بہت سوچ و سمجھ کر مجھے یہ قدم اٹھانا پڑا، لیکن کیا ؟ بدلے میں مجھے تو لوگ (برین واش)کہنے لگے! ہاں میں مانتا ہوں کہ میں (برین واش) ہوں جس سماج میں ناانصافی کا دستور اور ظالم کا راج ہو جس معاشرے میں سچ کڑوا اور جھوٹ کا بول بالا جس قوم کی عزت خاک میں اور غیرت مردہ (بولان و آواران) وہ ملک جسکے لوگ ٹکے میں بکتے ہوں جو کہ غلامی کو اپنی میراث سمجھتے ہوں وہ معاشرہ جہاں لوگ ذہنی اور جسمانی طور پر غلام ہوں جہاں سردار نواب کے غنڈوں کا مسجد کے اندر دوران نماز قتل عام (جمالزئی) جہاں ویگن سے اتارکر قتل کرنا یا اغواء برائے تاوان کرنا،پیسے نا ملنے پر مسخ شدہلاش پھینکنا چھوٹے بچوں سے لیکر سفید ریش تک کی ٹارگٹ کلنگ، ناپاک فوج کی گھروں پر بمباری کرکے مقدس کتاب قرآن مجید کو شہید کرنا، یا سرداروں کا اپنے دشمن کو قرآن پاک کا واسطہ دے کر اس سے صلح کرنا اور بعد میں اس کا قتل کرنا، مطلب قرآن پاک کو استعمال کرکے اسکی بے حرمتی کرنا، توتک والا واقعہ یا آواران و بولان کی مغوی عورتیں، ہاں ایسی بہت سی چیزوں نے میرا (برین واش) کردیا ہے۔ جس طرح میں نے اس معاشرے میں اپنا بچپن گزارا اور جس ماحول میں، میں بڑا ہوا جو کہ میری آج کی سوچ سے بالکل مختلف ہے، زہری کا وہ ماحول جہاں لوگ اپنے مفاد تک محدود اپنے آج کی سوچتے ہیں،بس بی اینڈ آر کی ایک نوکری ہو یا کہیں چپراسی لگ جاؤں گھر میں بیٹھ کر تنخواہ لوں دوسرے چاہے بھوک سے مر جائیں یا سرداروں کے ظلم کا شکار ہو جائیں انہیں کیا فرق پڑتا ہے۔ میرا (برین واش ) کیسے ہوا۔ زہری کا وہ معاشرہ جو کہ میر سردار و نوابوں کے غلام ہیں۔ کوئی ان کے مہمان خانوں میں انکے مہمانوں کا خدمت گزار ہے تو دوسری طرف اسکی عورتیں میر کے گھر میں مہمانوں کیلئے روٹیاں پکاتیں ہیں۔ کوئی پاگل اپنے بھائی کو مار کر بندوق اٹھائے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ان کا محافظ تو کوئی ٹھیکیداری کی لالچ میں اپنے قبیلے کو سرداروں کی خدمت میں حاضر کردے،اسکے بعد سردار ان کے خون کا کیچپ پہلے سے تیارشدہ پکوڑوں پر ڈال کر کھاجائے (تیارشدہ پکوڑوں) سے مراد وہ قبیلے جو سردار کے جال میں پہلے سے ہی پھنس چکے ہیں

چند سال قبل زہری کے ایک دوست سے ملاقات ہوئی. یہ دوست بھی انہی خاندان سے تعلق رکھتا ہے جو کہ سرداروں کے بیٹک سجاتے ہیں. میرا یہ دوست بہت دیر بعد کوئٹہ سے آیا تھا، میں نے اس سے پوچا دوست پڑھائی کہاں تک پہنچی. یہ بات سن کر اسکا چہرہ سرخ پڑ گیا اور میں نے اسکی آنکھوں میں ایک چمک دیکھی ایک ایسی چمک جو اسکے دل میں لگی آگ کو بیان کر رہا تھا. اس نے لمبی سانس لی اور کہا سنگت دا سرداراک اراڑے الور ترقی کننگ. میں نے زور دیا دوست کیوں کیا ہوا تو اس نے جواب دیا ! جب کوئٹہ پڑھنے کے غرض سے گیا اور وہاں ایڈمیشن لیا ابھی دو دن نہیں گزرے تھے کہ سردار کا فون آیا آڑے بنگلا برک داڑے چناتے سودا وغیرہ ضرورت مریک نا باوا و پیرا خوان توس (بلوچ نا مار تعلیم کروس) آہستہ آہستہ غیر حاضریاں بڑنے لگی اور کالج سے نکالا گیا اسطرح پڑھنے کا شوق بھی ختم ہوگیا۔ وہ کافی مایوس و بے بس تھا آخر میں اس نے مجھ سے ایک سوال کیا؟ یار مہر جان کیا بلوچ قوم بندوق اٹھانے کیلئے پیدا ہوئی ہے اور کیا مجھے بھی اپنے باپ دادا کی طرح ان سرداروں کیلئے بندوق اٹھانی پڑے گی؟ دوست کی بے بسی اور مایوسی کو دیکھ کر میں بہت حیران تھا. اور میری زبان سے بس ایک بات نکلی. سنگت اگر آج ہم اپنی بندوق ان کٹ پتلی سردار و نوابوں کے خلاف اٹھائیں گے. تو کل کو ہمارے بچے قلم اٹھا ئیں گے۔ اسکی آنکھوں کی وہ چمک اور سردار کی وہ بات (بلوچ نا مار تعلیم کروس) مجھے آج بھی یاد ہے. اور دھیرے دھیرے مجھ میں قومی جذبہ ابھرنے لگا. اب میرا ( برین واش ) ہونے لگا کسی کام کے سلسلے میں خضدار جانا ہوا دو تلوار چوک پر ویگن کو رکنے کو کہا قریب دوست کی دوکان تھی سوچااس سے مل لوں، دوکان میں داخل ہوتے ہی سلام کیا دوست مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور مجھ سے گلے ملا کافی دیر بعد ملے تھے (چھوٹو ہموکا سٹول ء ہتاء ). جیسے ہی بیٹھنے کو کہا تو اسکی نظر میری شلوار پر پڑی (او ظالم داخس مرغن شلوار) میں نے بیٹھتے ہوئے جواب دیا خیر ہے کیا ہوا اس میں حیرانگی کس بات کی آخر ہماری ثقافت ہے۔ دوست نے جواب دیا حیرانی والی بات نہیں اور ثقافت کو فلحال بھول جاؤ آج کل خضدار کے حالات خراب ہیں،آپ کو پتا نہیں کل پاکستانی فوج نے اسی چوک پر ایک لڑکے کو موٹرسائیکل سے اتارا اس نے بڑی شلوار پہنی تھی. فوجی افسر نے اسے یہ کہہ کر مارنا شروع کیا کہ بڑا شلوار پہنتا ہے خود کو سرمچار سمجھتا ہے،اسی دوران ایک فوجی نے قینچی سے اسکی شلوار کاٹنا چاہا لیکن لڑکے نے فوجی کو دھکا دیا تب تین چار فوجی جمع ہوے اور لڑکے کو پیٹنا شروع کیا، یار ! ان کمینوں نے بہت مارا بچے کو میں نے پوچا تو کسی نے اسکی مدد نہیں کی اس چوک پر چاروں طرف بلوچوں کے دوکان ہیں کسی نے بھی نہیں روکا انکو۔ دوست! (سرکار تو دے اڑیفک تینے) ہم انہی باتوں میں تھے کہ اچانک اسی دوران ایک فوجی گاڑی ٹھیک دوکان کے سامنے رکی اور دو فوجی اترے! روڈ پر آنے جانے والوں کو دیکھنے لگے،اچانک ایک موٹرسائیکل کو روکا جس پر دو شخص سوار تھے. لوگ دوکانوں سے باہر آکر دیکھنے لگے کچھ تو چوری چھپے دوکان ہی سے جھانکنے لگے، میں تھوڑا قریب گیا تو دیکھا ایک قریباً ساٹھ پینسٹھ سال کا سفید ریش بوڑھا آدمی اور ساتھ میں ایک بیس بائیس سال کا جوان لڑکا تھا، موٹرسائیکل چلانے والا جوان لڑکا تھا فوجی نے لڑکے کو اتار تے ہی ایک زور دار تھپڑ مارا تو بوڑھا شخص خیر تو ہے کیوں مار رہے ہو میرے بیٹے کو ،تو فوجی نے آگے بڑھ کربوڑھے کا گریبان پکڑا اور اسکے بیٹے کو گالی دے کر کہنے لگا تم لوگوں کو پتہ نہیں ڈبل سواری بند ہے پھر بھی قانون توڑ رہے ہو، بوڑھے نے منت کرتے ہوئے کہا سر میری طبعیت ٹھیک نہیں ہم اسپتال جا رہے تھے پیدل چل نہیں سکتا غریب ہوں گاڑی نہیں ہمارے پاس ہم مجبور ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ جو مرضی کریں . تو فوجی غصے میں کہنے لگا،تمہارے بہانے یہاں نہیں چلیں گے،اور بوڑھے کے دونوں ہاتھ پیچھے مروڑ کر پکڑے رکھا اور اسکے بیٹے کو کہا تھپڑ مارو اپنے والد کو وگرنہ یہ میرے سپاہی تمہیں ماریں گے میں یہ سب دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک میرے دوکاندار دوست نے میرا ہاتھ پکڑا اور زبردستی دوکان کے اندر لے گیا. میں نے دوست سے کہا یار انہوں نے تو حد کردی کیسی بے غیرت فوج ہے رشتوں کا زرا بھی لحاظ نہیں انکو۔ دوست دھیمے لہجے میں! (نی چپ کر داتا وڑے BLA والاک جوان چارہ) اس معذور بوڑھے کی فوجی کو منت کرنا، اور اسکے جوان بیٹے کی بے بسی نے میرا (برین واش) کردیا۔ جب لاہور گریجویشن کیلئے گیا پہلی کلاس تھی تو ایک پنجابی میرے ساتھ آ کر بیٹھ گیا سلام دعا کیا نام پوچا اور کہا ویسے آپ کہاں سے ہو دوست؟ میں نے جواب دیا جناب بلوچستان ۔ پنجابی حیرانگی سے بلوچستان ! دوست یہ کون سا شہر ہے؟ میں نے جواب دیا جناب شہر نہیں بلوچستان ایک ملک ہے جس پر پاکستان نے جبری قبضہ کیا ہے. پنجابی بولا دوست معاف کرنا میں نے کبھی اس ملک کا نام نہیں سنا ویسے اپنے ملک بلوچستان کی تاریخ کے بارے میں کچھ بتاؤ گے؟ کب وجود میں آیا وغیرہ وغیرہ؟ تو میرے پاس ان سوالات کا جواب نہیں تھا کیونکہ میں نے ابتدائی تعلیم مقبوضہ بلوچستان زہری کے نورگامہ سے حاصل کی تھی۔ اصل میں بلوچستان میں جو بھی کتابیں ہمیں فراہم ہوتیں ہیں. ان میں بلوچ تاریخ زبان اور ثقافت کو مسخ کیا جا رہا ہے اور پاکستان کی حقیقی تاریخ کو چھپا کر جھوٹی تعریف کی جا رہی ہے حالانکہ یہ ایک قبضہ گیر اور انگریزوں کی ناجائز پیداوار ہے.جو کہ بلوچ سندھی اور دوسرے اقوام پر قبضہ جمائے ان کے حقوق سلب کر رہی ہے ،بلکہ میں اسے ایک ناجائز ریاست نہیں ایک مافیا گروپ کہنا پسند کرونگا، اور اس مافیا گروپ ٹولی میں سردار نواب برابر کے شریک ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ فرسودہ کتابیں ہمیں اور تاریکی میں دھکیل رہی ہیں. اب یہاں پنجابی دوست کے ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ پنجاب کھاتا ہے ہمارا ،پہنتا ہے ہمارا، جلاتا ہے ہمارا اور ہمیں نہیں جانتا تو دوسری طرف بلوچستان میں پاکستانی جھنڈا لہرانے والے چند زرخرید تم کس کیلئے مر رہے ہو پنجاب کی قریباً 90% سول آبادی بلوچستان کو جانتے تک نہیں اور تم ان کی خاطر اپنے ہی قوم سے دھوکا کر رہے ہو۔ کیوں نہ ہو میرا (برین واش ) قدم قدم پر ایسے بہت سے واقعات گزر رہے ہیں سمجھ میں نہیں آتا کن کن کا ذکر کروں جوکہ ایک غیر ت مند بلوچ کا برین واش کرنے کیلئے کافی ہیں،دن بہ دن ایسے برین واش آپ کو ملتے رہیں گے. جسکی شروعات نواب نوروزخان نے کی تھی۔ اب یہاں زہری کے لوگوں سے میں صرف تین سوال پوچھنا چاہوں گا کیا ان کے پاس ان سوالات کا جواب ہے؟ 1۔ کیا مذہب کی آڑ میں استعمال ہونے والے وہ بلوچ نوجوان برین واش نہیں جو افغان مسلمانوں کے خلاف جہاد کرنے جاتے ہیں؟ مطلب جہاد مسلمانوں کے خلاف فرض ہے. ۔2جب باہر سے آیا کوئی میرے ضعیف والد کو چوک پر ذلیل کرے میرے ننگ ناموس کو بوٹو تلے روندے اس کے جبر کو میں روکنے کا سوچوں تو کیا یہ برین واش ہیں 3۔نوروز خان کے اس بغاوت کو کیا کہو گے جس پر تم میں سے ہر دوسرا زہری ہونے پے فخر کرتا ہیں اسی تسلسل کو برقرار رکہنے کا ذمہ جب ہمارے سر آئے جب اسکی واسطے نکل پڑتے ہیں تو کیا یہ برین واش ہیں