13 نومبر یوم شہداء بلوچستان
تحریر: جاڈین بلوچ
ہمگام کالم
محکوم اقوام دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں آزادی کیلئے جدوجہد میں وطن کے سپوتوں نے آزادی کی شاہراہ کو اپنے سرخ لہو سے روشن کیا. تاریخ کی کتابیں وطن کی عظمت کیلئے اپنے قیمتی سروں کی قربانی دینے والوں سے بھری پڑی ہیں اور انہیں اپنے قوم اور قومی تاریخ میں ایک جداگانہ حیثیت حاصل ہے،اور انہی وطن دوستوں نے قربانی کے تاریخی واقعات سے تاریخ کے ابواب کو جلا بخشی ہے جس سے کوئی بھی ذی شعور انسان انکاری نہیں ہو سکتا.
آپ کیوبا کی جنگ آزادی کی یا ویتنام، بنگلہ دیش، مشرقی تیمور، انگولا، شمالی کوریا اور الجزائر کی جنگ آزادی کی تاریخیں اٹھا کر دیکھ لیں وہاں آپکو ہزاروں کی تعداد میں ڈاکٹر چی گویرا، یاسر عرفات، کامریڈ کم ال سنگ اور ہو چی من ملیں گے جنہوں نے وطن کی عظمت کیلئے اپنی قیمتی جانوں کا نظرانہ پیش کر کے نوجوانوں کیلئے قومی آزادی کا راستہ ہموار کیا.
کسی بھی قومی جدوجہد میں جذبہ قربانی اور حریت پسندی کلیدی حیثیت رکھتا ہے جس سے آزادی کی پر کھٹن جدوجہد اپنے منزل مقصود کو حاصل کرنے میں نوجوانوں میں جوش قربانی کا جذبہ پیدا کرتا ہے. بغیر عظیم قربانیوں کے حاصل کی گئی ریاستیں دنیا کے نقشے پر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے.
موجود تاریخ میں جن اقوام نے قربانی سے پرہیز برتا وہ اقوام آج دنیا کے نقشے سے غائب ہیں اور جن اقوام نے قربانی کے تسلسل کو جاری رکھا وہ اقوام تاریخ میں سرخرو ہیں اور انہی اقوام کے نقش قدم پر چل کر قومیں اپنے قومی ہدف کو قریب تر کر رہے ہیں.
دنیا کی باقی تحریکوں کی طرح بلوچ بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنے مادر وطن بلوچستان کی آزادی کیلئے دشمن ریاستوں پاکستان اور ایران سے نبرد آزما ہیں جن کے ہاتھ بلوچ قومی وحدت کو توڑنے میں ملوث ہیں بلوچ قوم گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستانی اور ایرانی ننگی جارحیت سے بری طرح متاثر ہیں جہاں پاکستانی اور ایرانی فورسز ہزاروں کی تعداد میں بلوچ دانشوروں، طالب علموں، ڈاکٹروں، پروفیسروں کو اپنے قید و ذنداں میں رکھا ہوا ہے تو دوسری جانب ہزاروں کی تعداد میں بلوچ فرزند پاکستانی اور ایرانی ریاستوں کے ہاتھوں شہید کیے جا چکے ہیں. مگر تحریک آزادی اپنا تسلسل قائم رکھتے ہوئے جاری ہے.
ہر روز کی بنیاد پر مقبوضہ بلوچستان کے مختلف شہروں میں بلوچ نوجوانوں کو شہید کیا جا رہا ہے
بلوچستان کیلئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے بلوچ فرزندوں کے لہو نے تحریک آزادی میں ایک نہ ختم ہونے والا ابھار پیدا کر دیا ہے جو بغیر قربانی کے ناممکنات میں شمار ہوتا تھا جو بلوچ فرزند دوران قومی دفاع دشمن کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں ان کے ہتھیار اب دوسرے بلوچ نوجوانوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے ہیں جو مقبوضہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قابضین پر بجلی کی طرح گرج رہے ہیں. جس کی وجہ سے قابضین پاکستان اور ایران نے بلوچ نسل کشی میں شدت پیدا کر دی ہے ایک طرف سیاسی لوگوں کو راستے سے ہٹایا جا رہا ہے تو دوسری جانب معاشی، سیاسی، ثقافتی حوالے سے بلوچ کو مٹانے کی کوشش اپنے زوروں سے جاری ہے.
بلوچ عوام نے بھی دنیا کے دیگر مقبوضہ اقوام کی طرح ہزاروں ڈاکٹر چی گویرا، کامریڈ کم ال سنگ، یاسر عرفات، عمر مختار آزادی کی شاہراہ پر قربان کیے ہیں جو شہید نواب اکبر خان، شہید چیئرمین غلام محمد، بالاچ جان، کمبر چاکر، پروفیسر صباء دشتیاری، ایڈووکیٹ علی شیر کرد، شیر محمد، ثناء سنگت، جلیل جان، گل بہار، ڈاکٹر خالد، دلجان، سعادت مری، لالا منیر، عابد شاہ، ماسٹر سفیر کی شکل میں بلوچ تاریخ میں موجود ہیں جن کی عظیم قربانیوں نے نوجوانوں کے قومی عزم کو پختہ کرنے میں ایندھن کا سا کردار ادا کیا ہے .
زندہ قومیں اپنے قومی ہیروز کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ایک مخصوص دن اپنے عظیم شہداء کے نام کرتے ہیں اور اس دن ان شہداء کے ساتھ عہد وفا کرتے ہیں کہ جس عظیم مقصد کیلئے ان کے قومی شہداء نے اپنی قیمتی جانوں کی قربانی دی ہے اس مقصد کو کامرانی تک پہنچا کر اپنے شہداء کے ادھورے ارمانوں کی تکمیل کریں گے.
جس طرح دنیا کے باقی آزاد ممالک میں اپنے قومی شہداء کیلئے ایک دن مختص کیا گیا ہے اسی طرح 2011 کو بلوچ آزادی پسندوں نے بھی بلوچ شہداء کیلئے 13 نومبر مختص کیا.
13 نومبر بلوچ تاریخ میں ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اسی دن یعنی 13 نومبر 1839 کو بلوچ ریاست پر برطانوی سامراج نے شب خون مار کر بلوچ ریاست کو اپنے زیرِ دست لایا تھا اور اسی دن خان میر محراب خان اپنے ساتھیوں سمیت برطانوی سامراج کے ساتھ دو بدو لڑائی میں شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہو گئے تھے اسی دن کی مناسبت سے 13 نومبر شہدائے بلوچستان ڈے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور دنیا کے کسی کونے پر بودوباش رکھنے والے بلوچ اسی دن بلوچ شہداء آزادی کو یاد کر کے انہیں اپنی عظیم قربانیوں پر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں.
بلوچ نوجوانوں اور سیاسی جماعتوں کو چاہیئے کہ گزشتہ 13 نومبر کی طرح اس سال تیرہ نومبر کو بلوچ شہداء آزادی کے دن کی مناسبت سے پروگرامز ترتیب دے کر بلوچ شہداء کے حوالے سے بلوچ اور باقی محکوم اقوام کو ان کے کردار سے واقف کریں اور شہداء کو خراج عقیدت پیش کریں.