تحریر: ساوڑ بلوچ
ہمگام کالم:
سن دو ہزار گیارہ کو آزادی پسند بلوچ تنظیموں کے متفقہ فیصلے سے 13 نومبر کو یوم شہدائے بلوچستان کے نام سے نامزد کیا گیا، اور ہر سال کے 13 نومبر کو تمام آزادی پسند قوتوں کی جانب سے اس دن کی مناسبت سے مقبوضہ بلوچستان سمیت باقی ملکوں میں ریفرنسسز کا انعقاد کر کے شہدائے بلوچستان کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے.
پہلے کی طرح اس سال کے 13 نومبر کو بی این ایم، ایف بی ایم اور بی ایس او (آزاد) نے اخباری بیانات جاری کرتے ہوئے اپنے ارکان کو تاکید کی ہے کہ وہ اس روز(13 نومبر) کی مناسبت سے بلوچستان سمیت باقی دنیا میں ریفرنسسز اور آگاہی پروگراموں کا انعقاد کرکے بلوچستان پر قربان ہونے والے سپوتوں کو خراج تحسین پیش کریں اور یہ عہد کریں کہ بلوچ شہداء کے مشن (بلوچستان کی مکمل آزادی) کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر شہداء کے ادھورے خوابوں کی تکمیل کریں گے.
مقبوضہ بلوچستان میں پانچویں بلوچ انسرجنسی کے دوران ہزاروں کی تعداد میں بلوچ اسٹوڈنٹ، پروفیسرز، ڈاکٹر، ایڈووکیٹ حتیٰ کہ تمام مکاتب فکر کے بلوچ قابضین کے کھلی درندگی کا نشانہ بنے. جن میں شہید نواب اکبر خان بگٹی، شہید غلام محمد بلوچ، شہید شیر محمد بلوچ، شہید شفیع بلوچ، شہید کمبر چاکر، شہید لالامنیر، شہید صباء دشتیاری، شہید رزاق بلوچ، شہید رمضان مینگل، شہید امیر الملک، شہید امداد بلوچ، شہید رضا جہانگیر، شہید آصف بلوچ، شہید نقیب بلوچ، شہید نعیم بلوچ، شہید کچکول بہار، شہید نور احمد، شہید علی نواز گوہر، شہید سردو، شہید سفر خان، شہید نمروز، شہید زاہد ابراہیم، شہید سعود بلوچ، شہید ساجد بلوچ، شہید احمد داد، شہید ماسٹر رحمان عارف، شہید محبوب واڈیلا، شہید حنیف بلوچ، شہید بالاچ خان مری، شہید ایڈووکیٹ علی شیر کُرد اور دیگر ہزاروں شہداء بلوچ تحریک آزادی میں ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہے تھے جنہیں پاکستانی فورسز اور خفیہ ایجنسیوں نے راستے کا رکاوٹ جان کر انہیں شہید کر دیا.
ایک وقت تک پاکستان “مارو اور پھینکو” کے حکمت عملی پر عمل پیرا تھا تاکہ بلوچ علاقوں میں خوف و ہراس پھیلا کر نوجوان نسل کو تحریک آزادی سے دور کریں باقی پالیسیز کی طرح “مارو اور پھینکو” والا پالیسی بھی بُری طرح ناکام ہوا اور نوجوان جوق در جوق تحریک آزادی میں شامل ہوتے گئے یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے.
قومی مقصد آزادی کو حاصل کرنے کی راہ میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ فرزند شہید کیے گئے بلوچ تحریک آزادی کو نیست و نابود کرنے کیلئے بلوچ فرزندوں کو مختلف علاقوں سے جبری طور پر اغوا کرکے انکی لاشیں پھینکی گئیں. جبری طور اغوا کرنے کا سلسلہ گزشتہ چالیس سالوں سے جاری ہے جہاں سردار عطاء اللہ مینگل کے صاحبزادے اسد مینگل کو اُن کے ساتھی کے ساتھ اغوا کر کے منظر عام سے غائب کر دیا گیا وہی سلسلہ تاحال مقبوضہ بلوچستان میں جاری ہے جہاں ہر روز کی بنیاد پر بلوچ فرزندوں کو اغوا کر کے ٹارچر سیلوں میں غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ خوف کا ماحول پیدا کر کے بلوچ قوم کو تحریک آزادی سے کنارہ کش کر کے اپنے گھناؤنے عزائم کو تقویت دیا جا سکے.
جبری طور پر اغوا بلوچوں کیلئے قائم کی گئی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق گزشتہ بیس سالوں کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں سے چالیس ہزار سے زائد بلوچوں کو اغوا اور دو ہزار سے زائد بلوچوں کی گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان سمیت سندھ اور پنجاب سے برآمد ہو چکی ہیں جنہیں پاکستانی فورسز اور خفیہ ایجنسیاں مختلف فوجی کارروائیوں ، دوران سفر اغوا کر چکی ہے. ایک بڑی تعداد ان بلوچ فرزندوں کی بھی ہے جن کی لاشوں کو بُری طرح مسخ کرکے ناقابل شناخت بنایا گیا ہے اور ایدھی والوں کے ذریعے لاوارث قرار دے کر دفنا دیے گئے ہیں جس کی حالیہ مثال دشت کوئٹہ سے برآمد ہونے والی بارہ لاشیں تھیں جو انتہائی مسخ ہونے کی وجہ سے لاوارث دفنائے گئے تھے.اسی طرح قریباً چھ سال پہلے بلوچستان کے شورش زدہ علاقے خضدار توتک سے ایک سو ساٹھ کے قریب بلوچوں کی اجتماعی قبریں برآمد ہوئی تھیں جنہیں قتل کرکے تین قبروں میں دفنایا گیا تھا. بلوچستان میں میڈیا بلیک آؤٹ ہونے کی وجہ سے ایسے حادثے اکثر بیشتر رپورٹ نہیں ہوتے اور پاکستانی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ریاستی بیانیہ کو ترویج دینے میں لگی ہوئی ہے، بلوچستان میں ہونے والے واقعات کی اطلاع مقامی بلوچ میڈیا میں وقتاً فوقتاً آتی رہی ہے مگر دوسرے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بلوچ فرزندوں کی شہادت اور جبری گمشدگیوں کو روز اول سے نظر انداز کرتی رہی ہے جس کی وجہ سے بلوچ عوام کی امیدیں قابضین کے میڈیا سے بھی اٹھ چکی ہیں.
جس طرح بلوچ رہنما شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ نے کراچی میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ “ہم پر یہ جنگ مسلط نہیں کیا گیا بلکہ ہم نے قابضین کے خلاف اس جنگ کی شروعات کی ہے” اور جنگیں شہادتوں کے بغیر اپنے منتقلی انجام تک نہیں پہنچتے ہیں. تو یقیناً بلوچ فرزندوں نے شہادت کا شعوری طور پر انتخاب کیا ہے تاکہ اپنے آنے والی نسل کیلئے مثال قائم کر سکیں. جس عظیم مقصد کیلئے ہزاروں بلوچ فرزندوں نے اپنے قیمتی سروں کی قربانی دی ہے اس مقصد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے بلوچ نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو تحریک آزادی کی آبیاری کیلئے استعمال کرنا چاہیئے.
جس مشن کی تکمیل کیلئے بلوچ قوم کے پڑھے لکھے، مزدور، شپانک(چرواہا) غرض کہ تمام طبقات سے تعلق رکھنے والوں نے اپنی سروں کی پرواہ کیے بغیر قربانی دی ہے اس مقصد کو منزل مقصود تک پہنچانے کی ذمہ داری بلوچ نوجوانوں کی ہے جنہیں وقتی مفادات اور گروہی مفادات کو پس پشت ڈال کر اپنے شہدائے آزادی کے ارمانوں کی تکمیل کیلئے دن رات ایک کرنا چاہیئے.
غلام اقوام کے اثاثے ان کے شہداء ہوتے ہیں جن کی عظیم قربانیوں کی بدولت آزادی کی لگن نوجوانوں کے دلوں میں زندہ رہتی ہے، تاریخ راہوں میں بچھڑنے والے اپنے آنے والے نسل کیلئے رول ماڈل کا کردار ادا کرتے ہیں ان کی بے لوث خدمات نوجوانوں کے جذبات کو جوان رکھتے ہیں.
13 نومبر ہمیں تمام آزادی پسند بلوچوں کو ایک وحدت اور شہدائے بلوچستان کا وارث ہونے کا احساس دلاتی ہے. اسی دن(13 نومبر 1839)بلوچ خان نواب محراب خان اور ان کے نڈر ساتھیوں نے قومی آزادی کی قیمت پر اپنے سروں کی قربانی دے کر بلوچ تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر ہو گئے اور بلوچ فرزندوں کیلئے قربانی کی ایک تاریخ رقم کر گئے.
بقول کسی دانشور کے کہ “تمام جنگیں فتحیاب ہونے کیلئے لڑی نہیں جاتی” اسی قول کے مصداق نواب محراب خان اور ان کے ساتھی قلات کی دفاع میں شہید تو ہو گئے مگر برطانوی سامراج اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل میں کامیاب ہو گیا مگر جس بہادری کا مظاہرہ کرکے غلامی کے خلاف نواب محراب خان اور ساتھیوں نے مزاحمت کیا بلوچ تاریخ میں ان کی بہادری کو شروع دن سے خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے کیونکہ ان شہداء کے بعد بلوچ ماؤں نے ہزاروں کی تعداد میں محراب خان جنے.. اگر محراب خان اور ان کے ساتھی برطانیہ کے سامنے سر تسلیم خم ہوتے اور اپنی آزادی کو بیج دیتے تو یہ ممکن نا ہوتا کہ قربانیوں کا یہ تسلسل برقرار رہتا.
13 نومبر آنے میں کچھ ہی دن باقی ہیں دنیا کی باقی اقوام کی طرح بلوچ قوم بھی اسی دن کی مناسبت سے اپنے عظیم شہداء آزادی سے دلی عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے شہداء سے یہ عہد کریں کہ ان کے چنے ہوئے راستے کو اختیار کرکے بلوچ عوام کو ایک آزاد، پرامن اور خوشحال بلوچستان دیں گے.