ہمگام :
باور بلوچ: آج کل ایران میں حالات دگرگوں ہیں، لوگ مہنگائی،بیروزگاری، بدامنی اور سماجی ناانصافیوں سے تنگ آکر سڑکوں پرنکل پڑے ہیں، ملک گیر سطح پر مظاہرے ہورہے ہیں، ایران کی مظالم سے تنگ، اپنی قومی حق حاکمیت اور آزادی کے دیرینہ مطالبہ کرنے والے بلوچ، کرد، عرب احوازی اور ترکمن قومیت کے لوگ سرفہرست دکھائی دیتے ہیں، ایران پر بین الاقوامی دباو میں روز افزوں اضافہ ہورہاہے، امریکہ کی جانب سے سخت ترین معاشی، سفارتی پابندیوں کے بعد اسرائیل، یورپ، خلیج کے بعد اب ہندوستان نے بھی ایران سے منہ موڑ لیا ہے، اچھا ہوتا کہ اگر ہم (پاکستان کے زیر تسلط بلوچ) اپنے ایران کے زیر قبضہ بلوچ بھائیوں کی آواز بنیں اور ان کے لئے سوشل میڈیا میں ایک مہم چلالیں؟
سرکش بلوچ: چھوڑو یار ، کتابی باتیں اور زمینی حقائق میں فرق ہوتا ہے، تم لوگ بھی بڑی ، بڑی باتیں کرتے ہو، تم لوگ اپنے ضلع اور تحصیل میں لیویز والوں سے نپٹ لو پھر ایران سے آزادی کی بات کرنا۔
باور بلوچ: بھائی، آپ ضلع یا تحصیل کی حد تک کیوں محدود ہوکر سوچ رہے ہو، تحریک کا مقصد صرف ایک ضلع کو فتح کرنے کا نام نہیں، بلوچ تحریک کی مضبوطی کا پیمانہ ایک ضلع، یا تحصیل پر گرفت مضبوط یا کمزور ہونے کا نہیں ہے۔ آج بلوچستان میں کونسا کونا ہے جس میں ہماری مائیں بہنیں محفوظ ہیں؟ آج حالت یہاں تک پہنچی ہے کہ ہمارے سرکردہ کمانڈر حضرات کی شریک حیات اور سگی بہن بھی دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہورہے ہیں تو اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ ہماری مزاحمتی تحریک صفر ہے کیونکہ ہم اپنے کنبے کے لوگوں کو بھی محفوظ نہیں کرپارہے؟ہرگز نہیں، اس وقت بلوچ ایک گوریلا جنگ لڑ رہے ہیں اور ہمارا مقابلہ ایک ایسے چالاک اور وحشی دشمن سے ہے جو عالمی اصولوں اور جنگی قوانین کی پیروی نہیں کرتا۔
سرکش بلوچ: ہم لوگ پاکستان سے لڑ رہے ہیں، ایک ہی وقت میں ایران سے پنگا لینا پاگل پن ہے، ہماری پارٹی کا موقف ہے کہ پہلے پاکستان سے آزادی حاصل کرلیں پھر ایران کو بھی دیکھ لیں گے۔
باور بلوچ: کیا میں آپ کے اس جواب سے یہ مطلب لوں کہ آپ ایران کو چونا لگانے کا سوچ رہے ہیں کہ آپ گجر کے قبضے والے بلوچستان کی آزادی کی بات نہ کرکے خمینی کو ٹھگائینگے اور تہران کی بلوچ کش پالیسیوں پر چھپ رہ کر ایران کو یہ باور کرا رہے ہو کہ آپ کا ایرانی زیر قبضہ بلوچستان کی آزادی سے کوئی لینا دینا نہیں لہذا تہران سے آپ کے دوستانہ تعلقات کو ذک نہ پہنچے؟
سرکش بلوچ: ہم لوگ ایک حکمت عملی کے تحت ایران سے اس وقت محاذ آرائی نہیں چاہتے، پاکستان میں رہنا مشکل ہے لہذا عارضی طور پر ایران میں پناہ لیکر ہم اپنے پارٹی کے لوگوں کو محفوظ رکھنے کا بندوبست کررہے ہیں۔ اس میں برائی کیا ہے؟
باور بلوچ: پاکستان غیرمحفوظ ہے اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن ایران بلوچوں کے لئے کب سے محفوظ ٹھکانا بن گیا کیا آپ بلوچ قوم کو اپنے اس خفیہ فیصلے سے آگاہ کرنا پسند کریں گے؟
سرکش بلوچ: ضروری نہیں ہم اپنے پارٹی فیصلوں سے بلوچ قوم کو آگاہ کریں ۔
باور بلوچ: آپ بلوچ قوم کی بات کرتے ہیں، بلوچ قومی مفادات کے تحفظ کی بات کرتے ہیں تو پھر بلوچ قوم کے سامنے اپنی پالیسیوں کو کیوں چھپارہے ہو؟
سرکش بلوچ: ہم لوگ ایران میں محفوظ ہیں، ایرانی فورسز ہمیں دیکھ کر بھی ہمیں کچھ نہیں کہتے ، اور ہمیں اپنے رشتے داروں کے ہاں آنے جانے، ملنے پر ایرانی حکومت کو کوئی اعتراض نہیں تو تم لوگوں کوکیا تکلیف ہے؟
