تحریر: باھڑ بلوچ

ہمگام آرٹیکلز

 

زندگی بہت مختصر ہے لیکن میں اس مختصر وقت میں بہت سے تجربات سے گزر چکا ہوں بہت سی ملک دیکھ چکا ہوں ان ملکوں میں ہزاروں کی تعداد میں قبرے دیکھ چکا ہوں زاتی اور قبائلی تنازعہ دیکھ چکا ہوں ۔ علمی، عملی، مذہبی رحجانات دیکھ چکاہوں ۔حالیہ جنگ کو شروع کرنے والے شخصیات کو دیکھ چکا ہوں اس جنگ میں شہید ہونے والے بے زار دوستوں کو بھی دیکھ چکا ہوں ۔

ان تجربات سے گزارنے کے بعد میں اس انجام پر پہنچ چکا تھا کہ اب مزید سیاسی تجربات سے گزرنا نہیں ہوگا جو ہے بس یہی ہے 

لیکن جب یورپی ملکوں کی طرف چل پڑا تو پتہ چلا کہ اب تک میں نے کچھ بھی نہیں دیکھا اب تک زندگی میں بہت کچھ دیکھنا ہے۔ 

اس مختصر یا طویل سفر میں مجھے بہت سے سیاسی تجربات کا سامنا کرنا پڑا جب میں اس سفر میں تھا تو میرے قدم یورپ کی طرف اس جوش سے بڑھ رہےتھے کہ یورپ میں میرا بلوچ سیاسی ماہرین یا سیاسی ڈاکٹروں سے واسطہ پڑا لیکن بدقسمتی یہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ سیاسی ڈاکٹر تو کب کہ دفن ہوچکے ہیں بلوچ سرزمین میں خیر اگر یورپ کا کہا جائے تو یورپ میں 4 قسم کی بلوچ سیاسی کارکن مجھے ملے ۔

 

1:معاشی یا مجبور آزادی پسند سیاسی کارکن

 

2: جنگی آزادی پسند سیاسی کارکن 

 

3:رجہت پسند یا ذہنی طور پر الجھے ہوئے سیاسی کارکن 

 

معزرت کے ساتھ اصل بات تو میں بھول گیا یورپ میں سیاسی کارکن کم اور سیاسی لیڈر زیادہ پائے جاتے ہیں ۔

 

خیر اگر بات کی جائے ان تین اقسام کی سیاسی کارکنوں کی تو پہلے شروع کرتے ہیں معاشی یا مجبور سیاسی کارکنوں کی یہ لوگ دنیا کے دوسرے قوموں میں بھی عام ہے ۔اس اقسام کے لوگوں کا تعلق سیاسی جماعت یا تنظیموں سے اتفاق ہوتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کو سیاست سے سروکار یورپ میں صرف اپنے پانچ سال کی دستاویزات تک ہوتاہے ۔

جب دستاویزات مل جاتے ہیں تو ان معاشی سیاسی کارکنوں کی پارٹی جلسہ یا پارٹی سرگرمیوں کم ہو کرختم ہوجاتے ہیں یا ان سیاسی مجبور کارکنوں کا رابطہ زیادہ سیاسی پناہ کی درخواست کے دوران زیادہ ہوتا ہے تو آخر میں پارٹی لیڈروں کی ناقص کارکردگی کا بہانا بناکر سیاست سے کنارے کشی اختیار کر لیتے ہیں ۔

 

دوسرا اقسام کی سیاسی کارکن یا جنگی سیاسی کارکن 

ان سیاسی کارکن سے احتیاط برتنا چاہتے ۔یہ سیاسی کارکن کافی پیچیدہ ہوتے ۔کیونکہ ان سیاسی کارکنوں کا زیادہ تر وقت جنگی محاذ پر سے گزرا ہے ان کی پرورش سیاسی سازگار ماحول یا علمی، عقلی بحث مباحثے کے بجائے دشمن سے دو ہاتھ کرتے میں گزرچکا ہے تو یہ یورپ میں سیاست بھی اس طرح کرتے ہیں کہ سامنے والے سیاسی کارکن دشمن کا بندہ ہے یا بلوچ تحریک کو نہیں سمجھتے یا نقصان پہنچانا چاہتے ہیں تو یہ دلیل سے زیادہ آواز بلند کرتے ہیں اگر اس سے بھی بات نہیں بنی تو یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ آپ مایوسیت کے شکار ہوچکے ہو اور مایوسی پھیلا رہے ہوں ۔

اس کے باوجود اگر بات نہیں بنتی تو یہ جنگی سیاسی کارکن یہ کہہ کر آپ کو چھپ کرواتے ہیں کہ آپ جنگی آزادی کے خلاف بات کرتے ہو

اس جنگی سیاسی کارکن سیاسی ماحول کو کافی نقصان پہنچاتے ہیں کیونکہ یہ کافی گرم مزاج کے ہوتے ہیں تو ان کا کسی پارٹی میں رکنا بہت مشکل ہوتا ہے آخر کار یہ سیاسی پارٹیوں سے کنارے کشی کرکے اپنا ہی دنیا میں مشغول ہوتے ہیں ۔

 

 

اب آتے ہیں تیسرے اقسام کی طرف :رجہت پسند یا ذہنی طور پر الجھے ہوئے سیاسی کارکن ان سیاسی کارکنوں کی بات ہی کچھ اور ہے یہ سیاسی کارکن علاقے میں سیاست سے وابستہ ہونے کی وجہ سے یورپ میں بھی کافی سرگرم رہتے ہیں ۔ اور انکے نزدیک بلوچ جدوجہد آزادی سے زیادہ انسانی حقوق، ساحل و وسائل یا روزگار سے وابستہ ہیں ان دلچسپ سیاسی کارکنوں سے میری ملاقات بلوچستان میں ہوتی رہتی ہے کہ مایوسی تب ہوئی جب ان انمول ہیروں سے میرے ملاقات یورپ میں ہوئی ۔مختصر قصہ یوں ہے کہ کہ ایک قابلِ دوست سے مختصر بحث کے دوران جناب نے کہا کہ اگر پاکستان ہمیں اپنے معدنیات یا ساحل و وسائل کا اختیار دے تو یہ جنگ ختم ہو گی ۔

میں نے جناب سے کہا کہ جناب یہ بات کسی دوسرے دوست کے سامنے مت کرنا وہ دوست ہنسے گا ۔

یہ لوگ دلچسپ ہوتے ہیں ان کی پہنچاں اس بات سے بھی کر سکتے ہیں کہ ان کا کردار علاقائی سیاست میں کم لیکن یورپ سیاست میں کچھ زیادہ ہوتا ہے۔

اور یہ بھی یہ اپنے شعبے کے ماہر ہوتے ہے اپنے شعبے کو چھوڑ کر سیاست کا منہ کالا کرنے میں کوئی قاصر باقی نہیں چھوڑتے اور مسائل پسند کرنے میں بھی قاصر باقی نہیں چھوڑتے ۔

 

چوتھ اقسام یا واقعی میں مایوس سیاسی کارکن ۔

یہ سیاست سے بہت جڑے ہوتے ہیں یہ وہ کارکن یہ جو نہ تو جنگی محاذ پر پورا اترے ہیں نہ تو سیاسی محاز ان کی زندگی علاقے کے ان بوڑھے انسان کی طرح ہوتا ہے جو اپنے آخری وقت میں اپنے جوانی کی قصّے بچوں کو سناتے ہوئے نہیں تھکتے ۔

یہ بوڑھے جوانی میں اپنے ناکامی چھپانے کے لئے لیڈروں کو مجرم قرار دیتے ہیں ۔

 

ایک اور اقسام بھی یورپ میں ملے گی یہ بھی دلچسپ ہے یہ وہ اقسام ہے جنکا مطالعہ بہت ہوتا ہے 

یہ سیاسی میں بھی سرگرم ہوتے ہیں ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اس کی اگر آپ ادبی کاموں کو دیکھتے ہیں تو آپ ان سے بہت متاثر ہوں گے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ سیاسی کردار عملی طور پر غیر فعال ہوتے ہیں یہ کہتے ہیں کہ سیاست ہم کرینگے اور قربانی کوئی اور دے۔

 

خیر سیاسی کارکنوں کی اقسام کے بارے میں بات بہت ہوئی اب چلتا ہوں اختتام کی طرف یورپی بلوچ سیاسی کارکنوں کی تجربات کو دیکھنے کے بعد مجھے یہ پتہ چلا قومیں نہ تو قلم سے آزاد ہوتی ہے نہ ہی بندوق کی نوک سے آزادی ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے یہ وہ کیفیت ہوتی ہے جب انسان ہر محاذ پر اپنے قوم کا سوچے چاہئے وہ پیسے کی ہو یا جان کی یا اپنا زات کی قربانی کی ہو

اگر ان کیفیات کی بغیر اگر کوئی قوم آزاد ہوتی ہے تو اس کی مثال لیبیا یا افریقی ممالک کی طرف ہوگا ۔

لہذا بلوچ تو بیرونی دنیا سے زیادہ اپنے سیاسی کارکنوں کی ان اقساموں پر کام کرناہوگا تاکہ ایک ایسی ذہنی کیفیت پیدا کی جائے جو آزادی کی راہ ہموار کرے نہ کہ آزادی کی راہ کو مسمار کرے

 

اخر میں مہاتماگاندھی کی ایک تاریخ جملہ یاد آیا 

میں نہیں چاہتا کہ برطانیہ ہمارے ملک کو آزاد کرے اب کیونکہ اب ہم اس زہنی کیفیت میں نہیں ہیں جو ہمیں ایک قوم بنائے ۔