پاکستان کے سیاسی و سماجی نظام میں “قوم” کی تعریف نہایت مبہم اور غیر واضح ہے۔ پشتون، بلوچ، سندھی، پنجابی یہ تمام اقوام اپنے اندر منفرد تاریخی، ثقافتی اور نسلی شناختیں رکھتی ہیں، جو انہیں ایک یکساں قوم کے طور پر پیش کرنے کی سائنسی بنیاد سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ ہر ایک قوم کی اپنی مخصوص سرزمین اور اس پر قائم تاریخی حاکمیت ہے جسے تسلیم کرنا ضروری ہے۔ اگر اندرونی سماجی نابرابری یا دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں، تو ہر قوم اپنی شناخت اور روایات کے مطابق خود ان کا ادراک کر کے اصلاح کا عمل شروع کر سکتی ہے۔
خود پاکستان کا وجود تاریخی طور پر ایک غیر فطری اور زبردستی تھوپی گئی ریاستی ساخت ہے، جس کا قیام بلوچوں، پشتونوں اور پنجابیوں کی فطری جغرافیائی وحدتوں کی تقسیم کی قیمت پر عمل میں آیا۔ بلوچ قوم کو تین حصوں (پاکستان، ایران اور افغانستان) میں بانٹ دیا گیا، جبکہ پشتون قوم بھی تین یا چار حصوں میں تقسیم کر دی گئی۔ اس جبری تقسیم کا مقصد برصغیر کے طاقتور پنجابی حکمران طبقے کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانا تھا، جو اس غیر فطری ریاست کے سب سے بڑے بینیفشری (beneficiaries) بن کر ابھرے۔ موجودہ پاکستانی بندوبست میں، مختلف اقوام کی علیحدہ شناخت کو نظرانداز کرتے ہوئے انہیں نسلی یا لسانی لیبلز میں قید کر کے ایک یکجہتی کا انداز پیش کیا گیا ہے۔ یہ حکمت عملی نہ صرف پشتون اور بلوچ جیسے اہم اقوام کی حقیقی شناخت کو مسترد کرتی ہے بلکہ ان کے تاریخی حقوق اور جذبات کو بھی ٹھیس پہنچاتی ہے۔ ایسے نظریات اور پالیسیاں ایک مضبوط اور مستحکم سماجی ڈھانچے کی تعمیر میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں، کیونکہ ہر قوم کی اپنی الگ شناخت اور مسائل ہوتے ہیں جن کا حل انفرادی سطح پر بہتر طور پر نکالا جا سکتا ہے۔
حقیقت بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ ساخت میں قومی شناخت کو یکساں قرار دینے کی کوشش ایک غیر حقیقت پسندانہ اور سائنسی اعتبار سے غلط مفروضہ پر مبنی ہے۔ اس کے بجائے، ہر قوم کی الگ شناخت اور ان کی مخصوص سرزمین پر حاکمیت کو تسلیم کر کے ہی ایک حقیقی اور جامع سماجی انصاف کا نظام وجود میں لایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ، جو بنیادی طور پر پنجابی جرنیلوں پر مشتمل ہے، مذہب اور شدت پسندی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے مختلف اقوام پر اپنی مخصوص شناخت مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ ایک مصنوعی رویہ ہے، جس کے ذریعے ریاستی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے ایک مرکزی، یکساں قومی تصور کو زبردستی نافذ کیا جا رہا ہے۔
اس حکمت عملی کے تحت مذہب کو ایک ایسے آلے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جو قوموں کی انفرادی شناخت کو دبانے میں مدد دے۔ نتیجتاً، بلوچ، پشتون، سندھی، اور دیگر اقوام پر ریاستی جبر کے تحت ایک ایسا سماجی و سیاسی ڈھانچہ تھوپا جا رہا ہے جو ان کی تاریخی، ثقافتی، اور قومی حقیقتوں سے متصادم ہے۔ یہ عمل نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ اس کا کوئی حقیقی جواز بھی نہیں، کیونکہ کسی بھی قوم کو زبردستی ایک خاص قومی تشخص میں ڈھالنا فطری اصولوں اور انسانی حقوق کے بنیادی تصورات کے خلاف ہے۔
بلوچ اور پشتون جیسی اقوام اپنی علیحدہ شناخت، زبان، ثقافت اور تاریخی پس منظر رکھتی ہیں، اور وہ کسی مصنوعی ریاستی بیانیے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ طاقت کے زور پر ان کی شناخت کو مٹانے کی کوششیں نہ صرف ان کی مزاحمت کو بڑھا رہی ہیں بلکہ یہ طرزِ عمل پاکستان کے داخلی انتشار کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ جب تک ان اقوام کو ان کے مرضی کے مطابق حق آزادی نہیں دیا جاتا، وہ ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت جاری رکھیں گے۔
