نود حسبِ معمول اپنے گھر کے قریب واقع بک اسٹال سے اخبار خریدنے کے بعد اسے گول گول لپیٹ کر اپنے مٹھی میں دبوچتے ہوئے گھر کی طرف لوٹ رہا تھا تو پیچھے سے اچانک کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر زور سے کہا \” خبر دار \” ، نود گھبرا کر جیسے ہی تیزی سے مڑا تو سامنے اسے گھنے مونچھوں اور لمبے بالوں کے پیچھے ایک جانا پہچانا سا چہرہ نظر آیا، \” قمبر تم ، آج یہاں؟ کیسے ہو یار؟ ، کہاں ہو تم اتنے وقت سے نا حال نا احوال ، تمہارا نمبر بھی کتنی بار لگایا لیکن بند ہی ملتا ہے، کہاں گم ہوگئے تھے؟\” پرانے دوست کو دیکھ کر نود بے ساختہ انداز میں کئی سوال ایک ہی سانس میں پوچھ بیٹھا، ہاتھ تک ملانے کا خیال نہیں آیا ، نود اور قمبر بلوچستان یونیورسٹی میں ایک ساتھ پڑھتے تھے اور ہاسٹل کے ایک ہی کمرے میں رہتے تھے ، دونوں بی ایس او کے متحرک کارکنان تھے ، ہر وقت انکے بیچ کسی نا کسی سیاسی موضوع پر بحث ہوتی رہتی تھی ، یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد نود تو وہیں کوئٹہ اپنے گھر شفٹ ہوگیا لیکن قمبر اپنے آبائی علاقے قلات چلا گیا ، لیکن اسکے باوجود انکے بیچ ہمیشہ رابطہ رہتا تھا ،اور موقع ملتے ہی وہ ملاقاتیں کرتے اور اپنے روایتی سیاسی مباحثوں کو جاری رکھتے ، لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ انکے رابطے کم سے کم ہونے لگے ، اسکی بڑی وجہ قمبر کا وہ کاروبار تھا جس کے بارے میں کبھی بھی نود کو پتہ نہیں چلا ، جب بھی نود رابطوں کے فقدان کا گلہ کرتا تو قمبر کا ایک ہی جواب موصول ہوتا کہ \”یار کاروبار میں مصروف تھا \” پھر ہوتے ہوتے حالت یہاں تک پہنچی کے آج وہ ایک برس کے بعد ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ، انکے بیچ آخری بار رابطہ پچھلے سال انہی دنوں میں فون پر ہوا تھا ، جس کے بعد سے ابتک قمبر کا فون ہی بند تھا۔ \” یار سارے سوال یہیں روڈ پر ہی پوچھو گے یا کہیں بٹھا کر چائے بھی پلاو گے \” قمبر بالآخر ہاتھ ملاتے ہوئے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ نود سے مخاطب ہوا ، \”معاف کرنا یار تمہیں اتنے دن بعد دیکھ کر میں بھول ہی گیا ، آؤ آج وہی اپنے پرانے ٹھکانے ماما کے ہوٹل پر چلتے ہیں \” یہ کہتے ہی دونوں حال احوال کرتے ہوئے ماما کے ہوٹل کی جانب ٹہلتے ہوئے چلنے لگے۔
کسی زمانے میں ماما کا ہوٹل سیاسی بحث و مباحثے کا آماجگاہ ہوتا تھا ، شام ہوتے ہی یونیورسٹی کے زیادہ تر طالبعلم یہیں آکر چائے پیتے تھے اور ہر کونے میں چار پانچ دوست الگ الگ بیٹھے کسی نا کسی موضوع پر بحث یا گفتگو کررہے ہوتے تھے ، کسی کی ذاتی زندگی کی پریشانی تو کسی کی پڑھائی کی اکتاہٹ اور کہیں سیاسی حالت زار موضوعِ بحث ہوتے لیکن موضوع جو بھی ہوتا وہ ہوتے ہوتے کسی سیاسی موضوع پر بحث کے صورت میں ہی ختم ہوجاتا۔ آج قمبر دو سال بعد اس ہوٹل میں آیا تھا لیکن اسے ایک عجب سی بیگانگیت محسوس ہورہی تھی ، نا وہ شور تھا اور نا ہی وہ چہرے ایسا لگ رہا تھا ہر کوئی اپنے ہی دنیا میں گم ایک دوسرے سے سرگوشی کررہا ہے ، نود نے آگے بڑھتے ہوئے دو کرسیاں اٹھائیں اور اس جمگٹھے سے تھوڑے فاصلے پر الگ کرسیاں لگاتے ہوئے قمبرکو بیٹھنے کا کہا ، قمبر غور سے نود کے ہاتھ میں گول لپٹے اخبار کو دیکھتے ہوئے بولا \” اب تک تمہاری عادت نہیں بدلی ہے روز توار اخبار پڑھتے ہو؟