پنجشنبه, اکتوبر 17, 2024
Homeآرٹیکلز28مئی بلوچ کا خاموش قتل، تحریر : شے بجار

28مئی بلوچ کا خاموش قتل، تحریر : شے بجار

28مئی بلوچ کا خاموش قتل
تحریر : شے بجار
قابض ریاست پاکستان میں محکوم بلوچ قوم گزشتہ ستر سالوں سے ریاستی بربریت کا شکار رہا ہے۔ مگر 28 مئی بلوچ تاریخ میں ایک سیاہ دن کے بطور یاد کیا جاتا ہے اس دن یعنی 28 مئی 1998 کو
بلوچ دلبند کوہ راسکوہ چاغی میں سات ایٹمی دھماکوں کے تجربات کرکے بلوچستان میں انسانوں حیوانوں چرند و پرند کا خاموش قتل ایک نئے سرے سے شروع کیا گیا تھا۔ ن لیگی دور اقتدار اور وزیر اعلٰی اختر مینگل کی سر پرستی میں ان زہر آلود ہتھیاروں کا بلوچ سرزمین نشانہ بنایا گیا۔  ایٹمی تجربات ایک ایسے علاقے میں کیے گئے جو قدرتی وسائل اور مختلف نایاب پرندوں و جڑی بوٹیوں اور زراعت کے حوالے سے انتہائی زرخیز علاقہ ہے۔ واحد بلوچ لیڈر سنگت حیربیار تھے جو بلوچ سرزمین پر ایٹمی تجربات کا ہر فورم ہر وقت پر سخت مخالفت کرتے رہے اور بلوچ عوام سمیت عالمی دنیا کو بارہا ایٹمی حساسیت کے بارے میں آگاہ کرتے رہے۔
نوے کے دہائی میں آسٹریلین زرعی ماہرین کی جانب سے ایک ریسرچ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں کثیر تعداد میں زرعی اجناس پیدا ہوتے ہیں اور جدید زرعی آلات استعمال میں لاکر دنیا کے نصف سے زاہد انسانوں کو صرف بلوچستان سے خوراک مہیا کیا جا سکتا ہے۔مگر بلوچ سرزمین پر ایٹمی تجربات کرکے بلوچ کے قیمتی زرخیز زمین کو منٹوں میں تباہ کر دیا گیا۔ نہ صرف زمین بلکہ انسانی زندگیوں کو تباہی کی نہج پر لاکر کھڑا کیا گیا۔
باقی علاقوں کی طرح ایٹمی تجربات سے متاثرہ علاقوں چاغی نوشکی اور خاران کے بلوچ عوام کی بھی زیادہ تر ذریعہ معاش زراعت ہے مگر اٹھانوے کے بعد ان علاقوں میں زراعت کیلئے ذیر استعمال زمینیں بنجر ہو گئی ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کے ذریعے ان علاقوں میں مقیم بلوچ عوام کا معاشی قتل  کا کریڈٹ بھی دشمن ریاست پاکستان کو جاتا ہے جسکی مہربانیوں سے چاغی سمیت نوشکی اور خاران کے لوگ زرعی فوائد سے محروم ہونے کے ساتھ بہت سے موذی امراض کینسر ہیپاٹائٹس بی (جسے مقامی زبان میں سیاہ ذردوئی کہتے ہیں) کوڈھ (مقامی زبان میں چُٹ یا پنسی کہتے ہیں) اور ٹی بی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اور علاقائی لوگوں کے مطابق سالانہ ایک سو دس سے لیکر ایک سو بیس افراد ان موذی مرض کا شکار ہوکر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
دوسری جانب چاغی اور ایٹمی تجربات سے متاثر علاقوں کو ریاستی اداروں کی جانب سے نوگو ایریا ڈیکلیئر کیا جا چکا ہے جہاں ملکی اور بین القوامی میڈیا دسترس حاصل نہیں کر سکتا جسکی وجہ سے ایٹمی نقصانات سے عالمی دنیا کو باخبر نہیں کیا جا سکتا۔ علاقائی لوگوں کو بھی دھمکیوں کے ذریعے چھپ کیا گیا ہے۔ علاقائی ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دو نوجوان چاغی راسکوہ سے پانی لیبارٹری میں ٹیسٹ کرنے کی غرض سے سے کوئٹہ لے جا رئے تھے تو انہیں ریاستی خفیہ اداروں نے راستے سے ہی اٹھا کر غائب کر دیا جو تاحال لاپتہ ہیں اسی طرح باقی مقامی لوگوں کو خوف کے سائے تلے بٹھا کر ایٹمی تباہ کاریوں سے ابھی تک دنیا کو لا علم رکھا گیا ہے۔چاغی نوشکی اور خاران کے ریگستانی اور میدانی علاقوں میں دنیا سے ناپید ہونے والے حشرات پائے جاتے ہیں جنکو طبعی ٹیکنالوجی کے ذریعے کینسر اور کئی مہلک امراض کیلئے دوائیاں تیار کی جاتی ہیں۔ ایٹمی تجربات کے بعد ان سب قدرتی وسائل سے بلوچ قوم کو محروم کر دیا گیا۔
اس وقت راسکوہ کے چاروں اطراف ساٹھ سے پینسٹھ مربع کلومیٹر کا علاقہ براہ راست پاکستانی ایٹمی تابکاریوں سے متاثر ہو چکا ہے۔  ایٹمی تابکاریوں کے اثرات چاروں اطراف سو کلومیٹر تک پھیلتے ہیں۔اور ذمہ دار ممالک انسانی آبادیوں سے کئی سو کلومیٹر دور اپنے ایٹمی تجربات ہوا کے سمت کو متعین کرکے کرتے ہیں مگر پاکستان جیسے غیر ذمہدار ریاست کو کھلی چھوٹ دیکر عالمی دنیا نے اپنے پیروں پر خود کلہاڈی سے حملہ کیا ہے۔ کیونکہ پاکستان جیسے جنگی قوانین سے عاری غیر فطری ریاست کے ہاتھ میں ایٹمی ہتھیار مستقبل میں دنیا کے امن کیلئے ایک سنگین خطرہ بن سکتے ہے۔
یہ بھی پڑھیں

فیچرز