باور بلوچ: نہیں مجھے تکلیف تو نہیں ہے لیکن میں ایرانی گجر کی آپ پر مہربان بننے کی وجہ جاننا چاہتا ہوں، وہ کیا عوامل ہیں کہ جس کی وجہ سے ایرانی خفیہ ادارے، اور حکومت آپ لوگوں کو دیکھ کر بھی کچھ نہیں بولتا، جبکہ چار لیٹر تیل کا کاروبار کرنے والے مزدو پیشہ بلوچوں کو مختلف طریقوں سے نشانہ بناکر بے دردی سے شہید کررہا ہیں ۔ ایرانی مقتدرہ ایک نہتے غریب بلوچ سے اتنا نفرت کرتا ہے جبکہ آپ لوگوں کو مسلح دیکھ کر بھی کچھ نہیں کہتا اس کے پیچھے کیا راز ہے؟
سرکش بلوچ: ایرانی حکومت جن بلوچوں کو مار رہا ہے وہ شاید مذہبی لوگ ہیں،اسی لیے ان کو مارا جاتا ہے۔
باور بلوچ: ہم آئے روز تصاویر دیکھتے ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے، بچیاں، خواتین اور بزرگ مارے جارہے ہیں، کیا وہ سب مذہبی ہیں؟ دوسری بات یہ ہے آپ ایرانی بیانیہ کو کیسے درست تسلیم کرکے اپنے ہی بلوچ بھائیوں کو مذہبی دہشتگرد قرار دے کر تہران کی پروپیگنڈے کو دوام بخشنے کا موجب بن رہے ہو؟
سرکش بلوچ: ایران میں آزاد بلوچستان کی کوئی تحریک نہیں ہے، وہاں کوئی بھی آزادی کی بات نہیں کرتا، تم لوگ خوامخواہ اپنا وقت ضائع کررہے ہو !
باور بلوچ: اگر ایران میں ہونے والے مظاہروں کے تصاویر اور ویڈیوز دیکھتے تو وہاں بلوچ آبادی آزاد بلوچستان کے نعرے لگا رہے ہیں اور سوشل میڈیا میں ایرانی مقبوضہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنان کھل کر بلوچستان کی آزادی کی بات کررہے ہیں، آپ اپنے بلوچ بھائیوں کو کیوں نظر انداز کررہے ہو ؟
سرکش بلوچ: ہماری پارٹی ایران سے بلوچستان کی آزادی کی ڈیمانڈ کا حمایت کرکے رسک نہیں لینا چاہتا، وہاں تحریک مضبوط نہیں ہے تو آزادی کے مطالبے کا کیا فائدہ؟
باور بلوچ: ایران کے قبضہ والے بلوچستان میں آزادی کی تحریک اپنا وجود رکھتا ہے، اگر آپ تاریخ سے بلد ہیں تو آپ ایسی بات نہ کرتے۔ مان لیتے ہیں کہ ایران میں آزادی کی تحریک کمزور ہے، سوال یہ ہے پھر کس کی کمزوری ہے؟ ہم ایران کے زیر تسلط رہنے والے بلوچوں میں آزادی کی چاہت جگانے کے لئے اور قوم کے نوجوانوں اور عام عوام میں آزادی کی پرچار کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟ وہاں آزادی کی صدا کمزور ہے لیکن اسے توانا بنانے کے لئے آپ اور میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟
سرکش بلوچ: ایران سے آزادی؟ ھاھاھاھا بکواس و بیکار کی باتیں مت کرو بھائی، تمھارے مزاحمتی دوست سب مایوس ہورہے ہیں، پہلے ان کو سنبھالو، مضبوط کرو، پھر ایران سے آزادی کا سوچو۔
باور بلوچ: ماضی کو چھوڑیئے، موجودہ تحریک جب شروع ہوئی تو کتنے لوگ تھے؟ میں انہیں انگلیوں پہ گن سکتا تھا، اگر وہ بھی آپ کی طرح سوچتے کہ ساری بلوچ قوم مایوس ہوچکی ہے، تیس ہزار بلوچ افغانستان ہجرت کرکے ناکام لوٹے، بلوچستان میں مزاحمت کا نام و نشان بھی نہیں تھی، اس وقت بھی بلوچ اگر یہی سوچ کرخاموش بیٹھ جاتے کہ ہم کمزور ہیں، مزاحمتی تحریک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی لہذا آزادی لینا ناممکن ہے تو کیا ہمارا آج کے دور حاظر میں نام و نشان باقی بچ سکتا تھا؟
الف: نو سال پہلے تو ہمارے لوگ بھی ایران سے بلوچستان کی آزادی کی بات کرتے تھے، اب حالات تبدیل ہوگئے ہیں، اب ایران سے آزادی کی بات کرنا بلوچوں کے مفاد میں نہیں۔
باور بلوچ: ایران سے بلوچستان کی آزادی کا مطالبہ کرنا بلوچ و بلوچستان کے مفاد میں نہیں یا تمھارے پارٹی کے مفاد میں نہیں؟
