( ہمگام کالم ) میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر… لوگ ساتھ آتے گئے اور کاروان بنتا گیا…. بلوچ تحریک آزادی مختلف نشیب و فراز سے گزر کر آج ایک فیصلہ کن دور تک پہنچ چکا ہے، بلوچ موجودہ قابض سے پانچویں بار جنگ اپنے زور بازو سے کم وسائل سے لڑ رہا ہے کم مگر موثر سفارتکاری اور لازوال قربانیوں سے بلوچ قوم نے اپنے قومی سوال کو طاقتور قوتوں کے ایوانوں تک پہنچا دیا ہے، جس کا براہ راست کریڈٹ بلوچ شہداء اور جنگی محاذ پر دشمن سے برسرپیکار بلوچ سیاسی اور مسلح قوتوں کو جاتا ہے، جن کی شب و روز کوششوں سے بلوچ عالمی دنیا میں اپنی وجود منوانے میں ایک حد تک کامیاب ہوگئے ہیں، اگر ہم دنیا کی تحریکوں پر سرسری نظر دوڑائے تو ہمیں یہ سچ سمجھنے میں دقت پیش نہیں آئیگی کہ قومی تحریکوں میں سرزمین کے باسیوں کی لہو ایندھن کا کردار ادا کرتی ہیں، سرزمین کے سپوتوں کا ہر گرتی ہوئی لاش قبضہ گیر کے ریاستی ڈھانچے کو ایک زوردار دھکہ دینے کے مترادف ہوتا ہے ، دور نہیں جائیں گے سنہ اکہتر سے پہلے مشرقی پاکستان تصور کئے جانے والے بنگلہ دیش کا مثال لیتے ہیں جہاں پاکستانی نامنہاد اسلامی فوج نے نہتے شہریوں کو غیر اسلامی اور غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، ایک اندازے کے مطابق 30 لاکھ کے قریب بنگالی شہریوں کو شہید کیا گیا، ہزاروں بنگالی عورتوں کی عصمت دری کی گئی تھی، مگر آخر کار بنگالی قوم اپنے قومی مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور آج بنگلہ دیش ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے دنیا کے نقشے میں اپنی وجود رکھتا ہے، اعداد و شمار سے زائد قومی تحریکیں ہمیں ایسی ملتی ہیں جو قربانیوں سے بھری پڑی ہیں، ویت نام، الجزائر، کیوبا، انگولا، کوریا، لیبیا، کی تحریک آزادی ایسی بہت سی مثالیں ہیں جو موجودہ دور میں زبان زد عام ہیں جہاں حریت پسندوں نے قربانیاں دے کر اپنے قومی وجود کو منوایا، بلوچ تاریخ بھی دنیا کے دیگر تحریکوں کی طرح اپنے وطن عزیز پر مر مٹنے والے بلوچ سپوتوں سے بھری پڑی ہیں، بلوچ سپوتوں نے ہر دور میں قوم کے دشمنوں کے خلاف مردانہ وار مزاحمت کا راستہ اختیار کیا ہے اور اپنے وطن کو بیرونی حملہ آوروں کیلئے تنگ و تاریک بنا دیا ہے، بلوچ قوم نے ہروقت بیرونی طاقتوں کے خلاف جنگ لڑ کر اپنے قومی وجود و تشخص کو دنیا میں منوایا ہیں۔ بلوچ تاریخ میں ذکر چاہے حمل جیئند کا ہو، یا نواب خیر بخش مری( اول) کا، یا بلوچ سپہ سالار داد شاہ کا، تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ حمل جیئند نے پرتگیزیوں سے بلوچ ساحل سمندر کا بھرپور دفاع کیا اور خون کے آخری خطرے تک دشمن فوج کو ساحل سمندر پر قبضہ جمانے نہیں دیا، پرتگیزی دشمن آج تک حمل کا نام سن کر انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں، اسی طرح بلوچ سپہ سالار داد شاہ بلوچ نے ایرانی سامراج کو جنگی فن مہارت اور بہادری سے نیست و نابود کر دیا،قابض گجر فورسز نت نئی حربوں سے دادشاہ کو زیر کرنے کی تاک میں رہا مگر دادشاہ اور اس کے ساتھیوں کی جنگ نے ایرانی گجر کو سخت مشکلات میں ڈال دیا، آخر کار دادشاہ کی صف میں شامل کسی غدار وطن نے دادشاہ کی مخبری کرکے اسے شہید کروایا، بلوچ تاریخ حمل، خیربخش، دادشاہ، بلوچ خان، ولی محمد، نوری نصیر خان، میرسفر خان، بابو نوروز، بالاچ مری اور چیئرمین غلام محمد جیسے ہزاروں سورماؤں( جن کی تفصیل بہت لمبی ہے )سے بھری پڑی ہے جنہوں نے آزاد وطن کی مٹی کی خاطر شمع آزادی کو اپنی قیمتی لہو سے روشن کیا، یہ سلسلہ تاحال جاری ہے، 13 نومبر بلوچ تاریخ میں ایک تاریخی اہمیت کی حامل دن کی حیثیت رکھتی ہے، اِسی دن کو بلوچ عوام اپنے سرزمین پر قربان ہونے والے سرفروشان وطن کے یاد کے بطور مناتے ہیں، چونکہ آزادی کے کاروان میں بیش بہا فرزندانِ وطن شہادت کی جام نوش کر گئے ہیں دوران جنگ ہر شہید فرزندان وطن کی یوم شہادت منانا ممکن نہیں اسی لیے بلوچ آزادی پسند پارٹیوں نے اسی دن یعنی تیرہ نومبر کو یوم شہدائے بلوچستان کے نام پر منسوب کیا کیونکہ اسی دن یعنی 13 نومبر 1839 کو برطانوی سامراج کے خلاف قلات اسٹیٹ کے سربراہ میر محراب خان نے اپنے ساتھیوں میر عبدالکریم خان رئیسانی، میر ولی محمد خان شاہی زہی مینگل، میر داد کریم شاہوانی، فضل لہڑی، نبی بخش جتوئی، قیصر خان، شاہ دوست بزنجو، محمد رضا وزیر خیل، نور محمد، تاج محمد، شاغاسی خیل اور سینکڑوں دیگر بہادر بلوچوں نے شہادت کا عظیم الشان رتبہ اپنے نام کیا، جدید ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں سے لیس برطانوی سامراج کے خلاف تاریخی مزاحمت کی جس کی ذکر خود یورپی مورخین مختلف موقعوں پر کر چکے ہیں۔ 13 نومبر کو خان محراب خان اور ان کے فکری ساتھیوں نے سرزمین بلوچستان کے دفاع میں اپنے قیمتی اور انمول جانوں کا نذرانہ پیش کر کے بلوچ تاریخ مزاحمت میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا اور بلوچ قومی نجات کی تحریک میں ایک نئی جان پھونک دی، قابضین کو کھلم کھلا پیغام دیا کہ کسی بھی صورت اپنے سرزمین کو اغیار کے ہاتھوں نہیں جانے دیا جائے گا، اسی مزاحمت کی تسلسل تاحال پنجابی پاکستانی قبضہ گیر کے خلاف بھی جاری ہے جہاں معصوم بچوں سے لیکر بلوچ بچوں اور بوڑھوں الغرض یہ کہ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے بلوچوں نے اپنی قیمتی جانوں کی قربانی دی ہے اور یہی قربانیاں رہنما کی حیثیت سے بلوچ آزادی پسندوں کے قدم بہ قدم ساتھ ہیں۔ عظیم شہداء نے ہر دور میں اپنی قیمتی لہو کی قربانی دے کر تحریک آزادی کو جلا بخشی ہے اور انہی شہیدوں کے فکری وارث قومی سوچ کو لیکر جانب منزل گامزن ہیں شہداء نے جس مقصد کیلئے اپنی جانیں نچاور کی ہیں اُس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے اتحاد اور ہمکاری اولین شرط ہے کیونکہ بکھری ہوئی طاقت سے کسی بھی مقصد کو حاصل نہیں کی جا سکتی۔ گروہی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر ہی بلوچ شہداء کے عظیم مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے شہدائے بلوچستان کے آزاد بلوچستان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے ہمیں اپنے وقتی اختلافات کو ٹھنڈے دماغ سے مل بیٹھ کر حل کرنا چاہیے کیونکہ اسی میں ایک روشن اور آزاد بلوچستان کا خواب ممکن ہو سکتا ہے۔ حرف آخر میں سر فخر سے بلند کر کے شہدائے بلوچستان کو ان کی لازوال قربانیوں پر دل کی گہرائیوں سے سرخ سلام پیش کرتے ہے۔ آجو بات بلوچستان