تحریر: راہی بلوچ
ھمگام آرٹیکل
دنیا کے کسی بھی منجمد سماجی حالت کو بدلنے کیلئے ذہنی تضادات اور خیالات کی جنگ ناگزیر ہے۔ اِن تضادات کو ایک حتمی شکل دینا بظاہر تو ایک مشکل کام لگتا ہے جس میں حق و باطل، ظالم و مظلوم، حاکم و محکوم کا فرق واضح ہو جائے۔ مگر دنیائے انقلاب میں ایسی بہت سی روایات اور عملی کام ہیں جو شروع میں کٹھن اور مرحلہ وار ہوتے ہیں آگے چل کر دشمن کے ظلم و استبداد کے سامنے پختہ دیوار بنتے ہیں اور دشمن کو شکست و ریخت سے دو چار کرتے ہیں۔ یوں انقلابی قوتیں اورانقلابی سوچ رکھنے والے جہدکار اپنے عمل سے سماج کی جتوں کو نئے سِرے سے سنوارنے کیلئے ایک افقی جزبہ سے سرشار ہوکر نئے پرتوں کا تعین کرتے ہوئے ایک خوشحال معاشرے کیلئے جدوجہد کرتے ہیں.
بولیویرین ریپبلک آف وینزویلا کے صدر ہیوگوشاویز سے متعلق کاسترو نے ایک محتاط اندازے کے ذریعے کہا تھا کہ شاویز نے دس سالوں کے اندر 1536 گھنٹے یعنی کے پورے 64 دن قوم کو اطلاعات اور تعلیم دینے پر وقف کردیئے تھے اس کے علاوہ اس نے ہیلو پریزیڈنٹ کے نام سے ایک لائیو پروگرام کی میزبانی بھی کی جس کے ذریعے وہ عوام کے سوالات کا جواب دیتے رہے۔ شاید کہ یہ ان انقلابیوں کی نفسیاتی آدرش ہیں جن کے قول عموماً انقلاب کو جنم اور وسیع کرنے کیلئے ایک دوسرے کے اقوال کی تصدیق کردیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک قول پاکستان کے سامراجیت سے جھکڑے بلوچستان کے ایک انقلابی نوجوان شہید نورالحق عرف بارگ بلوچ نے کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا “ہمیں عوام سے نزدیک ہوکر انہیں اپنے مشن کے بارے میں واقف کرنا چاہیے” شاید یہی وجہ تھی کہ وہ زمانہ طالب علمی میں ہی کبھی کسی دوست کو اخبار تھما دیتا تو کبھی بی ایس او کے میگزینز کو ساتھیوں تک پہنچانے کیلئے تھک و تاب کرتا رہتا اور اسی کوشش میں تھا کہ اس غلام قوم کے باشندوں کو یقین دلایا جائے کہ وہ اس منافق اور وحشی ریاست کے غلام ہیں جو کہ ایک سانپ کی مانند ہے۔ضرورت پڑنے پر اپنے ہی پنچابی بچوں کو بھی کھاجاتا ہے تو بلوچ جو سرے سے ان کے تھے ہی نہیں تو ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھے گا۔ حیات بلوچ کے سینے میں لگی 8 گولیاں اور بانک کریمہ کی لاش کے ساتھ کئے جانے والا رویہ ہمیں اس کا ادراک دلانے کیلئے کافی ہیں.
شہید کے “بقول قومی آزادی کی جدوجہد اور دہشت گردی میں صرف اور صرف عوامی رابطہ اور شمولیت کا فرق ہے اور ہمیں موت کے خوف کی وجہ سے اپنے کاموں میں سست روی نہیں لانی چاہیے اور نہ ہی اپنے لوگوں سے دور رہنا چاہیے. یہ شہید کی کچھ ایسے باتیں تھیں جو مجھے قومی تحریک کے اندر موجود ساتھیوں کی بارہا کوششوں کے باوجود بھی نہیں ملیں۔
ساتھیوں کو اس کا ادراک رکھتے ہوئے مضبوط عوامی رابطے کی کوشش کرنی چاہیے اور شہید کے مشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لوگ جو انقلاب کو معاشرے کے قانونِ حرکت و تغیر سے الگ کرکے محض زندگی کا ایک حادثہ خیال کرتے ہیں وہ انقلاب کے تاریخی کردار کو سمجھ سکے ہیں اور نہ ہی انقلاب کے فلسفے کو۔ ساتھیوں کو ان عام لوگوں کی طرف بڑھنا ہوگا اور انہیں انکے کردار کو تاریخی بنانے کا راستہ دکھانا ہوگا.
انقلاب سے متعلق کارل مارکس نے کہا تھا انقلاب فقط اس وجہ سے ضروری نہیں کہ حکمران طبقہ کو انقلاب کے علاوہ کسی اور ذریعے سے اقتدار سے بیدخل نہیں کیا جاسکتا بلکہ انقلاب اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ انقلاب ہماری ذات کی طہیر کرتا ہے اطاعت اور بندگی، تذبذب اور تشکگ کے داغ دھل جاتے ہیں اور انسان اس آگ سے کندن بن کر نکلتا ہے. جس کیلئے لوگوں کو انقلاب کے اغراض و مقاصد اور اس راستے میں پیش آنے والے مصیبتوں کے بدلے ایک بہتر اور آزاد معاشرے جس کے ہرپتے ہر بہار سے جھلکنے والی خوشبو خوشحالی اور گزرنے والے دن کے مقابلے میں زیادہ آسودگی پیدا کریں.
اور اس بہتر مستقبل کیلئے بارگ اور دلجان جیسے عظیم ساتھیوں کے انقلابی افکار اور کردار کو اپناتے ہوئے گزشتہ کمیوں اور کوتاہیوں کے سدباب کرتے ہوئے ہر دن ایک نئے سرے کے ساتھ جہد میں جانا چاہئیے اور اس جہد کے دیگر ساتھیوں کو صبر اور عام عوام کو اپنی طرف متوجہ کرانے کیلئے صبر اور بھروسے کے ماحول کو پروان چڑھانا چاہیے۔