بلوچستان کی تاریخی حیثیت سے کوئی باشعور انکار نہیں کرسکتا مگر بلوچ قوم کی سرزمین پرتگیز ، عرب جنگجو ، انگریز ،پنجابی اور گجر کے ساتھ ساتھ اپنوں کی بے حسی کا شکار رہا ہے۔ غیروں سے تو آپ گلہ نہیں کر سکتے مگر اپنوں کے ستم نے بلوچستان کے جغرافیہ کو اپنی ذاتی مفادات کے لئے قوم کو دھوکے اور فریب میں رکھا تھا۔

بلوچ پارلیمانی پارٹیوں نے اپنی ذاتی مفادات کے لئے بلوچ جغرافیائی حدود اور حد بندی پر بلوچ قوم کو آگاہی فراہم نہیں کی جو ایک تاریخی غلطی تھی ؟ بلوچ سرزمین کی تاریخی حد بندی ضرور ی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچ قوم کی سرزمین مقبوضہ ہے اور قابضین نے جس طرح چاہا بلوچ سرزمین کی بندر بانٹ جاری رکھی۔

بلوچ قوم اس بندربانٹ کے باوجود اپنی سرزمین کی حدبندی سے واقف ہے۔ تاریخ میں اگر آپ غفلت کر رہے ہو تو یہ تاریخ اپنے اپ کو دہراتی ہے ، لکھی جاتی ہے اور تاریخ مٹ نہیں سکتی ۔ ہاں یہ ضرور ایک مثبت تبدیلی ہے کہ بلوچ قوم کے کچھ دانشور اور قوم دوست سیاست دان تاریخ کو صحیح سمت میں لے جانے اور سرزمین کے دفاع میں ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اور مائی کولاچی کے چوکنڈی قبرستان و مہرگڑھ سے لیکر قلعہ بمپور سے لکیر شہر سوختہ ( جلے ہوئے شہر ) بلوچوں کا تاریخ علاقہ ہے جو نمروز کے قریب واقع ہے۔

یہ 5000 ہزار سال سے زیادہ پرانی تہذیب کا حصہ ہے ،قلعہ رستم ایک تاریخی قلعہ ہے جو بلوچ قوم کی تاریخی نشانات میں سے ایک ہے ۔ دریائے ہلمند کے آثار اور بلوچ تاریخ میں دریائے ہلمند کا ایک اہم مقام رہا ہے ۔ دشت سیستان ، قلعہ ناصری یہ قلعہ زابل کے قریب واقع ہے ۔ دشت لوط اور دشت جاموریان کے علاقے بلوچستان کے تاریخ میں اہمیت کے عامل ہیں۔

بندر عباس اور چاہ بہار بلوچستان کے اہم بندر گاہی علاقے ہیں ۔کوہ خواجہ وہ مقام ہے کو قدیم زرتشی ، بودھ اور بعد میں،اسلامی روایات میں مقدس مانا جاتا ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان میں درابن کا قلعہ بلوچ قوم کی تہذیب اور تمدن سے جڑا اہمیت کا عامل قلعہ ہے۔

اسی طرح قلعہ پہاڑ پور بھی تاریخی طور پر بلوچ قوم سے جڑا رہا ہے ، اسی طرح جیکب آباد ، راجن پور ،کشمور ،ٹھل اور ڈیرہ جات میں بھی آپ کو قدم قدم پر بلوچ تاریخ اور تمدن کے نشانات نظر آئیں گے ۔ یہ تمام علاقے بلوچ قوم کی تاریخ ، تہذیب ثقافت اور تمدن کی شواہد فراہم کرتی ہیں۔

بلوچ قوم کی سرزمین بلو چستان کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔

مہابھارت، جو قدیم ہندوستان کا ایک عظیم رزمیہ ہے جس میں بلوچستان کے علاقے کو “بلوجا” یا “بلوچ پٹھار” کے نام سے ذکر کیا گیا ہے ۔اس میں اس خطے کے قبائل، زمین اور جغرافیائی اہمیت کا تذکرہ موجود ہے۔ قدیم زمانے میں یہ علاقہ اہم تجارتی راستوں کا حصہ تھا اور مختلف تہذیبوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتا تھا۔

اس کے علاوہ سنسکرت میں دیگر قدیم متون میں بھی موجودہ بلوچستان کے خطے اور یہاں کے لوگوں کا ذکر تاریخی اور جغرافیائی حوالوں سے ملتا ہے۔رگ وید میں بلوچستان یا اس کے قدیم جغرافیائی حوالے کا ذکر ملتا ہے ، کیونکہ رگ وید ایک مذہبی اور فلسفیانہ متن ہے جو زیادہ تر قدرتی مظاہر، دیوی دیوتاؤں، اور ویدک رسوم و رواج پر مشتمل ہے۔

تاہم، رگ وید میں مقامات، دریاؤں، اور قبائل کا ذکر ملتا ہے، جو ممکنہ طور پر بلوچستان یا اس کے آس پاس کے علاقوں کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں۔ رگ وید میں “سندھو” (Indus River) کا ذکر کیا گیا ہے، جو بلوچستان کے شمال مشرقی کنارے سے گزرتا ہے۔

سروَسوتی ندی، جسے اب ایک خشک دریا کے طور پر دیکھا جاتا ہے، ممکنہ طور پر بلوچستان کے قریب قدیم وادیوں سے جڑی ہو سکتی ہے۔

رگ وید میں ذکر کردہ کچھ قبائل اور مقامات کو ماہرین نے بلوچستان یا اس کے قریبی علاقوں سے جوڑنے کی کوشش کی ہے، لیکن یہ تشریحات اشارہ دیتی ہے۔ چونکہ رگ وید ایک شاعرانہ اور زبانی روایت ہے اور اس کے متعدد نسخے موجود ہیں، اس لیے کوئی ایک “صفحہ” نہیں کہا جا سکتا۔ اگر آپ کو کسی مخصوص حوالہ کی تلاش ہے، تو ویدک اسکالرز یا رگ وید کے تاریخی جغرافیہ پر تحقیق کرنے والے ماہرین کے کاموں کو دیکھنا مفید ہوگا۔

مہابھارت تقریباً 25 سے 30 صدی پرانی کتاب ہے، جو 1500 قبل مسیح سے 400 عیسوی کے دوران زبانی روایت سے تحریری شکل میں آئی۔ہنگلاج مندرجو بلوچستان کے ریاست بیلہ میں واقع ہے، اس کا ذکر ہندو مت کی قدیم اور مقدس کتابوں میں ملتا ہے۔ اسکندا پوران میں ہنگلاج مندر کو ایک مقدس “شکتی پیٹھ” کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جہاں دیوی ستی کے جسم کے ٹکڑے گرے ۔اس کتاب میں بھی ہنگلاج کو شکتی پیٹھوں میں سے ایک کے طور پر ذکر کیا گیا ہے اور اس کی روحانی اہمیت بیان کی گئی ہے۔

اس کتاب میں ہنگلاج کی اہمیت اور اس کے دور دراز اور روحانی مقام کا ذکر کیا گیا ہے۔یہ قدیم سنسکرت متون ہنگلاج مندر کو ایک اہم روحانی مقام کے طور پر تسلیم کرتے ہیں، جو دیوی شکتی کی پوجا کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔

چنڈی پاٹھ میں دیوی کے مختلف روپوں اور ان کے مقدس مقامات کا ذکر ہے، جن میں ہنگلاج بھی شامل ہے۔

برطانوی دور میں بلوچستان کا ذکر مختلف کتابوں، سرکاری رپورٹس اور سفرناموں میں ملتا ہے۔ ان میں کئی کتابیں ایسی ہیں جو اس وقت کے بلوچستان کو ایک الگ اور خودمختار خطے کے طور پر بیان کرتی ہیں، جب یہ پاکستان یا ایران کا حصہ نہیں تھا۔

A Journey to the Kalat Territories and Balochistan” (1838) – Charles Masson

یہ کتاب بلوچستان کے مختلف علاقوں، قبائل، اور ریاست قلات پر تفصیلی معلومات فراہم کرتی ہے۔

اس میں بیان کیا گیا ہے کہ قلات ایک خودمختار ریاست تھی اور برطانوی راج کے ساتھ اس کے تعلقات مخصوص معاہدوں کے تحت تھے۔ “Travels in Baluchistan and Sinde” (1843) – Sir Henry Pottinger

سر ہنری پوٹنگر برطانوی انٹیلی جنس افسر اور سفارتکار تھے۔

انہوں نے 19ویں صدی میں بلوچستان کا ذکر کیا، جب یہ ایک آزاد خطہ تھا، جہاں مختلف بلوچ قبائل اور ریاستیں موجود تھیں۔

Personal Narrative of a Journey from India to England” (1827) – George Forster

اس میں بلوچستان کو ایران اور ہندوستان کے درمیان ایک آزاد خطے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

“Gazetteer of Balochistan” (1906) – A.W. Hughes

یہ برطانوی حکومت کی مرتب کردہ ایک تفصیلی رپورٹ ہے، جس میں بلوچستان کے قبائل، زمین، اور سیاسی حالات کا ذکر کیا گیا ہے۔

اس میں واضح کیا گیا ہے کہ بلوچستان میں قلات، مکران، خاران اور لسبیلہ جیسی آزاد ریاستیں موجود تھیں۔

یہ تمام کتابیں اس وقت کے بلوچستان کو ایک الگ، آزاد اور خودمختار خطے کے طور پر پیش کرتی ہیں، جو برطانیہ کے ساتھ معاہدوں کے ذریعے مخصوص تعلق رکھتا تھا لیکن بلوچستان پاکستان یا ایران کا حصہ نہیں تھا۔