ٹی وی پر خبر نشر ہورہی تھی کہ’’ آج صبح کچھ گھات لگائے افراد نے آرمی کے گاڑیوں پے اس وقت دھاوا بول دیا جب وہ شہر سے کیمپ جا رہے تھے۔ شہر میں حملہ آوروں کی تلاش جاری ہے، اب تک گیارہ مشکوک افراد گرفتار کئے جاچکے ہیں‘‘۔ٹی وی کے سامنے بیٹے بوڑھے شخص نے اپنے بیٹے نثار کو آواز دے کر بلایا اور اسکول سے چھوٹے بھائی کو لانے کا کہا۔ نثار بائیس چوبیس سال کا برز قد خوبصورت نوجوان،لمبے بال،لمبی ناک اورچوڑا سینہ ہاتھوں میں کچھ چابیاں جن کی رِنگ انگلی میں پہنسائے گھماتے ہوئے کمرے سے باہر آرہا تھا۔ نثار کے والد کی بات سْن کر اس کی امی نے نثار کو خبردار کیا کہ، بیٹا حالات خراب ہیں احتیاط سے جانا۔ مگر نثار بے پروا ہ چلتے ہوئے مخاطب ہوا’’ امی یہ تو روز کا معمول ہے کوئی مسئلہ نہیں‘‘۔ نثار اپنے موٹر سائیکل پہ بیٹھ کر روانہ ہوا اب وہ شہر کے گلیوں سے گزرنے لگا جہاں نالے کا پانی ابل کر سڑک پے بہہ رہا تھا، جس سے کافی بدبو پھیل رہی تھی۔ دوسری طرف شہر سْنسان تھا خال ہی اکا دکا لوگ نظر آتے تھے جن کے چہرے پہ خوف چھایا ہوا تھا۔ ایک گلی میں کچھ دس بارہ سال کے بچے ہاتھوں پہ سیاہ رنگ کے کپڑے پکڑے یا بازووں پرباندھے ہنس ہنس کر آواز لگا رہے تھے۔ پاکستان مردہ باد۔ سرمچار زندہ باد۔ آجوئی۔۔۔۔۔ خڑکءِ ۔ انہیں دیکھ کر نثار کو اپنے وہ دن یاد آگئے جب وہ ان ہی کے عمر کا تھا۔ جب آرمی کے اہلکاروں نے ایک بلوچ بزرگ رہنما کو شہید کیا تھا۔ اور نوجوانون نے اپنے کلاسوں کا بایکاٹ کر کے مکمل بلوچستان بند کرکے اس کے شہر وں کے تمام کاروباری مراکز اور سڑکوں کو بند کر کے ہر طرح کی آمدورفت معطل کر کے غم و غصہ کا اظہار کیا تھا۔احتجاج کے حالات کو قابو میں لانے کے لیے اس دوران پولیس نے بہت سے لوگوں کو گرفتار بھی کیا تھا نثار بھی ان کے ہتھے چڑجاتا اگر اس وقت یہ کم عمر نہیں ہوتا۔ گرفتارکیے گئے لوگوں کو حالات معمول پر آنے تک حوالات میں ہی رکھا گیا اور پھر سب کو رہا کردیا گیا تھا۔مگر اب حالات بدل گئے ہیں، اب دشمن اپنے اصل اوقات یعنی حیوانیت پہ آگیا تھا اب اس کے ہاتھ کوئی بھی بلوچ لگتا تو اس کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جانے لگا۔ انہیں غائب کر کے شدید ترین اذیتوں سے گذارا جاتا اور پھر کچھ دن گذرنے کے بعد ان کی لاشیں اب ویرانوں سے ملنے لگیں تھیں۔ اب جبکہ دشمن چالاک ہو گیا تھا تو آزادی کے سپاہی بھی اپنی حکمت عملی اس سے بھی بہتر بنا چکے تھے یہی وجہ تھی کہ دشمن اب عام مخلوق پے برسنے لگا تھا۔ نثار کو اب گلیوں سے نکل کر چوک پار کرنا تھا۔ اس نے سامنے سے آتے ایک خوبرو نوجوان لڑکے کو اپنی جانب متوجہ ہوتے دیکھا جو اسے رکنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ نثار اس کے قریب رکا تو نوجوان نے اسے آگے جانے سے روکتے ہوئے کہنے لگا کہ’’ سنگت آگے فوج کھڑی ہے، آپ رستہ بدل دیں تو بہتر ہوگا‘‘۔ اس کے باتوں سے اپنائیت کا احساس مل رہا تھا۔نثار نے اسے جواب دیا کہ ’’ تم بھی تو اسی جانب سے آرہے ہو انہوں نے تمہیں کیوں کچھ نہیں کیا ‘‘۔نوجوان نے نثار کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولنے لگا کہ ’’ میری یہ حالت دیکھ کر آپ کو اندازہ نہیں ہورہا کہ میں ادھر ہی سے آیا ہوں؟‘‘ نثار اس کے بکھرے بالوں کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا ’’ انہیں نے تمہیں کیوں مارا ، تم نے انہیں کیوں نہیں بتایا کہ تم اسکول سے واپس آرہے ہو؟‘‘نوجوان افسردگی سے کہنے لگا’’ بتایا توتھا لیکن یار ان کے الفاظ تھے کہ تم بلوچی لوگ دن میں عام آدمی رات کو دہشت گرد بنتے ہو‘‘، ایک گہری سانس لینے کے بعد وہ نوجوان اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا ’’ سنگت یہ حیوان ہماری باتیں کہاں سْنتے ہیں یہ تو ہمیں جانور سمجھتے ہیں‘‘۔ نثار خاموشی سے اسکی باتیں سن کر گہرے سوچ میں پڑ گیا اور بے اختیاری سے بولنے لگا’’تو۔۔۔تو اس کا۔۔۔۔ حل کیا ہے ؟‘‘ نثار اب اسکول کے سامنے اپنے چھوٹے بھائی کے انتظار میں تھا۔ اسکول سے چھوٹے بچے لائن سے نکل رہے تھے۔ نثار اب بھی اسی نوجوان کہ متعلق سوچ رہا تھا کہ کیسے کوئی اجنبی تمھیں اپنا سمجھ کر آنے والے خطرے سے آگا کرتا ہے؟۔ یہی لوگ تھے جو کچھ سال پہلے ان فوجیوں کو اپنا محافظ سمجھتے تھے، ان کے ملک کو اپنا ملک سمجھتے تھے۔ کئی کئی نوجوان اس فوج کا حصہ بننے کی خواہش دل میں رکھتے تھے۔ مگر اب یہی لوگ یہی نوجوان ان سے بے حد نفرت کرتے ہیں۔ انہیں اپنی سرزمیں پر قابض مانتے ہیں۔ اب اس جنگ نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔ اس نے جنگ نے آقا اور غلام ، ظالم و مظلوم ، دیسی اور نوآبادکار کا فرق بالکل ایک خونی لکیر کھینچ کر واضح کردیا ہے، پہلے ہم اپنی غلامی کو نہیں سمجھتے تھے مگر اب ہم میں سے ہر ایک اس غلامی سے واقف ہے۔ ہاں تب ہی تو اْس نوجوان نے میرے مدد کی کیونکہ ایک غلام ہی کو دوسرے غلام کا احساس ہوتا ہے۔ اب جب بھی کوئی قبضہ گیر کسی بلوچ سرمچار کے ہاتھوں مارا جاتا ہے تو مقامی لوگوں کے آنکھوں میں روشن مستقبل کی چمک واضح دِکھائی دیتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ ان سرمچاروں کو اپنا مسیحا و مددگار مانتے ہیں اور ہمہ وقت ان کے کمک کو تیار رہتے ہیں۔ نثار نے اپنے چھوٹے بھائی نود کو آتے دیکھا جو اس کے قریب آکر رک گیا نود کے ساتھ اس کا ایک اور ہم عمر لڑکا تھا۔جس کے آنکھوں کی اداسی نے نثار کو اپنی جانب متوجہ کردیا۔ نود نے اپنے بڑے بھائی کو اسے بھی ساتھ لیجانے کے لیے کہا اور اسکا تعارف کرتے ہوئے بولا’’ یہ میرا دوست ہے اور ہمارے گھر کے پاس ہی رہتا ہے‘‘۔ نثار دونوں کو موٹرسائیکل پہ بِٹھا کر نکل پڑا وہ کچھ ہی دور نکلے تھے کہ ایف سی کے ایک گاڑی ان کو سامنے سے آتے ہوئے دِکھی جو انہیں رکنے کا اشارہ کرنے لگی۔ نثار بریک کو آہستہ آہستہ اپنے دائیں پیر سے دبا کر رفتار کم کر رہاتھا۔ نود کا کمسن دوست ان فوجیوں کو قریب آتے دیکھ کر مدہم سی آواز میں بولنے لگا۔ ’’آگئے حرام خور‘‘ ۔نثار اس کے بات سْنی ان سْنی کرتے ہوئے رک گیا۔ ایک اہلکار ہاتھ میں بندوق لیے ان کے طرف ایسے بڑھ رہا تھا جیسے ابھی ان پہ جھپٹ کر انہیں تہس نہس کردے گا۔ اس کے پیچھے دو اور وردی والے اتر ے اور اپنی پوزیشن میں کھڑے ہو گئے۔ پہلے اہلکار کے پوچھنے پر تینوں نے یک زبان ہوکربولا اسکول سے آرہے ہیں ۔ پھر ان کی تلاشی لیکر انہیں جانے دیا گیا۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد نثار نے نود کے کمسن دوست سے حیرت انگیز ی کے ساتھ پوچھنے لگا کہ تم ان فوجیوں کو اپنی جانب آتے دیکھ کر ان کے بارے میں ایسے ہتک آمیز الفاظ کیوں استعمال کررہے تھے ؟ ۔ بلا سوچھے سمجھے اس کمسن نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ بھائی جان یہ اس سے بھی بدتر الفاظ کے حقدار ہیں‘‘۔ نثار پھر دریافت کرنا چاہ رہا تھا کہ آخر وہ کونسا غم اور غصہ ہے کہ جسے لیکر وہ کمسن ان فوجیوں سے اس حد تک نفرت کرتا ہے لیکن اتنے میں نثار کے چھوٹے بھائی نود نے انکی باتیں کاٹتے ہوئے کہا کہ ’’ بس بھائی یہاں روک دے میرے دوست کا گھر آگیا‘‘ ۔ اسے اتار نے کے بعد جب وہ اپنے گھر پہنچے تو نود ، نثار سے بچوں سی لہجے میں بولنے لگا ’’ بھائی آپ نے میرے اس دوست کو نہیں پہچانا کیا؟‘‘ نثار بائیک کو اسٹینڈ پہ لگاتے ہوئے چہرے پر سوالیہ نقش بناتے ہوئے اپنے بھائی کی طرف دیکھ کر بولنے لگا ’’نہیں بس اتنا جانتا ہوں کہ تمہارا دوست ہے‘‘۔ نود نے جلدی سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ارے نہیں بھائی صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ ایک شہید کا بھائی بھی ہے‘‘۔نثار کے چہرے پر حیرت کو بھانپتے ہوئے وہ خود ہی دوبارہ آگے بولنے لگا’’ شہید حنیف کا جسے پچھلے ہی مہینے خفیہ فورس کے اہلکاروں نے شہید کردیا تھا‘‘۔ یہی باتیں کرتے کرتے نثار اور نود گھر میں داخل ہوئے امی نے کھانا لگایا نثار ہاتھ منہ دھونے نل کے پاس کھڑا کسی خیال میں گم رہا کہ امی کی آواز نے اسے خیال سے جگا کر کھانے کے دسترخوان پہ لے آیا۔ کھانا کھا کر وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا اور سیدھا بیڈ پہ لیٹ گیا اور بے چین خیالوں میں کھو گیا ۔وہ حنیف کے متعلق ہی سوچ رہا تھا جو اسی شہر میں گوریلا جنگ کا حصہ تھا۔ جس کی ایک غلطی نے اس کے مکمل گروپ کو ہی ختم کردیا تھا۔ نثار اس کے گروپ کا حصہ تو نہیں تھا مگر ان سے ایک دو بار کام کے سلسلے میں ملاقاتیں ضرور کی تھیں۔ نثار اس پہلے ملاقات کے متعلق سوچ رہا تھا جب اسے کچھ سامان کی ضرورت تھی تو سینئر دوستوں نے اسے ایک نمبر دے کر اس شخص سے اپنے ضرورت کے سامان لانے کو کہا۔ جب اس نے دیئے ہوئے نمبر پر رابطہ کیا تو کسی انجان آواز نے اسے دوستانہ لہجے میں شہر کے قریب پہاڑیوں کے جانب آنے کو کہا۔نثار جب مقررہ جگہ پہنچا تو ایک سفید جیپ میں دو افراد موجود تھے جو نثار کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے اترنے لگے۔ ان میں سے ایک کو نثار جان گیا یہ سر یوسف تھا جس نے نثار کو گوریلا جنگ لڑنے کی تربیت دی تھی۔ جو اب خود شہر سے اشتہاری ہو کر پہاڑوں میں جنگ لڑ رہا تھا۔اس کے ساتھ ایک اور خوبرو نوجوان حنیف تھا جس سے نثار کبھی نہیں ملا تھا۔ وہ جلد ہی وہاں سے روانہ ہوئے۔ نثار ان کے آگے چلتے ہوئے گاڑی میں لدے سامان کو ٹھکانے لگانے کی خاطر شہر کے بیچوں بیچ ایک خالی مکان کے پاس ٹہرا۔ یہاں اس نے سر یوسف اور حنیف کو اتر نے کا اشارہ کرتے ہوئے مکان کے دروازے پر لگے تالے کو کھولنے لگا، سر یوسف اور حنیف گاڑی سے اترکر اس مکان کی جانب بڑھنے لگے اور حنیف فون پر کسی سے مخاطب ہوکر کہہ رہا تھا’’ اچھا میں بتاتا ہوں‘‘ یہ کہہ کر وہ فون جیب میں رکھ کر اردگرد جائزہ لینے لگا۔اسکے بعد تینوں کسی کو گلی میں نہ پاتے ہوئے سامان گاڑی سے اتار کر مکان میں لاکر رکھ دیا۔ دروازہ بند کر کے نثارنے انہیں کمرے میں بیٹھنے کو کہا، حنیف پھر سے فون پر کسی سے باتیں کرتے ہوئے گاڑی کی چابیاں ہاتھ میں لیئے گھر سے باہر نکل گیا اور جب وہ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں اب گاڑی کی چابیاں نہیں تھے۔سر یوسف کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ یہ گاڑی اسکے کزن کا تھا جو کام کے غرض سے اس سے لی تھی، اب اسے گاڈی واپس ضرورت تھی تو وہ اپنا گاڈی لے گیا اور میرا بائیک یہاں چھوڑ گیا۔ وہ تینوں پھر آرام سے گھر میں بیٹھ گئے ، پانی اور چائے کے بعد نثار نے انکا بلوچی حوال لیا اور بعد میں سامان کو برابر کرنے کے غرض سے وہ باہر نکل گیا، سر یوسف کمرے میں پڑے اخبار کے صفحوں کو پلٹ کر دیکھ رہا تھا۔ حنیف اپنے مبائل کے ساتھ مصروف تھا کہ نثار بھاگتے ہوئے بوری میں پڑے نئے لائے گئے سامان کو گھسیٹنے لگا اس نے خوفزدہ آواز میں دوستوں کو کہا آپ لوگ جلدی کرو یہاں سے نکل جاو۔کمرے سے سر یوسف اور حنیف دوڑتے ہوئے نکل گئے اور معاملہ جاننے کی کوشش کرتے ہوئے اس سے وجہ دریافت کی ۔نثار بوری کو گھسیٹتے ہوئے انکی طرف دیکھ کر بولنے لگا’’ کچھ معلوم نہیں ایک دوست نے ابھی کال کرکے مجھے اطلاع دی کے فوج کی گاڈیا ں اسی طرف آرہی ہیں ، ہوسکتا ہے انہیں ہماری بھنک لگی ہو ‘‘ ۔ یہ کہتے ہوئے وہ باہر کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے بولنے لگا ’’آپ لوگ یہاں سے نکل جاو اور سیدھا چل کے دائیں جانب مڑجانا اور اب جلدی کرو‘‘۔ ’’مگر یہ سامان تو پہلے‘‘ سر یوسف کے الفاظ بیچ میں ہی کاٹتے ہوئے نثار نے اسے کہا کہ یہ میں کرلونگا آپ لوگ جلدی سے نکل جاو ۔یہ دونوں نثار کے باتوں پہ عمل کرتے ہوئے باہر نکل گئے جب کسی کو نہیں دیکھا تو نثار کے بتائے ہوئے راستے پہ بائیک چلانے لگے۔ نثار نے جلدی جلدی مکان کے دروازے کو اندر سے بند کر کے واپس ان بوریوں کی طرف مڑا اسے اب پھر سے اسی دوست کا فون آیا کہ تم اب تک وہاں کیا کر رہے ہو فوری طور پر نکل جاو۔نثار نے اسے بتایا کہ باقی دوست چلے گئے ہیں وہ بس ان سامان کو ٹھکانے لگا کر نکلے گا۔ دوست نے اس سے التجا کی کہ سب کچھ چھوڑ کر نکل جاو کیونکہ کوئی بھروسہ نہیں فوج قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ نثار اس طرح نکلنا نہیں چاہتا تھا وہ اتنے سارے سامان یونہی چھوڑ نہیں سکتا تھا۔اسے معلوم تھا کہ یہ کتنے مشکل سے یہاں تک پہنچے ہیں۔ وہ مکان کے عقبی حصے میں پہنچ کر ان بوریوں کو اب دیوار کے دوسری طرف جنگل میں دفنا نا چارہا تھا اس نے اپنا کافی زور لگایا مگر وہ ان بوریوں کو اکیلا اٹھا نہیں پارہاتھا، اس نے پہلے چھوٹی چھوٹی بوریاں دیوار سے اس پار جنگل میں پھینک دیں۔ مگر اب بچے ہوئے بوری میں بارود تھا، اسے باہر سے آتے گاڑیوں کی آواز سنائی دینے لگی اس کے چہرے سے پسینا پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔ اس نے ایک آخری کوشش کے ساتھ اپنا مکمل زور لگا کر اس بوری کو دیوار پہ رکھ دیا اسکے بعد وہ خود اسی دیوار پہ چڑھ کر دوسری طرف پھلانک کر بوری اپنے ساتھ کھینچنے لگا ، اس کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا اس نے قریب پڑے جھاڑیاں ان کے اوپر رکھ کر جنگل کے دوسری طرف بنے پرچون کے ایک دکان کے سامنے سے نکل گیا۔ دریں اثناء فوج پہنچ چکی تھی اور اس علاقے کا گھیرا کرنے لگے تھے ، اس موقع کو غنیمت جان کر نثار اس علاقے سے نکل چکا تھا، اتنے میں اس کا فون پھر سے بجنے لگا جب اس نے فون ریسیو کیا تو سر یوسف اس سے مخاطب تھا ، نثار نے انہیں بتایا کہ وہ خیریت سے نکل گیا ہیں۔ سر یوسف نے اسکا جگہ پوچھا تاکہ وہ اسے لینے آجائیں ۔ تھوڑی دیر بعد وہ نثار کے بتائے ہوئے جگہ پر پہنچ گئے، حنیف بائیک چلارہا تھا نثار بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا ، ان میں سے ہر ایک کہ چہرے پہ ایک سوال تھا کہ یہ کیسے ہوا؟ ہر ایک خاموش سوچوں میں گم ،اس آتے موت سے نکل جانے کے حیرت زدہ خیال میں گم تھے۔ یہ سب اتنا جلدی ہوا تھا کہ اب تک کسی کو سوچنے کا موقع تک نہیں ملا تھا۔اب جبکہ وہ خیر سے نکل گئے تھے تو ہر ایک پہلو پر نظر دوڑا رہے تھے۔ اگلے روز سر یوسف باقی دو دوستوں کے ساتھ فون پر مکمل واقع سینئر دوستون کو سنارہا تھا۔ جنہوں نے اس پورے واقعے کے تحقیقات کے اختتام تک سر یوسف کو یہاں سے نا جانے کو کہا۔ اس تحقیقات میں کئی دن لگے سرکار کو وہاں سے تو کچھ نہیں ملا تھا مگر وہ اس مکاں کو تالا لگا کر چلے گئے تھے نثار نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر وہاں جنگل میں رکھے سامان کو بھی بہ حفاظت نکال دیا تھا۔ اب رہ گیا تھا تو یہ جاننا کہ یہ سب ہوا کیسے؟۔ اس سلسلے میں دوستوں کا اکثر آنا جانا لگا رہالیکن ایک دن اچانک ایک اور بری خبر ملی کہ حنیف شہر جاتے ہوئے دشمن کے خفیہ اہلکاروں کے ہاتھوں اغوا ہوا ہے۔ اب مشکل اور بڑھ گئی تھی واقعات کا اس طرح تسلسل کے ساتھ ہونا کچھ اور ہی منظر پیش کر رہا تھا۔ ہر ایک کو یہی لگرہا تھا کہ کوئی ہے جو ہمارے درمیاں موجود ہے۔ اس لیئے سینئر دوستوں نے شہری دوستوں کو ایک دوسرے سے وقتی طور پہ رابطہ ختم کرنے کا کہا،اور اب حنیف کے دوستوں کو الگ الگ کیمپ بلایا گیا تفتیش کے لیئے۔تفتیش کرنے والوں کو ان میں سے کسی کے بھی باتوں میں جھوٹ یا فریب کا عنصر نہیں ملا مگر ان میں سے ہر ایک کہ باتوں میں یہ بات مشترک تھی کہ جس گاڑی میں سر یوسف اور حنیف نے سامان نثار کو پہنچائے تھے یہ اس کے کزن کی تھی۔ اور اس مکان سے گاڑی لینے بھی وہی آیا تھا۔ اس کے علاوہ جس دن حنیف اغوا ہوا تھا اس دن اس کا کزن بھی اس کے ساتھ تھا جسے اسی شام اغوا کر کے چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس متعلق سر یوسف سے بھی پوچھا گیا ۔ تمام باتوں کی روشنی میں اب یہ واضح ہوگیا تھا کہ اس سارے سازش میں حنیف کا کزن ملوث ہے اسلیئے اسے انجام تک پہنچانے کا فیصلہ ہوا۔ نثار سوچوں میں گم سر جھکائے غسل خانے میں داخل ہوا اس کے دماغ پر بس انہی الفاظوں کا گرفت تھا کہ ہم کیوں اتنے بے احتیاط ہوتے ہیں۔ ہم ان الفاظوں کو کیوں بھول جاتے ہیں جو ہمیں تربیت کے دوران سکھائی جاتی ہیں کہ اپنے آپ کے سوا اپنے سائے کو بھی اپنا راز مت دو۔ پھر ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ اب ہم ایک فرد نہیں رہے بلکہ ایک تحریک کا حصہ ہیں۔ کسی کی امیدیں ہم سے وابسطہ ہیں ۔ ہمارا اس راہ میں مارا جانا اٹل ہے مگر اتنے آسانی سے دشمن کا ہدف بننا باقی دوستوں کیلئے بھی نقصان کا باعث بنتا ہے۔جس سے صرف ہمارے دشمن کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور کچھ نہیں۔ بس ایک غیر زمہ داری جو ہمارے مکمل حکمت عملی کو برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔ ہم کسی کو پرکھے بنا اپنا نا چا ہتے ہیں تو انجام اس سے بہتر نہیں ہوگا۔ نثار آہینہ کے سامنے کھڑے بالوں میں کنگھی کر رہا تھا کہ اچانک اسکے مبائل کہ گھنٹی بجی نثار نے جب فون کان پہ لگایا تو دوسرے جانب سے وہی دوست تھا اس سے پہلے نثار کچھ بولتا وہ کہنے لگا جہاں ہو بس ابھی گراونڈ پر پہنچ جاو۔ یہ سنتے ہی نثار فون بند کر کے کمرے سے نکلا تو ماں نے اسے آواز دی بیٹا رٗکو چائے پی کے جانا، نثار پیچھے مڑے بغیر زور سے امی سے مخاطب ہوا’’بس ابھی آیا امی‘‘۔ یہ کہتے ہوئے وہ بائیک پر سوار ہوکر نکل گیا راستے میں پھر سے اس کا موبائل بجنے لگا اسے خوف سا لگا کہ اس کا دوست کسی مصیبت میں تو نہیں جو اتنا فون کر رہا ہے۔اس نے بنادیکھے فون کان پے لگاتے ہوئے بولا’’ بس ابھی پانچ منٹ میں پہنچ رہا ہوں ‘‘ ۔ لیکن دوسری جانب سے نسوانی آواز آئی ’’ کہاں آرہے ہو؟‘‘۔ نثار کو جلد ہی احساس ہوا کہ یہ اسکا دوست نہیں بلکہ سارہ کی کال ہے۔ سارہ اس کے ساتھ اسکول سے کالج تک ایک ہی کلاس میں پڑھ رہی تھی۔ اس نے گبھراتے ہوئے سارہ کی مسلسل جاری باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس سے مخاطب ہوا’’ سارہ میں اب بائیک پر ہوں کہیں رک کر تمھیں کال کرتا ہوں‘‘۔ سارہ نثار کی باتوں کو ان سنی کرتے ہوئے اس پر حق جتاتے ہوئے بولنے لگی ’’ کہیں رکتے کیوں ہو ،جہاں ہو بس ابھی آجاو، میں گھر والوں کے ساتھ باہر جا رہی ہوں آپ بھی آجانا وہاں‘‘۔ نثار بہانہ بنانے کے خاطر سارہ پے ہنستے ہوئے بولنے لگا ’’ ارے گھر والوں سے ملنے بندہ گھر آجاتا ہے روڈ پر بھی بھلا کبھی ملاقات ہوتی ہے کیا پگلی ہاہاہا‘‘ ۔ نثار کے باتوں کو کاٹتے ہوئے سارہ اسے مصنوعی خفگی سے بولنے لگی ’’ تم گھر والوں سے نہیں مجھ سے ملنے آجاو، میں بس دیکھنا چاہتی ہوں تمہیں سمجھے‘‘۔اب نثار تذبذب کا شکار ہونے لگا وہ سارہ سے بے حد محبت کرتا تھا۔ مگر اس وقت اس کے انتظار میں جو تھا وہ اسکے ہر چیز سے بڑھ کر تھا۔ اس نے سارہ کی ناراضی مول لیتے ہوئے جانے سے انکار کر دیا اور سارہ نے بھی یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ اب کبھی میرا نمبر ڈائل مت کرنا ۔ نثار کو بے حد برا لگا یہ پہلی بار ہوا تھا کہ سارہ اسے بلا رہی تھی اور وہ نہیں جا رہا تھا۔ وہ افسردگی کے ساتھ گراونڈ پہنچا یہاں پہلے سے کھڑا اس کا دوست شاکر اسکا ہی انتظار کررہا تھا جو ایک موٹے چادر میں خود کو لپیٹے کھڑا تھا۔ یہ نثار کا ہی ہم عمرتھا جو آگے بڑھ کر چادر سے ہاتھ نکال کر بائیک پر بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ میں کلاشنکوف تھا جو اس نے چادر میں چھپا کے رکھا تھا۔اسکے بیٹھتے ہی نثار بائیک کو سڑک پر چلانے لگا شاکر نے جلد ہی نثار کے چہرے پر افسردگی کو بھانپ کر اس سے پوچھنے لگا کہ کیا بات ہیں یار اور ہنستے ہوئے بات کو جاری رکھا منہ کیوں لٹکا یا ہوا ہے ؟ نثار مسکراتے ہوئے نہیں یار کوئی خاص بات نہیں اصل میں سارہ نے فون کر کے آنے کو کہا میں نے منع کر دیا کہ نہیں آسکتا تو ناراض ہو گئی، بس اور کچھ خاص نہیں۔ شاکر نثار اور سارہ کے متعلق سب کچھ جانتا تھا۔ شاکر نثار کو بازار کے مرکزکو جاتے راستوں پر چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا یار تو تم اسے بتاتے کیوں نہیں کہ تم کون ہو کیا کرتے ہو جہاں تک میں سارہ کو جانتا ہو وہ بھی ایک قوم پرست سوچ رکھنے والی بلوچ پرست لڑکی ہے اسکے بتانے میں کیا حرج ہے؟۔ نثار فوراً اسے ٹوکتے ہوئے بولنے لگا ’’ارے یہ کیا بات ہوئی سنگت یہاں رازداری کہاں گئی ؟کیا تمھیں یاد نہیں کہ سنگت قاضی اکثر کہتا تھا کہ خود غلطی کرکے سیکھنے سے صد درجہ بہتر ہے کہ ہم دوسروں کی غلطیوں سے سیکھ کر انہیں نہیں دہرائیں، کیا حنیف کا قصہ بھول گئے؟‘‘ شاکر لپٹے چادر کو صحیح کرتے ہوئے بولا ’’ میں نہیں بھولاسنگت، لیکن‘‘ اتنے میں وہ اپنے منزل تک پہنچ چکے تھے۔ شاکر نے اسے رکنے کا کہتے ہوئے اتر گیا اور بندوق نثار کو دیکر خود بائیک پر بیٹھ گیا اندھیری گلی میں دونوں اپنے چہرے پر نقاب لگانے لگے ۔ اب ان دونوں کے صرف آنکھیں ہی نظر آرہے تھے اور ان آنکھوں میں انتقام کی آگ۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ وہ دو نو جوان نہیں ہیں جو ابھی کچھ پل پہلے مزاق کر رہے تھے اس چادر سے چہرہ چھپانے کے بعد کا منظر ہی کچھ اور تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کے ہاتھ میں تھمی بندوق کی گرمی ان کے جسموں تک میں اتر گئی تھی اب یہ باقی تمام دنیا سے الگ تھے ، اب یہ عام نہیں بلکہ جہد آجو کے سرمچار تھے۔ بائیک دوبارہ رواں ہوا تو شاکر نے اسے اگلے گلی میں موجود فوج کے ہونے کا خبر دیا ۔ وہ ایک ہجوم کے سامنے سے گزرے یہاں بہت سارے دکانیں تھیں لوگوں کا رش لگا ہوا تھا۔ جو بھی آنکھ انہیں دیکھتا بس انہی پہ ٹہر جاتا مگر مجال تھی کہ کوئی ان کی طرف بڑھے یا آواز لگائے۔ اب جب یہ دونوں اس مکمل دنیا سے الگ تھے تو انہیں ہر ایک پر نظر رکھنی تھی۔ گلی میں بائیں مڑ کر دونوں اپنے مقررہ جگہ پر پہنچ گئے جو انہوں نے پہلے سے ہی طے کیا تھا۔ یہاں سے حملہ کرنے کا فائدہ ہی یہی تھا کہ یہاں سے دشمن صاف نظر آرہاتھااور تم اسے یہاں اندھیرا ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آتے اگر دشمن آواز کا اندازہ لگاتے ہوئے اس طرف فائر بھی کرتا تو سنسانی کی وجہ سے کسی عام بلوچ کو نقصان نہیں ہوتا۔ نثار بائیک سے اتر کر اب کونے کو جاتی دیوار کے عقب میں پوزیشن سنبھالتے ہوئے چوک کا جائزہ لینے لگا۔ چوک پر چکاچوندروشنی تھی چوک کے بیچو بیچ ایف۔سی کی گاڑی کھڑی تھی آتے جاتے لوگ اس سے ذ را پرے ہو کر چل رہے تھے گاڈی کے ساتھ لگے کرسی پر ایک ایف سی اہلکار جس نے داڑھی شیو کی ہوئی تھی سر پر فوجی کیپ رکھا تھااور ہاتھ میں کالے رنگ کا امریکی پسٹل لیئے تھا وہ وہاں موجود اہلکاروں کا افسر تھا اس کے دا ہیں طرف نثار سے کچھ فاصلے پر ایک اور اہلکار جس کا پشت نثار کے جانب تھا اس اہلکار کے بلکل سامنے روڈ کے دوسری جانب تین اور اہلکار کھڑے تھے جن میں سے ایک اپنے فوجی پوزیشن میں بندوق تھاما ہوا تھا اور باقی دو اس طرف آنے والے پیدل و سوار لوگوں کا جامہ تلاشی لے رہے تھے۔ نثار کا ٹارگٹ اس کرسی پر آرام سے بیٹھا تھا جس کا مکمل سینہ نثار کو با آسانی نظر آرہا تھا۔ نثار نے بھی وقت ضائع کیے بغیر بندوق کاندھے سے لگا کر نشانہ اس کرسی پر بیٹھے افسر کے سینے پہ لے لیا ،نثار کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا مگر اس میں ڈر ذرہ برابر بھی نہیں تھا وہ اپنے دل کی دھڑکنوں کو قابو میں لانے کے لئے لمبی لمبی سانسیں آہستہ آہستہ لے رہا تھا۔ نثار اپنی انگلی ٹرگر پہ رکھ کر بالکل دم سادھے اپنا توجہ ٹارگٹ پر مرکوز کرنے لگا ۔اس نے اپنے سانس کو مکمل روکے رکھ کر ٹریگر کو آہستہ سے پیچھے کھینچا یہاں بندوق کے زور دار آواز کے ساتھ ایک ہی فائر ہوئی وہاں کرسی پہ بیٹھا افسر کرسی سمت پیٹ کے بل زمین پر خون سے لت پت گر پڑا۔ گولی افسر کے دل کو چیرتا ہوا نکل گیا تھا۔ نثار واپس شاکر کے طرف مڑا وہاں سے باقی سپاہیوں نے اسی جانب جوابی فاہر کھول دیا نثار کے بائیک پہ بیٹھتے ہی شاکر تیزرفتاری سے بائیک چلاتے ہوئے گلی کے نکڑ تک پہنچ گیا جہاں لوگوں کا ہجوم یہاں وہاں بھاگ رہا تھا انہیں ہٹانے کی خاطر نثار اور شاکر نے بی ایل اے کا نعرہ لگانا شروع کیا جس کی وجہ سے لوگ ادھر اُدھر ہٹ کر انہیں راستہ دینے لگے۔ لوگوں کے بیچ سے وہ دونوں نکل کر جب دور آپہنچے تو موقع دیکھ کر اپنا اپنا نقاب اتار کر پھر سے اس دنیا کے لوگوں میں شمار ہوگئے۔ نثار شاکر کو گھر چھوڑ کر اب اپنے گھر کو پہنچا ہی تھا کہ ماں نے اس کا استقبال ڈانٹ سے کیاکہ اس وقت کیوں نکل جاتے ہو معلوم نہیں کہ حالت خراب ہیں۔ تمارے چائے کپ میں پڑی پڑی ٹھنڈی ہوگئی جلدی آنے کا کہا تھا نا تم نے؟نثار نہایت معصومیت سے اما جان کی طرف مسکراتے ہوئے بولنے لگا’’ امی دوست کے ہاں چلا گیاتھا باتوں باتوں میں دیر ہو گئی پتہ ہی نہیں چلا‘‘۔ نثار اپنی ماں کے ہاتھوں سے چائے کا کپ لیکر پینے لگا جو اب پانی کی طرح ٹھنڈی ہوگی تھی مگر اسے پروا نہیں تھا اس کے لیئے یہی کافی تھا کہ یہ چائے ماں نے اسکیلئے لے رکھی تھی۔ اس نے ایک گھونٹ پیا ہی تھا کہ ماں بولی ’’ پاگل یہ کیوں پی رہے ہو میں تمہارے لیئے دوبارہ چائے بنانے جارہی ہوں،تم جب تک منہ ہاتھ دھو لو‘‘اماں نثار کہ ہاتھوں سے کپ لیکر چلی گئی اور نثار اسے مسرت بھرے نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ جب نثار منہ ہاتھ دھو کر کمرے میں داخل ہوا تو اس کے ساتھ ہی اس کی امی بھی ہاتھ میں چائے کا کپ لئے اس کے کمرے کے دروازے کو دھکا لگاتے ہوئے اس سے مخاطب ہوئی ’’ نثار سچ بتاو کہاں تھے تم‘‘۔ نثار پیچھے مڑ کر ماں کو خود سے مخاطب دیکھ کر دوبارہ آہینہ کی طرف رخ کیئے اپنے بال سنوارتے ہوئے کہنے لگا ’’ بتایا نا اماں دوست کے یہاں چلا گیا تھا‘‘۔ مگر ماں کے دل کو تسلی نہیں ہوئی پھر سے التجا کرنے لگی’’ میری طرف دیکھو نثار زیبا سچ سچ بتاو کہاں تھے میں نے آزمایا ہے کہ جب بھی تم اس طرح جلدی جلدی میں باہر جاتے ہو یا تو کوئی دھماکا ہوجاتا ہے یا پھر کسی کو مار دیا جاتا ہے‘‘۔ نثار کو لگ رہا تھا کہ اس کا راز پکڑا گیا۔اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کی ماں اس پر نظر رکھ رہی ہوگی۔ وہ سمجھتا تھا کہ اسے معلوم پڑنے سے وہ کسی کو بھی نہیں بتائیگی مگر پھر بھی راز راز نہیں رہے گا۔ نثار ماں کو سچ بتا نہیں سکتا تھا اس لیئے اس نے مسکراتے ہوئے مڑ کر اماں کے طرف بڑھتے ہوئے اسکے بازو پکڑتے ہوئے اسے داہیں طرف پلنگ پیر بیٹھاکر چائے کا کپ اس کے ہاتھ سے لے لیا اور حسرت بھری آنکھوں سے ماں کو دیکھتے ہوئے بولا’’ ماں آپ کو مجھ پر بھروسہ ہے؟‘‘ جواب میں ماں نے بھی ہاں میں سر ہلایا۔ نثار پھر سے کہنے لگا’’ تو بس بھروسہ رکھواماں میں ایسا کچھ نہیں کرونگا جو مجھے نہیں کرنا چاہیئے، میں کچھ بھی غلط نہیں کرونگا جس سے آپ اور ابا جان کو شرمندگی اٹھانی پڑے، میں وہی کرونگا جو صحیح ہے، اماں میں آپ سے جھوٹ بول نہیں سکتا اور سچ یہ ہے کہ میں کچھ بھی غلط نہیں کر رہااور آپ بھی وعدہ کرو کہ آج کہ بعد یہ بات کسی کو نہیں کہوگی جو آپ نے مجھ سے ابھی کہی‘‘۔ اسکی باتیں سن کر اپنے بھیگے آنکھوں کے ساتھ اسکی امی بولنے لگی ’’ اچھا بیٹا کسی سے نہیں کہونگی۔‘‘ اگلے روز جب وہ کالج پہنچا تو ہاتھ میں اخبار لیئے کچھ نوجوان اسے کل کا خبر پڑھ کر اس پر تذکرہ کر تے ہوئے نظر آئے۔ نثار ان کے ہاتھ سے اخبار لیکر اس خبر کو پڑھنے لگا جہاں شہہ سرخیوں میں لکھا تھا کہ بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیہند بلوچ نے ایف سی کے افسر کو ہلاک کرنے کی زمہ داری قبول کرتے ہوئے کہاہے کہ ہماری اس طرح کی کاروائیاں بلوچستان کی آزادی تک جاری رہینگی‘‘۔نثار اخبار پڑھ ہی رہا تھاکہ ساتھ میں کھڑے نوجوانوں میں سے ایک کہنے لگا میں نے کل یہ کاروائی کرنے والے لوگوں کو دیکھا تھا ‘‘ نثار چونکتے ہوئے اسے دیکھنے لگا اور وہ بولے جا رہا تھا۔’’وہ بائیک پر آئے تین لوگ تھے ان میں سے دو اتر کر ایف سی اہلکار کو للکار نے لگے جب اس اہلکار نے مڑ کر دیکھا تو انہوں نے فاہر کھول دیا۔ اور پھر وہاں کھڑے ہوکر بی ایل اے کا نعرا لگانے لگے نثار اس کی باتوں پہ دل ہی دل میں ہنسنے لگا اب وہ جان گیا کہ یہ نوجوان کیوں یہ کہہ رہا تھا۔ یہاں موجود ایک اور اپنے جذبات کا اسطرح اظہار کر رہا تھا ’’سلام ہیں ان سرمچاروں کو یار کس تیزی سے آکر نکل جاتے ہیں جیسے آسمانی بجلی چمک کر غائب ہو جائے‘‘۔ یہاں کھڑے ہر ایک نوجوان اپنے ان جانبازوں کو مختلف ا لقابات سے نواز رہا تھالیکن ان میں سے کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ جسے بجلی کی چمک سمجھ رہے ہیں وہ خود ان جیسا ان کے بیچ میں موجود ہے۔بس فرق اس کمٹمنٹ اس فیصلے کی ہیں جو اس نے کی ہوئی ہیں اور یہ اس کے متعلق بس سوچ رہے ہیں۔

جب نثار کلاس میں موجود تھا تو بار بار دروازے سے باہر جھانک رہا تھا ہر بار جھانک کر وہ مایوسی سے سر نیچے کر کے ڈیسک کو دیکھتا اور پھر کچھ دیر بعد واپس باہر جھانک کر مایوس ہوتا۔ کلاس میں استاد اور اسٹوڈنٹ دوست بن کر مستی مزاق میں لگے ہوئے تھے۔کلاس کا حال فٹبال گراونڈ لگ رہا تھا۔ نثار کو اچانک باہر سے ایک جانی پہچانی آواز اپنے سماعتوں سے ٹکراتی محسوس ہوئی ، ہاں وہ سارہ تھی جیسے ہی وہ کلاس سے باہر نکل کر دیکھنے لگا تو اسکی نظر سارہ پر پڑی اور اسکے چہرے کی رونق واپس لوٹ آگئی۔ سارہ کے ساتھ اسکی سہیلی کالج کے گارڈن میں ٹہل رہی تھی، سارہ نہایت خوبصورت حسین لڑکی تھی بلوچی لباس زیب تن کیئے ہوئے ، سر پر چادر آنکھوں پر نظر کا چشمہ اور ہاتھوں میں کتابیں لئے کھڑی نثار کو اپنے جانب آتے دیکھ کر ہی مخالف سمت میں اپنے سہیلی کے ساتھ چلنے لگی نثار اسے پکارنے لگا مگر سارہ اسکے آواز کو سنی ان سنی کر رہی تھی۔ نثار تیزی سے ان کی جانب بڑ ھ کر اس کے پاس پہنچا اور سارہ کو اپنے جانب متوجہ کرنے کیلئے زور سے بولا ’’سارہ مجھے بات کرنی ہے‘‘۔ یہ سن کر سارہ بھی رک کر پیچھے مڑی نثار اسے معصومانہ نظروں سے خاموش دیکھ رہا تھا۔ سارہ اپنی سہیلی کی طرف دیکھنے لگی تو وہ انہیں اکیلا چھوڑ کر چلی گئی۔سارہ ہاتھ باندھے خاموشی سے نثار کی طرف دیکھ کر اسکے بولنے کا انتظار کر رہی تھی۔ نثار اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگا’’ ناراض ہو ؟‘‘ سارہ اسے تکتے ہوئے کہنے لگی کچھ اور کہنا ہے ؟ نثار فٹ سے بولنے لگا’’ایم سوری میں بہت مصروف تھا‘‘ تو میں کیا کروں؟؟؟ سارہ اس کے بات کو کاٹتے ہوئے، میں آنے ہی والا تھا بس کچھ کام میں، آئے تو نہیں نا اس سے پھلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ میں بلاوں اور تم نہ آو کیا کام تھا جو اتنا ضروری ٹہرا؟ سارہ کو کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ اب وہ پہلے والا نثار نہیں رہا اب اس کے سامنے سب سے اہم ایک عظیم مقصد تھا جس کے لئے وطن اول وطن آخر تھا۔ مگر وہ سارہ کو بھی کھونا نہیں چاہتا تھا اسے معلوم تھا کہ کل رات سارہ کو کتنا برا لگا ہوگا۔ وہ اپنے اس بچپن کے دوست کو کسی بھی حال میں کھونا نہیں چاہتا تھا۔ اس کے پاس الفاظ نہیں تھے۔ وہ بس اتنا کہہ سکا کہ اگر وہ آسکتا تو ضرور آتا۔ مگر سارہ اسے خاموش دیکھتی رہی۔نثار اس گفتگوگو کو ختم کرنے کے لئے سر کھجاتے ہوئے مڑ کر کہا چلو کینٹین میں بیٹھتے ہیں۔ سارہ چلنے سے پہلے نثار کو وعدہ کرنے کو کہا کہ آج کہ بعد ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ اچھا بابا وعدہ بس، نثا ر ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے بولنے لگا۔بس یہی سننا تھا کہ سارہ کی ناراضگی پَل بھر میں ختم ہوگئی اور وہ دونوں مسکراتے ہوئے چل پڑے۔ سورج سیاہ چادر اوڑھ رہی تھی ہر طرف اندھیرا چھارہا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا موسم کو اور بھی خوشگوار بنا رہا تھا، پرندے واپس اپنے آشیانے کو لوٹ رہے تھے ۔ مغرب کی آزان کے ساتھ ہی نثار کے مبائل پے رنگ بجی یہ آواز باقی نمبر پے بجنے والی آواز سے مختلف تھی نثار بغیر دیکھے مبائل کان پہ لگاتے ہی بول پڑا’’جی زوہب سنگت۔ اچھا ، ابھی ، ٹھیک سنگت میں پہنچتا ہوں‘‘۔ اس کا بائیک باہر ہی کھڑا تھا سوار ہو کر ایک گھرکے پاس پہنچا گھر کے دائیں جانب سے مہماں خانے کا دروازہ کھلا اندر سے ایک خوبرو نوجواں سرخ گول اور صاف چہرہ ، بال پیچھے کی جانب لگائے ، سرخ لال آنکھیں، پتلی لمبی ناک مسکراتے ہوئے بڑی خوشی سے نثار کے جانب بڑھا نثار بھی جلدی سے بائیک اسٹیند پر لگاتے ہوئے اس سے پرجوش انداز میں بغل گیر ہوکر کب آئے یار۔ صبح ہی پہنچاْ زوہیب گرجدار آواز میں ۔ یہ دونوں اندر داخل ہوئے یہاں پہلے سے زوہیب نے چائے کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ بلوچی حال حوال کہ بعد نثار اس سے اس کے ٹوور کے متعلق پوچھنے لگا یہاں وہاں کی باتیں کرنے لگا مگر زوہب چونکہ کم گو انساں تھا تو یہ باتیں بھی ہاں ناں میں ہی ختم ہوگئیں۔ نثار نے اس سے یہاں اس وقت بلانے کی وجہ پوچھا تو اس نے بتایا کہ اسے کچھ ٹارگٹ ملے ہیں جن کے متعلق حکمت عملی بنانی ہیں۔ اس نے نثار کو بتایا کہ اس بار ۴۱ اگست کو دشمن ریاست اپنے آزادی کے دن کو خوب پر جوش طریقہ سے منانے کے متعلق سوچ رہا ہے آج آتے ہوئے اس نے کچھ لوگوں کو باتیں کرتے سنا تھا کہ ریسٹ ھاوس، تھانہ، پریس کلب اور کچھ جگہوں پر۴۱ اگست منانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ یہ حساس جگہیں ہیں، جہاں اس تاریخ سے ۳ یا ۴ دن پہلے سیکورٹی لگادی جائے گی۔نثار جو اس کے باتوں کو غور سے سن رہا تھا نے اس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا’’ اور جہاں دشمن تیار کھڑا ہو وہاں پر حملہ نہیں کرنا چایئے یہ تم ہی کہتے تھے‘‘۔