اے میرے گلزمین!

میرے وطن کے متوالوں کے خون سے ڈوبے چمن! تیری آزادی، بقا اور تیرے پرچم و علم کی بلندی کی خاطر تیرے شیدائیوں نے جانیں دیں، لہو بہایا، اور سینوں پر گولیاں کھائیں، مگر تجھ پر کبھی آنچ نہ آنے دی۔ تیرے لہو سے رنگین، جاذبِ نظر پرچم کو تیرے بلند و بالا کوہِ سلیمان کی آزاد فضاؤں میں سربلند رکھا۔ جب بھی تُو نے پکارا، تیرے عاشقوں نے اپنا تن، من، دھن سب کچھ تجھ پر قربان کر دیا۔ جب بھی تُو پیاسا ہوا، انہوں نے اپنا سر تیز دھار شمشیر کی نوک پر رکھا۔ ظلمت کی اندھیری راتوں میں پروانوں کی مانند شعلہ بار نالے بلند کیے، تجھ پر فدا ہوئے، تجھ پر نثار ہوئے۔

اے میرے محبوب وطن! جب بھی تجھ پر اسیری کا سایہ پڑا، جب بھی تُو طوق و زنجیروں میں جکڑا گیا، جب بھی تُو ظلم و استبداد کا شکار ہوا، تیرے جانثار ہمیشہ تیری آزادی کے لیے کوشاں رہے۔ جب بھی تُو نے اپنے بقائے دوام کے لیے اپنے دیوانوں کو پکارا، وہ آخری دم تک میدانِ جنگ سے پیچھے نہ ہٹے۔ اے مادرِ وطن! فراموش نہ کرنا وہ پندرہویں صدی کی قربانیاں، جب مغل حکمرانوں نے تیری گردن میں غلامی کا طوق ڈال دیا، تیرے نوجوان لہو کے دریا میں ڈوب گئے، ہزاروں جانیں قربان ہوئیں، گھروں کے شیرازے بکھر گئے، گلیوں کی رونق ماند پڑ گئی۔ کبھی ان قربانیوں کو نظر انداز نہ کرنا، جو آج بھی آزادی کے راستے پر چلنے والے مسافروں کی ہمت و حوصلہ بڑھاتی ہیں۔ جو کبھی اٹھارہویں صدی میں افغان بادشاہوں کے سامنے ڈٹے رہے، تو کبھی فارس کی فوجوں سے لڑتے رہے، کبھی انیسویں صدی میں سامراجِ برطانیہ کے مقابل کھڑے ہوئے اور فرنگیوں کو نیست و نابود کیا۔

اے وطنِ عزیز و محبوب! ان کی قربانیوں کو تاریخ کے سنہرے پنوں پر رقم کرنا، انہیں اپنی منزل کا چراغ بنانا۔ ان کے خون سے اپنے پرچم کی زینت و خوبصورتی قائم رکھنا اور تا ابد ان کے ناموں کو زندہ رکھنا۔ جب بھی تُو آزاد ہوگا، ان کی قربانیوں کو سرفہرست رکھنا۔ ہمیشہ ان کے نظریے اور میراث کو زندہ رکھنا، کبھی فراموش نہ کرنا۔

اے میرے آبائی زمین! تیری آزادی کی شمعیں زاہدان سے مکران، سیستان سے کلات تک جلتی رہی ہیں۔ ایران سے پاکستان تک جتنی بھی زنجیریں تیرے گرد باندھی گئیں، تیرے نوجوان، چاہے مغربی بلوچستان کے ہوں یا مشرقی بلوچستان کے، نکلے اور انہیں توڑ ڈالا۔ اے میرے مادرِ وطن! اپنے نڈر اور بہادر شہزادوں کو نہ بھولنا، جو تیری آزادی کی جدوجہد میں اپنی جانیں قربان کر کے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

اے عزیز وطن! جب انگریز فرنگیوں نے افغانستان پر یلغار کے لیے تیرا (بلوچستان) کا راستہ چنا، تو تیرے حریت پسند نوجوانوں نے خان محراب خان کی لاعلمی میں، اپنے وطن سے محبت اور دل میں بھڑکتے عشقِ وطن کے شعلے کے تحت، 1838 میں فرنگیوں پر حملہ کیا۔ کئی استعمار پرست فرنگیوں کو جہنم واصل کیا اور ان کے لشکروں کو تباہ و برباد کر دیا۔ اور جب قابض فرنگیوں نے شاہ امیر دوست کا تختہ الٹ کر کابل کو فتح کیا، تو حکم ملا کہ خان محراب خان پر حملہ کیا جائے تاکہ تجھ پر غلامی کا طوق ڈال دیا جائے اور تجھے زنجیروں میں جکڑ دیا جائے۔

جب 13 نومبر 1839 کو سات ہزار فرنگی فوج قلات کی جانب روانہ ہوئی، تو خان محراب خان کو ان کے حملے کی خبر پہلے ہی مل چکی تھی۔ جب محراب خان نے اپنے جانثاروں کو وطن کی پکار سے آگاہ کیا، تو کئی سردار اس بات پر راضی نہ ہوئے کہ برطانیہ کبھی ان پر حملہ نہیں کرے گا۔ ان نام نہاد سرداروں کی نااتفاقی کے سبب صرف 300 وطن پرست، شمشیر تھامے، چٹان کی مانند ڈٹ گئے۔ جب محراب خان کو مشورہ دیا گیا کہ وہ ابھی جنگ کے لیے تیار نہیں، اس لیے قلات چھوڑ کر کسی اور جگہ چلے جائیں اور جب لشکر بڑا ہو جائے، تب میدانِ جنگ میں اتریں، تو ان کی غیرت اور بلند ہمتی نے یہ بات قبول نہ کی۔ انہوں نے کہا:

“میرے والد کا لہو اس سرزمین کے لیے بہا ہے، میں اپنی زمین چھوڑ کر تاریخ میں بدنام نہیں ہونا چاہتا اور نہ ہی غلامی قبول کر سکتا ہوں۔ میں غلامی کی زندگی پر موت کو ترجیح دیتا ہوں۔”

اور یوں یہ مردِ میدان، اپنے سینے پر گولیاں کھاتے ہوئے، دشمن سے لڑتے لڑتے 13 نومبر کو جامِ شہادت نوش کر گئے۔

بلوچ قوم ہمیشہ سے مزاحمت کا گڑھ رہی ہے۔ ہزاروں جانوں کی قربانی دینے کے بعد بھی، بہادر مائیں مسکراتے لبوں کے ساتھ اپنے بیٹوں کو دعائیں دے کر رخصت کرتی رہیں۔ دلیر مائیں اور بہنیں ہمیشہ سے وطن کے جانثاروں کا حوصلہ بڑھاتی رہی ہیں، یہ کہہ کر انہیں گھر کی دہلیز سے الوداع کرتی ہیں:

“غازی بن کر لوٹ آ، یا جامِ شہادت نوش کر۔”

بلوچ مائیں جب بھی اپنے بطن سے بچوں کو جنم دیتی ہیں، تو اسی لمحے انہیں مادرِ وطن کے سپرد کر دیتی ہیں، انہیں وطن کا محافظ اور رکھوالا بناتی ہیں۔ بلوچ قوم نے کبھی غلامی اور اسیری کو قبول نہیں کیا۔ ہزاروں مصیبتوں، صعوبتوں، تکالیف اور طوفانوں کے باوجود ان کی ہمت ہمیشہ بلند رہی۔

13 نومبر کو اپنے نوجوانوں کی خون میں لت پت لاشیں دیکھیں، اجڑے ہوئے گھر دیکھے، بیوہ عورتیں اور یتیم بچے دیکھے، لڑکھڑاتے ضعیف والدین دیکھے، دروازے پر کھڑی بہادر بہنوں کو سہرا تھامے دیکھا، مگر ہار نہ مانی۔ پھر 12 اگست 1840 کو امید کی ایک کرن نمودار ہوئی، جب سردار دودا خان مری نے اپنے بیٹے کی کمان میں لشکر تشکیل دیا۔ مگر برطانوی سامراج ان جری نوجوانوں کے حوصلے سے اس قدر خوفزدہ ہوا کہ ظلم و بربریت کے نئے حربے آزمائے۔ جب دلیر بلوچ نوجوانوں کا سامنا نہ کر سکے، تو مادرِ وطن بلوچستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔

1882 میں شال اور سبی کو الگ کر دیا گیا۔ 23 مارچ 1892 کو سیستان بلوچستان، استعمار ملک ایران کے قبضے میں چلا گیا، جہاں بلوچ ہمیشہ ظلم و جبر کا شکار رہے، جہاں انہیں مسلسل پھانسیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر مغربی مقبوضہ بلوچستان میں میر دوست محمد بارانزئی، جو 1921 سے 1928 تک مغربی بلوچستان کے حکمران رہے، اس قبضے کے خلاف مزاحمت کرتے رہے۔

انہوں نے کہا:

“بلوچوں نے کبھی ہار نہیں مانی۔”

دوست محمد بارانزئی اپنے بہادر ساتھیوں کے ساتھ بڑی جرات مندی سے جنگیں لڑتے رہے، مگر ایران کے سفاک حکمران رضا شاہ پہلوی نے انہیں دھوکہ دینے کے لیے ایک قاصد کے ذریعے خط بھیجا، جس میں لکھا تھا:

“میں قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ میں بلوچستان کی آزادی اور اس کی خودمختاری کو تسلیم کرتا ہوں۔”

اور رضا شاہ پہلوی نے انہیں تہران آنے کی دعوت دی۔ مگر جیسے ہی میر دوست محمد اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تہران پہنچے، انہیں قابض ایرانی ریاست کے کارندوں نے گرفتار کر لیا، اور بالآخر 16 جنوری 1930 کو تہران میں انہیں پھانسی دے دی گئی۔

بالآخر یہ بات عیاں ہے کہ یہ دونوں نام نہاد قابض اسلامی ریاستیں ہمیشہ سے اسلام کے نام پر دھوکہ دینے کی عادی رہی ہیں۔ 1930 میں ایران کے حکمران رضا شاہ پہلوی نے خدا کی مقدس آسمانی کتاب کی بےحرمتی کی، اور 1949 اور 15 مئی 1959 کو نوآبادیاتی اسلامی ریاست پاکستان نے قرآن پاک کا ناجائز استعمال کیا۔ یہ وہ ریاستیں ہیں جو ہمیشہ اسلامی ملک ہونے کا ڈھونگ رچاتی رہی ہیں۔

بلوچ قوم، جو صدیوں سے اپنی آزادی کے لیے کوشاں رہی، جس نے انتھک جدوجہد کی، لہو بہایا اور بے شمار جانیں قربان کیں، بالآخر اس کی جدوجہد رنگ لائی اور 11 اگست 1947 کو بلوچستان ایک آزاد قوم کی حیثیت سے نمایاں ہوا۔ 15 اگست 1947 کو میر احمد یار خان نے بلوچستان کے پرچم کو آزاد فضاؤں میں بلند کر کے گونجتی آواز بلوچی میں خطاب کرتے ہوئے کہا:

“میں آج آپ لوگوں سے بلوچی میں خطاب کرکے فخر محسوس کر رہا ہوں۔ ان شاء اللہ، اگر مستقبل میں بھی خطاب کیا تو وہ بھی بلوچی میں ہی ہوگا، کیونکہ بلوچ قوم کی زبان بلوچی ہے۔” مزید کہا: “سامراج اور استعمار کے تسلط کے باعث میں اپنے نظریات اور خیالات سب کے سامنے ظاہر نہ کر سکا، مگر اب ہم ایک آزاد قوم ہیں۔” (ڈاکٹر عنایت اللہ بلوچ)

