آج سے بیس سال قبل، 17 مارچ 2005 کو بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں پاکستانی فوج نے شدید فضائی اور توپ خانے کی بمباری کی، جس کے نتیجے میں 70 سے زائد افراد شہید ہوئے۔ شہداء میں بڑی تعداد ہندو برادری کے افراد کی تھی، جو شہید نواب اکبر خان بگٹی کے قلعے کے اطراف رہائش پذیر تھے۔ اس حملے میں بلوچ رہنما شہید نواب اکبر خان بگٹی کے اہل خانہ بھی زخمی ہوئے، تاہم نواب بگٹی معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔

پس منظر اور واقعات

بلوچستان میں فوجی چھاؤنیوں کے قیام کے خلاف مزاحمت کا آغاز اس وقت ہوا جب سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے بلوچستان میں فوجی بیسز بنانے کا اعلان کیا۔ بلوچ رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں نے اس اقدام کی شدید مخالفت کی، اور 2003-2004 میں ڈیرہ بگٹی اور سوئی میں عظیم الشان جلسے منعقد کیے گئے۔ ان جلسوں میں شہید نواب اکبر خان بگٹی، شہید نوابزادہ بالاچ مری، سردار اختر مینگل، مرحوم ڈاکٹر عبدل حئی بلوچ سمیت کئی اہم بلوچ رہنماؤں نے شرکت کی اور فوجی جارحیت کے خلاف سخت مزاحمت کا اعلان کیا۔

بلوچ مزاحمت کا آغاز

اس کے بعد ڈیرہ بگٹی میں بلوچ مزاحمت کاروں نے گیس پائپ لائنوں اور دیگر تنصیبات پر حملے شروع کر دیے۔ جنوری 2005 میں سوئی گیس فیلڈ کے ایک ہسپتال میں تعینات لیڈی ڈاکٹر شازیہ میمن کے ساتھ ڈیفنس سروس گارڈز (ڈی ایس جی) کے کیپٹن حماد کی طرف سے زیادتی کے واقعے نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا۔ نواب اکبر بگٹی نے مطالبہ کیا کہ اس افسر کو سزا دی جائے یا بلوچ روایات کے تحت انہیں حوالے کیا جائے۔ تاہم، جنرل مشرف نے دعویٰ کیا کہ کیپٹن حماد “دو سو فیصد بے گناہ” ہے، جس سے بلوچ عوام میں شدید غم و غصہ پیدا ہوا۔

جواب میں نواب اکبر بگٹی اور ان کے ساتھیوں نے گیس فیلڈ سمیت فوجی چوکیوں پر حملے شروع کر دیے۔ بلوچ مزاحمت کاروں نے گیٹ نمبر پانچ پر تعینات ڈی ایس جی چوکی پر حملہ کیا، جس میں تمام اہلکار ہلاک ہوئے اور ان کا اسلحہ ضبط کر لیا گیا۔

17 مارچ 2005 کا حملہ

اس صورتحال کے جواب میں 17 مارچ 2005 کو پاکستانی فوج نے ڈیرہ بگٹی شہر پر شدید بمباری کی، جس میں 70 سے زائد افراد شہید اور 250 سے زائد زخمی ہوئے۔ اس حملے کے ردعمل میں بلوچ مزاحمت کاروں نے شہر کے تمام داخلی و خارجی راستے بند کر کے فوج پر شدید حملے کیے۔

تین روز تک جاری رہنے والی جھڑپوں میں 11 بلوچ مزاحمت کار شہید ہوئے، جبکہ سینکڑوں فوجی اہلکار ہلاک کیے گئے۔ بلوچ مزاحمت کاروں نے دو بڑے فوجی کیمپوں کو محاصرے میں لے لیا۔ اس محاصرے کو ختم کروانے کے لیے چوہدری شجاعت حسین، مشاہد حسین اور وسیم سجاد نے ڈیرہ بگٹی کا دورہ کیا اور نواب اکبر بگٹی سے مذاکرات کیے۔ ان مذاکرات کے بعد فوجی چوکیوں کا محاصرہ ختم کر دیا گیا، مگر ریاست نے دھوکہ دے کر دوبارہ جنگ کا آغاز کر دیا۔

نتیجہ اور اثرات

17 مارچ 2005 کے حملے کو بلوچستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ بلوچ قوم کے خلاف فوجی بربریت اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی ایک مثال ہے۔ اس کے بعد بلوچ مزاحمت میں مزید شدت آئی اور نواب اکبر بگٹی نے اپنی آخری سانس تک بلوچ حقوق کے لیے جنگ جاری رکھی۔

یہ حملہ بلوچستان میں جاری مزاحمتی تحریک کی بنیاد بنا، جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔

(نوٹ: مصنف کے خیالات کے ساتھ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)