ہمگام کالم : فری بلوچستان موومنٹ رواں سال 31جنوری کو ملکی او بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو تنظیم کی جانب سے بھیجے گئے اپنے ایک اہم بیان میں اعلان کیا ہے کہ وہ یورپ کے اہم ترین ملک جرمنی میں آزاد بلوچستان بابت آگاہی دینے کی غرض سے ایک طویل مہم کا آغاز کرنے جارہے ہیں۔ ایف بی ایم کے بیان کے مطابق اس عالمی مہم کے دوران ان کی تنظیم بلوچ قومی شناخت کو اجاگر کرنے اور پاکستان و ایران کی بلوچ قوم کے خلاف ظلم و بربریت سے دنیا کو آگاہ کیا جائے گا، مہذب دنیا کو بلوچستان کی تاریخی وحدت، جغرافیہ اور تاریخ کو لاحق شدید خطرات سے آگاہ کیا جائے گا، بلوچ قومی شناخت ، بلوچ قومی اقدار، اور بلوچستان کی خطے میں اہمیت کے تناظر میں معلومات دی جائیں گی۔
جرمن عوام جو خود یورپ میں لگ بھگ دو سو سال تک غلامی کی ناسور کا شکار رہے ہیں وہ قابض اور استعماری قوتوں کی چالاکیوں اور ترقی کی آڑ میں قوموں کو غلام بنائے رکھنے جیسے کالونیل پاورز کے حربوں سے کافی واقفیت رکھتے ہیں۔ فری بلوچستان موومنٹ کی قیادت نے جرمنی میں تین سے چار ماہ طویل اس بین الاقوامی مہم کو شروع کرکے اس روایتی مظاہروں اور ریلیوں سے آگے سوچا ہے۔ ہم اس حقیقیت سے آنکھیں چرا نہیں سکتے کہ مقبوضہ بلوچستان میں قابض نے عوامی اجتماعات، مظاہروں اور ریلیوں کو شجر ممنوعہ بنا دیا ہے یہاں بیٹھ کر بلوچ آزادی پسند پارٹیاں مظاہرہ نہیں کرسکتے، اگر کوئی پارٹی مظاہرے کا اہتمام کر بھی لے تو اگلے دن ریاستی قابض افواج اور ان کے خفیہ ادارے کارکنوں کو چن چن کر اغوا کرکے ان کو سالوں سال اذیت گاہوں میں تشدد کا نشانہ بنا کر زیر عتاب لاکر آخر میں ان کی مسخ شدہ لاش کو دوسروں کو خوفزدہ کرنے کیلئے کسی سڑک کنارے پھینک دیتے ہیں۔
بلوچستان میں مظاہرے نہ کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ بلوچ قوم ، بلوچ عوام تحریک سے بدظن اور قومی آزادی سے مکمل لاتعلق یا بیگانہ ہوگئے ہیں ۔ بلوچستان میں ریاستی افواج نے ظلم و جبر اور دہشت گردی کی جو بازار گرم کی ہوئی ہے اس سے ہر گھر متاثر ہے، بلوچ اپنے نوجوانوں کی قابض ریاست کے ہاتھوں شہادت کبھی بھول نہیں سکتے، دشمن ہر حربہ استعمال کررہی ہے تاکہ بلوچ عوام کوتحریک آزادی سے بدظن کرکے گمراہ کیا جاسکے، لیکن ان کی اس طرح کے ناپاک عزائم کی عمر زیادہ لمبی نہیں ہوسکتی ۔ آج بلوچ عوام سہمے ہوئے ہیں، دشمن کی دو دہائی تلوار ان کے سروں پر لٹک رہی ہے، بلوچ عوام اس وقت چلتی پھرتی قبرستان میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ غیر اعلانیہ کرفیوکا سا سماں ہے اس صورت میں آزادی پسند جماعتوں کی سرگرمیاں جاری رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ بلوچ حریت پسند جماعتوں کے ارکان بیرون ممالک میں مقیم ہیں وہاں وہ آزادی کی پرچار سے عالمی دنیا کو بلوچستان کے دگرگوں حالات سے آگاہی دے رہے ہیں۔ ہر پارٹی اپنی اپنی بساط کے مطابق کام کررہی ہے، اور ہمیں سب کی کاوشوں، جدوجہد کو سراہنا چاہیے کیونکہ ہم سب کا مقصد قومی آزادی اور پاکستان کی غلامی سے نجات ہے۔ جس شدت ، یکجہتی ، موثرپن سے جدوجہد کو بیرون ممالک جاری رکھنے کی ضرورت ہے وہ کئی وجوہات کی بنا پر نہیں ہوپارہا ہے۔ اٹھارا سال زیست و موت کی کشمکش سے گزرنے والے اس قوم کے باشندے آج بھی الگ الگ اور منتشر ہوکر خود سے کئی گناہ بڑے اور چالاک دشمن سے مقابلہ کررہے ہیں۔
بلوچ رہبر حیربیار مری کی قیادت میں فری بلوچستان موومنٹ باقی آزادی پسند پارٹیوں کی طرح یورپ، امریکہ، اور برطانیہ میں سرگرم ہیں ، باقی پارٹیوں کی بہ نسبت ایف بی ایم متحدہ بلوچستان بابت ایک واضح اور شفاف موقف رکھتی ہے۔ اکتیس جنوری کو شروع کی جانے والی اس عالمی مہم کے دوران ایف بی ایم نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ وہ جرمنی کے تمام شہروں میں آگاہی مہم کیمپ لگائیں گے۔ وہاں کے باشندوں، اور دوسرے ممالک کے شہری جو جرمنی میں مقیم ہیں ان سے رضاکارانہ طور پر دستخط لئے جارہے ہیں ، روزانہ کی بنیاد پر جرمنی کے مختلف ممالک میں جاری مہم میں لوگوں کی بڑی تعداد شرکت کررہی ہے ان میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ اس دستخطی آگاہی مہم میں جرمن عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی مدد بہت اہمیت کی حامل ہے ۔ ایف بی ایم نے جرمنی کے لوگوں سے بلوچستان متعلق تاثرات جاننا چاہی تو حیرت انگیز طور پر لوگوں میں بلوچستان بابت آگاہی بہت ہی کم تھی، جب انہیں بلوچستان سے متعلق بریف کیا گیا تو بہت سے لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ بلوچستان ایک مقبوضہ خطہ ہے۔ بلوچستان بابت لوگوں کی معلومات میں کمی کی وجہ بتاتے ہوئے ایف بی ایم کے رہنماوں کا کہنا تھا کہ چونکہ پاکستان عالمی سطح پر اپنے سفارتخانوں میں موجود اپنی سفارتی عملہ کے ذریعے حقائق کو توڑ مروڑ کر بلوچستان بابت غلط اور گمراہ کن معلومات پھیلاتی رہی ہے، جس سے لوگوں میں بلوچستان کے بارے میں یا تو ادھوری معلومات ہوتی ہیں یا پھر وہ بلوچستان کو پاکستان سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ایف بی ایم کے اس عالمی مہم کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ عالمی سطح پر بلوچستان کی ہیت، اہمیت، جغرافیہ، تاریخ، زبان ، ثقافت اور رسم و رواج کو غلط رنگ سے پیش کرنے کی پاکستانی و ایرانی کوششوں کو روکنا اور بلوچستان کی اصل ‘قومی سوال’ کو پیش کرنا ہے۔ بلوچستان کو پاکستان اور ایران کا حصہ سمجھنے والے بین القوامی برادری کو تصویر کا اصل رخ پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لوگوں سے بنفس نفیس مل کر ان سے آمنے سامنے بات کرکے، اور لوگوں کے ساتھ میل ملاپ، اور تعلق قائم کرکے ہی ہم بلوچستان کی اصل اور حقیقی رخ پیش کرسکتے ہیں۔ یورپ ،امریکہ اور دیگر ممالک میں بلوچ آزادی پسند دوست گاہے بگاہے آگاہی مہم چلاتے رہے ہیں لیکن وہ ایک دن یا ایک محدود وقت کے لئے ہوتے رہے ہیں ، ایف بی ایم کی اس تاریخی اقدام سے دوسرے آزادی پسندوں کے کام کو بھی آگے بڑھنے میں بھی مدد ملے گی کیونکہ عوام کے ساتھ مسلسل رابطے سے ہم انہیں اچھی طرح سے آگاہی دے سکتے ہیں۔
بلوچ آزادی پسند پارٹیوں کی ذمہ داری ہے وہ پارٹی ، گروہ پسندی سے بڑھ کر اور سیاسی اختلافات کو بالائے تاک رکھ کر بلوچ قومی اجتماعی مفادات اور قومی شناخت، بقاء کی خاطر ایک دوسرے کی ہاتھ بٹھائیں۔ اور کوشش کریں کہ بلوچستان کی تاریخی وحدت اور جغرافیہ پر سمجھوتہ نہ کریں۔ ایف بی ایم کی اس مہم کا عنوان ’’ بلوچستان نہ ایران ہے اور نہ پاکستان ‘‘ ایک جامع پیغام اور بیانیہ رکھتی ہے ۔ ایران اور پاکستان کی گٹھ جوڑ کو سامنے رکھتے ہوئے بلوچ قیادت اور تمام آزادی پسند جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے عوام سے کچھ بھی نہ چھپاتے ہوئے، اپنے پارٹی موقف دنیا اور قوم کے سامنے کھل کر رکھے۔ پاکستان اور ایران وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے لئے درد سر بنتے جارہے ہیں اور دنیا اب ان دونوں سے جان چھڑانے کے لیئے سوچ بچار کررہی ہے اس اثنا میں بلوچ قیادت اور پارٹیوں کے لئے ناگزیر ہے کہ وہ ایران بابت بھی اپنا موقف واضح کرے تاکہ عالمی دنیا کو بلوچستان کے عوام کی امنگوں سے روشناس کرایا جاسکے۔ باہر بیٹھے بلوچ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی بساط کے مطابق مظاہروں اور آگاہی مہم میں اپنی شرکت یقینی بناکر آپس میں شائستہ اور تحمل کے ساتھ بحث و مباحثہ سے اپنے اندرونی مسائل اور اختلافات پر سیر حاصل گفت و شنید کریں ۔ اختلافات رکھنا زندہ قوموں کی علامت ہے لیکن ان اختلافات کوجوں کے توں رہنے دینا،یا خدانخواستہ دشمنی سمجھنا ہماری قومی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ہاتھ میں کالکولیٹر لیکر کسی کو مائنس اور کسی کو پلس کرنے سے ہم قومی آزادی کی منزل کوحاصل نہیں کرسکتے۔بلوچستان ہم سب کی ماں ہے اس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے، بھلا ماں کی حفاظت سے کون غافل ہوسکتا ہے۔ اس ماں کے بیٹوں اور بیٹیوں کو مل کر ماں کی آنچل کی حفاظت کرنی ہے ، یہ تن تنہا ایک پارٹی اور ایک لیڈر نہیں کرسکتا۔