونے والے ہر واقعے اور حادثے پر سوچنے غور کرنے اور اسکی نتائج وجوہات و اثرات کی تجزیہ کرنے کے بجائے انہی کی قالب میں خود کو زبردستی فٹ کرکے جگہ دینے کی بھر پور سعی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، وہ مارکسٹ بھی بن جاتا ہے، وہ نیو لبرل سیاسی و معاشی پالسیوں کا حامی بھی رہتا ہے، اسے قوم کے دکھ درد بھی ستاتے ہیں اور مزدوروں کے پیشانی سے ٹپکتے ہوئے پسینے کی بوندوں سے بھی وہ تاثیر پاتا ہے اور او ایک آزاد وطن کا خواہاں بھی، موقع ملے تو دہریت اور لادینیت کی لغو اظہاریے سے بھی نہیں چوکتا، ابھی بیشتر بلوچ سیاسی کارکنوں پر شاید یہی دور گزررہا ہے، لیکن پریشانی کی بات نہیں کیونکہ یہ بھی گزرجائے گا