قومی آزادی کی تحریک میں ہمارے سب سے بڑے مسائل میں سے ایک یہ روایتی سوچ ہے کہ جو آزادی کا نام لے اور خود کو آزادی پسند کہلوائے تو اس پر تنقید نہ کی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ تمام آزادی پسند برابر ہیں مگر آزادی پسندوں میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ جو غلط پالیسیوں پر کاربند ہیں اور ان غلط پالیسیوں کا خمیازہ مجموعی طور پر تحریک کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ دشمن ان غلط پالیسیوں سے فائدہ اٹھا کر ہمارے خلاف محاز آرا ہے۔ اس روایتی سوچ پر کاربند لوگ کہ “تمام آزادی پسند برابر ہیں اس لئے کسی پر بھی تنقید نہ کی جائے” دراصل ایسی باتوں پر غور نہیں کرتے یا شعوری طور بلی اور کبوتر کے مصداق مسائل کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔

ایک دوسری بات یہ بھی ہے کہ مظلوم قوموں کو چونکہ ظالم اور جابر قوموں کے استحصال کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ استحصال مادی بھی ہوتا ہے اور نفسیاتی بھی۔ تو اس کی وجہ سے غربت بھی ان میں زیادہ ہوتی ہے اور کچھ مفاد پرست لوگ اس کا فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کو چھوٹی موٹی سہولت دے کر اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ قومی تحریک کے منقسم ہونے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے۔ چونکہ ہمیں ناخواندہ رکھا گیا ہے۔ علم و شعور پر لاکھ قدغنیں لگائی گئی ہیں تو ہماری اسی ناخواندگی اور بے شعوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے اپنے صفوں میں سے ہی وقتا فوقتا کوئی کمانڈر یا جنگجو اٹھ کر کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیتا ہے اور آزادی کے نام پر اپنی پارٹی بنا کر دکان جما لیتا ہے۔اس سے ہماری قوم اور بلوچ قومی تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اور ہماری منزل کو ہم سے مزید دور دکھیل دیا گیا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

بلوچ نوجوانوں سے گزارش ہے کہ مسائل کو گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کریں، ملکی اور بین الاقوامی سیاست کو سمجھنے کی کوشش کریں، قومی تحریکوں کا مطالعہ کریں، ریاست کے تصور اور ریاستوں کے تشکیل کے بارے میں سمجھیں۔ اکیڈمک مباحث کریں اور اس روایتی سوچ سے باہر نکلیں ورنہ مسقتبل میں ہمیں اس سے بھی زیادہ نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