زوہب مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔نثار پھر سے’’ تو ہمیں ایسا کچھ کرنا ہوگا کہ ان تمام جگہوں پہ پروگرام رک جائیں، تو بتاوٗکہاں سے شروع کرنا ہے‘‘۔ زوہب نے نثار کو بتایا کہ اب تک اس دن میں باقی دس دن رہتے ہیں۔ میں نے ایک بجلی کا ٹاور دیکھا ہے جو شہر کے باہر آبادی میں ہے، آج ہی میں وہاں کا چکر لگا کے آرہا ہوں جہاں تک میرا خیال ہیں۔ اس ٹاور کے گر جانے سے بجلی دس یا بارہ دنوں کے لئے تو بند رہے گی جس سے ریسٹ ھاوس کے علاوہ باقی تمام جگہوں پر لائیٹ نہیں ہوگی جب لائیٹ نہیں ہوگی تو جشن کیسا۔ریسٹ ھاوس میں جنرنیٹر جلایا جائے گا تو پھر اس دن اسی ایک جگہ پہ ہم آسانی سے حملہ کر سکتے ہیں‘‘۔ نثار اسکی باتیں غور سے سن رہا تھا ’’اچھا وہ تو صحیح مگر اس ٹاور کا کیا پلان ہے‘‘۔ نثار زوہیب کو گھورتے ہوئے پوچھنے لگا‘‘۔ زوہب ہاتھ کی انگلیاں سے زمین پر لکیرے کھینچتے ہوئے اسے سمجھانے لگتا ہے’’ یہاں مسجد کہ ساتھ روڈ ہے اور روڈ کے اسطرف بجلی کی ٹاور ہے۔ اس کے ساتھ ہی تینوں اطراف گھر بنے ہوئے ہیں یہاں خالی جگہ بس یہی روڈ ہے جو مسجد اور ٹارو کے بیچ میں آتا ہے، اس ٹاور کی خوبی یہ ہے کہ اس کے مرمت کے غرض سے راستہ تنگ ہونے کی وجہ سے بڑی مشینیں اندر نہیں آسکتی ہیں، اس لے اس کے تیار ہونے میں وقت لگے گا‘‘۔ زوہیب اسکی باتیں غور سے سن رہا تھا۔’’ یہاں ہمیں‘‘ زوہیب کچھ کہنے ہی والا تھا کہ خاموش ہو گیا اس کے موبائل پے رنگ کے ساتھ ہی مہمان خانے پر دستک ہوا۔نثار کچھ گبھراگیا کہ اس وقت کون ہو سکتا ہے۔ مگر زوہیب نے اسے بتایا کہ اس نے باقی دو دوست جبران اور شاکر کو بھی بلایا ہے، وہی ہونگے زوہیب نے دروازہ کھولا تو باہر شاکر منہ لٹکائے کھڑا تھا۔ تھکان سے چور اندر داخل ہوکر جب اس کی نظر نثار پہ پڑی تو اس نے پاس پڑے تکیے کو اٹھا کر زور سے نثار کو دے مارا’’ کھاں تھے تم کب سے نمبر ڈائل کر رہا ہوں ، تمہارا موبائل بند جا رہا ہے، شاکر اسے ڈانٹتے ہی جا رہا تھا۔کہ دیکھو کہاں سے پیدل آرہا ہوں دیکھو کس طرح ہانپ رہا ہے۔ ایک ہی بائیک ہے وہ بھی تمارے پاس‘‘۔ نثار اس کے درد کو سمجھ گیا او رزور سے ہنسنے لگا،نثار نے اپنا مبائل دیکھا تو واقعی میں بند تھا زوہیب ہنس کر شاکر کو گلے لگاتے ہوئے کہنے لگا کہ غصہ مت کر یار آو بیٹھ جاو اب، اور یہ جبران ابھی تک کیوں نہیں آیا ہے۔وہ تینوں وہیں بیٹھ گئے اور اپنے پلان پے پھر سے بات شروع کر دی زوہب نے انہیں بتایا کہ یہاں ہمیں دو راستوں کا خیال کرنا ہوگا جہاں سے دشمن اندر آسکتا ہے۔ ہمیں ہر ایک راستے پہ ایک ایک دوست سیکوٹی پر لگانا ہے اب آپ دوست کیا کہتے ہو؟۔شاکر جو چائے پی رہا تھا کپ نیچے رکھ کر ان دونوں کو حیرت سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا’’یار میں اس پلان کے تحت تو ان گھر والوں کو مکمل رسک میں دیکھ رہا ہوں، یہاں ٹاور کے گرنے سے گھروں کو نقصان ہو سکتا ہے اور ہم کسی بے گناہ کو نقصان نہیں دے سکتے‘‘۔ زوہب نے اس پہلو پر غور نہیں کیا تھا۔ وہ نثار کی جانب دیکھتے ہوئے اسکے رائے کا انتظار کرنے لگا ، نثار تھوڑے توقف کے بعد بولنے لگا’’ ایسا کچھ نہیں ہوگایہ ٹاور گلی میں ہی گرایا جائے گا‘‘ لیکن وہ کیسے؟ ہم میں سے کون اتنا ماسٹر مائینڈ ہے۔ یہ ہم نہیں کر سکتے باقی آپ دونوں کا جو فیصلہ‘‘ شاکر قدرے تیز لہجے میں بولنے لگا۔نثار پھر بھی اسی بات پے اڑا رہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا ٹاور گھروں پر نہیں گریگا ۔زوہب بنا سوچے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے نثار کی تائید کرتے ہوئے کہنے لگا’’ کچھ نہیں ہوگا نثار ٹھیک کہہ رہا ہے‘‘۔ زوہب کے موبائل پے پھر سے گھنٹی بجی اس بار جبران کا فون تھا وہ باہر کھڑا تھا زوہب نے دروازہ کھولا باقی بیٹے دونوں دوست کھڑے ہوگئے باہر سے کمرے میں ایک جاندار، برزقد، داڑی شیو ،بدن پر ان تینوں سے زیادہ خوبصورت اور مہنگے کپڑے زیب تین کیئے ہوئے اور پیروں میں قیمتی جوتے پہنے نوجواں اندر داخل ہوا نثار اور شاکر اس سے بغل گیر ہو کر پر جوش طریقہ سے ملے جبران ان تینوں میں سے زیادہ پڑا لکھا اور امیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس میں ایک منفی عادت تھی کہ وہ اس نظریاتی دوستی میں ان مہروان دوستون کو کبھی اپنا ہمسر نہیں سمجھتا تھا۔ یہ بات باقی تینوں جانتے تھے مگر کبھی اس بات کو خود پر اثر انداز ہونے نہیں دیتے تھے۔ چاروں بیٹھنے کے بعد بلوچی حال حوال میں لگ گئے ، حوال شروع ہوا مگر جس طرز سے نثار اور شاکر نے بلوچی حال احوال زوہیب کے ساتھ کیا تھا ان سے جبران کا لہجہ مختلف تھا اس کا منہ لٹکا ہوا ہر بات کا منہ بنا کے مختصر جواب دینے لگا۔ دوستوں نے زیادہ حال احوال سے گریز کرتے ہوئے اس کے اس حالت کی وجہ پوچھی۔ جبران نے انہیں جواب دیا کہ ’’ تم سب جانتے ہوئے میرے حالات خراب ہیں لیکن تم سب لوگ اسکے باوجود بیہودہ مزاق کررہے ہو‘‘ ۔تینوں دوستوں کو اس رویے پر زیادہ حیرانگی نہیں ہوئی کیوں کہ انہیں جبران سے ہر بار ایسی ہی امید تھی۔ مگر آج اس طرز گفتگو کی وجہ معلوم نہیں تھا۔ جبران دوبارہ ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہنے لگا ’’ کیا تمھیں معلوم نہیں کہ میرے گھر خفیہ اہلکار آئے تھے؟ میں نے آپ لوگوں کو بتایا تھا نہ کہ میرا ایک رشتہ دار جو شال میں رہتا ہے ، مجھے اطلاع دی تھی کہ میرا نام خفیہ اداروں کے لسٹ میں ہے، میں نے دوستوں کو بھی اطلاع دی تھی کہ میرے متعلق فیصلہ کریں مگر ہر کسی کو اپنی پڑی ہے۔‘‘ جبران بولے ہی جا رہا تھا اس نے یہاں تک کہا کہ کیمپ کے دوستوں نے مجھے کیمپ آنے کو کہا ہے۔ مگر میں نے انہیں بھی بتادیا کہ کیمپ میرے لیئے محفوض نہیں میں وہاں نہیں آسکتا پچھلے دفعہ جب میں آیا تھا تو تب کی مخبری بھی کیمپ سے ہوئی تھی سرکاری اہلکاروں کو یہاں تک معلوم ہے کہ میں کیمپ گیا ہوں وہاں کوئی میرا مخبری کر رہا ہے ،میں وہاں نہیں جا سکتا۔ جبران بولے ہی جا رہا تھا باقی تینوں دوست حیرانگی سے جبران کی باتوں کو سن رہے تھے نثار اور شاکر اس سے بہ خوبی واقف تھے مگر اس وقت صرف زوہب کو اسکی باتیں ناگوار گزر رہے تھے زوہیب جو اس کے لہجے سے نا واقف تھا کہنے لگا ’’سنگت ہم یہی ہیں ہمارا کام ہمارا مقصد ہمارا راستہ یہی ہے، جتنے وقت شہر میں کام کر سکتے ہو رہو جب پہچانے گئے تو ایک ہی راستہ پہاڑوں کا ہے اور ہم یا آپ پہلے شخص نہیں ہیں کہ جس پر یہ دن آئے ہیں ہم سے پہلے کے دوست بھی اسی پر عمل کر کے آج پہاڑوں میں بیٹھے ہیں اور اپنے وطن کے دفاع کو تیار ہیں اس میں اس طرح پریشانی کی کیا بات؟‘‘۔جبران ہنستے ہوئے اسکے طرف دیکھ کر بولنے لگا ’’ ان کے پاس دوسرا آپشن نہیں تھا، وہ باہر ملک نہیں جا سکتے تھے مگر میرے پاس ہے؟