فیض احمد فیض کے شعر ” ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے ” سے ماخذ اور فیض احمد فیض کی روح سے معذرت بلوچ قومی نفسیات اور بحیثیت ایک غلام قوم کے جنگِ آزادی سے جڑت اور اس درمیان مخلص ورنا کے ساتھ ساتھ پیدا گیروں کا وجود میرے بحث کا حصہ ہیں. چاکر و گواہرام کے زمانے کو چھوڑ دیں کہ انھوں نے افغانستان اور سندھ کے حکمرانوں سے کمک حاصل کر کے ایک دوسرے کو مارتے رہے اور آج کے شفیق مینگل، ثناء اللہ و اختر کو بھی رہنے دیں کیونکہ وہ بلوچ کی صفحوں سے دور کھڑے ہو کر دشمنی کرتے ہیں، دشمن کو کمک عطا کرتے ہیں اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے رہتے ہیں۔ بلکہ بحث صرف ظاہری یا حقیقی طور پر اس سوچ سے جڑے افراد پر کرتے ہیں جو اسی نام کے سہارے جیتے ہیں، ستر اسی کے دہائیوں میں آزادی کی تحریک نے انگڑائی لیتے ہوئے سر اٹھایا تو بہت سے نامور و گمنام بلوچ نوجوانوں نے اپنی بساط کے مطابق اس میں حصہ لیا اور جان قربان کر بیٹھے. کچھ دشمن کی ظلم و زوراکی کی وجہ سے افغانستان میں پناہ ڈھونڈ لی جب کہ قوم کے تعلیم یافتہ طبقہ نے روس تک سر کردیا. بے چارہ عام غریب بلوچ سوشلزم کے نام سے نا آشنا سور انقلاب اور سوشلسٹ آزاد بلوچ وطن کے خواب دیکھنے لگا اور دیکھتا رہ گیا. اس پورے دورانیے میں یہ سوشلسٹ بلوچ روس میں کیا کیا گل کھلاتے رہے ہم سے شاید پوشیدہ ہے لیکن آج کے دور میں یہاں بلوچستان کے ویرانوں میں بھی بیٹھ کر آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک ہاسٹل کی بیچلر زندگی ہو، ایک نوجوان ہو، ہاسٹل کے نچلے حصے میں ایک بڑے سے ہال پر مشتمل ایک میس ہو جس میں کھانے پینے کی اشیاء4 وافر مقدار میں موجود ہوں اور باہر خوب صورت روسی دوشیزائیں. خیر یہ کسی کا زاتی معاملہ ہو سکتا ہے اور ہمیں کسی کی زاتی زندگی میں دخل دینے کی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے. لیکن یہ روس گئے کس لیے تھے؟ بلوچ قومی آزادی کا بیرونی دنیا کے سامنے پرچار کرنے؟ تو پھر رزلٹ کیا ہے؟ یا سور انقلاب کی ناکامی اور روس کے شنگ شانگ ہونے کے بعد ہمارے سوشلسٹوں کی ناکامی؟ کیا وجہ ہوئی؟ کیا عام بلوچ عوام بھی اس سوشلزم کے سحر میں اس قدر مبتلا ہو چکا تھا کہ روسی اثرات کئی سرحدیں عبور کر کے ہم تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے؟ آسان سے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سرے سے ہی پیداگیر لوگ تھے جو یہاں سے اپنی جان بچا کر یا آسائش کی زندگی گزارنے کے لیے بھاگ نکلے تھے اور وہاں بلوچ کے نام پر عیاشی کرتے رہے اور بلوچ تحریک آزادی کے ساتھ ریپ کرتے رہے. رشیا سے واپسی پر کسی کا نام گورباچوف تھا کسی کا نام ماسکو، کسی کا نام فراڈ، شیروف تو کسی کا نام چیکوف بھلا ہو پنجابی کاکہ بھٹو کی پھانسی اور ضیاء الحق کی عام معافی نے ان کا اصل روپ قوم کے سامنے واضح کیا. جب یہ لوگ واپس بلوچ وطن آئے. کوئی آدھا پاگل تو کوئی مکمل نفسیاتی، کوئی ایتھیسٹ تو کوئی کمیونسٹ، کسی نے پتنگ کی دکان کھولی تو کسی نے ڈیری فارم، حتیٰ کہ کچھ تو صبح کا ناشتہ بھی چائے کی بجائے شراب میں کرتے تھے. جبکہ تحریک آزادی گئی تیل لینے. چلو جیسے تیسے وقت گزر گیا کسی پر پیسے کرپشن کرنے کا الزام لگا تو کسی پر اسلحہ غبن کرنے کا. اْدھر تباہ حال افغانستان سے واپسی پر عام کالی پگڑی والے مری بلوچ پیدل مر مراتے اپنے لاغر بدن نیو کاہان کوئٹہ تک ہی بمشکل پہنچا پائے جبکہ ایلیٹ کلاس کا کچھ شاندار انداز میں استقبال کیا گیا. لیکن کیا ہوا یہ نامی گرامی لوگ بھی اپنی زمینداری و سرمایہ داری میں لگ گئے. وہاں مستونگ سے لیکر وڈھ تک دیواروں پر یہ عبارت لکھی ملتی ” عطاء اللہ آئے گا انقلاب لائے گا” پھر ایک اور دور آن پہنچا، اس بار کافی سوچ بچار اور مختلف زاویوں سے فول پروف انتظامات و تیاریوں کے بعد لیڈر شپ سے لیکر عام سپاہی تک سب کو پوشیدہ رکھا گیا. ملیٹینسی ،پولیٹکس اور شعبہ مالیات و مڈی کے بھی زیر زمین انتظامات مکمل کیے گئے. جبکہ سفارت کاری کے لئے بیرونی دنیا سے تعلق رکھنے اور اپنی قومی مدعا سنانے کے لیے دوستوں کے مشوروں سے حیربیار کو یورپ بھیجا گیا. بات یہاں تک بھی سمجھ میں آنے والی تھی آ گئی. لیکن بعد کے کامیاب حکمت عملی ، دشمن پر پے در پے حملے بیرونی ملک بہترین سفارت کاری نے جہاں دشمن کے چھکے چھڑا دیے وہاں سابقہ پیداگیروں کے باقیات کو بھی انجانے میں ایک موقع فراہم کر بیٹھے. اب کی بار ان پیداگیروں نے روس اور سوشلزم سے منہ موڑ کر یورپ کا رخ کیا. مکران و لیاری کے پیداگیروں نے جعلی دستاویزات بنا کر خلیج میں آباد بلوچوں کی کمک سے یورپ کا رخ کرنے لگے. یہاں بھی بلوچ کا نام استعمال ہوا،بلوچ کے نام پر سیاسی پناہ حاصل کرنے لگے. بلوچ کے نام پر دھندے ہونے لگے. پہلے سے موجود دوستوں کے خواری و محنت سے دوہے گئے دودھ کو بھی گرا دیا گیا ، ان پیدا گیروں نے بلوچ کے نام پر سیاسی پناہ حاصل کر کے ریفیوجی کا روپ دھار لیا، ماہانہ وظیفہ ، رہائش اور دیگر سہولیات سے مستفید ہونے لگے یہاں بلوچستان میں جن سے کوئی پیاز کے بھاؤ تاؤ نہیں پوچھتا تھا بیرونی ملک بیٹھے سوشل میڈیا کی مدد سے وہ بھی لیڈر بن گئے. دیکھتے ہی دیکھتے اس دوڑ میں حسب سابق کچھ نامی گرامی سیاسی پیداگیر بھی شامل ہو گئے. کچھ اپنے خرچے پر تعلیم حاصل کرنے کے لیے یورپ پہنچے پھر اخراجات سے جان چھڑا کر بلوچ کا نام استعمال کر کے سیاسی پناہ حاصل کر لیے. جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جو یہاں کچھ عرصے تک شفیق مینگل کی گینگ میں شامل رہے تھے اب بیرونی ممالک پہنچ کر پلٹا کھایا اور بلوچ کے نام سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں ایک ایسا شخص بھی ہے جس نے بیرونی ملک خود کی جان کو مزاحمتی تنظیم سے خطرہ لاحق پیش کیا اور آج کل پھر اسی تنظیم کی پرچار کر رہا ہے ایک ایسے بلوچ جہد کار کو جانتا ہوں جو گل زمین کے پہاڑوں کو اپنا مسکن چکا ہے جبکہ اْسی کے نام شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات پر ایک شخص بیرونی ملک بیٹھا ہوا ہے ( وہ جنھیں کسی تنظیم نے کام کی غرض سے یورپ بھیجا تھا بجائے کام کاج کے اس موسم میں کمبل کے اندر سے برف باری کا نظارہ کرتے ہیں زیر بحث نہیں ) اور سب سے چونکا دینے والی بات یہ کہ اس منڈی کو جمانے اور شاداب و شاندار بنانے میں کْچھ لیڈر حضرات کا بے شرمانہ عمل بھی شامل ہے جو ان بھگوڑے لوگوں کو گلے لگا کر اپنی پارٹی میں شامل کرتے ہیں تاکہ دوسروں کی نسبت میرے آس پاس لوگوں کا جم غفیر زیادہ ہوکوانٹٹی کے اس کاروبار میں دونوں فریقوں کے درمیان بلیک میلنگ چلتی ہے اور دونوں فریقین کو ہی فائدہ حاصل ہوتا جبکہ نقصان گھوم پھر کر پھر بے چارے بلوچ کے حصے میں آتا ہے. سیاسی پناہ حاصل کرنے کے بعد یہ پیدا گیر پہلے ایک لیڈر کے پاس آتا ہے اور اپنی ڈیمانڈ پیش کرتا ہے کہ اگر میں آپ کی پارٹی میں شامل ہو جاؤں تو مجھے کیا کیا ملے گا؟ ( سیاسی پناہ دینے والے ملک کی جانب سے حاصل شدہ سہولیات کے علاوہ ) معزز قارئین اس موقع پر آپ کو اپنا دل جگر گردے بڑا اور دماغ ٹھنڈا رکھنا چاہیے کہ آپ صرف ایک پیداگیر بلوچ سے نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک پیدا گیر لیڈر سے بھی واقف ہونے جا رہے ہیں. اب لیڈر اپنی آفر پیش کرتا ہے کہ اگر آپ ہماری ریوڑ میں شامل ہو جائیں تو آپ کو یہ، یہ، اور وہ اور وہ سہولیات ہماری طرف سے مہیا کی جائیں گی. اب بلیک میلنگ شروع ہوتی ہے ایک بار پھر پیدا گیر ورکر بول اٹھتا ہے کہ یہ کیا ہے اس سے بڑھ کر تو سہولیات کی پیش کش مجھے فلانا لیڈر نے کیے ہیں. اور یہ بازاری لوگ اس بازار کو اسی طرح چلاتے رہتے ہیں. نام بلوچ کا استعمال کرتے ہیں. اچھا چلیں اسے بھی کسی کی زاتی زندگی قرار دے کر چند لمحے کے لیے آنکھیں چرا لیتے ہیں اور اپنے کام پر توجہ دیتے ہیں تو کیا ان کی وجہ سے گراؤنڈ میں موجود کام پر یا کام کرنے والوں پر اثرات مرتب نہیں ہونگے؟ کیا یہ رشئین رٹرنز کی طرح نیم پاگل اور آدھے نفسیاتی نہ صحیح پر کہیں بیرونی ممالک بیٹھے ہمارا سودا تو نہیں لگائیں گے؟ سب سے اہم سوال یہ کہ جنھیں تنظیموں نے کام کی غرض اور حکمت عملی کے تحت بیرونی ممالک بھیجا ہے جب کبھی یہی تنظیمیں حکمت عملی کے تحت انہیں وطن واپس بلائیں تو آجائیں گے؟ کیا ان بد مست گھوڑوں کی مختلف سمتوں میں لگنے والی قوت سے بلوچ و بلوچ گل زمین کو کچھ فائدہ ہونے والا ہے؟ مادر وطن میں جنگ کے میدان میں موجود انہی کرداروں پر پھر کبھی لکھنے کی کوشش کرونگا دعا کرنا کہ میرے ہوش و حواس اور حوصلہ ایک دوسرے کا ساتھ دیں.