\” ، نود نے اخبار ٹیبل پر رکھتے ہوئے جواب دیا \” نہیں یار، اب و زمانہ کہاں توار اخبار تو ان حالات کی وجہ سے کہیں ملتا نہیں ، اب میں جنگ خریدتا ہوں اس میں مختلف نوکریوں کے اشتہار آتے ہیں ، اچھی سی نوکری ڈھونڈ رہا ہوں ، ویسے وہ بھی کیا زمانہ تھا اب تو ہر چیز بدل گیا ہے \” اس کی بعد سن کر قمبر زور سے قہقہہ مارکر اخبار کو ٹیبل سے اٹھاتے ہوئے بولا\” تم نے آج مجھے مرحوم دادا کی یاد دلادی، وہ بھی ہر وقت یہی کہتا رہتا تھا کہ پرانے زمانے کی کیا بات تھی ، وہ ایسے بہتر ہوتا تھا ، وہ ویسے بہتر ہوتا تھا ، بات یہاں نہیں رکی پھر میرا والد بھی آج تک یہی کہتا ہے کہ انکے جوانی میں لوگ سچے اور پکے ہوا کرتے تھے اب تو کسی کا بھروسہ نہیں ، یہ ہمارے جامد اور قدامت پسند ذہنیت کی پیدا کردہ سوچ ہے کہ ہمیں ہر پرانا، آزمودہ اور گذرا چیز زیادہ خوبصورت اور اچھا لگتا ہے ، ہم اپنے ذہن میں پرانے دور کو ہی مثالی سمجھ کر کوشش کرتے ہیں کہ اسے نقل کیا جائے حالانکہ وقت بہتے ندی کی طرح ہوتا ہے جو پانی ایک بار پْل کے نیچے سے گذر گیا وہ واپس نہیں آتا ، ہر دور کے اپنے ٹھوس مادی حالات ہوتے ہیں ، اپنے ہی تقاضے ہوتے ہیں جو بہت تیزی سے بدلتے رہتے ہیں ، اپنے معروضی حالات اور مادی تقاضوں کو سمجھنا اور انکے مطابق خود کو بدلتے رہنا ایک ہنر ہے اور یہی ضروری ہنر ہی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے ، جو وقت کے اس بے رحم اور تیز رفتار کے ساتھ خود کو بدل نہیں پاتے یا وقت کے نئے تقاضوں اور ضروریات کو سمجھ نہیں پاتے تو وہ ماضی کے آزمودہ اور روایتی رستوں میں ہی پناہ ڈھونڈتے ہیں اور انکی کوشش یہی ہوتی ہے کہ بدلنے کے بجائے ہر تبدیلی کو روکیں ، اسے لعن طعن کریں اسے شجر ممنوعہ قرار دیں ، اصل میں برائی ان تبدیلیوں اور ترقی میں نہیں ہوتی بلکہ ہم میں ہوتی ہے ، ہم اپنے نئے تقاضوں کو نا سمجھنے کی نا اہلی اور کاہلی کو چھپانے کیلئے ہی ماضی میں پناہ ڈھونڈتے ہیں ، لیکن تبدیلی تو فطرت ہے اور قوانین فطرت ہمارے محتاج نہیں ہوتے ، وہ تو اپنے ہی ڈگر پر رواں ہوتے ہیں ہم سورج کی روشنی سے چھپ سکتے ہیں ، برستے بادلوں سے بچنے کیلئے چھتری تھام سکتے ہیں لیکن نا ہم بادلوں کو برسنے سے روک سکتے ہیں اور نا ہی سورج کو چمکنے سے کیونکہ یہ قوانین فطرت ہیں اسی طرح تبدیلی سے ہم عارضی طور پر دامن بچا سکتے ہیں لیکن کبھی اسے روک نہیں سکتے ، ناکامی خود آخر کیا ہے ؟ یہ حساب کے 2 جمع 2 حاصل 4 کی طرح کا کوئی اٹل کلیہ نہیں بلکہ یہ جدت بیزاری اور تقاضوں کو سمجھنے سے عاری ہونے کے کوکھ سے جنم لینے والی شے ہے ، تبھی ناکامی ہر زمان و مکاں میں مختلف تشریحات رکھتا ہے۔ نود آج تم جس زمانے کو عالیشان کہہ کر آہیں بھر رہے ہو مجھے یاد ہے اسی زمانے میں بہت سے ایسے لوگوں سے ہم ملتے تھے جو کسی اور زمانے کو مثالی قرار دیکر آہیں بھرتے تھے، یعنی جب کوئی حال کے رفتار سے تال میل قائم نہیں کرسکتا یا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا یا ماضی کے مفادات اسے ایسا کرنے سے روکے رکھتے ہیں تو پھر اسکا جائے پناہ ماضی اور پیرہن روایت ٹہرتی ہے۔ \” \”یار قمبر تم اب تک اپنے یونیورسٹی والے عادتوں سے باز نہیں آئے ہو ایک چھوٹی سی بات کو پکڑ کر بال کی کھال نکال دیتے ہو ، میں تو ویسے ہی کہہ رہا تھا ، خیر میں غلط بھی تو نہیں کہہ رہا ، پانچ سال پہلے کے وقت کو یاد کرو ہر طرف آزادی کے نغمے تھے ، ہر سو آزادی کی باتیں تھیں ، تمہیں یاد ہے نا کہ جب کوئی جلسہ کرتے یا سرکل لگاتے تو لوگ کتنی کثیر تعداد میں آتے ، اب تو لگتا ہے کہ کوئی آزادی کا نام لیوا بھی نہیں ، نا وہ پارٹیاں نظر آتے ہیں اور نا ہی کوئی لیڈر \”قمبر ماتھے پر گہرے شکن ڈالتے ہوئے سنجیدگی سے اسکے بات کو بیچ میں کاٹ کر ایک بار پھر نود سے مخاطب ہوا۔\” یہی میں تمہیں سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں ، کہ ہر نیا دن گذرے دن سے مختلف ہوتا ہے ، وقت ایک سا نہیں رہتا ، ہاں میں یہ ماننے کو تیار ہوں کہ آج قومی تحریک کیلئے عوامی سطح پر وہ آزادانہ اور کھلم کھلا حمایت ناپید ہے لیکن کیا تم نے کبھی سوچا یا غور کیا کہ آخر ایسا کیوں ہے ؟ پہلے ہم میں کونسی اچھائی تھی کہ لوگ کھینچے چلے آتے تھے اور اب ہم میں کیا خرابی آگئی ہے ؟ یہاں ریاست کے ظلم اور اسکے خوف کو خارج ہر گز نہیں کیا جاسکتا لیکن اتنا تو آج سے پانچ سال پہلے مجھ اور تم جیسے ادنیٰ سیاسی کارکنوں تک کو اچھی طرح معلوم تھا کہ آگے کا سفر ہر گز پرسکون اور خوشگوار نہیں ہوگا ہمیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ دشمن پلٹ کر وار ضرور کریگا جو اسنے کیا بھی، پھر کیا وجہ ہے کہ مستقبل کا اندازہ ہونے کے باوجود بھی ہم نے اسکی تیاری نہیں کی ؟\”
نود غور سے قمبر کے باتوں کو سننے کے بعد بولنے لگا ،\” اصل میں ہم بدل گئے ہیں ، پہلے ہمارے رویے انقلابی تھے اور کام کا طریقہ صحیح تھا لیکن اب ہم پہلے کی طرح نہیں ہیں بدل چکے ہیں \”
ایک بار پھر قمبر نے اسکی بات آدھے میں کاٹتے ہوئے بولا\” غلط ، بالکل غلط میں تم سے اتفاق نہیں کرتا اصل مسئلہ یہ نہیں کہ ہم بدل گئے ہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم بدلے نہیں ہیں ، میں یہ نہیں کہوں گا کہ پہلے ہماری سیاست مثالی تھی بلکہ اس میں ہمیشہ سے کمیاں موجود تھیں لیکن پھر بھی گذشتہ دہائی کے بلوچ سیاست پر نظر دوڑائیں تو وہ ہمیں اپنے معروضی حالات اور ٹھوس مادی تقاضوں کے قریب تر نظر آتا ہے ، پچھلے دہائی میں حالات موافق تھے ہم کھلم کھلا جلسے کر سکتے تھے ، تبلیغ کرسکتے تھے ، ریاست کا ردعمل روایتی تھا جس کی وجہ سے ہمارے جدید طرز سیاست کو اس سے زیادہ زک بھی نہیں پہنچ رہی تھی ، آزادی کے پرکشش نعروں اور خون گرما دینے والے جلسوں اور آشوبی دیوانوں سے لوگ جلد متاثر ہوگئے ، اور کوئی خاص سختی نا پاکر وہ جوق در جوق ہماری طرف مائل ہونے لگے ، شاید لوگوں کو کھیپ در کھیپ اپنی طرف مائل کرنے کا وہ طریقہ اپنے حالات کے مطابق صحیح تھا ، تحریک کا سمجھو آغاز صفر سے ہوا تھا اسے تھوڑا آگے بڑھانے اور لوگوں خاص طور پر دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے وہ طریقہ کار صحیح تھے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان ابتدائی مرحلوں کے بعد حالات بدل گئے ، سیاست کے تقاضے بھی بدل گئے ، دشمن بھی روایتی طریقہ کاروں کو چھوڑ کر نئے طریقوں سے حملہ آور ہوا ، ہمیں بھی لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے بعد تحریک اور سیاسی پارٹیوں کو ایک مضبوط سائنسی شکل دینا تھا لیکن ہم اجتماعی طور پر بھی اسی سوچ کا شکار بنے جس کے شکار تم ہو یعنی ہم ماضی کے محافظ اور روایتوں کے امین بن گئے، بدلتے حالات کے ساتھ بدلنے کے بجائے ہم نے فیصلہ کیا کہ انہی رستوں پر چلنا ہے جن پر چل کر ماضی میں معمولی کامیابیاں ملیں۔ ہم انہی طریقوں کو مقدس گردان کر روایت کو مقصد پر معتبر جان رہے ہیں ، ہم نے آج سیاست کے معنی جلسے ، جلوس ، ریلیاں ، بیان اور ممبر شپ ہی سمجھی ہوئی ہے لیکن حالات اب ہم سے ان عوامل سے بڑھ کر تقاضے کررہے ہیں تبھی ہم ناکامی کی طرف جارہے ہیں، یعنی ماضی کے طریقے اس لیئے کامیاب تھے کیونکہ وہ اپنے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ تھے اور آج اس لیئے وہی طریقے ناکام ہیں کیونکہ وقت بدل گیا اور وہ طریقے تقاضوں پر پورا نہیں اتر رہے ہیں اور اگر کامیاب ہونا ہے تو پھر اپنے موجود ٹھوس مادی حقائق اور معروضی حالات سے ہم آہنگ طریقہ کار اور رستہ اختیار کرنا پڑے گا تبھی کامیابی مل سکے گی ، ویسے ایک بات کہنا چاہوں گا تم سے کہ آج ہر کوئی حالات کا رونا رو رہا ہے اور سیاسی ناکامیوں کو ان حالات کے پردے کے پیچھے چھپانا چاہتا ہے ، لیکن کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ دنیا میں جو بڑی بڑی تحریکیں کامیاب ہوئی ہیں کیا انکو ایسے سخت حالات کا سامنا نہیں تھا ؟ بالکل تھا ان میں اور ہم میں فرق یہ ہے کہ وہ خود کو ڈھالنے میں کامیاب ہوگئے اور ہم تبدیلی کی بات کرنے والوں تک کو نوچ لیتے ہیں \”
نود اب اپنے اردگرد کے ماحول سے بے نیاز ہوگیا تھا اور کافی جذباتی ہوکر زوردار لہجے میں بولنے لگا \” نہیں یار قمبر ایسا نہیں ہے ، پہلے ہم میں اتحاد تھا ، سب سیاسی پارٹیاں بی این ایف کے پلیٹ فارم سے کام کر رہے تھے ، مسلح تنظیموں میں بھی رابطہ اور ہم آہنگی تھی اس لیئے کامیابی سے چل رہے تھے لیکن آج کے حالات کیا تمہیں پتہ ہیں؟، ذرا سوشل میڈیا پر جاکر دیکھو سب ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے ہیں ، سب کو برا کہا جارہا ہے ، ڈاکٹر اللہ نظر سے لیکر بابا خیربخش تک کو بخشا نہیں جارہا ، جب ایسے لوگ ہونگے ہمارے بیچ میں تو کیسے کامیاب ہونگے \”
قمبر اسکی باتیں سن رہا تھا پھر اپنے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ لاکر بولنے لگا \” نود اگر تمہاری باتیں سچ ہیں تو پھر ذرا سوچو کے کیا ہماری سیاست اور داعیان انقلاب اتنے کمزور تھے کہ سوشل میڈیا پر کچھ مضامین سے کمزور پڑ گئے ؟ کیا ہماری سیاست کی بنیاد یہی تھی کہ جب تک لوگ سرمچاروں کے قصیدے پڑھتے ، لیڈروں کیلئے گانے گاتے تو وہ کامیاب اور جب ان پر ذرا سی تنقید کردی تو وہ ناکام ؟ ایسا ہرگز نہیں ، سوشل میڈیا کیا ہے ؟ کیوں اسے تم لوگوں نے اتنا بڑا دردسر سمجھا ہوا ہے ، کیوں لوگوں کو اسطرح ڈرا رہے ہو جیسے بچوں کو اندھیرے سے ڈرایا جاتا ہے ، جس طرح کل تک میں اور تم اور دوسرے ہزاروں کامریڈ ماما کے اس ہوٹل پر بیٹھ کر باتیں کرتے تھے ، تنقید کرتے تھے بحث کرتے تھے وہی سب کچھ اور اسی طرح کی باتیں آج سوشل میڈیا پر ہورہی ہیں ، فرق صرف اتنا ہے کہ وہ ایک جدید چیز ہے ، وہ ماما کے ہوٹل کی جدید شکل ہے ، کیا ان ہوٹلوں پر بیٹھ کر ہم نے تنقید نہیں کی ہے ؟ کیا بحث کرتے ہوئے ہم میں گرما گرمی نہیں ہوئی ہے ، آج اگر وہی چیز ایک جدید انداز میں ہورہا ہے تو پھر ڈر کیسا ، یہ تو وہی بات ہوئی کے بہت سارے ممالک میں جب مارشل لاء لگی تو پھر وہاں ہوٹلوں اور عوامی مقامات پر سیاسی گفتگو پر پابندی لگائی جاتی وہی کچھ آج سوشل میڈیا کی صورت میں ہم خود نہیں کررہے ؟ اصل میں ہماری یہ ذہنیت بھی ہماری اس قدامت پسندی کا اظہار ہے ، جس طرح ہم نے مجموعی طور پر بلوچ سیاست میں جدت بیزاری کو اپنا وطیرہ بنایا ہوا ہے اسی طرح سوشل میڈیا جیسے جدید طریقے پر بھی قدغنیں لگارہے ہیں ، چلو پھر بھی تم چھوڑو سوشل میڈیا کو صرف اتنا سوچو کے سوشل میڈیا سے باہر کیا چیزیں صحیح چل رہی ہیں\”؟
نود نے قمبر کی بات کاٹتے ہوئے کہا \” تمہیں کیا لگتا ہے کہ بی ایس او ، بی این ایم ، بی آر پی ، بی آر ایس او ، بی ایل ایف ، بی آر اے ، یو بی اے
یہ سب کے سب غلط ہیں ان کو سمجھ نہیں آتا بس یہی کچھ لوگ اور تمہیں سمجھ آتا ہے ؟\”
قمبر دوبارہ دھیمے لہجے میں بولنے لگا \” دیکھو یار نود ، صرف غور کرو کہ کیا آج ہمارے طریقے اور ہمارے کام وقت کے قومی سیاسی ضروریات پوری کررہے ہیں ، ان سیاسی پارٹیوں پر غور کرو ذرا ، سیاست کا ماہر سیاسیات نے بہت سے معنی اور تشریحات پیش کی ہیں پتہ نہیں ان میں سے کونسا سیاست پر پورا اترے لیکن اتنا میں جانتا ہوں کم از کم عام سیاست اور انقلابی سیاست کیلئے ایک ہی تشریح اور معنی ممکن نہیں ، میں تو کہتا ہوں ان میں سے ایک کا نام سیاست ہی نہیں ہونا چاہئے تھا کیونکہ ان کے طریقے کار ، ضروریات اور تقاضے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں لیکن ہمارے سیاسی پارٹیوں کو دیکھو تو وہ مکمل طور پر عمومی سیاسی اصولوں پر عمل پیرا ہیں ، عام حالات میں ایک سیاسی پارٹی اپنے پروگرام اور طریقہ کار اگلے الیکشن کو دیکھ کر ترتیب دیتا ہے ، وہ خود کو دوسرے پارٹیوں سے بہتر ظاہرکرنے کیلئے جلسے کرتا ہے ، اپنے لیڈروں کی تصویریں آویزاں کرتے ہیں ، کوئی بھی کام جو ہزار گنا زیادہ عوام کے بھلائی اور بہتری کیلئے ہو لیکن اگر عارضی طور پر عوام میں بد دلی پھیلنے کا اندیشہ ہو تو وہ اس سے پہلو تہی کرتے ہیں تاکہ انکا ساکھ متاثر نا ہو ، وہ عارضی ڈھکوسلوں سے کام چلاتے ہیں تاکہ عوام کو جذباتی طور پر خود سے وابسطہ کرکے زیادہ سے زیادہ ووٹ سمیٹیں لیکن ایک انقلابی پارٹی عوام کے جذبات اور خواہشات پر چلنے کے بجائے انہیں سکھاتا ہے کہ ان کیلئے کیا بہتر ہے اور انہیں کیسے جذبات اور خواہشات رکھنا چاہئے ، وہ عارضی پذیرائی کے بجائے طویل المدتی فوائد کو دیکھتا ہے ، اسکا مقصد اگلا الیکشن نہیں بلکہ قومی بقا و مستقل فلاح ہوتی ہے ، لیکن اب تم ذرا غور کرو ہمارے طریقہ کاروں پر دس سال پہلے ہم نے جلسے کیئے تھے تو کامیابی ملی اس لیئے آج بھلے حالات کچھ بھی ہوں ، قومی سیاست کے تقاضے جو بھی ہوں ہم نے وہی راہ اپنانی ہے ، یہ سیاسی پارٹیاں جہاں جلسہ کرتے ہیں اگلے دن دشمن اس پورے علاقے کو تہہ و بالا کردیتا ہے ، عوام کو مارتے ہیں ، گھر جلاتے ہیں لیکن ہمیں کوئی بھی اور رستہ سجھائی نہیں دیتا بس دوبارہ گھوم پھر کر کسی کونے میں منت سماجت سے کوئی جلسہ کرکے سینہ چوڑا کرتے ہیں ، میں حیران ہوں کہ اتنی سادہ سی بات سمجھ نہیں آتی کہ اگر جلسے کا مقصد طاقت دِکھانا ہے تو پھر چند سو کے جلسے سے کون سی طاقت دنیا کو دکھے گی اور اگر جلسے کا مقصد تربیت اور موبلائزیشن ہے تو پھر کیا ان پارٹیوں اور لیڈروں کو اتنا تک پتہ نہیں کہ تربیت اور موبلائزیشن کیلئے ان جلسوں سے ہزار گنا بہتر اور اچھے طریقہ کار موجود ہیں ، کیا انکو اتنا بھی سمجھ نہیں آرہا آج کے حالات کے مطابق تربیت اور موبلائزیشن کے تقاضے کیا ہیں ، کیا انکو اتنا نہیں دِکھ رہا کہ اگر جلسوں سے عوامی حوصلہ بڑھانا مقصود ہے تو پھر اگلے دن اس جلسے کی وجہ سے انکے گھروں کا جل جانا عوام کے حوصلوں کو اتنا ہی پست کردیتا ہے، میں ہرگز ایک جلسے کو مدعا بنا کر اپنی بات محدود کرنا نہیں چاہتا بلکہ جلسوں کی مثال دیکر میں صرف نود جان تمہیں اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ ہم خود کو بدلنے پر راضی نہیں اسلیئے نقصان اٹھا رہے ہیں ، بی ایس او آزاد کو دیکھ لو جب حالات بدل گئے تو پھر بھی وہ پرانے طرز عمل پر ڈٹے رہے جسکی وجہ سے انہوں نے بہت نقصان اٹھایا لیکن پھر بھی خود کو اپنے طریقہ کار کو اپنے ڈھانچے کو بدلنے کے بجائے پرانے طریقہ کار پر چلتے رہنے کیلئے انہوں نے اپنے موقف کو ہی بدل دیا ، یعنی اگر کل آزادی اور مزاحمت کا نام لیکر ہم جلسے ، جلوس ، ریلیاں اور مظاہرے کررہے تھے تو آج حالات بدل جانے کے باوجود بھی ہمیں وہی کرنا ہے ، اگر مزاحمت اور آزادی کے نعرے کا بوجھ ہمیں جلسے ، جلوس کرنے
نہیں دے سکتا تو پھر ہم اپنے موقف کو تو مزاحمت اور آزادی سے عدم تشدد اور حقوق کردیں گے لیکن جدید طریقہ کار نہیں اپنائیں گے ، میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ یہ روایتی سیاسی سرگرمیاں اپنانے اور ان پر چلنے کیلئے ایک پارلیمانی سیاسی جماعت اس لیئے بضد ہوتا ہے کیونکہ اسے ووٹ لینے ہوتے ہیں دوسرے پارٹیوں پر سبقت حاصل کرنا ہوتا ہے ، لیکن ہماری یہ انقلابی پارٹیاں جو ہر وقت اتحاد کے گن گاتے ہیں ، کس کو نیچا دِکھانا چاہتے ہیں؟ ، اصل بات یہی ہے اصل میں ابتک انکی ذہنیت اسی طرز پر استوار ہے ، وہ خاموش ہوکر کام کرنے سے زیادہ اپنے نام اور اخباروں میں زندہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تمہیں یاد ہے نود جان تم اکثر کہا کرتے تھے کہ یار یہ بی ایس او کا اپنا ہی نشہ ہے ، اصل میں یہ نشہ کیا تھا ؟ وہ نشہ نام کا ہے ، وہ نشہ لاف زنی کا ہے ، وہ نشہ لیڈری کا ہے ، وہ نشہ یہ ہے کہ ہم کہیں جائیں اور سب کامریڈ کامریڈ کہہ کر ہمارا استقبال کریں ، ہم غلام قوم نے سیاست میں نجات نہیں ڈھونڈا بلکہ اس میں بھی اپنے احساس کمتری کو چھپانے کیلئے برتری کا عنصر پیدا کیا ، اور مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ وہ نشہ آج بھی کامریڈوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ، وہ اسی نشے میں اتنے مست ہیں کہ انہیں اس دائرے سے باہر کی دنیا دکھائی نہیں دیتی۔ تم کہتے ہو کہ ہماری سیاست ناکام کیوں ہورہی ہے ، نود جان ذرا غور کرو ، بی این ایم ہو ، بی ایس او ہو یا پھر بی آر پی ان سب کے ڈھانچے اس طرح استوار ہیں جیسے وہ کسی جمہوری ملک میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں ، اس سینٹرل ڈیموکریٹک ڈھانچوں کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے یعنی چیئرمین آپ کا اگلا تیار صدر ہوتا ہے ، مرکزی کابینہ آپ کے وزیر ہوتے ہیں اور مرکزی کمیٹی ممبر اسمبلی اور زونوں کی لیڈر شپ آپ کے علاقائی ناظم و میئر وغیرہ ہوتے ہیں ، روسیوں نے تو اسی لیئے اس ڈھانچے کو ترتیب دی لیکن ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ ہم نے چربہ سازی تو کرلی لیکن اپنے معروضی حالات کو نہیں دیکھا ، بلکہ ستم یہ کہ منزل کی گند بھی ہمیں نہیں لگ رہی لیکن ہمارے کامریڈ و لیڈر پہلے سے نفسیاتی طور پر صدر ، وزیر اور میئر بن چکے ہیں وہ بھی کسی جمہوری نظام کے نہیں بلکہ ایک کٹر آمرانہ نظام کے ذرا سوچو ، بی ایس او نے اپنے مرکزی کمیٹی اور کابینہ سے کتنے لوگوں کو اس لئے فارغ کردیا کہ وہ ان سے اختلاف رکھتے تھے ، اور انکا جواز کیا ہے ، وہی پرانا آمرانہ جیسے ایک آمر کسی کو سزا دیکر کہتا ہے کہ یہ ملک دشمن یا قوم دشمن یا ایجنٹ تھے یہی بی ایس او تنظیم دشمن ، آئین دشمن اور ایجنٹ کہہ کر نکال رہا ہے ، پاکستان کی مثال لیکر دیکھو جیسے یہاں ہر چور خود کو آئین میں تحفظ دیتا ہے یہی یہ کر رہے ہیں ، یعنی ابتک بیسوں لوگوں کو نکال چکے ہیں صرف اس لیئے کیونکہ وہ ان سے اختلاف رکھتے تھے ، یہی بی این ایم کا حال ہے اور بی آر پی نے تو اپنے نائب صدر کو نکالنے سے بھی دریغ نہیں کیا کیوں ؟ سیاست اب یہ رہ چکی ہے کہ روایتی طور پر کچھ دن مختص کرو وہ بھی ہر پارٹی اپنے فائدے کے حساب سے کوئی دن مختص کرے گا ، یعنی اکبر بگٹی کی شہادت بی آر پی کا میراث ہے ، غلام محمد کی شہادت بی این ایم کا میراث ہے اور رضاجہانگیز کی شہادت بی ایس او کا تاکہ ان شہیدوں کے نسبت سے خود کو جوڑ کر عوام کو جذباتی طور پر خود سے جوڑیں ، اسکے بعد جو ہوتا ہے وہ سیاست نہیں کہلاتا بلکہ ردعمل کہلاتا ہے ، یعنی بی ایس او کے آخری چار مہینوں کے تمام کارہائے نمایاں اٹھا کردیکھو زاہد بلوچ کے اغواء کا ردعمل ہیں ، باقی پارٹیوں کا ہر بیان ، ہر جلسہ ، ہر جلوس ، کسی کے شہادت کا ردعمل ، کسی جگہ آپریشن کا ردعمل اور کسی کے بیان کا ردعمل ہے ، سیاست تو نام ہے عمل کا اور جب وہ خود ہی ردعمل بن جائے تو پھر کیا وہ سیاست کہلانے کا مستحق ہے ؟ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ردعمل نہیں ہوسکتا لیکن اس بیچ عمل کہاں غائب ہوگء ؟ کیا آپ کو کوئی ایک بھی قلیل المدتی یا طویل المدتی مہم نظر آیا ؟ کیا آپ کو کوئی بھی بامعنی پالیسی نظرآئی ، سوائے تھوک چاٹ پالیسیوں کے ؟ نود جان بے ادبی معاف ، تھوک چاٹ پالیسی اس لیئے کہہ رہا ہوں کہ ہماری پارٹیوں کے پالیساں آج کل وہی زمین پر تھوک کر اسے واپس چاٹنے کے برابر ہوگئے ہیں ، مثال کیلئے دیکھو بی ایس او مزاحمت کے حمایت کا نعرہ مستانہ بلند کرکے میدان میں آتا ہے ، جب ڈنڈے برستے ہیں تو پھر خود کو کچھوے کی طرح ایک خول میں یعنی ایک مسلح تنظیم کے زیر اثر علاقوں میں چھپاتے ہیں اور وہیں کام شروع کرتے ہیں ، پالیسی بناتے ہیں کہ ہم خفیہ رہیں گے کام کریں گے لیکن جب نام کی بھوک بڑھنے لگتی ہے اور یہ گم نامی ہضم نہیں ہوپاتی تو آہستہ آہستہ سب کہیں کسی جلسے میں اور کبھی کسی جلسے میں خود کو ظاہر کرتے ہیں ، پھر بالآخر یہاں تھوک چاٹی کا مظاہرہ کرتے ہوئے \” بی ایس او پجار \” کے پرامن جمہوری جدوجہد کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہیں ، اب یہ تھوک بھی کب چاٹیں کچھ پتہ نہیں۔ بی این ایم بی ایل ایف کے سیاسی ونگ کے کردار کو اپناکر مطمئن ہے بی آر پی سوئٹزر لینڈ ، جرمنی اور لندن پر اکتفاء کرکے مطمئن ہے ، یعنی کسی حد تک جائیں گے لیکن اپنے روایتی طریقہ سیاست کو نہیں بدلیں گے \”۔
نود ابتک برداشت سے قمبر کی باتیں سن رہا تھا لیکن آخر اسکے برداشت کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور گرج دار آواز میں بولنے لگا \” قمبر اب مجھے سمجھ آگیا کہ تمہارا یہ بزنس کیا تھا اور یہ تم اتنے وقت غائب کہاں رہتے ہو ، تم بھی ان بی ایل اے والوں سے مل گئے ہو لگتا ہے ، آج تم انکی ہی زبان بول رہے ہو ، انکو سب پر تنقید کرنے اور اعتراض کرنے کے سوا کوئی کام نہیں ، اگر یہ سب غلط ہیں تو پھر صحیح کیا ہے؟ \”
قمبر دوبارہ ہنستے ہوئے نود کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے بولا \” یار تمہاری سوچ اتنی تنگ کب سے ہوگئی ہے ، اگر تم بی ایل اے کو بندوق برداروں کا ایک جتھہ سمجھتے ہو تو پھر یہ تمہاری کم فہمی ہوگی ، میں تو سمجھتا ہوں کہ بی ایل اے ایک سوچ کا نام ہے جو کہیں بندوق اٹھا کر لڑتی ہے تو کبھی ان بوسیدہ روایتوں کو ملیامیٹ کرنے کیلئے لکھتی ہے اور کبھی زمین پر ایک جدید سیاسی طریقہ کار کے صورت میں آتی ہے ، ہاں میں اس سوچ کا حمایتی ہوں کیونکہ اس سوچ کا بنیادی اساس ہی یہی ہے کہ ٹھوس مادی حالات اور معروضی حالات کو سمجھتے ہوئے مختلف طریقہ کاروں میں خود کا ڈھالنا اور ذرائع اپنانا، تم کہتے ہو کہ انہیں تنقید کے سوا کچھ نہیں آتا ذرا سوچو ہم سب کو یہ کڑوی حقیقت معلوم ہے کہ ہماری سیاست ناکامی کی طرف جارہی ہے ،معلوم ہونے کے باوجود اس پر سوچنے، بولنے اور لکھنے کی ہمت کس نے کی ؟ یہ خود ہی ایک کام ہے تم کہہ رہے ہو اگر یہ غلط ہے تو پھر صحیح کیا ہے ، نود جان تم تھوڑا سوچو تو تمہیں خود ہی سمجھ آجائیگا ، اس وقت ہماری روایتی سیاست ، ڈھانچے اور آئین و منشور ہمارے پیروں کی بیڑیاں بن چکی ہیں ، ہم نام کی خاطر بڑے سے بڑا نقصان اٹھانے کو تیار ہیں ، ذرا منان سے پوچھو کے جھاو میں آپریشن کیوں ہوا ؟ اور کریمہ بی بی سے پوچھو کہ گومازی میں آپریشن کیوں ہوا؟ ، سمجھ آجائے گا ، اتنا سوچو کے سینٹرل کمیٹی کے میٹنگوں کیلئے سب کو اتنا بڑا رسک اٹھا کر اس لیئے خطرے میں ڈال کر جمع کریں گے کہ یہ روایت اور آئین و منشور ہے ، ذرا سوچو زاہد کوئٹہ کابینہ کے میٹنگ کرنے کیلئے جاتا ہے پکڑا جاتا ہے ، ہر جگہ مخلص کارکنوں کو ظاہر کرکے پکڑوا یا شہید کروارہے ہیں کس لیئے تاکہ ہمارا احتجاجی مظاہرہ کامیاب ہو ، ہمارا پوسٹر و اسٹیکر لگے ، ہماری کتابیں بانٹے جائیں ، ہمارے جلسے لمبے چوڑے ہوں ، یہ صرف معمولی مثالیں ہیں لمبی لسٹ کھول سکتی ہے ، میں
صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں تم سے کہ صرف حالات پر غور کرکے یہ معلوم کرو کہ اس وقت ہمارے قومی سیاست کے تقاضے کیا ہیں ؟ میری سمجھ کم ہے لیکن اتنا مجھے سمجھ آتا ہے کہ آج صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام سے رابطے کا ایک ذریعہ بنایا جائے ایسا رابطہ جو اٹوٹ ہو ، پھر ان چند سیاسی کارکنوں کو سامنے لاکر انہیں قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے انکے زریعے خاموشی سے عوام کو متحرک کیا جائے ، ساری توجہ اسی چیز پر ہو ، اپنا گراونڈ بنایا جائے عوامی حمایت حاصل کی جائے ، اس کیلئے بالکل ضروری نہیں کہ آپ اپنے نام سے کام کرو ، یا آپ کے لاف زن لیڈر آکر تقریرں کریں ،یہ کام آپ بغیر نام اور بغیر اخباری بیان کے کرو ، اپنے کارکنوں کو کیموفلاج کرکے رکھو نا کہ ایک معمولی مظاہرے کیلئے ایسے قیمتی کامریڈوں کی بَلی چڑھاو انہیں ظاہر کرو ، اپنے آئین و منشور کے ہر اس شق کو ختم کردو جو ان قیمتی سیاسی کارکنوں کیلئے خطرہ بنتا ہے، اپنے اس بوسیدہ ڈھانچے کو ہی ختم کرکے ایسا ڈھانچہ سامنے لاو جس میں کام سے شخصیات نہیں بنیں بلکہ تنظیم بنے۔ اب اگر ذرا موجودہ سیاست پر غور کرو تو تم بآسانی دیکھ سکتے ہو کہ روایتی سیاسی سرگرمیاں جیسے کے جلسے جلوس ، ریلی وغیرہ سب ہورہے ہیں ، لوگ قربان بھی ہورہے ہیں لیکن پھر بھی تمہارا رابطہ عوام سے کٹ رہا ہے ، مثال کیلئے صرف خضدار سے لیکر کوئٹہ پھر کوئٹہ سے لیکر جعفر آباد تک کو دیکھ لو عوام سے رابطہ بالکل کٹ چکا ہے ، اور جہاں تک عوام کو متحرک کرنے کا تعلق ہے تو ذرا ان ریلیوں اور جلسوں کو دیکھو ان میں عام عوامی شرکت روز بروز کم ہورہی ہے ، جتنے لوگ ہوتے ہیں وہ یا تو کارکن ہوتے ہیں یا پھر کسی مسلح تنظیم کے طاقت سے مرعوب لوگ جو چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیں کہ جب طاقت کا پلڑا کسی اور کے حق میں جھکا تو وہ بھی اس طرف ہولیں گے ، اسکا مطلب آج یہ ساری سرگرمیاں اور قربانیاں ہمیں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا رہے ہیں، بلکہ الٹا مزید نقصان دے رہے ہیں ، پھر آخر کیوں ہم ان سے چمٹے رہیں ، نود جان یہاں ایک سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آخر نقصان کے باوجود یہ طرز عمل کیوں جاری ہے ؟ اس کا وجہ صرف ایک ہے یہاں کچھ لوگوں نے پورے سیاست کو یرغمال بنایا ہوا ہے کیونکہ اسی روایت پرستی میں انکے ذاتی و گروہی فوائد پوشیدہ ہیں ، انکا نام زندہ ہے اب تو انکا دھندہ بھی پنپ رہا ہے ، وہ اسی کو جاری رکھنے کیلئے قیمتی کامریڈوں کو موت کے منہ میں ناکامیوں کے قیمت پر جھونک رہے ہیں اور وہ بضد بھی ہیں کہ کوئی ان سے پوچھے بھی نہیں ، وہ چند لوگ اپنے مفاد کیلئے روایتوں کو زندہ رکھ کر کامریڈوں کو قربان کرتے ہیں پھر اپنے خود غرضی اور کبھی اپنے سیاسی نابالغی کو ریاستی جبر میں خلط ملط کرکے بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں ، ایک بار پھر کہوں گا کہ صندل کی لکڑیوں کو اگر جلنا ہی ہے تو پھر ان پر کم از کم آزادی کا دیگ پکنا چاہئے نا کہ مفادات کی سیاہ چائے ، یہ تو صرف سرفیس سیاست کی مختصر باتیں ہیں ، مسلح محاذ پر نظر جماو تو الگ ہی کہانیاں کھلتی ہیں، اگر تمہیں یا کسی کو بھی سوشل میڈیا سے مسئلہ ہے تو انکے منہ پر قفل لگانے سے بہتر ہے یہ مسئلے حل کرو ، یہ مسئلے صرف گفت و شنید اور بحث مباحثے سے سمجھے اور حل کیئے جاسکتے ہیں جب یہ مسئلے حل ہوگئے تو کوئی سوشل میڈیا کیا ٹی وی پر آکر بھی کچھ کہے بھی تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ورنہ سوشل میڈیا کے ایک جعلی نام سے چار سطور لکھنے پر بھی آگ لگ جائے گی ، اب کم از کم بھاگنا اور منہ بند کرانا چھوڑ کر ان پر کھول کر بات کرنا شروع کیا جائے \”
قمبر اپنے باتوں میں مشغول تھا اور نود اب اسے خاموشی سے سن رہا تھا لیکن اتنے میں انہیں ہوٹل کا مالک ماما لنگڑاتے ہوئے اپنی طرف آتے
ہوئے نظر آیا ، وہ آہستہ آہستہ آرہا تھا لیکن یہ کیا اس شفیق ماما کے چہرے پر پیار کے بجائے غصہ تھا ، اتنے دن بعد ملنے کی جو حیرت اور شفقت کی چمک اسکے آنکھوں میں دِکھنی چاہئے وہ سرے سے غائب تھا ، یہ وہی ماما تھا جو آج سے چند سال پہلے انکو سیاسی بحث کرتے دیکھ کر ان کے قریب بیٹھتا تھا ان سے سوال پوچھتا تھا ، اور کبھی کبھی مفت کی چائے بھی پلا دیتا تھا لیکن آج وہ اتنا بیگانہ سا کیوں ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ماما کو ہمارے سیاسی گفتگو سے اپنے ہوٹل کا کاروبار زیادہ عزیز ہوگیا ہے ؟ اتنے میں ماما ان کے بالکل قریب آگیا اور قمبر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے جھنجھوڑتے ہوئے اپنی طرف متوجہ کرکے اپنے شہادت کے انگلی کی مدد سے سامنے دیوار کی طرف اشارہ کرنے لگا ، جب قمبر نے دیوار کی طرف دیکھا تو وہاں ایک بورڈ لٹکا ہوا تھا جس پر جلے حروف میں لکھا تھا کہ \” یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے \”