تحریر : حسن جانان

حیات بلوچ کی موت بلوچ نسل کشی کا تسلسل ہے جب سے پاکستان بلوچ وطن پر قابض ہوا ہے حیات جیسے ہزاروں نوجوان قلم ہاتھ میں لیے ریاستی بربریت کا نشانہ بنے ہیں ریاست کی طرف سے ایسی ننگی جارحیت کا مظاہرہ کرنے کا جواز باضمیر بلوچوں کی ظلم و زیادتی پر غافلانہ خاموشی ہے اگر خاموش رہو گے تو کسی نہ کسی دن حیات کی طرح مارے جاؤگے اور پھر سوائے پچھتاوے کے کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا وقت و حالات ہر ایک کو سمجھا رہا ہے کہ ظلم کسی پہ ہو ظالم کے خلاف اٹھ جاؤ ورنہ اس طرح خاموشی کے ساتھ بھی تمھاری باری آئے گی حیات کے بعد اگلا کون ہو گا؟؟؟

معلوم بھی نامعلوم بھی! وہ باضمیر بلوچ جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموشی سے دیکھ رہے ہیں یا کسی خوف سے ظلم کو دیکھ کر آنکھیں چرا لیتے ہیں اس موت کے ڈر سے جو حیات سے رو بہ رو ہوا اس موت سے ہر اس شخص کا واسطہ پڑ سکتا ہے جو ریاستی ظلم پر خاموش ہے کہ شکر ہے کہ اس ظلم کا شکار میں یا میرا خاندان نہیں، ظلم و بربریت پر خاموش ہونا از خود ایک جرم ہے آج حیات کی موت ہوئی ہے کل کوئی اور ہو سکتا ہے اس لیے اگر کسی دیگر کے جرم سے بچنے کی بجائے اپنی یا اپنے بچوں یا عزیزوں کے ایسے بے رحمانہ موت سے بچنے کے لیے اس ظلم کے خلاف ہر محاذ پر اٹھ کھڑے ہوں ورنہ یہ بربریت ہر اس گھر کو بھی اپنا نشانہ بنائے گی جو اس ظلم پر خاموش رہا ہے، حیات کی شہادت کے بعد کچھ دنوں تک یہ جذبات دیدنی تھے جس طرح شہید ملک ناز کی شہادت کے وقت تھے لیکن جلد ہی ان جذبات کو برف بننے میں دیر نہیں لگی، وجہ ظاہر سی ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ و اس کے خفیہ اداروں کے ظلم و جبر نے ہر ایک کو خوف میں مبتلا کر رکھا ہے اور اس سے نکلنے کے لیے گراؤنڈ پر سیاسی اداروں کی ناگفتہ بہ حالت ہے چاہے وہ پارلیمانی ہوں یا آزادی پسند ہوں۔ آزادی پسندوں کی صورتحال اس حد تک نازک ہے کہ ان کو اپنی جان کے لالے پڑے ہیں آزادی کا دعوٰی کرنے کا مقصد پاکستان میں موت کے برابر ہے جہاں وہ نہ تو اپنی آزادانہ رائے کا اظہار کر سکتے ہیں اور نہ ہی آزادانہ نقل و حمل کر سکتے ہیں بلکہ وہ صرف اپنی جان بچانے کی کوشش میں ہیں تو ان حالات میں ان کے لیے سی عمل کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھنا ناممکنات میں شامل ہوتا ہے جب کہ دوسری طرف وہ سیاسی ادارے ہیں جو پارلیمانی سیاست کی ٹوٹی پھوٹی بگھی میں سوار ہیں جو ایک طرف بلوچ وطن پر پاکستانی ظلم و بربریت کو بنیاد بنا کر بلوچ حقوق کی بات کرتے ہیں اور ووٹ لے کر ریاستی اداروں کے ہاتھوں یرغمال ہو کر اس بربریت میں برابر کی شریک ہوتی ہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک وہ ادارے جو اس ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں اس کے پاس کوئی مضبوط حکمت عملی نہیں جو وہ ان ناگفتہ بہ حالات میں اپنی جہد کو گراؤنڈ پر جاری رکھ سکیں جب کہ دوسرے وہ ادارے ہیں جو ریاست کو نیم دلی سے قبول کرکے بھی اپنے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کر سکتے، ایسے حالات میں جہاں ظلم و جبر تسلسل کے ساتھ برقرار ہیں تو اس کے مدمقابل کھڑے ہونے کے لیے سیاسی اداروں کی ناموجودگی اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ دشمن ریاست کی پالیسیوں کا توڑ بلوچ سیاستدان پیدا نہیں کر سکے۔آزادی کا تصور ہر بلوچ کے دن میں پہلے سے زندہ تھا اور آج بھی ہے لیکن اس تصور پر پاکستانی ایجنسیاں جو دھندلا سا رنگ چھڑکانے میں کامیاب ہوئے ہیں اس کو بلوچ سیاستدان صاف کرنے میں کامیاب نظر نہیں آتے، گذشتہ دس سالوں سے ریاست کی پالیسیاں وقت و حالات کے ساتھ تبدیل ہوتی رہی ہیں اور بلوچ آزادی پسندوں کو کاؤنٹر کرنے کے لیے نت نئے حربے استعمال کرتے رہے ہیں لیکن بلوچ سیاسی پارٹیوں کے حکمت عملیوں میں کوئی واضح تبدیلی دیکھنے میں نہیں آتی سوائے اس کے کہ ان حالات میں خود کو زندہ رکھو، وقت کے ساتھ حالات میں تبدیلی کی گنجائش موجود ہے۔

بیس سال سے جاری جدوجہد کے ثمرات کم نہیں، جس کا فائدہ بلوچ وطن میں ان لوگوں کو ملا ہے جو خفیہ اداروں کے زیردست رہے ہیں اور اس دوران کچھ عام لوگوں کو بھی نوکری و روزگار کے مواقع ملے ہیں لیکن اصل بات وہیں پر آ کر رکتی ہے کہ آزادی پسندوں کا منزل نہ نوکری ہے اور نہ ہی نام نہاد ترقی، ان کا منزل و مقصد بلوچ وطن کی آزادی ہے اب آزادی کے لیے جس گراؤنڈ کی انھیں ضرورت ہے وہ پہلے ہی سے تیار ہے لوگوں میں وہ جذبہ موجود ہے ریاستی ظلم و بربریت نے لوگوں کو ان کی اصلیت دکھا دی ہے اور وہ یہ ریاست کی پالیسیوں سے سمجھ چکے ہیں لیکن ان لوگوں کو ایک پختہ فکری ڈائمینشن کی ضرورت ہے انھیں رہبر کی ضرورت ہے جو انھیں حالات کے بہاؤ کے ساتھ صحیح سمت دے سکے اور ان کے جذبات کو فکر کے ساتھ پرو سکے تاکہ تحریک عوامی شکل اختیار کر سکے نہ کہ خود سر یا کہ جذباتی طور کسی ایشو پر ایک دو دن احتجاج اس کے بعد وقت کے ساتھ وہ جذبات مدہم پڑ جائیں گے اور پھر ان میں وہ جذباتی پن ختم ہو جائے گا اس لیے ضروت ہے کہ عوامی سطح پر ریاستی پالیسیوں کے توڑ کے طور پر بلوچ آزادی پسند باریک بینی سے سوچ لیں تاکہ ایک مضبوط لائحہ عمل مرتب کر سکیں نہ کہ اس طرح تحریک دن بہ دن کمزور ہو کر اپنی بچاؤ تک محدود رہے گی جہاں تک بات مسلح کی ہے وہ تو ایک ڈگر پر رواں دواں ہیں لیکن ایک ریاست کو شکست دینے کے لیے اسے افرادی قوت کے ساتھ جدید وسائل کی ضرورت ہوگی اور اس کے لیے خارجی حوالے سے سوچ بچار کی ضرورت ہے کہ ایک ملک کو شکست دینے کے لیے اپنے محدود اور دستیاب وسائل میں کس حد تک ممکن ہو سکے گا اس طرح نہ ہو کہ تحریک سے جڑت سے ہی مطمئن ہو کر خوش فہمی میں رہیں کہ ہم تو اپنا فرض ادا کر رہے ہیں حالانکہ مقصد صرف اپنے فرض تک نہیں بلکہ قوم کو ایک عذاب سے نجات دینے کا ہے جب تک اس کے لیے ایک مکمل منظم و مربوط لائحہ عمل مرتب نہ ہو وہ فرض بھی فردی رہ کر تاریخ کے اتار چڑھاؤ میں گم ہو کر رہ جائے گا۔

وقت و حالات بلوچ کو بہت پہلے سمجھا چکا ہے کہ اب نہیں تو پھر کھبی نہیں، اتحاد واتفاق اگر ممکن نہیں تو نہ صحیح ، لیکن پارٹی پالیسیوں و اپنے طریقہ کار پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ اب وہ دور نہیں کہ کسی پارٹی یا ادارے میں باصلاحیت لوگوں کی کمی ہے ہر ادارہ اپنے تہیں بہت کچھ رکھتا ہے صرف موجودہ پیچیدہ و مشکل حالات میں پالیسی کی ضرورت ہے جو اس سوچ کو پروان چڑھانے میں مدد گار ثابت ہو سکے سن 48 سے لے کر اب تک جو تجربات بلوچ بزرگ آزادی پسندوں نے چھوڑے ہیں یا جن تجربات سے ہم گزر چکے ہیں ان سب کو سامنے رکھ کر آزادی کی راہ ہموار کرنے میں شاہد مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے کیوں کہ ہر طرح کے حالات ماضی میں رہے ہیں اور ماضی قریب کا تجربہ بھی تمام سیاسی ورکروں کو رہا ہے تو سنجیدگی کے ساتھ ازسرنو اپنے پالیسیوں پر نظر ثانی کریں تاکہ وقت کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کی جا سکے کیونکہ آج جو ہے وہ کل نہیں، اپنے آج کو بہتر کرنے سے ہی کل بہتر ہو سکتا ہے اور اس پر جتنا کھل کر اپنے اندرونی دیوانوں میں بحث کیا جائے اس سے نئے راستے کھل سکیں گے۔ایک کونے میں بیٹھ کر گراؤنڈ سے دوری حالات کو مزید پیچیدہ و مشکل بنا سکتے ہیں اور یہ حالات ان بیس سالوں میں دن بہ دن بدتر ہوئے ہیں بہتر نہیں، اس لیے اب کچھ ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جو سیاسی پارٹیوں کو براہ راست قوم سے جوڑ سکے نہ کہ اپنے ایک دائرے میں گردش کرنے سے ہم صرف خود کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہیں گے قوم کو نہیں، پارلیمانی پارٹیوں کی سیاست و ان کی ضرورتیں و ان کا نقطہ نظر قطعاً آزادی پسندوں سے مختلف ہے اور ان سے سوال کرنے کا مقصد بے فاہدہ ہے اور ان سے توقعات رکھنا بے وقوفی کے زمرے میں آئے گا اپنے آزادی پسندانہ خیالات کو گراؤنڈ میں لوگوں تک پھیلانے کے لیے ضروری ہے کہ اداروں کی اثر نو تشکیل کے ساتھ حکمت عملیوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ روایتی طرز سیاست کو خیرباد کہہ کر نئے خیالات و نئے طریقوں کو اپنے اندر جگہ دی جا سکے تب کچھ حد تک ممکن ہو سکے گا کہ عوام تحریک سے وابستہ ہو سکیں اور ان کی رہنمائی سیاسی بنیادوں پر ہو سکے۔