دنیا میں کچھ ایسے کردار ہوتے ہیں جو صرف افراد نہیں ہوتے، وہ تحریکوں کے چشم و چراغ، اقوام کے خمیر و ضمیر، اور وقت کی دھڑکن بن جاتے ہیں۔ ماھیکان بلوچ انہی کرداروں میں سے ایک تھی۔ وہ محض ایک عورت نہ تھی، بلکہ ایک نظریہ، ایک مزاحمت، اور ایک روشن صبح کی نوید تھی۔ وہ ایک شمع، ایک تحریک، اور ایک روشنی تھی جو چلتن، بولان اور قلات کے اندھیروں کو چیر کر ابھری۔ ماہکان، بلوچی زبان کا ایک خوبصورت لفظ جس کا مطلب ہے “چاندنی” ایک ایسی روشنی جو رات کے سناٹے میں اُمید، حسن اور سکون کی علامت ہوتی ہے۔ مگر بعض چاندنیاں صرف آسمان پر نہیں، زمین پر بھی جنم لیتی ہیں۔ کچھ ایسی چاندنیاں، جو اپنے شعور، عزم، قربانی اور محبت سے اندھیروں کو چیر کر روشنی کی ایک نئی تعریف بن جاتی ہیں، رہنمائی کا مشعل بن جاتی ہیں۔ ماھیکان، ایک ایسی ہی چاندنی تھی۔
اگر حوصلہ، شجاعت، اخلاص، ایثار، استقامت، شعور اور عشقِ وطن جیسے اوصاف کو ایک ہی قالب میں ڈھالا جائے، تو جو پیکر سامنے آتا ہے، وہ ماہکان کا ہوتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں سمندر کی گہرائی تھی، اور اس کی سوچ میں آتِش قہر کی شدت۔ وہ عمل کی زبان میں بات کرتی تھی، اور اس کی ہر قدم مزاحمت کا پیغام اور امید کی شمع بن کر اندھیروں میں اجالا کرتی تھی۔ماہکان وہ آواز تھی جو صرف للکارتی نہیں تھی بلکہ ہر ضرب سے دشمن کے حوصلے پست کر دیتی تھی۔ قلات کی سرد ہَوا، گواڑخ کی مہک، اور انجیر کی شاخیں آج بھی اُس کی جُرت و بہادری پر نازاں ہیں۔ اس نے اپنی ذات کو اُلفتِ وطن کی آگ میں یوں جھونک دیا کہ خود ایک شعلہ بن گئی۔ ایسا شعلہ جو سدا جلتا ہے، مگر بُجھتا نہیں، جو رہنمائی کرتا ہے اور راہیں دکھاتا ہے۔
ماہکان کی گونج آج بھی بولان کی وادیوں میں سنائی دیتی ہے، اُس کے قدموں کی آہٹ قلات کے سنگلاخ پہاڑوں میں محفوظ ہے۔ کیونکہ وہ کردار جو فکر، جدوجہد، اور قربانی کی لڑی میں پروئے گئے ہو، وہ کبھی مٹتے نہیں۔ وہ تاریخ کے صفحات پر محض الفاظ نہیں، روح کی مانند اترتے ہیں۔ اُس کی جنگ محض بندوق یا دھماکے کی آواز نہ تھی، بلکہ شعور، حکمت، مقصدیت اور صبر کا ایک اعلیٰ نمونہ تھی۔ اُس نے ثابت کیا کہ اصل جنگ میدان میں نہیں، بلکہ دل و دماغ میں لڑی جاتی ہے۔ اُس کی خاموشی بسا اوقات ایسا گہرا پیغام دیتی تھی جو بلند آواز سے بھی زیادہ اثر رکھتا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ جہدکار کو نہ صرف بجلی کی طرح تیز بلکہ سمندر کی طرح گہرا بھی ہونا چاہیے۔
وتن ندر ماہکان دشمن کو للکارتے ہوئے کہا میں ماہکان بلوچ، صرف ایک نام نہیں بلکہ ایک فریاد، ایک پُکار، ایک عہد ہوں، ایک شارُل ہوں، سُمعیہ ہوں، ماھو ہوں، میں بلوچستان کی بیٹی ہوں جس کے ذروں میں شہداء کا لہو پیوست ہے، جس کے پہاڑوں نے غیرت، قربانی اور مزاحمت کو جنم دیا ہے۔ بلوچستان بلکہ آپ کے لیئے ایک نام ہے مگر ہمارے لیئے ہماری پہچان ہے، ہمارا وجود ہے، ہماری ماں ہے اور ہماری بقا کی ضمانت ہے۔
ہم ایک ایسی قوم ہیں جن کی تاریخ 1400 سال پرانی ہے، جنہیں صحابیوں کی شرف بھی حاصل ہے۔ مگر ان 75 سالوں میں ہماری شناخت کو مٹانے، ہماری نسل کو ختم کرنے، ہماری ثقافت کو روندنے کی مسلسل کوشش کی گئی۔ ہمارے طلبہ، بزرگ، خواتین، اور یہاں تک کہ معصوم بچے بھی ریاستی جبر سے محفوظ نہیں۔ ہم نے جبری گمشدگی کو ماں کی گود سے لے کر جوانی تک اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
یہ ظلم، جبر، اور بربریت اب ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ مگر یہ نہ سمجھو کہ کوئی دیکھ نہیں رہا۔ دنیا کی نظریں شاید بند ہوں، مگر تاریخ سب کچھ محفوظ کر رہی ہے اور تاریخ کا فیصلہ نہایت منصفانہ اور تلخ ہوتا ہے۔
ہم اب خاموش نہیں رہ سکتے۔ ہماری ماں، ہماری دھرتی، ہم سے فریاد کر رہی ہے۔ کوئی بھی رشتہ ماں سے پیارا نہیں ہوتا، اور ہم اپنی ماں کے لیے اپنی ہر خوشی، ہر لمحہ، حتیٰ کہ اپنی جان بھی قربان کرنے کو تیار ہیں۔ اگر آج ہم خاموش ہوئے، اگر آج ہم نے اپنی آواز نہ بلند کی، تو آنے والے ہزاروں سال بھی غلامی کے ہوں گے۔ ہماری زمین، زبان، ثقافت سب مٹ جائیں گے۔
وہ اپنے آخری پیغام میں دشمن کو للکارتی رہی کہ جہاں تک بلوچستان کا نقشہ پھیلا ہے، وہاں تک ہم ہیں۔ اس کے ہر کونے کونے میں ہم ایک ہیں، چاہے وہ مغربی بلوچستان ہو یا مشرقی۔ ہماری یہ جدوجہد بلوچستان کی آزادی تک جاری رہے گی۔ مجید بریگیڈ کا کاروان اب زندہ ہے۔ ہم رُکنے والے نہیں۔ دشمن ہم پر تیر اور بم برسائے، تو ہم بھی پھولوں کی سوغات نہیں دے سکتے۔ جس طرح کل ریحان پُلو اور مجید تھے، آج اُن کی بندوق دوسرے ساتھیوں نے سنبھال رکھی ہے۔ اس جنگ میں ہماری خواتین بھی شریک ہیں۔ شاری، سمعیہ، ماہل۔۔۔ اور آج میں، ماہکان۔ مجھے یقین ہے کہ کل میرے بھائی اور بہنیں میری ذمہ داری سنبھالیں گے۔
ارے ماہکان! تم زندہ ہو، تم زندہ قمر ہو۔ تم بدر ہو، شمس ہو، چاندنی ہو، تمھاری روشنی کون روک سکتا ہے کسی کی بس کی بات نہیں کیونکہ تم ایک استعارہ ہو اُس شعور کا، جو زنجیروں کو کبھی قبول نہیں کرتا۔ تم زندہ ہو قلات کی ہر گلی، ہر پہاڑ اور ہر دل میں۔ تمھاری قربانی نے تحریک کو نئی روح بخشی اور تمھاری آواز اب ہزاروں گلے بن چکی ہے۔ آپ جیسے کردار مرکر بھی زندہ رہتے ہیں، کیونکہ آپ تاریخ نہیں، مستقبل ہوتے ہیں۔ آپ زخم نہیں، پیغام ہوتے ہیں۔ آپ صرف شہید نہیں، معمار ہوتے ہیں۔ آپ انجیر کے وہ درخت ہیں جو چٹانوں کے گہری کھائیوں میں اُگ گئی جس طرح آپ کی زبان پر آخری یہی ورد تھی “من ھماں ھنجیراں مزن تاخیں…”