سرکش بلوچ: بات ایک ہی ہے، ہم بلوچستان کی نمائندگی کررہے ہیں تو ظاہر سی بات ہے ہم بلوچستان کے قومی و اجتماعی مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسیاں بناتے ہیں۔
باور بلوچ: جب آپ بلوچ قومی مفادات کی بات کرتے تو شہید غلام محمد، شہید صبا دشتیاری، بی ایس او کے چیئرمین اسیر زاہد کرد، ذاکر مجید، بابا خیربخش مری، اور دیگر ہزاروں بلوچوں کی اس موقف کے خلاف نہ جاتے جنہوں نے ایران سے بلوچستان کی آزادی کا واضح موقف اپنایا۔ میرے مطابق آپ بلوچ و بلوچستان کی نہیں بلکہ اپنی پارٹی اور ذاتی و گروہی مفادات کے حصول کے لئے سرگرداں ہیں۔
سرکش بلوچ: تم کون ہوتے ہو مجھے ڈکٹیٹ کرنے والے کہ ہم کیا پالیسی اپنائیں، یہ ہمارا اپنا پارٹی فیصلہ ہے تمھیں اگر بھوک سے مرنے کا شوق ہے تو مرو، ہم تو ایران سے جتنا بھی مدد ملے ہم لے لیں گے۔
باور بلوچ: کیا بات کررہے ہو بھائی، آپ اس قبضہ گیر سے مدد لیتے ہیں جن کی فوج اور اداروں کے ہاتھ بلوچ قوم کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ۔
سرکش بلوچ: ایران نے کس کو مارا ہے؟ پہلے جاکر تاریخ پڑھ لو، ایران نے آزادی پسند کسی بھی بلوچ کو نہیں مارا، ایران نے جتنے بھی لوگ مارے ہیں وہ سارے مذہبی لوگ ہیں، تم لوگوں کو ویسے ہی پروپیگنڈے کا شوق چھڑا ہوا ہے۔
باور بلوچ: سرکش بھائی انیس سو تہتر(1973) میں ذولفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں جب بلوچستان پر فوجی جارحیت جاری تھی تو ایران کے شاہ نے پاکستانی فوج کو گن شپ کوبرا ہیلی کاپٹرز او رپائلٹس تک دیے تھے جنہوں نے بلوچستان کے کوہستان مری اور جھالاوان میں بلوچ آزادی پسند مزاحمت کاروں اور نہتے لوگوں پر بمباری کی جس سے ہزاروں بلوچ شہید ، مال مویشاں ہلاک ہوئے، گھر بار لٹ گئے اور ہماری تحریک آزادی کو کو بڑی بے رحمی سے کچل دیا گیا تھا، یہ سب تاریخ کو آپ کیسے اتنی ارزانی سے بھول گئے؟
سرکش بلوچ: سگریٹ کا کش مارتے ہوئے، باور بھائی ہم بھی ایران کی بلوچوں کے خلاف اقدامات کی مخالفت کرتے ہیں، اور ہمارا بھی موقف ہے کہ ایران بلوچ سرزمین پر قابض ہے اس بات میں دورائے نہیں ہے۔ بس ابھی ہم حکمت عملی کے طور پر خاموش ہیں۔
باور بلوچ: نہیں دوست، یہ حکمت عملی نہیں منافقت ہے اور تحریک آزادی کے نام پر بلوچ قوم کے ساتھ بھونڈی مزاق ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ایرانی رجعت پسند ملا رجیم ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں بلوچ والدین کو اپنے بچوں کے نام بلوچ رکھنے پر پابندی عائد کرچکا ہے، ایک طرح سے ایران بلوچ قوم کی شناخت کو مٹھانے کے در پے ہے، وہاں بلوچ شہروں، دیہاتوں کے تاریخی بلوچی ناموں کو تبدیل کیا گیا ہے جبکہ دوسری طرف آپ لوگ وہاں کھلم کھلا مسلح رہتے ہو، ایسا کیسے ممکن ہے کہ ایران کے لئے ایک بلوچ بھائی ناقابل قبول جبکہ دوسرا آپ لوگوں کی شکل میں قابل قبول ہے؟
سرکش بلوچ: ایران بلوچ نوزائدہ بچوں کو بلوچی نام رکھنے کی اجازت نہیں دیتا یہ بھی درست ہے، بلوچ علاقوں کے ناموں کو قصداً تبدیل کیا گیا ہے وہ بھی ٹھیک ہے، لیکن ایران ہمیں مار بھی تو نہیں رہا ہے، تو آپ لوگ ہمیں کیوں ایران کے خلاف اکساتے ہو، باور دوست؟
باور بلوچ: بھائی سرکش، ایران آپ کی شناخت اور قومی تاریخ کو ماررہا ہے، آپ کی سرزمین کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے ، اب بلوچ تاریخی علاقوں کے ناموں کو تبدیل کرکے ہماری علاقائی تاریخی قومی پہچان کو بھی مسخ کررہا ہے تو اس سے زیادہ ظلم و جبر اور مارنا کیا ہوسکتا ہے؟
