تحریر ۔ ۔ سلام سنجر
بلوچستان میں سرداری نظام جڑیں گہری ہیں اور ہزاروں سال سے چلے آ رہے ہیں ۔
پنجابی اور انگریزوں سے پہلے کسی نے سرداری نظام کے بارے میں کچھ کہا اور لکھا نہیں تھا ۔
جب انگریزوں نے بلوچستان کا پہلی بار دورہ کیا تو انہوں نے پایا کہ اگر بلوچ قوم پر قبضہ جمانا ہے اور ان کو تقسیم کرنا ہے تو عام افراد کو سرداروں کو خلاف کرو کیوں کہ بلوچ اپنے سرداروں کو خدائی صفات کا درجہ دیتے ہیں اور ان کو اپنے نجات دہندہ سمجھتے ہیں اسی لیے رابرٹ سنڈیمن اس کی شروعات کی ۔ جبکہ اس کے بعد جب بلوچستان تقسیم ہوگیا اور ایک حصے پر پنجابی کا قبضہ ہوگیا تو انہوں نے رابرٹ سنڈیمن کی پالیسی کو دہرایا اور عام افراد کو سرداروں کے خلاف کر دیا ۔
ہمیں پڑھایا گیا ہے یا کہا گیا ہے کہ چاکر وگوھرام دو برادر کش سردار تھے اور انہوں نے آپسی جنگوں میں بلوچستان کو تباہ کر دیا ان پر فخر کرنا نہیں چاہیئے ، لیکن ہمیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ آیا چاکر و گوھرام نے کیوں آپس میں جنگیں لڑی ہیں؟
کیا چاکر و گوھرام کی جنگ کسی اقتدار یا سرداری منصب کو حاصل کرنے کے لیے تھا یا بلوچ کود آف کنڈکٹ کی بنیاد پر لڑی گئی ۔
آپ کو جاننا ہوگا سامراج ہمیں اپنے آپ سے دور رکھنا چاہتا ہے تاکہ ہم احساس کمتری کا شکار ہو کر مزید ان کے قبضے میں رہیں ۔
ہمیں یہ کہا گیا کہ ھمل جیھند ایک سمندری لٹیرا تھا لیکن یہ نہیں کہا گیا ہے ھمل نے انہی سمندروں کی حفاظت کے لیے قربانی دی ہے ، اس لیے تاکہ ہم بلوچ مزید احساس کمتری کا شکار ہو کر اپنے آپ سے بیگانہ رہیں ۔
ایسے بہت سے واقعات ہیں جن پر ہمیں فخر کرنا چاہیے لیکن ہم ان تاریخی ہیروز سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ سامراج اور قبضہ گیر یہی چاہتے ہیں ۔
موجودہ دور کی جنگ آزادی کی بنیاد انہی سرداروں نے رکھی ہے کیا یہ سردار و نواب غلط تھے جنہوں نے ہمیں غلامی سے بیدار کیا ہے ۔
اگر سردار ثناءاللہ زہری کی مثال دے کر دوسرے آزادی پسند سرداروں کو برا بھلا کہیں گے تو یہ نا انصافی ہوگی ۔
دور نہ جائیں محراب خان سے لے کر نوروز ، علی مینگل ، نورا ، خیر بخش ، نواب اکبر و بالاچ تک یہ سب سردار اور قبائلی شخصیات تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی بلوچستان کی آزادی اور سربلندی کے لئے وقف کر دیا تھا کیا آپ ان کو اس لئے برا کہیں گے کہ سردار عبد الرحمان و ثنااللہ زہری برے ہیں اس لیے سارے سردار بھی ایک جیسے ہیں ؟
نہیں ایسا نہیں ہے یہ سب جو ہمارے نفسیات اور سوچ میں پنپتا ہے اس کی وجہ سامراج اور قبضہ گیر ہیں جنہوں نے ہمیں اپنوں سے جدا کرکے ہمیں احساس کمتری کے گھپ اندھیرے میں ڈال دیا ہے ۔
اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ مکران میں سردار نہیں ہے یہ سچ ہے لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ مکران میں اگر سردار نہیں لیکن لفظ سردار کی جگہ دوسرا نام موجود ہے یعنی معتبر ، عمائدین ،علاقائی شخصیت ، مذہبی رہنما ، میر ، آقا ، واجہ ، سرکردہ شخصیات ، اثر رکھنے والا سیاسی و سماجی شخصیات وغیرہ
ان کا کام یا نظام اور سرداروں کا نظام ایک جیسا ہے بس نام کا فرق ہے ۔
ان کے فیصلے وہی ہوتے ہیں جو کہ سرداران اور نوابوں کے ہوتے ہیں
ان کو وہی عزت ملتا ہے جو کہ ایک سردار کو دیا جاتا ہے تو پھر ہر کوئی سرداروں کے خلاف کیوں ہیں؟
میں مکران میں رہتا ہوں
اگر مجھے کسی بھی مسئلے کا سامنا ہو تو، مثال کے طور پر میرا کسی شخص سے کوئی جھگڑا ہوا تو میں عدالت، پولیس اسٹیشن ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس جانے کے بجائے میں اپنے علاقے کے کسی میر ، متبعر ، علاقائی شخصیت ، مزہبی رہنما کے پاس جاتا ہوں تاکہ میرا مسئلہ وہ حل کرے کیوں کہ مجھے عدالت اور قانون سے زیادہ ان ہی شخصیات پر بھروسہ ہوتا ہے اور مجھے امید بھی ہے ۔
ایسے بھی سردار اور میر و متعبر بھی ہیں جو کہ برے ہیں جنہوں نے اپنے مفادات کے تحت قوم کا بیڑا غرق کر رکھا ہے لیکن اکثریت ایسے نہیں ہیں ۔
یہی ہے نظام ہے بس نام کا فرق ہے، ہمیں بس سرداروں کے خلاف اس لئے کھڑا کر دیا گیا ہے تاکہ ہم مزید تقسیم ہو سکیں اور ہمارا وطن قبضے میں رہے ۔
اب سوچنا یہ ہے کہ ہمیں کیا چاہیئے ؟
اس وقت ہمیں اپنا آزاد وطن چاہئے ان بے کار کی الجھنوں سے بچنا ہوگا ۔
آج بلوچ قوم کو ایک اہم انتخاب کا سامنا ہے بیرونی بیانیے سے منقسم رہنا یا یہ تسلیم کرنا کہ سرداری نظام، اپنی مختلف شکلوں میں بلوچ شناخت اور مزاحمت کا ایک لازمی حصہ ہے۔
اصل جدوجہد سرداروں یا مقامی میر و متعبروں کے خلاف نہیں بلکہ اپنے وطن پر قبضے اور تقسیم کے خلاف ہے۔ اس وقت ہمیں حقیقی معنوں میں اتحاد اور ایک آزاد بلوچستان کے لیے اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے، جو جوڑ توڑ کی پالیسیوں سے پاک ہو جو ہمیں اندر سے کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
اس سلسلے میں جب خیر بخش مری سے پوچھا گیا کہ ‘بلوچوں میں نواب ، سردار یا طبقاتی تضاد کے حوالے سے جو باتیں ہوتی ہیں ان سے “بلوچ نیشنلزم “کو کتنا نقصان پہنچا ہے ؟
نواب خیر بخش مری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بلوچوں میں نواب ، سردار یا طبقاتی تضاد سے “ بلوچ نیشنلزم “کو کتنا نقصان پہنچا ہے میں شاید اس کا پیمانہ نہ بتا سکوں ۔ تاہم بلوچوں میں آپس میں یہ طبقاتی مسئلہ موجود ہے جس سے مجھے اختلاف نہیں لیکن پاکستان کی سطح پر ہمارا اہم اور بڑا مسئلہ سردار ، نواب نہیں ۔ بلکہ چوہدری ہے ۔ جو لوگ پاکستان کی سطح پر سردار ، نواب کا مسئلہ اٹھاتے ہیں وہ دراصل ہمارے اہم اور بڑے مسئلے یعنی “ پنجاب اور چوہدری “ کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔”