ایتھنز ( ہمگام نیوز ) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق یونان میں تارکین وطن کی دو کشتیوں کو پیش آنے والے حادثات میں کم ازکم اکیس افراد ہلاک ہو گئے جبکہ متعدد افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔ یونان میں جمعرات چھ اکتوبر کے روز تارکین وطن کی ایک کشتی ڈوبنے سے کم از کم سولہ افریقی خواتین اور ایک مرد ہلاک ہو گیا۔ یونانی کوسٹ گارڈز کے مطابق یہ حادثہ وسطی بحیرہ ایجئین میں واقع لیسبوس جزیرے کے قریب پیش آیا۔ یہ ایک دن سے بھی کم کے وقفے کے ساتھ تارکین وطن سے بھری کسی کشتی کو پیش آنے والا دوسرا حادثہ تھا۔ کوسٹ گارڈ نے ریسکیو کیے گئے افراد کے حوالے سے بتایا ہے کہ ڈوبنے والی کشتی میں تقریباﹰ 40 افراد سوار تھے۔ کوسٹ گارڈ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ اب تک سترہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں مزید دس خواتین کو بچا لیا گیا ہے جبکہ تقریباﹰ تیرہ افراد ابھی بھی لاپتہ ہیں۔ حادثے کا شکار ہونے والی کشتی لیسبوس کے مشرق میں ترکی کے قریب واقع ساحل پر ڈوبی۔ یونان کے وزیر برائے مہاجرت نوٹس مائتراچی نے اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے ترکی پر زور دیا کہ وہ ”سخت موسمی حالات کی وجہ سے تمام بے قاعدہ روانگیوں کو روکنے کے لیے فوری کارروائی کرے۔‘‘ انہوں نے مزید لکھا،”پہلے ہی آج ایجیئن میں بہت سی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، لوگ سمندری سفر کے لیے نامناسب کشتیوں میں ڈوب رہے ہیں۔ یورپی یونین کو فوری ایکشن لینا چاہیے۔‘‘   اس سے قبل کے واقعے میں یونانی حکام نے بدھ کے روز 80 تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچالیا تھا۔ ان تارکین وطن کی کشتی جنوبی یونان کے جزیرے کیتھیرا کے قریب طوفانی پانیوں میں چٹانوں سے ٹکرانے کے بعد ڈوب گئی تھی۔ اس دوران چار تارکین وطن کی لاشوں کو اس کشتی کے ملبےکے ساتھ سمندر میں تیرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ تاہم ان لاشوں کی برآمدگی تک انہیں اموات کی سرکاری گنتی میں شامل نہیں کیا جائےگا۔ ریسکیو کیے گئے افراد کے مطابق گیارہ افراد اب بھی لاپتہ ہیں اور تلاش اور امداد کا کام اب بھی جاری ہے۔ جمعرات کے روز یونانی کوسٹ گارڈ کا ایک بحری جہاز اور فضائیہ کا ایک ہیلی کاپٹر لیسبوس کے قریبی علاقے میں تیز ہواؤں کے دوران سرچ اینڈ ریسکیو کی کارروائیوں میں مصروف رہا۔ لیسبوس کے وسیع ساحل کے ساتھ ساتھ ان تارکین وطن کی تلاش جاری ہے جو ممکنہ طور پر اس ساحلی علاقے میں پہنچ چکے ہیں۔ ان افراد میں سے تین دور دراز کے علاقے میں پھنسے ہوئے پائے گئےتھے۔   یونان 2015ء اور 2016ء میں مہاجرین کے یورپی بحران کا سامنا کرنے والے ممالک کی صف اول میں تھا۔ اس دوران شام، عراق اور افغانستان میں جنگ اور غربت سے فرار ہونے والے دس لاکھ پناہ گزین بنیادی طور پر ترکی کے راستے یونان پہنچے تھے۔اس کے بعد سے تارکین وطن کی آمد میں تیزی سے کمی واقع ہوئی۔ لیکن یونانی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے حال ہی میں ترکی کے ساتھ اپنی زمینی اور سمندری سرحدوں کے زریعے تارکین وطن کی طرف سے یونانی جزیروں پر داخلے کی کوششوں میں تیزی دیکھی ہے۔