تحریر: بیورغ بلوچ
ہمگام کالم:
مارکس نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں لکھا تھا کہ ’’تاریخ میں جتنے بھی سماج گزرے ہیں ان کی تاریخ طبقاتی جدوجہد سے عبارت ہے(بعد ازاں اینگلز نے اس میں اضافہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ماسوائے قدیم اشتراکی سماج کے) آقا اور غلام‘ جاگیردار اور مزارع‘سرمایہ دار اور محنت کش مختصر یہ کہ جابر اور محکوم مسلسل ایک دوسرے کے خلاف صف آراء رہے ہیں اور ایک ایسی جنگ میں مستقل طورپر مصروف رہے ہیں جو کبھی پوشیدہ ہوتی تھی تو کبھی کھلی اور اس جنگ کا نتیجہ ہر بار یا تو سماج کی مجموعی انقلابی تشکیل نو کی صورت میں برآمد ہوتا تھا یا متحارب طبقات کی باہمی تباہی کی شکل میں.
بلوچ اور پاکستان کے درمیان تعلق صرف حاکم و محکوم قابض و مقبوضہ کا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حاکم اور غلام کے علاوہ پاکستان اور بلوچ کا اور کوئی رشتہ نہیں، یہی وہ وجہ ہے جس کے سبب گزشتہ بھتّر سال سے بلوچ پاکستان کے ساتھ لڑ رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے بلوچ قومی سوال کو متنازعہ بنانے کی خاطر بلوچ سیاسی معاشرے میں چند نام نہاد منافع خور، مصلحت پسند و آرام پسند انقلابیوں نے ہمیشہ ستّر سال سے زائد عرصے پر محیط اس تحریک کو صرف اپنی خوشنودی کے لئے آئے لمحہ مختلف رخ دینے کی کوشش کی۔ ایک سلسلہ تب شروع ہوا جب ستّر اور اسّی کی دہائی میں نام نہاد کچھ مصلحت پسند منافع خور خود ساختہ مڈل کلاس سیاست دانوں نے بلوچ قبائلی معاشرے کی آڑ میں بلوچ قومی تحریکِ آزادی کے اندر ایک ایسی تفریق کی بنیاد رکھی جس کے اثرات آج تک اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ بلوچ چونکہ ایک قبائلی سماج میں زندگی بسر کررہا ہے اور قبائلی نظام زندگی بلوچ تاریخ کا ایک اٹوٹ حصہ ہے لیکن ہاں یہ سچ ہے کہ قبائلیت معاشرتی ارتقا کا کوئی ایسا مرحلہ یا سماجی نظام نہیں ہے کہ جس سے صرف بلوچ قوم ہی کو واسطہ پڑا ہو بلکہ دنیا کے تمام اقوام، ترقی یافتہ اقوام ہوں یا ترقی پزیر، اپنے سماجی ارتقا کے سفر میں قبائلیت سے ہوکر آگے بڑھے ہیں۔ سماج کبھی ساکن و جامد نہیں ہوتا بلکہ مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہے۔ سماجی تبدیلی کا یہ عمل اکثر پُرامن ارتقائی عمل کے ذریعے جاری رہتاہے اور یہ اس بات کی نشاندہی ہی ہے کہ بلوچستان کی موجودہ اس قومی تحریکِ آجوئی میں جس حد تک عام بلوچ بزگر کا خون شامل ہے اسی طرح قبائلی نظام سے تعلق رکھنے والے نواب ہوں یا عام قبائلی افراد ان کا خون بھی اسی حساب سے اس زمین کے لئے گرا ہے، یہاں کچھ نام نہاد لوگوں کی سیاسی بدنیتی کا یہ حال ہے کہ وہ خود ساختہ مڈل کلاس کے نعرے کے اندر اس طرح پھنس چکے ہیں کہ وہ ایک لمحہ بھول جاتے ہیں کہ جس بنیاد پر وہ بلوچ سماج میں نواب اور سرداروں کو اپنے لئے سر درد سمجھتے ہیں انہی قبائلی سماج کے چند سرداروں نے ہی اس تحریکِ آزادی کی داغ بیل ڈالی، نواب خیر بخش مری ایک قبائلی سردار تھے لیکن سردار ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے فلسفہِ آزادی بلوچستان کے لئے مزاحمت زندہ رکھی، نواب اکبر خان بگٹی بھی ایک نواب تھے جنہوں نے اپنا آخری قطرہِ خوں اس وطن کے لئے گرایا اور اس کے علاوہ موجودہ بلوچ قومی تحریک کے اندر سنگت حیربیار مری بھی ایک نواب ہیں(گو کہ انہوں نے کئی عرصہ ہوا ہے اپنے آپ کو اس ٹائیٹل سے دور رکھا ہوا ہے وہ ایک نواب سے زیادہ انقلابی دوستوں کے درمیان سنگت ہونے کو ترجیح دیتے ہیں) اور وہ آج تک بلوچ قومی تحریکِ آزادی کا مضبوط پلر ہیں اسی طرح نواب براھمدگ بگٹی بھی.
خود ساختہ مڈل کلاس کا ڈھکوسلہ نعرہ دے کر چند مصلحت پسند قومی رہنماء جس ڈھٹائی سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہمارے ہاں جمہوریت ہے، سوال پوچھنے اور سننے کا رواج ہے اور دوسری جانب ان نواب و سرداروں کے ہاں ایسا رواج نہیں اور لمحہ بھر ان کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ وہ موجودہ قومی تحریک کے اصول پرست، نظم و ضبط کے پابند شخصیت سنگت حیربیار کو متنازعہ و اکیلا کرنے کے لئے انہی نواب، سردار و سردار زادوں کو اپنے ساتھ ملا کر اپنے عزائم کی ناکام تکمیل کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ خود ساختہ مڈل کلاس کے یہ نام نہاد لیڈر یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے پیشرو موجودہ نیشنل پارٹی کی قیادت نے ماضی میں جس طرح بلوچ سماج میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی جس فرسودہ نعرے کی بنیاد ڈالی آج وہی قوت ان نام نہاد پاکستانی نواب و سرداروں کے ساتھ مل کر پاکستان کا ساتھ دیکر پارلیمانی سیاست کررہے ہیں جس طرح 1947  میں بلوچستان سے انگریزوں کے نکلنے اور بلوچستان کے آزاد ہونے کے بعد  فرسودہ قبائلیت اور سرداریت بلوچ قومی یکجہتی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ بنی رہے، سردار جاموٹ جام میر غلام قادر عالیانی، سردار کیچ نواب میر بائی خان گچکی اور سردار خاران نواب میر حبیب اللہ نوشیروانی کی خان قلات کے ساتھ قبائلی مسابقت و کینہ پروری نے انہیں بلوچ قومی یکجہتی،آزادی اور قومی وقارکے خلاف لاکرکھڑا کردیا۔ یوں وہ اپنے اس محدود قبائلی سوچ اور کوتاہ اندیشی کے باعث بلوچ قومی آزادی کو قومی محکومی میں بدلنے میں مکار پاکستانی حکمرانوں کے ہاتھوں میں آلہ کار بن گئے تھے۔ مذکورہ سرداروں کی آپس میں اس کینہ پروری اور بیجا مسابقت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے شاطر حکمرانوں نے ان کے تعاون سے مارچ 1948 میں بلوچستان پر جبری قبضہ کردیا اور آج موجودہ رواں تحریک کو پاکستانی طرز نفسیات پر چلا کر مڈل کلاس ایک مرتبہ پھر اسی تفریق کو دہرانے کی ناکام کوشش کررہا ہے لیکن گزشتہ دنوں سوشل میڈیا لائیو میں جس طرح سنگت حیربیار نے اس بات کی علمی طریقے سے دلائل کے ساتھ نشاندہی کی کہ بلوچ قومی سیاست کے اندر کوئی کلاس کوئی طبقہ نہیں بلکہ ہم صرف ایک کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ کلاس صرف “غلامی” ہے.
