شنبه, اکتوبر 26, 2024
Homeآرٹیکلزیارباشوں کی قلابازیاں، ہمارے حافظے اتنے بھی کمزور نہیں۔تحریر: رزاک بلوچ

یارباشوں کی قلابازیاں، ہمارے حافظے اتنے بھی کمزور نہیں۔تحریر: رزاک بلوچ

وہ کہتے ہیں کہ الزام تراشیوں کا سلسلہ یک طرفہ چلتا رہے گا اور ہم خاموش رہ کر غلط بیانیوں کی نشاندہی کرتے رہیں گے۔
پھر کہتے ہیں کہ جو بات کی نہیں اور جو بات کہی نہیں گئی اس پر از خود سازشی تھیوری بناکر ہم پر بے جا تنقید کے نشتر چلائے جارہے ہیں، کیا یار باش یہی نہیں سمجھ رہے ان سمیت پورے بلوچ قومی حافظہ اتنا کمزور ہے کہ اسے یاد نہیں رہتا کہ کس نے کب اور کہاں بیٹھ کر کیا کہا اور کیوں کہا۔

کیا طرفہ تماشا ہے کہ لوگ اپنی ہی کی گئی باتوں اور موقف کی وزن کو کندھا دینے کے لیے تیار نہیں، لیکن یارباشوں کی بلوچ راجی جہد آجوئی کی اجتماعی میدان میں کوئی کمی نہیں، اس پر کبیدہ خاطر ہونے کی کوئی ضرورت نہیں یہ “ یارباشیت “ اور زود رنجیدگی کی کیفیت دونوں طرف موجود ہے مگر ہمارے ہاں نظریاتی بنیادوں پر ایستادہ ایک ایسی پریشر اور رہنمائی موجود ہے جو ہمارے بونے اور شاہ دولے کی چوہوں کی پُرامیدی کو فیصلہ سازی کی بنیاد نہیں بننے دیتے، لیکن دوسری جانب معاملہ یہ ہے کہ
“جو بھی اٹھے گا وہ میرِ کارواں ہوجائے” ۔

مالک اینڈ کمپنی اپنی مجبوریوں کا رونا روتے آزادی کی تحریک کو ایک ناممکن اور تخیلاتی تصور سے تعبیر کرتے ہوئے ہمیشہ کہتے نظر آئے کہ اس میں صرف بلوچ کا ہی نقصان ہوگا اور وہ اکثر “ سنگ و سر “ جیسی اصطلاح کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف بلوچ کی جہد آجوئی کی اس تحریک کو دیوانے کی خواب سے تشریح کرتے رہے لیکن تاریخ نے دیکھا کہ دسیوں دھوکہ دہیوں اور کئی تحریکی بلنڈرز اور یارباشوں کی جانب سے ایرانی مقبوضہ بلوچستان کی سرزمین سے دست بردار ہونے کو لے کر بلوچ قومی سوال کے گرد ایک وجودی مسئلہ کھڑا کرنے کے باوجود اس تحریک کی رہنماؤں نے نہ صرف ان تمام بحرانوں سے اسکو نکالا بلکہ ہر شکست و ریخت اور ہر دھوکہ بازی اور داغِ مفارقت کو سہتے ہوئے دوبارہ نئے سفر کا آغاز کیا اور تحریکی بنیادوں کو مزید مضبوط و مربوط بنانے کی سعی کی۔

یہ کام دونوں اطراف موجود یارباشوں کی ذہنی بونے پن اور محدود فکری سگڑپن سے کہیں زیادہ آگے کی چیز ہے، جس میں بلوچ اجتماعی راجی مفادات کی اشتمالیتی بنیادوں کو ہمیشہ اولیت حاصل رہی ہے، پُرامیدی کی کیفیت میں سرگرداں ہمارے اپنے یارباش بھی ایرانی ٹکڑوں پر پلتے یارباشوں سے کچھ خاص کم نہیں بس مواقع ملنے اور کچھ مزید کریدنے کی دیر ہے، ایسے بونے اور فکری گہرائی و گیرائی سے عاری ان یارباشوں کی دبیز و بھدی کھال کے نیچے وہی سلگتی خواہشیں سانس لیتی ملیں گی جو ہم گروہی مفادات کے خاطر قومی سوال کو ایرانی قبضہ گیر ریاستی بندوبست سے نتھی کرنے والے یارباشوں کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔

مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ سیاسی یا گروہی موقف کو بیان کرنے کی کیا طریقہ کار ہیں؟ اگر میں سیاسی جماعت یا گروہ سے تعلق رکھتا ہوں اسکی فیصلہ ساز باڈی کا حصہ ہوتے ہوئے مرکزی عہدوں پر موجود ہوں تو میری موقف کسی سیاسی یا عسکری نقطے کے حوالے سے کیسے ذاتی موقف کہی جاسکتی ہے؟

ایران سے امداد کی اپیل ہو، یا پھر انٹرنیشنل فورمز پر بیٹھ کر یہ کہنا ہو کہ ہمیں ایران سے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور علاوہ ازین حسن نصراللہ کی شان میں تعریفی و توصیفی کلمات ہوں، ایرانی بلوچ مزاحمت کے کاروان میں شامل لوگوں انکی مذہبی وابستگی کی بنا پر ” بلوچستان کے جہادی” کہنا ہو، یہ سب کسی کا ذاتی رائے یقیناً نہیں ہوسکتا بلکہ اسکے برعکس یہ ایک گروہی موقف ہے جسے سیاسی و عسکری مجبوریوں کے باوصف آگے لایا جارہا ہے، گروہی وجود کو بچانے کے لیے بلوچ قومی سوال کے گرد ایک الجھن کی سی کیفیت پیدا کی جا چکی ہے، ایسے نظریاتی قلابازی کا صرف بونے پن اور فکری کم مائیگی کے شکار لوگوں سے توقع رکھی جاسکتی ہے۔

ایرانی بلوچ شیعہ ہیں:

بلوچ ،سنی ،زگری ،شیعہ ،ہندو، سکھ یا پھر کسی بھی مذہبی بندھن میں بندھ جائے لیکن وہ رہتا بلوچ ہی ہے، یہ قومی جہد آزادی کی اغراض و مقاصد کے باوصف ہمارا ایمان ہے کہ بلوچ آزادی پسند حلقے کسی مذہبی یا سیاسی اسکول آف تھاٹ کی بنیاد پر بٹ نہ جائیں، اگر کوئی بلوچ آزادی پسند نظریات کے بر خلاف ایران یا پاکستانی قبضہ گیر ریاستوں کے ساتھ ہے تو ہم اسے بغیر کسی لگی لپٹی کے ریاستی کاسہ لیس اور پیداگیر کہیں گے، یعنی بلوچ کو اپنی ثقافتی، سیاسی اور معاشی و معاشرتی تعلقات اور جھکاؤ کے باوصف بانٹا نہیں جاسکتا جب تک کہ وہ بلوچ اجتماعی قومی سوال کے حمایت میں کھڑا ہے، یہ بلوچ سرزمین کی واگزاری کا جد و جہد ہے اس میں مذہبی یا سیاسی وابستگیوں کا کوئی اہمیت نہیں، بلوچ محض دو حصوں میں بٹ سکتا ہے، قبضہ گیر کا سنگھی ساتھی یا پھر بلوچ قومی سوال کے حمایت میں کھڑا ہونے والا، اسکے علاوہ وہ کیا کرتا ہے کیا سوچتا ہے یا پھر اسکے سیاسی نظریات و مذہبی جھکاؤ کس طرف ہے وہ فی الحال بلوچ کا مسئلہ نہیں ہے۔

لیکن ہم کیوں یہ کہتے ہیں کہ ایرانی زیردست بلوچستان میں سو فیصدی لوگ مذہبی اعتبار سے سنی ہیں، لیکن پھر اس طرف سے اپنی مجبوریوں کو شکایتی لبادے چھپانے کی خاطر آواز آتی ہے کہ بلوچ اکثریتی حساب سے سنی ہوسکتا ہے لیکن بلوچوں میں شیعہ آبادی قابل ذکر حد تک موجود ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچ کب سے شیعہ بن رہا ہے کیونکر بن رہا ہے؟ ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے سرحدی علاقوں کو ایرانی قابض نے اس طرح سے انتظامی طور پر بلوچستان کے دیگر علاقوں سے کاٹ دیا کہ وہاں ایک قومی بیگانگی نے جنم لے لی ہے ۔ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں بلوچ ثقافت، زبان، معاشرتی روایات انتظامی قدغنوں کے باوصف خاصی حد تک قابض کی بیانیے سے اثر پذیر رہے ہیں، دوسری جانب بلوچ جو کہ تاریخی اعتبار سے سنی مذہبی اسکول آف تھاٹ سے وابستہ رہا ہے تو ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے دو مزید عنصر نے اسے شیعہ بننے کی جانب راغب کیا ایک تو انٹر کاسٹ میرج کی وجہ سے جہاں بہت سارے بلوچوں نے گجر شیعہوں سے شادی کی تو دوسری طرف ایرانی انتظامی حکومت نے شیعہ مذہب قبولنے پر انعام و اکرام کی لالچ بھی دی، گھر دئیے گئے، ماہانہ وظیفہ دیا گیا اور اسکے علاوہ بلوچ سماج کے کمزور طبقوں سے وابستہ بہت سارے لوگوں نے سرپرستی اور تحفظ کی خاطر بھی شیعہ مذہب اختیار کیا، اور یہ سب شاہ کی حکومت چلے جانے بعد یعنی گزشتہ چار سے پانچ عشروں کے درمیان ہی ہوا گوکہ شاہ تھے یا آج کے ملا رجیم، سب کے سب بلوچستان پر قابض اور بلوچ قوم پر جابر تھے لیکن اپنے سیکیولر سیاسی نظریات کے باوصف شاہ کی پالیسیوں میں بلوچ قومی اکھٹ کو کمزور کرنے کے لیے یہ مذہبی انتقال کا پالیسی کبھی شامل نہیں رہی۔

لیکن باوجود اس حقیقت کے بلوچ سماج کے اندر موجود شیعہ کبھی مذہبی اعتبار سے ایران کے ساتھ اس طرح سے وابستہ نہیں ہونگے کہ جس طرح دیگر شیعہ ہیں، لبنان شام عراق و یمن وغیرہ، بلوچ چاہے جس بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو اسے پہلے بلوچ کے حساب سے ہی دیکھا جاتا ہے ایران کے اندر موجود بلوچ قومی بیگانگی اور ایرانی قابض کی قدغنوں کے باوصف اپنے مفادات کے لیے بلوچوں کے ایک حصے نے ضرور شیعیت میں منتقلی کو بہتر سمجھا، لیکن ایک انکی مقدار بہت ہی کم ہے اور دوسری یہ کہ ایران ان کو سنی سے شیعہ بن جانے کے باوجود بھی محض ایک بلوچ اور ایک مشکوک شہری کے طور دیکھتا ہے، کیونکہ اسکا بلوچ ہونا ہی اسکو ایرانی مقتدرہ کے آنکھوں میں مشکوک بنا دیتا ہے۔

سو بلوچیت کے باوصف اور ایرانی ملا رجیم کے ہاتھوں سنی بلوچوں کی طرح کی بے رحمی سے شہید ہونے کے حوالے سے ہم یقیناً یہ کہہ سکتے ہیں کہ بلوچوں کی ایک قلیل تعداد نے معاشی و معاشرتی مفادات کی حصول کے لئے مذہبی تبدیلیوں کو اپنایا ہوگا لیکن وہ مذہبی انتقال بلوچیت پر شاید ہی غلبہ پالے۔

رہی بات قومی بیگانگی کی توایرانی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے اور مزاحمتی عمل کو توسیع دینے کے بعد بہت سےبلوچ اپنے بیگانیگی کو سمجھ کر دوبارہ قومی صفوں کے اندر شامل ہونگے۔

صبح کا بھولا شام کو گھر واپس آئےتو تاریخ میں کوئی حیرانگی کی بات نہیں ہوگی، بلوچ قومی سوال کو پراگندہ کرکے بھولےبن جانے والے یارباشوں کا رویہ تاریخ کےپنوں ہمیشہ درج رہیگی۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز