ہر سال مہذب دنیا انسانی حقوق میں بہتری کی توقع کرتی ہے، لیکن بدقسمتی سے مقبوضہ بلوچستان کے لوگ، جو ایرانی اور پاکستانی نوآبادیاتی تسلط کے تحت زندگی گزار رہے ہیں، نسل کشی، نسلی تطہیر، اجتماعی سزاؤں، جبری طور پر داخلی نقل مکانی، بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیوں، ڈرون اور دیگر فضائی حملوں، ٹارگٹ کلنگ ، جن میں ایرانی کر ائے کے قاتلوں کے حملے شامل ہیں، اجتماعی پھانسیاں، تجارتی پابندیاں، اور روزمرہ کی بنیاد پر سرحدی فورسز، ایرانی مسلح افواج، اور اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC) کی دہشت گردانہ کارروائیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
ایرانی ملا حکومت کی جانب سے عائد پابندیوں اور سنسرشپ کی وجہ سے ایران کے زیر قبضہ بلوچستان (IOB) اور پاکستان کے زیر قبضہ بلوچستان (POB) میں ہر متاثرہ شخص کا مکمل ڈیٹا جمع کرنا انتہائی مشکل ہے۔ اس کے باوجود، ہم نے بلوچ عوام کے خلاف ایرانی ریاست کی بربریت کو اجاگر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
2024 میں ایرانی ملا حکومت نے بلوچ عوام کو دہشت زدہ کر کے مقبوضہ بلوچستان کے مقامی باشندوں کے خلاف اپنی بلوچ مخالف پالیسیوں پر عملدرآمد جاری رکھا۔
120 پھانسیاں: جعلی منشیات کے الزامات میں 120 بلوچ قیدیوں کو پھانسی دی گئی ہے۔ ہم نے 88 افراد کے اعداد و شمار حاصل کیے ہیں۔
ڈرون اور دیگر فضائی حملوں میں 20 ہلاکتیں: مقامی لوگوں کے مطابق، ایران اور پاکستان کے مشترکہ ڈرون اور دیگر فضائی حملوں میں تقریباً 20 بلوچ شہری ہلاک ہوئے۔ ایک خاندان نے اپنے آٹھ افراد کو کھو دیا، جن میں خواتین، بچے، اور شیرخور شامل ہیں۔
ریاستی حمایت یافتہ ٹارگٹ کلنگ میں 250 ہلاکتیں: ایرانی فورسز نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے 250 بلوچ افراد کو نشانہ بنایا۔ ایرانی سرحدی فورسز نے جان بوجھ کر بلوچ ایندھن لے جانے والوں کو براہ راست فائرنگ کا نشانہ بنایا اور گاڑیوں کے ٹائروں کو پھاڑ دیا، جس کی وجہ سے گاڑیاں الٹ گئیں اور آگ لگ گئی۔ فورسز اکثر جائے وقوعہ سے فرار ہو جاتی ہیں، ڈرائیوروں کو گاڑیوں میں جلنے کے لیے چھوڑ دیتی ہیں۔
150 افراد جبری گمشدگی اور زخمی ہونے کا شکار: ایران پاکستانی فوج کی پالیسیوں کی پیروی کرتے ہوئے بلوچ کارکنوں اور دیگر سیاسی و مذہبی شخصیات کو اغوا کر رہا ہے۔
سینکڑوں بلوچ مکانات منہدم: ایرانی فورسز نے مقبوضہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بلوچ بستیوں کو تباہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ چابہار، زاہدان، خاش، ایرانشہر، ہرمزگان، اور مکران کے ساحلی علاقوں سے بلوچوں کے زبردستی انخلا کی اطلاعات ہیں۔
40 بارودی سرنگ کے دھماکے: اطلاعات کے مطابق، بارودی سرنگوں اور فوجی مشقوں کے دوران چھوڑے گئے دستی بموں کی وجہ سے 18 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایرانی،پاکستانی مشترکہ فضائی حملوں میں مزید 20 افراد ہلاک ہوئے۔ سرواں علاقے میں ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد، جن میں خواتین، بچے، اور ایک شیرخوار شامل ہیں، مارے گئے۔ ایرانی جیل میں تین بلوچ یرغمالیوں کو تشدد کے ذریعے قتل کیا گیا۔ دس بے گناہ بلوچ قیدی طبی امداد کی کمی کی وجہ سے جیل میں جاں بحق ہوئے۔
ایرانی انٹیلیجنس ایجنسیوں اور عدالتوں میں 30 افراد طلب: ایرانی انٹیلی جنس ایجنسیوں، آئی آر جی سی، اور انقلابی عدالتوں نے زاہدان میں خواتین کی آزادی کے مظاہروں میں شامل تقریباً 30 بلوچ علماء اور سیاسی کارکنوں کو طلب کیا ہے۔ ایران نے پاکستان جیسی پالیسیاں اپنائی ہیں جہاں سیاسی مخالفین کو دہشت زدہ کیا جاتا ہے، دھمکایا جاتا ہے، اور انہیں پولیس اسٹیشنز میں گھنٹوں طویل تفتیش کے لیے بلایا جاتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، آئی آر جی سی نے زاہدان کی مکہ مسجد کے سربراہ مولوی عبدالحمید کے قریبی ساتھیوں کو اپنی خدمات واپس لینے اور خاموش رہنے کی دھمکیاں دی ہیں۔ بلوچوں نے یہ بھی رپورٹ کیا ہے کہ ستمبر 2022 کے زاہدان احتجاج میں شامل افراد کو ایرانی انٹیلیجنس ایجنسیاں اب بھی تعاقب کر رہی ہیں اور ہراساں کر رہی ہیں۔
150 جسمانی ہراسانی کے واقعات:
مختلف ذرائع سے حاصل کردہ اطلاعات کے مطابق، 2024 میں مقبوضہ بلوچستان میں جسمانی ہراسانی کے تقریباً 150 واقعات پیش آئے، جن میں بسیج، القدس فورسز، آئی آر جی سی، اور ایرانی سرحدی فورسز نے بلوچ شہریوں، جن میں خواتین، بچے، اور بزرگ شامل ہیں، کو مختلف علاقوں میں تشدد کا نشانہ بنایا۔
نوٹ: مسلح ڈکیتی، بھتہ خوری، ٹریفک حادثات سے ہونے والی اموات، ذاتی تنازعات، اور دیگر دشمنی پر مبنی واقعات اس رپورٹ میں شامل نہیں ہیں۔