دوسری جانب ذاتی مفادات، مصلحت پسندی اور نرگسیت کے شکار خود ساختہ مڈل کلاس کے رہنماء صرف اپنی سیلف پروجیکشن کے لئے اس تاق میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کس طرح بلوچ سیاست کے اندر میرٹ کا گلہ گھونٹا جائے، بلوچ سیاست کو مخصوص لابیز کے ہتّے چڑھا کر راہ فرار اختیار کرنے کے لئے نت نئے حربے استعمال کرکے ہمیشہ اصول و آدرشوں کو بے آبرو کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود سنگت حیربیار نے ہمیشہ اصول پر مبنی بلوچ قومی سماج کی تشکیل چاہی جس کی واضح مثال “بلوچ لبریشن چارٹر” کا قیام میں لانا ہے اس کے علاوہ بلوچ قومی تحریک کے واحد لیڈر سنگت حیربیار ہی ہیں جو اپنے موقف پر آج تک ڈٹے نظر آتے ہیں لیکن دوسری جانب مڈل کلاس والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اِن کی شخصیت کو سمجھنا بے حد مشکل ہے، ایک تو صبح شام تلقین شاہ بنے رہنا مڈل کلاس فالورز اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں لیکن دوسری طرف جھوٹ فریب اور بہتان طرازی کے گہرے سمندر میں دن رات بہتے چلے جا رہے ہیں.
 پتھروں کی پرستش تو صدیوں پہلے چھوڑ دی مگر شخصیتوں کے بت بنا کر ان کی پوجا شروع کر دی اور ان پسندیدہ شخصیات نے کچھ بھی الٹا سیدھا بول دیا، بس دیوانے اس کے پیچھے چل دیے.
او اللہ کے بندو! تمہیں بھی ایک عدد دماغ عطا کیا گیا ہے کبھی کبھی اس کا استعمال کر لینے میں کوئی مضاحقہ نہیں آپ کا لیڈر بھی بندہ بشر ہے، غلطی اس سے بھی ہو سکتی ہے لیکن جناب! کیا کریں مڈل کلاس فالورز تو ہیں ہی کاٹھ کے الو، بس بھیڑ چال ہی چلتے ہیں اور پھر اگلی بھیڑ کے ساتھ ہی کنویں میں جا گرتے ہیں یا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے رہتے ہیں کہ بلی میری طرف نہیں آ رہی وہ کہیں اور جا رہی ہے اور آخر کار بلی چٹ کر کے ڈکار لے کر یہ جا وہ جا، لیکن جناب یہ ہیں ہی نہیں سیدھے ہونے والے، ان کے لیڈر نے جو کہہ دیا بس کہہ دیا، چاہے سماجی اقدار کے خلاف بات ہو، چاہے بلوچستان کی حیثیت کی بات ہو، چاہے تحریک کے وقار کے گرنے کی بات ہو ان کی ایسی کی تیسی ہی کیوں نہ پھیری گئی ہو، بس فالور صاحبان کو یہاں تحریک سے کیا لینا دینا کہ جناب لیڈر تحریک حوالے سے کیا حکم دیتا ہے،اندھی تقلید شروع اس وقت لیڈر کا اندھا پجاری یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ابو جہل کو ابو جہل کیوں کہا گیا کیونکہ وہ اپنے باپ دادا کی اندھی تقلید پر تلا ہوا تھا اور یہی ان فالورز کا عمومی رویہ ہے، اسی لیے بات اب گالی سے الزامات بہتام طرازیوں تک بڑھ گئی ہے اور یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا.