پاکستان بلوچ تحریک آزادی کو کُچلنے کے لیے طاقت کے ساتھ اربوں روپے کا پیسہ بھی استعمال کررہا ہے ‘ جو مردہ ضمیر کمزور اور تھکن کے شکار جہدکاروں پر خرچ ہورہے ہیں چین گوادر کو لے کر ہر قسم کے اپنے عزائم کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے پاکستان سے اپنے ناجائز کام کروارہا ہے دو طاقتوں کے پیچ اپنے وطن کی دفاع کے لیے لڑنے والا بلوچ اپنے جنگ کو قومی جذبہ اور جنگی صلاحتیوں کے ذریعے قائم رکھے ہوئے ہیں ‘ اب گوادر پروجیکٹ یا اس corridor کی کامیابی کے لیے آس پاس کی بلوچ آبادیوں کی نقل مکانی یا ملیا میٹ کرنا پاکستان کی اولین ترجیح میں شامل ہے اور پاکستان بلوچ نفسیات سے واقف ہے کہ طاقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنے شیطانی دماغ کو بھی استعمال کر رہا ہے کہ گوادر سے پنچگور تک طاقت کی بے تحاشہ استعمال بمبارمنٹ فوجی آپریشن بلوچ آبادیوں پر شیلنگ کے ساتھ ساتھ بلوچ سرمچاروں کو سرنڈر کروانے کے لیے نشنل پارٹی بی این پی مینگل اور عوامی کے علاقائی میر معتبرین کو استعمال کررہا ہے کہ اگر تمھارے بچوں نے سرنڈر نہیں کیا تو انکے گھر جلے جائیں گے یا خواتین کو اغوا کیا جائے گا اور اسکا تازہ مثال بولان سے 27 بلوچ خواتین بچوں کی اغوا کا داستان ہے ‘ ایک مخلص جنگجو کو اس طرح کے خربے کسی صورت سرنڈر نہیں کرواسکتے ہیں لیکن کمزور مردہ ضمیر بندوق بردار تھکن کا شکار ہوکر اپنے زمین کا سودا کرئے گا اور حالیہ سرنڈر کے داستان اتنے سادہ نہیں کہ پلان جہد کار پاکستان کو سلامی پیش کرکے پرامن شھری بن گیا بلکہ اربوں روپیہ کی ایک پروجیکٹ ہے جو ان سرنڈروں کے پیچھے ہے ایک بلوچ سرمچار کو پیغام دیا جاتا ہے کہ سرنڈر کرو اور یہ لاکھوں روپیہ لے کر سندھ یا کراچی میں جاکر ایک نیا زندگی شروع کرو یا اپنی ماں بہن کی اغوا کو برداشت کرو کمزور مردہ ضمیر جنگجو جب سرنڈر ہوکر اپنے علاقے سے ہجرت کرتا ہے یا سرکاری بندوق اٹھا کر اپنے لوگوں کو مارتا ہے تو ریاست کے پالے ہوئے علاقائی لوگ عوام میں یا ان آبادیوں میں جاکر یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں دیکھو اس جنگ کے سرمچاروں نے سرنڈر کیا ہے اس جنگ کا حقیقت یہی ہے کہ مفت میں مرو یہان کوئ آزادی کی تحریک نہیں ہے بلکہ ترقی کے اس سفر میں شامل ہوجاؤ اور گوادر سے چین تک جانے والے اس خونی شاہراے کے ارد گرد آبادیوں کو خالی کرو اور یہ پیسے لے کر کسی دوسرے شھر میں آباد ہوجاؤ جب گوادر میں ترقی ہوگا تو ترقی تمھارے لیے ہوگا لیکن بلوچوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ گوادر انکی زندگی اور موت کا سوال ہے جب تک ایک غیرت مند بلوچ زندہ ہے یہان میگا استحصالی پروجيکٹوں کے لیے کبھی بھی ماحول سازگار نہیں ہوگا. جس شہ رگ کو کاٹ کر چین کے حوالے کیا جارہا ہے اور مستقبل کے سنگاپور کے خواب دکھے جارہے ہیں وہان کے باسی ایک بوند پانی کو ترس رہے ہیں اور گودار میں پانی کا خالیہ بحران بھی اس منصوبے کا حصہ ہے کہ گوادر سے بلوچ آبادی نقل مکانی کرے اور اس تمام منصوبے میں پاکستان کے ساتھ پارلیمانی بلوچ نام نہاد پارٹیاں شامل ہیں اور دوسری طرف یہ پارٹیاں عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے بیان بازی کررہے ہیں چونکہ اس سے پہلے ریاست بلوچ عوام کو آزادی سے بد ظن کرنے کے لیے ہر طرح کی خربہ استعمال کرچکا ہے جس طرح مکران میں درجنوں ڈاکو منشیات کے عادی افراد بی ایل ایف بی آر اے میں جوق در جوق داخل ہوئے کئ بے گناہوں کو شھید کر کے قبول کرنا تاکہ عوام اور سرمچاروں کے پیچ ایک خیلج پیدا کیا جائے جو ایک حد اور وقت تک کامیاب ہوا اب سرنڈروں کا ایک گیم شروع کرچُکا ہے جو آنے والے وقتوں میں ریاستی طاقت کے ساتھ ساتھ تیز تر ہوگا. بلوچ مسلح تنظمیوں کو ایک پلٹرایشن کے عمل سے گزرانا ہوگا اور عوام کو بھی ریاستی ہر چال سےہوشیار رہنا ہوگا