لندن (ہمگام نیوز) فری بلوچستان موومنٹ کے صدر حیربیار مری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جب سے ایران نے بلوچ سرزمین کے ایک حصے پر قبضہ کیا ہے تب سے لیکر آج تک قابض ایران مختلف سیاسی و انتظامی اصلاحات کے نام پر بلوچ سرزمین کو بانٹنے اور بلوچوں کو انکی سرزمین سے بیدخل کرنے کوششوں میں مصروف عمل ہے۔
بلوچ رہنما نے مزید کہا کہ یہ عمل کسی بھی ایرانی حکومت پر موقوف نہیں ہے بلکہ ایران کے اندر جو بھی برسرِ اقتدار آیا ہے بلوچ قومی طاقت اور سرزمین کو بانٹنے کا یہ عمل ہمیشہ انکی ترجیحات میں سرِ فہرست رہا ہے چاہے وہ نام نہاد جمہوری دور حکومت ہویا رضا شاہ پہلوی کا زمانہ ہو یا پھر حالیہ مذہبی شدت پسند رجیم ہو ۔بلوچ قومی آزادی کی تحریک اور بلوچ عوام کے اندر موجود وت واجہی اور آجوئی کی امنگوں کو کچلنے اورختم کرنے کے لئے تمام ایرانی حکمران طبقے کا ایک جیسا وطیرہ رہا ہے۔
حیربیار مری نے مزید کہا کہ بلوچ قومی قوت کو بانٹنے اور بلوچوں کو اپنی ہی سرزمین بلوچستان کے اندر اقلیت میں بدلنے اور روزافزوں جبر و استبداد سمیت قابض ایران کے ان تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود بلوچ عوام کے دلوں میں اپنے وطن کی ایک ایک انچ کی آزادی اور واگزاری کا ولولہ زندہ و سلامت ہے۔
انہو ںنے کہا کہ قابضین کو ہمیشہ یہی خوف دامن گیر رہتا ہے کہ ایک نہ ایک دن مقبوضہ اقوام اپنی آزادی اور سرزمین کی واگزاری کے لئے ضرور اٹھیں گے، اسی لئے دنیا کی تاریخ میں قابضین نے ہمیشہ مقبوضہ اقوامِ پر طاقت کے بے دریغ استعمال، آبادیوں کی جبری نقل مکانی اور نئی آبادکاریوں سمیت نام نہاد انتظامی حد بندیوں کے ذریعے کوششیں کی ہیں کہ مقبوضہ اقوام کی اجتماعی طاقت کی اساس کو کمزور کیا جاسکے اور یہی چیز ایران بلوچ سرزمین پر اپنی قبضے کو مزید مستحکم کرنے اور دوام دینے کے لیئے کررہا ہے، لیکن بلوچ قوم اب ان تمام سیاسی و انتظامی چالبازیوں سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ سیاسی طور پر ان مذموم مقاصد کے خلاف سینہ سپر ہوکر مزاحمت کررہی ہے۔بلوچ نے کہا کہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچ اجتماعی طاقت کو ختم کرنے اور بلوچ سرزمین کو مختلف حصوں میں بانٹنے کی ایرانی و پاکستانی سازشوں کا شعوری و علمی بنیادوں پر مقابلہ کیا جائے۔ آج ہر بلوچ سیاسی کارکن پر فرض ہے کہ وہ اس بات کا کامل ادراک و شعور رکھے کہ پچھلے کئی سو سالوں کی قبضہ گیریت کے دوران کس طرح انتظامی بند و بست کے نام پر متحدہ بلوچستان کے سرزمین کے مختلف حصوں کو بانٹتے ہوئے ایک دوسرے سے جدا کیا گیا، اسکے علاوہ قابض ایران و پاکستان جس طرح بلوچ قومی معدنی و سمندری وسائل کو لوٹ رہے ہیں ان تمام استحصالی حربوں کا شماریات بمعہ کوائف و دستاویزات جمع ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور بلوچ قومی تحریکِ آزادی کی جد و جہد کو کائونٹر کرنے کے لیئے بلوچستان کو مختلف انتظامی ٹکڑیوں میں بانٹنے کے ساتھ ساتھ اپنے دارالخلافہ کو بھی تہران سے بلوچستان کے ساحلی علاقے یعنی چاہبار شہر میں منتقل کرنے کا منصوبہ بندی کررہی ہے ۔ اس حوالے سے ایرانی حکومت کے ترجمان فاطمہ مہاجرانی کی ایک حالیہ پریس بریفنگ کے دوران اس بات کا دوبارہ اعادہ کرنا کہ درالخلافہ کو جنوب کی طرف منتقل کیا جائے گا اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایران اس منصوبے پہ عمل درآمد کرنے کے بہت ہی قریب ہے۔
فری بلوچستان موومنٹ کے سربراہ نے کہا کہ قابض ایرانی ریاست یہ چاہتی ہے کہ وہ غیر بلوچوں کی ایک بڑی تعداد کو بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں منتقل کرکے بلوچوں کی آبادی کو مزید اقلیت میں بدل دیا جائے اور اس منصوبے کو معاشی طور پر قابل عمل بنانے کے واسطے ایرانی حکومت نے تقریباً ستائیس اکنامکس زونز کی قیام کا منصوبہ بھی بنایا ہے جن میں سے تقریباً چودہ تجارتی زونز بلوچستان کے ساحلی پٹی پر بحرِ بلوچ کے دہانے پر قائم کرنے کی امکانات بھی زیر غور ہیں، لیکن بلوچ قوم ان تمام تر مذموم مقاصد اور ایجنڈوں کو ناکام بناکر ایران و پاکستان سے اپنی آزادی کی حصول کو یقینی بنائے گی۔
حیربیار مری نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایرانی زیر قبضہ دیگر محکوم اقوام کرد، احواز اور ترکمن سمیت وہ تمام اقوام جو ایرانی قبضہ گیریت اور جبر کا شکار ہیں وہ بلوچوں کے ساتھ کم سے کم مشترکہ نقاط پرمل کر اپنے اپنے باہمی مفادات کی حصول کے لیے کام کریں تاکہ ایران کے خلاف ہمیں اپنے جد و جہد میں موثر کامیابی حاصل ہوسکے۔ اگر دیکھا جائے تو محکوم اقوام پر اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کے لیئے کئی قبضہ گیر ممالک ایک ساتھ ایک ہی صفحے پر آتے ہوئے اپنی جابرانہ پالیسیاں مرتب کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی تسلط کو مزید مستحکم کرسکیں تو ایسے میں خطے میں موجود مقبوضہ اقوام کے لیئے یہ ضروری ہے کہ وہ ایران کے قبضے خلاف اپنی طاقت کو ایک جگہ مرتکز کرکے اپنی جد و جہد کی فتح کو یقینی بنائیں۔