‘‘۔ اب زوہیب کے علاوہ باقی دونوں دوست سمجھ گئے تھے کہ جبران کا یہ تلخ اور گندا لہجہ صرف اس لئے ہے کہ ہم میں سے کوئی جزباتی ہو کر کچھ کہے اور یہ اٹھ کر چلا جائے۔ یہ جانتے تھے کہ جبران نے اپنا فیصلہ کیا ہوا ہے بس خاموش اس لیئے تھے کہ زوہب اب تک جبران کے اس چہرے کو پہچان نہیں پایا تھا۔ بس دونوں یہی چاہتے تھے کہ زوہیب کے جوابات خود جبران دے۔ اسی لیئے وہ خاموشی سے سن رہے تھے اور جبران کہے جا رہا تھا’’سنگت آپ لوگوں کی قربانی سر آنکھوں پر مگر میرے گھر میں ماں ہے، چھوٹا بھائی ہے اور تو اور میرے والد کو دل کا دورہ بھی پڑا ہے، میں انہیں چھوڑ کے نہیں جا سکتا‘‘۔کمرے میں خاموشی طاری ہوئی چاروں اب زمیں کو گھور رہے تھے کوئی کچھ نہیں بول رہا تھا زوہیب جو ان میں کم گو معصوم سا تھا کو بس ایک بات کھائے جا رئی تھی کہ جبران جو اتنی بڑی باتیں کرتا تھا ، جو اپنے باتوں سے اس کمزور جنگ کو چاند پہ پہنچا دیتا تھا۔ یہ سب کیا جھوٹ خیالی باتیں،فریب تھے۔ اصل میں تو اس شخص کا جنگ تو کیا تحریک سے بھی کوئی واسطہ نہیں رہا ہے۔ آج اس کے لیئے مادر وطن کی آزادی، دوستوں کی قربانی، ماوں کے آنسووں، بھائیوں کے لاشیں صرف اس لیئے بے معنی ہو گئے ہیں کیونکہ آج اس کے گھر کو اس کی ضرورت ہے۔ کیا ان کے گھر نہیں تھے جو شہر،پہاڑ،زندان اور ویرانے میں جان دے کر قربان ہو گئے؟ زوہیب ان سارے باتوں کے ہر پہلو پے سوچ رہا تھا اورایک گہرے خیال میں چلا جا رہا تھا۔ جبران اپنا موبائل ہاتھ میں لیکر دیکھتے ہوئے کہنے لگا ’’مجھے گھر سے فون آرہا ہے میں اب گھر جارہا ہوں‘‘۔ شاکر اس کا مزاق اڑاتے ہوئے کہنے لگا مگر بیل تو نہیں بجی مبائل کی؟ اب ان تینوں میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا۔ جبران یہ دیکھ کر اپنے جوتے باند ھتے ہوئے طنزیہ ہنس کر کہنے لگا ’’جب میں آیا تھا توتب کیوں کھڑے ہوئے؟‘‘ نثار کچھ نہیں کہنا چاہتاتھا زوہب اپنے خیالوں میں گم تھا۔ اس بار پھر سے شاکر نے جبران کو ٹوکتے ہوئے بولنے لگا ’’ جو اندر آیا تھا وہ ہمارا دوست تھااور جو جارہا ہے وہ اجنبی ہے‘‘۔ جبران کے جانے کے بعد شاکر ان دونوں کو دیکھتے ہوئے بولنے لگا ’’یار اب بس بھی کرو کیا منہ لٹکائے بیٹھے ہو‘‘۔زوہب شاکر پر غصہ کرتے ہوئے یار آپ کیوں اس طرح ہو کیوں مزاق میں لیتے ہو ہر بات ہمارا ایک ساتھی چلا گیا ہے آپ مزاق میں لگے ہو وہ ہمارا دوست تھا‘‘ لیکن نثار زوہیب کے باتوں کو کاٹتے ہوئے بولنے لگا ’’ نہیں وہ نہیں تھا ، ہاں وہ ہمارا دوست تھا ہی نہیں وہ کبھی ہم میں سے نہیں تھا ، اس کے وہ بلند و بانگ دعوے ، وہ باتیں سب دِکھاوا تھے ۔ اس نے اس جنگ کو اس حد تک قبول کیا تھا کہ جہاں تک اس کا من کررہا تھا ، وہ جنگ کو اپنے ضرورت کے مطابق مانتا تھا ، جب تک اسکا تعلیم یہاں تھا تو اسے کسی سے خطرہ نہیں تھا ، اب جب اسکا تعلیم یہاں ختم ہوگیا تو اتنے سارے مسئلے پیش کرکے جانا چاہتا ہے ، جس کو جانا ہے اسے جانے دو‘‘۔ نثار کی باتوں کو سن کر زوہیب نے سوالوں کا ایک تانتا باندھ دیا لیکن سنگت ، دوبارہ سے ازسر نو جنگ ، نئی حکمت عملی ، نئے چیلنجز ، نئے طریقے ، دشمن کی ہر جگہ موجودگی ، مخبروں کا بھرمار ، کم وقت اور زیادہ کام یہ سب آخر دوستوں کے بغیر کیسے پورا ہوگا‘‘؟ نثار اسے غور سے دیکھنے کے بعد بولنے لگا ’’ سنگت یہ جنگ مجید ، امیر اور سمیع کے جانے سے نہیں رکا تو پھر چند لغوروں کی وجہ سے بھی بھی نہیں رکے گا، میں اپنے سے دگنا ذمہ داری اٹھانے کو تیار ہوں اب محض ہم تین ہی اس کام کو سر انجام دیں گے کسی کو اعتراض ہو تو بتائے؟‘‘ کسی نے بھی بات نہیں کی یہاں موجود تینوں کو اس کام کی اہمیت کا اندازہ تھا اس لیئے انکار کی کنجاہش نہیں تھی۔ اب کل شام کا وقت مقرر ہوا اس کام کے لے جس کے لیئے زوہب اور نثار کو بارود تیار کرنے کا فیصلہ ہوا اور سب اٹھ کر اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ اگلے روز مقررہ وقت پر نثار زوہیب کے گھر پہنچا وہ ایک خالی مکان میں داخل ہوئے یہاں ایک ہی کمرا تھا جس پرتالا لگا ہوا تھا۔ زوہب ، نثار کو کمرے کا چابی تھما کر خود پانی لانے کو نکل گیا۔ نثار آگے بڑھ کر کمرے کا تالا کھولنے لگا تو اندر سے بارود کی تیز بدبو اسے باہر دھکیلنے لگی اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ مردہ جانوروں کے ڈھیر پر کھڑا ہو۔ اس کا دم گھٹنے لگا اور سر چکرانا شروع کر دیا۔ نثار نے اپنا آستین منہ اور ناک پررکھتے ہوئے بارود سے بھرے بوری کو باہر کھینچنے لگا وہ کمرے کے دروازے تک آیا ہی تھا کہ اس کے مبائل پر سارہ کے نمبر سے کال آنے لگی۔وہ اس وقت تو ہر گز سارہ سے بات کرنا نہیں چاھتا تھا، اس نے فون بند کرنے کا سوچا مگر سارہ سے بھی بہ خوبی واقف تھا کہ جب تک اس سے بات نہیں ہوگی مبائل کا جان آزاد نہیں ہونے والا اس نے بوری کمرے کے دروازے پے ہی چھوڑ کر فون اٹینڈ کیا۔ سارہ نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا’’ میر صاحب آج آپ جناب کا نہ ہی مسکال نہ ہی میسج آیا ہے ، مصروف ہو کیا‘‘۔ نثار مڑ کر خود کو مصروف رکھنے والے بوری کی طرف دیکھنے لگا کل سے اسے یہ یاد ہی نہیں رہا کہ سارہ سے کچھ پل بات کر لے۔ اس نے جھوٹی کہانی بنانے کی خاطر سارہ سے کہا’’ دراصل آج صبح سے میرے سر میں کافی درد اور جسم میں بخار تھا‘‘۔سارہ یہ سن کر ہمدردانہ لہجے میں کہنے لگی’’ تو ٹیبلٹ کیوں نہیں لی؟‘‘ ابھی لی ہے بس تھوڑی دیر کمبل اوڑھ کے آرام کر لوں تو آپ سے بات کرتا ہوں او کے سارہ کو بھی نثار کا بے حد خیال تھا اس نے اسے آرام کرنے دیا اور اچھا جی کہہ کر فون بند کر دیا۔ اب شاکر پانی لیکر آیا تھا دونوں نے بارودوں کو ایک ڈبے میں بھر کر اس سے کچھ تاریں جوڑنے کے بعد شاکر کو فون کر کے آنے کا کہہ کر نکل گئے۔شاکر جو اس وقت تک شہر کی مختلف سڑکوں کا جائزہ لے رہا تھا نے ان کے ہاں پہنچ کر انہیں شہر کے سڑکوں پر سیکورٹی کی اطلاع دی۔ یہ بھی کھا کہ آج سے ہر چوک سڑک پر ۴۱ اگست تک سیکورٹی رہے گی۔ اب چونکہ یہاں سے ٹاور تک ؂ لیجانے کا کام جبران کا تھا تو وہ اس وقت ان میں سے نہیں تھا۔اس کام کو شاکر انجام دے رہا تھا۔شاکر نے مکمل سیکورٹی کو چیک کر کے ایک راستے کا انتخاب کیا تھا۔ مگر اسے اب خوف تھا تو اس گشتی گاڑی کا جو شہر کے مختلف جگہوں پر گشت کر رہا تھا۔ اب انہیں سنبھل کر یہاں سے اس پوائینٹ تک تین کلومیٹر شہر کے بیچ سے اس جگہ تک جانا تھا۔ طے یہ ہوا کہ شاکر ان کے آگے آگے اس راستے پر چلے گا جو اس نے چنا ہے اور زوہیب بائیک چلائے گا جس پر نثار اس کے ساتھ ہوگا جوں ہی کچھ خطرہ لگے شاکر انہیں اشارہ کرکے نکل جائے گا۔یہ طے کرتے ہی وہ نکل گئے۔ شاکر ان سے کچھ فاصلے پر چل رہا تھا زوہب کی نظریں شاکر سے نہیں ہٹ رہے تھے جب کہ نثار داہیں بائیں گلیوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ وہ اندھیرے گلیوں سے گزر کر ایک نالے کے قریب پہنچے یہاں ایک آخری چوکی کا خطرہ تھا۔ جس کے موجود گی کا اندازہ انہیں شک کی حد تک تھا۔ یہاں سڑک کے دونوں اطراف گھنے جھاڑیاں تھے۔ اور آگے جا کر یہ سڑک دائیں مڑتا تھا اس بیچ اور کوئی راستہ نہیں تھا شاکر اس موڑ تک پہنچا اسے جس پوانٹ کا خطرہ تھا یہاں کوئی نہیں تھا۔ اس نے آگے بڑھنے کا سوچا نثار اور شاکر اس کے پیچھے پیچھے آرہے تھے۔ اگلے ہی لمحے تھوڑے فاصلے پر سرکاری پولیس کی ایک گاڑی نمودار ہوئی جس نے شاکر کو رکنے کا اشارہ کیا، اشارہ اتنے نزدیک سے کیا کہ شاکر کو موقعہ تک نہیں ملا کہ وہ اپنے دوستوں کو خبردار کر دے شاکر ان کے قریب رکا ان میں سے گاڑی کے پیچھے بیٹھے حوالدار جلدی سے چھلانگ لگا کر نیچے اتر گیا اس کے ساتھ ہی زوہیب بھی آن پہنچا شاکر کو معلوم تھا کہ یہ سب سامان ہمارے ساتھ ہے اب ہم بچ نہیں سکتے اس کا اگلا وار اس حوالدار پر ہوتا اگر اتنے میں شاکر اسے سلام سنگت نہیں کہتا۔ اس لفظ کے ساتھ ہی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو زوہیب اکیلا تھا اور نثار اس کے ساتھ نہیں تھا۔ نثار اور زوہیب نے اس وقت سپاہیوں کی گاڑی کو دیکھ لیا تھا جب وہ شاکر کو روک رہے تھے تب ہی جلد فیصلہ کر کے نثار نے بائیک سے چھلانگ لگاتے ہوئے پیچھے کے جھاڑیوں کے راستے نکل گیا تھا اور زوہیب ان پولیس والوں کے پاس آکھڑا ہوا تھا۔نثار وہاں سے تو نکل گیا تھا مگر اسے اب کچھ معلوم نہیں تھا کہ وہ کس جگہ پر ہیں یہاں ہر طرف اندھیرا تھا۔ کچھ لمحے یونہی چلنے کے بعد وہ ایک سڑک پہ نکل گیا یہاں کافی روشنی تھی لوگ دکانوں اور گھروں کے باہر بیٹھے ہوئے تھے کسی نے آگ جلائی ہوئی تھی تو کہیںآگ کے لو کے گرد اوباش لڑکے محفل کر رہے تھے۔ نثار اسی سڑک پہ چلتا رہا۔ اسے اچانک زوہیب کاکال آیا۔ نثار نے اسے بتایا کہ سارہ کے گھر کی طرف آجاو میں یہاں سے نزدیک ہوں۔ اب وہ شہر سے نکل کر اس آبادی میں پہنچ گئے تھے جہاں انہیں یہ کام انجام دینا تھا۔ شاکر کو نثار نے ٹاور پے جانے سے پہلے اس ایریا کا چکر لگانے کو کہا اور خود اس سڑک پے کھڑا رہا جو سیدھا تھانے سے اس طرف آتا تھا۔ شاکر کے نکل جانے کے بعد اب پھر سے نثار کو سارہ کا فون آیا۔ اس بار وہ بیزاری سے بڑبڑانے لگا۔ ارے یار ایک تو ان لڑکیوں کو ہمدردی جتانے کا موقع مل جائے۔ زوہیب اس کی باتیں سن کر ہنس کر بولنے لگا یار تمھارے موبائل پر کبھی اس لڑکی کے سوا کسی کے کال آتے بھی ہیں کہ نہیں۔نثار نے فون کان پے لگاتے ہوئے کہنے لگا’’سارہ میں اب کمبل میں ہوں‘‘۔ زوہیب جو ان میں کم گو خاموش مزاج تھا اچانک ہنسنے لگا اور مستی میں بائیک کا ہارن بجانا شروع کر دیا بس اور کیا تھا،سارہ ہنسی کی آواز اور بائیک کی ہارن سن کر فوراً سمجھ گئی کہ وہ بستر نہیں بلکہ بازار میں ہے اور جھوٹ بول رہا ہے اور فوراً فون کاٹ دیا۔ نثار کا اترا منہ دیکھ کر زوہیب زور زور سے ہنسنے لگا اور نثار غصے سے اپنے ہونٹوں کو دانتوں میں دباتے ہوئے مصنوعے غصے سے زوہیب کے بالوں کو پکڑ کر بولنے لگا ’’ یہ تم کب سے شرارتی بن گئے ہو ‘‘وہ اسی ہنسی مزاق میں تھے کہ اچانک شاکر آیا اور اطلاع دی کہ اس وقت اس ایریا میں کوئی اہلکار نہیں آپ لوگ چلے جاوٗ اب مجھے ان باہری راستوں پرنظر رکھنی ہے۔زوہیب اور نثار مسجد کے ساتھ اس کھمبے کے قریب پہنچ گئے انہوں نے بائیک مسجد کے ساتھ کھڑی کر کے اتر گئے، وہاں شاکر تھانے سے آتے راستے سمیت اس جانب بھی نظر رکھ رہا تھا جہاں ایف سی کا چوکی بنا ہوا تھا یہ ان کے ٹارگٹ پوائینٹ سے تیں سڑک کے فاصلے پر تھا۔ شاکر اب خود کے اور جبران کے کام کو انجام دینے کے لے مسلسل ان راستوں پر دوستوں کے حفاظت میں گھوم رہا تھا۔ادھر نثار اور شاکر ٹاور سے بارود باندھ رہے تھے کہ نثار کو ایک آواز سنائی دی۔یہ ایک چھوٹی بچی کی آواز تھی نثار نے سر اوپر کرکے دیکھا تو ایک چھوٹی بچی اپنے ابو کو آواز لگا کر بول رہی تھی کہ ابو یہاں دیکھو یہ کون لوگ ہیں کیا کررہے ہیں ۔ اسے نظر انداز کرتے ہوئے نثار کام میں لگ گیا اور زوہیب کو نکل جانے کا کہا اور خود آخری تار کو جوڑتے ہوئے اس جانب نکلا جہاں زوہبیب بائیک لیکر گلی کے آخر میں کھڑا تھا۔ نثار اس تک پہنچا ہی تھا کہ اسے گلی کے دوسرے سرے سے ایک عمر دراز شخص آتا نظر آیا جو ایک چھوٹی بچی کا ہاتھ پکڑے گلی میں داخل ہورہا تھا۔ اب جب سب کچھ تیار تھا اور بس اس دھماکے کا انظار تھا اور اب یہ لوگ اس جانب جارہے ہیں جو ضرور اس دھماکے کے زد میں آئیں ، نثار نے اپنے کاندھے سے چادر اٹھا کر اسے اچھال اچھال کے اس بوڑھے شخص کو واپس جانے کا اشارہ کر نے لگا۔ بوڑھا کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ ماجرہ ہے۔ اس کے ساتھ ایسا واقعہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ سوچ ہی تھا کہ نثار اس تک پہنچ کر اس سے ہمکلام ہوکر کہنے لگا بابا واپس جاو جلدی چلو جاو واپس چلو یہاں بمب رکھا ہے۔ اب بوڑھے کو سارا قصہ سمجھ آگیا کہ اس نقاب کے پیچے کوئی چور نہیں کوئی اور ہے۔ اس نے بِنا وقت ضائع کئے بچی کو اپنے بازوں میں اٹھا کر واپس مڑ کر دوڑنے لگا نثار پھر سے اس ٹاور سے ہوتے ہوئے زوہیب کو پہنچتے ہی بائیک پر بیٹھ گیا اور وہ فوراً نکل گئے۔ انہوں نے باہر جانے والی سڑک کے طرف شاکر کو فون کر کے بلایا فون رکھتے ہی دھماکہ خیز مواد زور دار دھماکے کے ساتھ پھٹ گیا اور چاروں طرف مکمل تاریکی چھا گئی۔ نثار کے ہونٹوں پر مسکان بکھر گئی۔ اس کے لیے جبران کی کمی اب بے اہمیت ہوگئی تھی حنیف کی غلطی اور نقصان بھی اسے یاد تھے بس خوشی تھی کہ کسی کے بھی جانے سے کام رکتا نہیں بس ہم اپنے پیچھے ایک نام چھوڑ جاتے ہیں۔ کوئی خود کو بچا کر دور نکل جاتا ہے تو کوئی اپنے نادانی سے دوستوں کو نقصان پہنچا تا ہے۔ ہم نہیں تو ہمارے بعد کے لوگ اس خانے کو ضرور پر کردیتے ہیں۔ نثار اسی سوچ میں تھا کے پیچھے سے شاکر بھی ان کو آپہنچا اسے دیکھتے ہی زوہیب زور سے قہقہہ مارتے ہوئے شاکر سے کہنے لگا شاکر نثار کو کہو کہ سارہ کو فون کرے شاکرجھک کر زور زور سے ہنسنے لگا اور مکمل قصہ سمجھ کر نثار کو اب دونوں تنگ کرنے لگے کہ نمبر تو ڈائل کرو۔ نثار کے پاس ان کے اس شرارت سے بچ نکلنے کا کوئی موقع نہیں تھا تو اس نے ہار مان کر نمبر ڈائل کردیا اور سامنے سے آواز آئی آپ کا مطلوبہ نمبر اس وقت بند ہے یہ سنتے ہی نثار،شاکر،اور زوہیب تینوں مل کر زور زور سے ہنستے ہوئے وہاں سے نکل گئے اور ہر کوئی یہی سوچنے لگا کہ اگلا ٹارگٹ کیا ہوگا؟