سرکش بلوچ: دوست، ہم اپنے رشتوں داروں کے ہمراہ پناہ لئے ہوئے ہیں، ہمیں آج تک کسی نے تنگ نہیں کیا، ہماری نقل و حمل پر کوئی پابندی نہیں ہے، آپ چاہتے ہیں کہ ہم ایران کے خلاف آزادی کی بات چھیڑ کر اپنے لئے مصیبت و مشکلات کو دعوت دیں؟
باور بلوچ: آپ وسیع النظر نہیں ہیں، آپ لوگ بلوچ قوم کا نہیں سوچ رہے، آپ لوگ صرف اپنی گروہی پارٹی اور اپنے ایک محدود سرکل کا سوچ رہے ہو ۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آپ جس سرزمین پر رہ رہے ہیں وہ ایران نہیں بلکہ مقبوضہ بلوچستان ہی ہے، دوسری بات آپ کی ملک کو ایران نے قبضہ کیا ہوا ہے اس سے زیادہ عزاب و مصیبت اور کیا ہوسکتا ہے؟ یہی تو اصل سوال ہے جو لوگ پوچھ رہے ہیں کہ آپ کی نقل و حمل پر پابندی نہیں، آپ لوگوں کو کوئی تنگ نہیں کرتا جبکہ ایک عام بلوچ جو صدیوں سے ایرانی قبضے والے بلوچستان میں قیام پزیر ہے ان کی زندگی کیوں اجیرن بنادی جاتی ہے؟
سرکش بلوچ: ہماری پارٹی قائدین نے حکم دیا کہ ہم سب لوگ ایران میں اپنے رشتے داروں کے ہاں منتقل ہوجائیں، جب سے ہم یہاں ہیں ہمیں کوئی خراش تک نہیں آئی، ہم سکون سے رہ رہے ہیں، میرے خیال سے آپ لوگوں کو ہماری پر امن زندگی کھٹک رہی ہے؟
باور بلوچ: جب آپ لوگوں کی پارٹی قائدین نے آپ لوگوں کو ایران منتقل ہونے کو کہا، کیا آپ لوگوں نے ان سے استفسار کی کہ ایک قابض ملک سے نکل کر دوسرے قابض ملک کے ہاں پناہ لینا کونسی قوم دوستی و تحریک دوستی ہے؟ کیا آپ میں سے کسی نے اپنے پارٹی رہنماوں سے دریافت کیا کہ ایران آپ لوگوں کو پناہ دینے کے لئے بدلے میں کیا مانگ چکی ہے، سرکش بھائی؟
سرکش بلوچ: نہیں، ہم نے نہیں پوچھا۔
باور بلوچ: کیوں نہیں پوچھا، پارٹی جب ایران سے بلوچ قومی تحریک بابت ڈیل کرے اور ایران سے بلوچستان کی آزادی بابت دستبردار ہوجائے تو کیا آپ جیسے دیگر کارکنان اس بلوچ دشمن پالیسی پر چھپ رہ کر قومی جرم کا ارتکاب نہیں کررہے؟
سرکش بلوچ: آپ لوگوں کے پارٹی کارکنان بھی تو ایران میں مقیم ہیں، آپ ہمیں کیوں کوستے رہتے ہیں؟
باور بلوچ: بالکل میرے پارٹی کے لوگ بھی ہونگے اس سے انکار نہیں، بنیادی فرق یہ ہے ہمارے لوگ ایرانی مقبوضہ بلوچستان کی آزادی کی بات کررہے ہیں اور ٓآپ لو گ ایران کی مظالم پر خامو ش ہیں۔ مجھے آپ لوگوں کی ایران میں موجودگی پر اعتراض نہیں مجھے آپ لوگوں کا ایران کی بلوچ نسل کشی پر خاموشی پر اعتراض ہے۔
سرکش بلوچ: تمھارے لوگوں کے پاس شاید ایرانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی ہونگے تو، کیا وہ ٹھیک ہے؟ آپ لوگ اگر ایران سے آزادی کی بات کرتے ہو تو پھر ایران کی شناختی کارڈ اور دستاویزات لینا کونسی انقلابی فیصلہ ہے؟
باور بلوچ: معاف کریں بھائی، اس وقت جتنے بھی بلوچ مزاحمتی چھوٹے بڑے کمانڈر حضرات ہیں ان سب کے جیب میں پاکستانی شناختی کارڈ ہے، اور جتنے بھی آزادی پسند بلوچ سیاسی قیادت اور کارکنان ہیں سب کے کوائف میں پاکستانی شہری لکھی ہوئی ہے، سکولوں میں درج طلبہ طالبات سب پاکستانی نظام میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، سب کے جیب میں جناح کی تصویر والی پاکستانی کرنسی نوٹ ہیں۔ بات یہ نہیں کہ آپ کے پاس ایرانی یا پاکستانی شناختی کارڈ ہے یا پاسپورٹ، بات یہ ہے کہ آپ ایرانی و پاکستانی غلامی کے اس نظام کو قبول کررہے ہیں یا اس سے گلو خلاصی کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ آپ کے پاس اگر ایرانی پاسپورٹ یا شناختی کارڈ ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ فلسطینیوں کے پاس سفری دستاویزات ہیں لیکن دنیا کے سامنے وہ کھل کر اپنی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ آپ بھی ایران سے سفری دستاویزات لیں لیکن اس چھوٹی سی سہولت کی آڑ میں اپنی قومی شناخت کو تو گروی نہ رکھیں خدارا۔