پاکستان میں پنجابی فوجی حکمرانی (military domination) کی تمام تر خونی مہمات، سازشیں اور ریشہ دوانیاں بالآخر ناکامی سے دوچار ہو چکی ہیں۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے طاقت اور جبر کے ذریعے مختلف اقوام پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کی کوشش کی، لیکن بلوچوں اور پشتونوں سمیت دیگر محکوم اقوام نے اسے کبھی بھی اپنی مرضی سے قبول نہیں کیا۔
اس حقیقت کے باوجود، پنجابی حکمران طبقہ اور اس کی پشت پناہی کرنے والی فوجی اسٹیبلشمنٹ مسلسل اس تاریخی اور جغرافیائی سچائی کا انکار کر رہی ہے۔ وہ اپنی استحصالی پالیسیوں کو مذہب، حب الوطنی اور ریاستی یکجہتی کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر بلوچوں اور پشتونوں سمیت دیگر محکوم اقوام کے لیے یہ بیانیہ قابلِ قبول نہیں۔
تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ کسی بھی قوم کو طاقت ک زور پر ہمیشہ کے لیے دبایا نہیں جا سکتا۔ جبری ریاستی ڈھانچے آخرکار اپنے اندرونی تضادات کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں، اور پاکستان میں پنجابی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی زبردستی مسلط کردہ حاکمیت بھی اسی منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔
جس طرح سوویت یونین اور یوگوسلاویہ جیسے غیر فطری اور زبردستی تھوپے گئے ریاستی ڈھانچے اپنی داخلی تضادات، معاشی ناکامیوں اور سیاسی بحرانوں کے باعث قائم نہ رہ سکے، اسی طرح پاکستان بھی اپنی بقا کی جنگ ہار چکا ہے۔ سوویت یونین کے خاتمے کی ایک اہم مثال سامنے ہے: جب معاشی اور سیاسی بدحالی حد سے تجاوز کر گئی تو بوریس یلسن، یوکرین اور بیلاروس کے رہنماؤں (لیونید کراؤچک اور لوکاشینکو) نے زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے بغیر کسی بڑے خون خرابے کے اپنی راہیں جدا کر لیں۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جبری طور پر جوڑی گئی ریاستیں، جہاں مختلف اقوام کو ان کی مرضی کے بغیر ایک قومی شناخت میں قید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، آخرکار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ سوویت یونین کی مثال یہ ثابت کرتی ہے کہ جب مرکزیت پر قائم ریاستی بندوبست عوامی امنگوں سے متصادم ہو جائے، تو اس کا انجام ہمیشہ علیحدگی کی صورت میں نکلتا ہے۔
پاکستان کی پنجابی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہی سبق سیکھنا چاہیے۔ مسلسل جبر، استحصال، اور مصنوعی قومی تشخص مسلط کرنے کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔ معاشی بدحالی، سیاسی عدم استحکام، اور ریاستی اداروں کی تباہی یہ واضح کر رہی ہے کہ پاکستان اپنی موجودہ ساخت میں زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکتا۔
اب وقت آ گیا ہے کہ پنجابی جرنیل اور حکمران طبقہ زمینی حقیقتوں کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی جارحانہ پالیسیوں سے دستبردار ہو جائیں اور اپنی حاکمیت کو صرف پنجاب تک محدود کر لیں۔ اگر وہ ایسا کر لیں، تو یہ پورے خطے کے کروڑوں انسانوں کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا، جہاں ہر قوم کو عزت، خودمختاری اور اپنی مرضی کے مطابق جینے کا حق حاصل ہوگا۔ جبری ریاستی اتحاد کی جگہ باہمی احترام اور قومی خودمختاری کے اصولوں پر مبنی ایک نئی جغرافیائی انتظام ہی اس خطے میں پائیدار امن اور استحکام کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