مگر یہ آزادی، یہ خوشی، یہ گھروں اور گلیوں کی رونق شاید صرف چند لمحوں کے لیے تھی۔ جلد ہی کالے بادل ایک بار پھر بلوچ قوم پر منڈلانے لگے، اور غلامی کا سایہ دوبارہ چھا گیا کہ ایک نومولد ریاست پاکستان نے بلوچستان کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔ یہ کہنا حقیقت سے انکار ہو گا، کیونکہ ایک لکھاری کو ہمیشہ حقیقت پر مبنی مواد پیش کرنا چاہیے۔ بلوچستان صرف پاکستان کی چالاکی اور مکاری کے سبب جبری الحاق کا شکار نہیں ہوا، بلکہ بلوچ قوم کی بھی کچھ غلطیاں اس میں شامل ہیں۔ یا پھر یہ کہ اپنوں سے اجنبیت کا رویہ اختیار کر کے، ایک نوآبادیاتی قوم کے مکار حکمرانوں سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا گیا۔ شاید آزادی کے بعد خان آف قلات یہ بھول گئے تھے کہ ہر کسی کی نظر بلوچستان پر ہے، کیونکہ نواب خیر بخش مری کہتے ہیں: “بلوچستان غریب کی ایک خوبصورت بیٹی ہے جسے ہر کوئی غلط نگاہ سے دیکھتا ہے۔”

محمد علی جناح، جنہیں سامراج قوم کے نیچے دھبے ریاست کے قائد کے طور پر جانا جاتا ہے، خان آف قلات میر احمد یار خان کے مشیر اور وکیل تھے، جنہیں خان اپنے والد کہا کرتے تھے۔ مگر اصل میں تو وہ آستین کا سانپ ہی نکلا جس نے خان کو ہی ڈس ڈالا۔

بلوچستان کی آزادی کے بعد جب برطانیہ کے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے خان آف قلات سے بلوچستان کے ساتھ 15 سالہ معاہدہ کرنے کی بات کی اور کہا کہ اس معاہدے کے آغاز تک اسے راز رکھا جائے، تو خان آف کلات اپنوں سے اختلافات کی وجہ سے سب کچھ کھو بیٹھا اور بلوچستان کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا۔ خان آف قلات بجائے اپنے ساتھیوں سے اس معاہدے کے لیے مشورہ لینے کے، کسی اور ملک کے حکمران، جناح سے مشورہ کرنے لگے، یہاں تک کہ اپنے ملک میں آنے کی دعوت بھی دیتے رہے۔ جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو یہ محسوس ہوا کہ میر احمد یار خان بھروسے کے لائق نہیں، تو اس نے پاکستان کو اپنے ساتھ ملا کر بلوچستان میں پنجے گاڑ دیے۔

خان آف کلات کی اندرونی نااتفاقیوں اور بیرونی مشوروں سے بلوچستان ایک بار پھر غلامی و بربریت کی زد میں آگئی۔ خان آف کلات کا اپنی حکومت کے معاملات میں جمہوری مشاورت کے بجائے انفرادی فیصلے کرنا، اور بیرونی طاقتوں سے رابطے، بلوچستان کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کرگئے۔

وہ آزاد ریاست بلوچستان، جس نے کئی بیرونی حملہ آوروں کا مقابلہ کرکے خود کو غلامی کے پھندے سے رہائی دلائی، خود کو اور اپنے باحوصلہ باشندوں کو نہی پہچان دی، بدقسمتی سے، 27 مارچ 1948 کو ایک بند، سیاہ کوٹھری میں غمزدہ اسیر کی مانند ایک نومولود ریاست کے ہاتھوں قابض ہو گئی۔

جیسے ہی بلوچستان غلامی کی زنجیروں میں جھکڑ گیا تو ہر بہادر ماں کے بطن سے جنم لینے والے بچوں کی قلب سے صدا نکلی کہ ہم غلام ہے اور یہ حقیقت ہمیں مانا ہوگا۔ کیونکہ جب تک ہمیں اپنی غلامی کا شعور نہ ہو، تب تک اس کے خلاف ہماری جدوجہد بے سود رہے گی۔ کیونکہ ایک قیدی پرندہ تب ہی بے چینی میں مبتلا ہوتا ہے جب اسے حقیقتاً احساس ہو کہ وہ آزادی سے پرواز نہیں کر سکتا۔ وہ پنجرے کی قید میں بے بسی سے تڑپتا ہے اور تب تک اپنا سر سلاخوں سے مارتا رہے گا جب تک وہ آزاد نہ ہو پائے، چاہے اس جدوجہد میں اس کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ کیونکہ غلامی، موت سے بھی بدتر ہے۔

اسی طرح بلوچ فرزندوں نے غلامی میں گھٹ گھٹ کر مرنے کے بجائے ہتھیار اٹھا کر پہاڑوں کا رخ کیا، جہاں وہ آخری سانس تک دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے آزادی کا نعرہ بلند کرتے رہے۔ جبری الحاق کے خلاف خان آف قلات، میر احمد یار خان کے وطن دوست بھائی، شہزادہ کریم خان اور محمد رحیم خان نے اپنے بہادر ساتھیوں سمیت بغاوت کا علم بلند کیا اور پہاڑوں کی طرف نکل گئے۔ مگر پاکستان، جو اپنی عیاری اور مکاری میں ماہر ہے، نے ایک بار پھر دھوکہ دہی سے کام لیا۔

یہ ریاست، جو خود کو اسلامی کہنے کا دعویٰ کرتی ہے، ہمیشہ اسلام کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے۔پر

“سر کٹنے سے نہ کم ہوں گے، نہ ہی گردنیں پھانسی کے پھندوں سے۔ نہ گولیوں سے چھلنی لاشوں سے، نہ زخم کھانے والے سینوں سے۔ اے وطن! تیرے جانباز ہمیشہ بارود لیے سینہ سپر رہیں گے۔”

بلوچ قوم نے ہر نا انصافی و بربریت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا ہے۔ چاہے وہ مغل حکمران ہو، فارس، برطانیہ،ایران یا پاکستان کبھی کسی کے سامنے سر نہ جھکایا۔ ہمیشہ سر بلند رہیں۔ ریاست پاکستان نے کبھی اپنی مکاری نہ چھوڑی بلکہ ہمیشہ سے بلوچستان کی ہر تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے نئے حربوں کا استعمال کرتا گیا۔ کہتے ہیں، جب کوئی قوم لڑکھڑانے لگے اور لڑنے کی سکت کھو بیٹھے، تو اپنی کمزوری چھپانے کے لیے کمزوروں پر حملہ آور ہو جاتی ہے—جیسے خواتین، بچے اور بزرگ۔ جب ظلم و بربریت سے بھی مقصد نہ حاصل ہو، تو وہ اپنی ناپاک سازشوں کے لیے سب سے مقدس چیز—قرآن یا اسلام—کا ناجائز سہارا لینے لگتے ہیں۔ جس کی واضح مثال ان نام نہاد اسلامی ریاستوں میں دیکھی جا سکتی ہے، جو اپنے مفادات کے لیے شریعت کا صرف ظاہری لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔

جس کی بنیاد ون یونٹ پالیسی سے رکھی گئی، جہاں طاقتور نے اپنے مفادات کے لیے کمزور کی شناخت مٹانے کی کوشش کی۔

ون یونٹ پالیسی کا آغاز 22 نومبر 1954 کو سفاک ریاست کے وزیرِاعظم محمد علی بوگرہ کی سرپرستی میں ہوا، جبکہ قومی اسمبلی نے 30 ستمبر 1955 کو اس کی منظوری دی۔ اس پالیسی کے تحت تمام علاقوں اور صوبوں کو یکجا کرکے پاکستان کو دو اکائیوں میں تقسیم کرنا تھا: مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلادیش)، جس کا دارالحکومت ڈھاکہ تھا، اور مغربی پاکستان، جہاں آزاد ریاست بلوچستان کو زبردستی ضم کر دیا گیا۔

بلوچستان، جو ایک خودمختار ریاست تھا، کو مساوی حیثیت دینے کے بجائے کمتر درجہ دیا گیا، جسے بلوچ قوم نے کبھی قبول نہ کیا۔ بلوچ عوام کے لیے بلوچستان کی صوبائی حیثیت بھی ناقابلِ قبول تھی، کیونکہ انہوں نے ہمیشہ بیرونی تسلط کے خلاف مزاحمت کی۔ اس لیے اس نام نہاد ون یونٹ پالیسی کے خلاف 1958 میں زہری قبیلے کے سردار، نواب نوروز خان زرکزئی، نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہاڑوں میں پناہ لے کر بغاوت کا آغاز کیا۔ ان کی جدوجہد صرف ون یونٹ کے خلاف نہ تھی بلکہ خان آف قلات، میر احمد یار خان، کی گرفتاری پر بھی شدید احتجاج تھا، جو خود بھی اس پالیسی کے مخالف تھے۔ قلات کی حیثیت کو بزورِ طاقت ختم کر کے اسے مغربی پاکستان میں ضم کر دیا گیا، جس سے ایک نئی مزاحمتی تحریک نے جنم لیا۔

نواب نوروز خان نے اپنے بیٹے اور ساتھیوں کے ساتھ گوریلا جنگ کا آغاز کیا، تو سفاک ریاست، جو ہمیشہ سے وعدہ خلافی کرتی آئی تھی، نے انہیں قرآن کا واسطہ دے کر پہاڑوں سے نیچے آنے کو کہا اور یقین دہانی کرائی کہ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔

تب بلوچ سرمچاروں نے جواب دیا:

“ہم قرآن کے نام پر اتر رہے ہیں تاکہ اس کی بے حرمتی نہ ہو، مگر ہمارے حوصلے اب بھی بلند ہیں، ہم نے ہار نہیں مانی۔”

لیکن دلار آرمی چیف محمد ایوب خان نے دھوکہ دیا۔ جونہی وہ پہاڑوں سے اترے، انہیں ہتھکڑیاں پہنا کر حیدرآباد جیل منتقل کر دیا گیا، جہاں نواب کے بیٹے، بھانجے اور بھتیجوں کو پھانسی دے دی گئی۔ جب نواب نوروز خان کو آخری دیدار کے لیے بلایا گیا، تو انہوں نے اپنے بیٹے کی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا:

“بٹّے خان صرف میرا بیٹا نہیں، یہ سب میرے بیٹے ہیں۔ یہ مرے نہیں، بلکہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ مرے تو وہ ہیں جنہوں نے قرآن کی بے حرمتی کی۔ ان پر آنسو نہیں، بلکہ فخر ہونا چاہیے۔ انہیں یوں دیکھو جیسے نئے شادی شدہ دلہے ہو، جو ایک عظیم تحریک کی بنیاد رکھ کر رخصت ہوئے ہیں۔”

نواب نوروز خان نے اپنی زندگی کی اخری سانس جیل میں دلیری اور بہادی سے گزارتے ہوئے 1962 کو رخصت ہوئے۔ پر بلوچ قومی تحریک کمزور نہیں ہوئی بلکہ بغاوت اور آزادی کی اس تحریک کو مزید توانائی ملا۔

“خون بہانے سے لہو کی ندیاں کبھی تھمتیں نہیں، لاشوں کے انبار سے حوصلے نہیں کم ہوتے، اور آنگن میں بکھرے خون سے آزادی کی راہیں مٹتی نہیں۔ دہرے درد و غم کے بادل جب چھا جائیں، تب بھی امید کی کرنیں کبھی مدھم نہیں پڑتیں، ان خونی راستوں پر چلتے قدم کبھی رکیں نہیں، ظلم کی دیواروں سے گونجتی آوازیں کبھی دبتی نہیں۔”

حیر بیار مری کا وہ ایک جملہ ہمیشہ میرے دل میں اُتھل پتھل مچاتا ہے، جو میری ہمت کو نئی جِلا بخشتا ہے اور میری جدوجہد کو لا متناہی طاقت سے سیراب کرتا ہے۔ میں اسے اپنی باز تحریروں میں بار بار دہرایا کرتی ہوں، اور ہر بار یہ جملہ میرے اندر ایک نیا جزبہ اور ایک نئی امید پیدا کرتا ہے۔ “ہم جب تک غلام ہیں، تب تک جدوجہد کرتے رہیں گے۔”

یہ صرف ایک قول نہیں بلکہ آزادی کا ایک نعرہ ہے ۔

( جاری ہے) ٭٭٭