سرکش بلوچ: میرے خیال سے آپ لوگ عملی کام کرنے کی بجائے صرف تنقید کے لئے بیٹھے ہو ، پہلے کچھ عملی کام کرکے دکھاو پھر آکر ہم سے بات کریں۔
باور بلوچ: مجھ جیسے نا اہل انسان کو واقعی آپ جیسے قابل اور چابک دست انسان کو کچھ کہنے کا حق نہیں ہے لیکن آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ اپنی قابلیت، اہلیت، محنت، مخلصی کی جھلک ذرا زاہدان، چاہ بہار میں بھی دکھائیں تاکہ بلوچ قوم آپ کی عملی کام سے متاثر ہوکر جددجہد کا حصہ بنے۔
سرکش بلوچ: چاہ بہار، اور زاہدان، کرمان، مشہد اور دیگر علاقوں کے بلوچوں کو جگانا ہماری ذمہ داری تھوڑی ہے۔ وہ جب آزادی کی بات نہیں کرتے تو ہم زبردستی ان کو کیسے اس راہ پر مائل کرسکتے ہیں؟
باور بلوچ: برخوردار، دو ہزار پانچ سے قبل آپ بھی تحریک کا حصہ نہیں تھے، اب آپ اس تحریک آزادی کا ایک بازو ہو، جب آپ اس تحریک کا حصہ بن سکتے ہیں تو ایران کی زیر قبضہ والے بلوچ آبادی کیوں نہیں بن سکتا؟ آپ نے کب سرحد کے آر پار بسنے والے بلوچوں کو جوڑنے کی کوشش کی؟ مغربی بلوچستان کی بلوچوں کا تحریک میں بڑے پیمانے پر جڑ نہ پانے کی سب سے بنیادی وجہ آپ کی عدم دلچسپی ہے، آپ ان کے ساتھ بندوق اٹھاکر ایران سے نہ بھی لڑیں تو بھی ٹھیک گجر کی ایما پر ان کو نقصان نہ پہنچائیں۔
سرکش بلوچ: بیرون ملک چار لوگ ایک بینر پکڑ کر اگر ایران سے بلوچستان کی آزادی کی بات کرے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پوری بلوچ ایران سے آزادی چاہتے ہے، آپ کو گراونڈ پر کوئی بھی بلوچ نہیں ملے گا جس سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوئی آزادی چاہتا ہے۔ جب گراونڈ پر کوئی آزادی نہیں چاہتا تو ہم کیسے کہیں کہ وہاں کے بلوچ آزادی پسند ہیں اور ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے؟
باور بلوچ:: معزرت کے ساتھ بھائی، آپ پاکستان کے آئی ایس پی آر کی طرز پر بات کررہے ہیں، بیرون ممالک میں بینرز اٹھاکر اگر کوئی بلوچ ایران سے بلوچستان کی آزادی کی بات کررہا ہے تو آپ کو ان کے ساتھ کھڑے ہوکر ان کا ہاتھ مضبوط کرنا چاہیے نہ کہ انہیں چار لوگ قرار دے کر دھتکارنا۔ بلوچ کارکنان ہر جگہ محدود تعداد میں موجود ہیں، بات یہ نہیں وہ ایک ہیں یا لاکھ ہیں، آپ تعداد نہ دیکھیں، موقف اور ان کا مقصد دیکھیں۔ پاکستانی میڈیا بھی یہی بات کرتا ہے کہ مٹھی بھر لوگ ہیں، چند ایک سردار ہیں، بھٹکے ہوئے کچھ لوگ ہیں، بیرونی ایجنٹ ہیں، امن و امان میں خلل ڈالنے والے لوگ ہیں۔ اگر آپ بھی ایران سے آزادی کا مطالبہ کرنے والے بلوچوں کو مٹھی بھر کہنا شرو ع کردیں، تو یہ بڑی نا انصافی ہے۔ رہی بات گراونڈ کی کہ وہاں آزادی کے لئے کوئی بلوچ نہیں لڑرہا تو یہ بھی میری اور آپ کی کمزوری ہے۔ آپ نے کب ان بلوچوں کے اندر رہ کر قومی آزادی کی پرچار کی؟ آپ نے کب ان بلوچوں پر برستی ایرانی گولیوں کا جواب دینے کی بات کی، آپ نے کب گجر کے ہاتھوں شہید کسی بلوچ ماں، بہن، بیٹی کے خون کا بدلہ لینے کی بات کی؟ آپ جیسے لوگوں نے مغربی و مشرقی بلوچستان کا نعرہ لگاکر اپنے ہی بلوچ قومی طاقت کو منقسم کردیا ہے۔
سرکش بلوچ: نہیں ایسا کچھ نہیں ہے، ایران کے قبضے والے بلوچستان کے بلوچ ہمارے بھائی ہیں، ہم ان کے ساتھ ہیں۔
باور بلوچ: آپ انہیں اپنے بھائی کہتے ہیں، یہ لفاظی باتوں سے آپ بلوچ قوم کو مزید بے وقوف نہیں بنا سکتے، تیرہ نومبر جو بلوچ شہدا کا قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، اس دن آپ نے ایرانی حکومت اور فوج کی بلو چ نسل کشی پر ایک بھی لفظ نہیں کہا، ایران پر اتنی مہربانیاں کیوں؟
سرکش بلوچ: ایران نے کسی آزادی پسند بلوچ کو شہید نہیں کیا تو ہم ان کی مزمت کیوں کریں؟
باور بلوچ: شہید دوسست محمد بلوچ، اور دیگر ہزاروں بلوچ ایرانی قابض قوتوں کے ہاتھوں شہید کئے گئے، کچھ عرصہ قبل کچھ بلوچ جہد کار جن کا تعلق آزادی پسند تنظیموں سے تھے ایرانی بارڈر فورسز کے ہاتھوں شہید کئے گئے، لیکن آپ ایران کی اس بلوچ قتل و غارت گری پر بھی خاموش ہیں۔ شہیدوں کا خون اتنی آسانی سے فراموش کیوں کیا جارہا ہے؟
سرکش بلوچ: ہم اپنے بلوچ بھائیوں کو نہیں بھولتے، کب ایران کے زیر تسلط رہنے والے بلوچ اٹھے، آزادی کی بات کی اور ہم نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔
باور بلوچ: بھائی صاحب، حالیہ مظاہروں میں بھی سوران اور دیگر بلوچ آبادی والے بلوچ سڑکوں پر نکلے، اور ہم نے انہیں آزاد بلوچستان کے نعرے لگاتے دیکھا ہے، اس سے قبل بھی بلوچ کارکنان مشہد اور دیگر علاقوں میں مظاہروں کی صورت میں آزاد بلوچستان کا پرچم اٹھاتے نظر آئے اور ایرانی قبضہ سے آزادی کی بات کی۔ آپ لوگ ایران کے خلاف اٹھنے والے ان بلوچ بھائیوں کا ساتھ کیوں نہیں دیتے؟
سرکش بلوچ: ہماری پارٹی قیادت ہمیں ایرانی قبضہ والے بلوچوں کی مظاہروں میں شرکت کرنے کا حکم دے تب ہم ان کا ساتھ دیں گے، اب تک ہماری قیادت نے ایران سے متعلق خاموش رہنے کا کہا ہے۔
باور بلوچ: آپ کا بحیثیت ایک سیاسی کارکن کیا ذمہ داری بنتی ہے، اگر پارٹی اپنی ذاتی، گروہی مفادات کی خاطر ایران سے ڈیل کرکے بلوچ قومی طاقت کو یکجا کرنے، سرحد کے آر پار بلوچ قوم کو جوڑنے میں دلچسپی نہ لے تو کیا آپ ان کی اس منفی پالیسی کو ٹھیک سمجھتے ہیں؟
سرکش بلوچ: نہیں ایسا تو ٹھیک نہیں، بلوچ جہاں کہیں بھی ہو، سب کی قومی مفاد اور مستقبل ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے، اور میں ذاتی طور پر اپنی پارٹی کی ایران نواز پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتا۔ ایران ہو یا پاکستان یہ دونوں قابض ریاستیں ہماری گلزمین پر بزور طاقت و مکاری کے بیٹھے ہوئے ہیں اور دونوں کی پالیسیاں ہمیں غلام رکھنا ہے۔ اب میں اگر پارٹی قیادت سے ان کی ناقص پالیسیوں پر سوال کروں تو مجھے خوف ہے کہ میں کسی گمنام مشن کی آڑ میں مارا جاوں گا۔
باور بلوچ: اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ قومی مفادات پر سمجھوتہ کرنے والوں سے خوفزدہ ہوکر اس قومی جرم میں ان کا ساتھ دے رہے ہو، دوسرے لفظوں میں آپ بھی بلوچ شہدا کے خون سے روگردانی کررہے ہو؟
سرکش بلوچ: باور بھائی آپ کو معلوم ہے، ہماری پارٹی قیادت نے بہت بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں، اپنے بھائی اس راہ پر قربان کئے، اپنے بیٹے، کنبے کے قریبی رفقا اس راہ پر قربان کئے۔
باور بلوچ: دیکھیں، سرکش دوست، تہتر سالہ اس آزادی کی جنگ میں کس نے قربانیاں نہیں دی ہیں؟ ہر گھر سے تین تین چار چار لاشیں اٹھ چکی ہیں، اس وقت قربانیاں گننے کا وقت نہیں ہے، ہمارے کئی نسلیں اس جنگ آزادی کی پاداش میں تعلیم سے محروم ہوگئے، جن جہد کاروں نے اس جنگ میں بچپن کی زندگی میں پیر رکھا تھا وہ آج بڑھاپے تک پہنچے، ہزاروں جہد کار اپنا نام لکھنا تک نہیں جانتے، وہ چاہتے تو کسی سکول میں داخلہ لیتے اور آج پروفیسر، لیکچرر، سائنسدان، ڈاکٹر، انجینئر بن سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنے آج کو ہمارے کل کے لئے قربان کردیا۔ اس سے زیادہ قربانی کیا ہوسکتی ہے کہ کوئی قوم اپنی کئی نسلوں کو آزادی کی راہ پر لگا کر تعلیم اور جدید سہولیات کو ٹھکرا دے۔ اگر کوئی لیڈر یا ذمہ دار اٹھ کر بلوچ تحریک کو کمزور کرنے کا محرک ایران جیسے قبضہ گیر ریاست سے ساز باز کرکے اور پوچھنے پر اپنی قربانیاں گنوانے بیٹھ جائے تو کیا ان کی اس سرکشی اور غیر معیاری و بلوچ دشمن پالیسیوں پر خاموش رہنا قومی جرم کے زمرے میں نہیں آتا؟
سرکش بلوچ: ہاں بھائی یہ بات تو آپ کا سچ ہے، کہ قربانیاں دینے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم مقدس گائے بن جائیں اور جو جی چاہے کرلیں، کوئی پوچھے تو غدار قرار دے کر مار دئے جائیں، یا لالچ و خوف ، خود کی لاٹھی سے خاموش کرادی جائیں۔
باور بلوچ: آج سے کچھ سال پہلے تو آپ کے دوست ببانگ دہل ایران سے بلوچستان کی آزادی کی بات کرتے تھے، آپ کے پارٹی بیانات اور سیمیناروں، جلسوں میں وہ جوشیلے تقاریر میڈیا ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ آپ کے حلقے میں کچھ لوگوں کو ایران سے بلوچستان کی آزادی کی بات پاگل پن لگتی ہے، آپ بتا سکتے ہیں آپ نے ایران کے ساتھ کیا سودا کیا ہے؟
سرکش بلوچ : ہاں دوست، یہ بات آپ کی درست ہے، ہم اپنے نو سال پرانی تقاریر دیکھتے ہیں جس میں ہماری قائدین ایرانی مظالم کے خلاف بول رہے ہوتے ہیں، اور ایران سے بلوچستان کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں بھی فخر محسوس ہوتا ہے لیکن آج کے دور میں ان کی ایرانی فورسز کی بلوچ آبادیوں کے خلاف یلغار، بلوچوں کو مختلف حربوں سے مارے جانے پر خاموشی ہم عام کارکنان کے لئے باعث تکلیف اور باعث ندامت ہے۔
باور بلوچ اور سرکش بلوچ کی یہ ساری بحث خاموشی اور غور سے سننے والے سفید ریش بزرگ شخص کوہسار بلوچ اپنے ٹیک کو سیدھا کرتے ہوئے آگے کی طرف کسک کر دونوں کی توجہ اپنی جانب مبذ ول کرائی اوردھیمے انداز میں کہنے لگا باور بیٹا آپ کی باتیں سن کر مجھے محسوس ہوا ہے کہ ہماری سماج اور بلوچ تحریک میں آپ جیسے سوچ رکھنے والوں کی قحط ہے، ہمیں مزید ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو بلوچ قومی تحریک کو دنیا کے سامنے ایک بااخیار اور باعزت مقام پر پہنچانے کی جستجو رکھتے ہیں۔ سرکش بیٹا اگر آپ دونوں ندامت سے بچنا چاہتے ہیں تو اپنے بلوچ قوم کا ساتھ دو، اپنی ذاتی، اور پارٹی و گروہی مفادات کو اولیت سمجھنے کی بجائے قومی مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسیاں بناو، اپنی قیادت کی ناقص پالیسی سے اختلاف رکھ کر جرت کا مظاہرہ کرو، ان بلوچ پارٹیوں اور لوگوں کے ہاتھ مضبوط کرو جو ایران سے بلوچستان کی آزادی کا شفاف پالیسیوں کو برقرار رکھے ہوئے ہے ، آج ہر بلوچ دکھ و تکلیف میں ہے، تم بھی ان کے ساتھ دکھ اور تکلیف میں رہو، آپ کی ایران میں پناہ لینا اور پاکستانی فوج کے سامنے سرنڈر کرنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پناہ چاہے ایران سے لو یا پاکستان سے لو، دونوں صورت میں بلوچ قومی مفادات اور بلوچ قومی آزادی کی ضد ہیں۔ بلوچ ایک جمہوری بلوچستان کے لئے جدوجہد کررہے ہیں، جس میں تمام مذاہب کے لوگ پر امن طور پر زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں، ایک ایسے بلوچستان جس میں سب کو اپنی تہواریں، اور مذاہب کی پیروی کا حق حاصل ہو، تو پھر آپ ایرانی گماشتوں کے بہکاوے میں آکر اپنے ہی بلوچوں کو مذہبی قرار دے کر کیوں ان سے کنارہ کش ہوتے ہیں؟ اگر ہندوستان میں تیس کروڑ مسلمان اپنی مذہب کو برا نہیں سمجھتے، اگر امریکہ میں مساجد، کلیسائیں، مندر ایک ہی گلی میں تعمیر ہوسکتے ہیں، خلیجی ممالک میں ہندو،عیسائی،سکھ اور مسلمان ایک ہی محلے میں رہ سکتے ہیں، روز مرہ زندگی کے کاموں میں ہاتھ بٹھاسکتے ہیں تو پھر بلوچ ایک ہی نسل، اور ایک ہی مستقبل، ایک ہی سرزمین کے مالک ہوتے ہوئے ایک ہی گھر میں کیوں نہیں رہ سکتے؟ آج ایران کے سر پر جنگ کے گہرے بادل منڈلا رہے ہیں، اس وقت کوئی بھی ذی شعور شخص یہ تصور بھی نہیں کرسکتا کہ وہ ایران جیسے تباہ حال ملک کا ساتھ دیگی۔ ایران سے بلوچستان کی آزادی کے لئے آج جتنے بھی بلوچ برسرپیکار ہیں میری مشاہدات یہ کہتا ہے کہ وہ بہت جلد دنیا کا توجہ بلوچ تحریک آزادی کی طرف مبزول کرانے میں کامرانی حاصل کرلیں گے۔ اور جو لوگ ایران کی ریاستی دہشت گردی اور بلوچ قوم پر مظالم پر جان بوجھ کر خاموش ہیں وہ تاریخ میں بہت ہی منفی کردار کے ساتھ یاد کئے جائیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ بلوچ قوم ذاتی مفادات کی پیروی کرنے والے کرداروں کو چھوڑ کر قومی و اجتماعی مفادات کے نگہبان کرداروں کا ساتھ دے اسی میں بلوچ و بلوچستان کی بھلائی اور قومی تحریک کی کامیابی ہے۔
میرے نوجوانو، اگر پاکستان اپنی پنجابی نسل سے ملنے کے لئے امن کی آشا، اور واہگہ بارڈر پر آمد و رفت کرسکتا ہے، امن کی آشا کے نام پر مہم چلا سکتا اور کرتار پور کھول کر اپنی عوام سے رابطے بحال کرنے کا فیصلہ کرسکتا ہے تو تم بلوچ ایک دوسرے سے ملنے کیلئے اور اپنی قوم کے کھوئی ہوئی آزادی کے لئے اپنی عوام کے مابین رابطہ کاری کیوں نہیں کرسکتے؟ میری ایک بات ذہن نشین کرلیں، ایران اور پاکستان ہم بلوچوں کا نہ پہلے ہمدرد تھا نہ آج ہے اور نہ آئندہ وہ ہماری قومی طاقت کو یکجا کرنے دیگی۔ جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ پہلے پاکستان سے آزادی حاصل کرلیں پھر ایران سے نپٹ لیں گے وہ وقت گزاری کررہے ہیں اور بری طرح تہران کے ملاوں کے جال میں پھنس چکے ہیں، وہ اب چاہتے ہوئے بھی ایران کی تمن کو ٹھکرا نہیں سکتے کیونکہ انہوں نے بلوچ تحریک کے بدلے بہت کچھ داو پر لگا دیا ہے۔ اب وہ بات ہوگئی، کہ ہم تو کمبل کو چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن کمبل ہمیں نہیں چھوڑتا۔ میری رائے میں جو لوگ بلوچ تحریک آزادی سے منسلک ہیں ان کو اپنی پالیسیوں پر فوی الفور نظر ثانی کرتے ہوئے گجر کے تمن کو لات مارنی چاہے اور اپنے بلوچ بھائیوں کو سینے سے لگانا چاہیے تاکہ ہم ایک مشترکہ روشن مستقبل کے لئے اکھٹے ہوکر جدوجہد میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں کیونکہ ایک دوسرے سے جدا ہوکر اور ایک دوسرے کی طاقت کو نظر انداز کرنا دشمن کے منصوبوں کو کامیاب کرنے کا مرتکب بن رہے ہیں۔ بلوچ نوجوانوں کے کندھوں پر بھاری قومی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بلوچ قومی تحریک کو کسی پارٹی، گروہ یا قوم و قبیلے تک محدود کرنے کی بجائے اسے ہمہ گیر اور عالمی تحریک بنانے میں اپنا کردار ادا کرے جس میں پوری دنیا میں بسنے والے بلوچوں کی شرکت ممکن ہو اور ہم ایک ضلع، تحصیل، پارٹی کی نمائندگی کی بجائے پورے بلوچ قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے بلوچ ریاست کی بحالی کی بات کریں اسی میں ہم سب کی روشن مستقبل پنہاں ہے۔