“میں وہ انجیر کا درخت ہوں جو چٹانوں کی گہری کھائیوں میں اگا ہوں… نہ ہوا مجھے ہلا سکی، نہ بارش۔۔۔” یہ صرف الفاظ نہیں تھے بلکہ غاصِب اور قابض کیلئے ایک اعلانِ جنگ تھے۔ ماھیکان عملی مزاحمت کی علامت تھی۔ وہ دشمن کے سامنے جھکی نہیں، بلکہ چلتن کی پہاڑیوں کی طرح سر اُٹھا کر جینے کا فن سکھا گئی۔ اُس کی جنگ بندوق سے نہیں، شعور، حکمت اور نظریاتی پختگی سے لڑی گئی۔ اُس کی خاموشی بھی پیغام تھی — کہ اصل طاقت اندر کی روشنی میں ہے، نہ کہ صرف آواز میں۔
قلات کی فضائیں آج بھی اُس کی نظموں سے گونجتی ہیں، بولان کی وادیاں آج بھی اُس کی آہٹ سناتی ہیں۔ اُس نے اپنی زندگی کو عشقِ وطن میں اس طرح جھونکا کہ خود ایک شعلہ بن گئی — ایسا شعلہ جو رہنمائی کرتا ہے، جو جلتا ہے مگر بجھتا نہیں۔
ماہکان صرف ایک عورت نہیں تھی، وہ بلوچ حوصلے کی بلند ترین مثال، بلوچ غیرت کا عکس اور بلوچ شعور کا ترجمان بن چکی ہے۔ اُس کی جدوجہد محض ذاتی نہیں تھی، بلکہ ایک قومی فریضہ تھی۔ اُس نے کہا کہ بلوچستان صرف جغرافیہ نہیں، ہماری روح ہے۔ اُس نے نوجوانوں کو پکارا کہ اگر بندوق نہیں اٹھا سکتے تو آواز بنو؛ اگر بول نہیں سکتے تو کم از کم دشمن کی صف میں شامل نہ ہو۔
اس کی قربانی نے قلات کی مٹی کو مقدس کر دیا۔ وہ شاعرہ بھی تھی، سپاہی بھی، فلسفی بھی اور معلم بھی۔ اُس نے دکھایا کہ مزاحمت صرف ہتھیار سے نہیں ہوتی، شعور اور فہم سے بھی لڑی جاتی ہے۔ اور جب اُس نے خود کو ایک دھماکے میں لپیٹ کر عشقِ وطن پر قربان کیا، وہ لمحہ تاریخ کے صفحات پر خون سے نہیں، وفا سے لکھا گیا۔
ماہکان آج بھی زندہ ہے۔ کیونکہ وہ صرف فرد نہیں، فکر تھی۔ وہ صرف وجود نہیں، نظریہ تھی۔ وہ صرف شہید نہیں، اقوام کی دھڑکن بن چکی ہے۔ قلات کے انجیر، گواڑخ کی خوشبو، اور چلتن کے سنگلاخ آج بھی اُس کی جرات پر ناز کرتے ہیں۔ اُس کی گونج وقت کی دھول میں دب نہیں سکتی۔
قومیں جن کرداروں کو اپنے شعور کا حصہ بنالیں، وہ کبھی مٹتے نہیں۔ ماھیکان ایسا ہی ایک کردار ہے ایک استعارہ، ایک درس، اور ایک اُمید۔
ماہکان زندہ ہے، کیونکہ جو نظریے کے لیے جیتے ہیں، وہ مر کر بھی زندہ رہتے ہیں۔ وہ تاریخ نہیں، مستقبل ہوتے ہیں۔ وہ زخم نہیں، پیغام ہوتے ہیں۔ وہ صرف شہید نہیں، معمار ہوتے ہیں۔
ماہکان، ایک روشنی جو صرف تاریخ کی زینت نہیں بنی، بلکہ رہتی دنیا تک بلوچ شعور کا استعارہ بن گئی۔