ایک حقیقت اب پوری طرح عیاں ہو چکی ہے جو شخص آج بھی دل میں یہ موہوم سی امید رکھتا ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ بلوچ قوم کے لیے کچھ کرے گی، وہ دراصل یا تو خودفریبی میں مبتلا ہے یا اپنی ذات کے مفادات کی جنگ لڑ رہا ہے۔ وہ تمہارا نہیں، تمہارے دشمنوں کے بیچ میں ایک خاموش گماشتہ ہے۔ تم مجھے بتاؤ، تاریخ کی کس موڑ پر بلوچ نے اسٹیبلشمنٹ پر بھروسہ کیا اور جواب میں دھوکہ، فریب اور لاشوں کے سوا کچھ پایا؟ نواب نوروز خان سے لے کر نواب اکبر بگٹی تک، جنہوں نے عزت کے ساتھ مکالمے کی کوشش کی، کیا ریاست نے ان کے اخلاص کا احترام کیا؟ نہیں۔ ریاست نے ہمیشہ بلوچ کو ایک قوم کے بجائے ایک “مسئلہ” سمجھا ہے جسے حل نہیں، کچلا جانا ہے۔ اب سوال یہ ہے اور کتنا دھوکہ؟ اور کتنی لاشیں؟ اور کتنے جبری گمشدہ؟ پارلیمنٹ کا راستہ، بزرگوں نے آزمایا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ جسے اب بھی امید ہے کہ پارلیمنٹ کچھ بدلے گی، وہ یا تو بےوقوف ہے یا جان بوجھ کر قوم کو گمراہ کر رہا ہے۔ قابض ریاست تمہاری لاشوں کو گنتی نہیں، صرف اپنی فائلوں میں “نمبر” لکھتی ہے۔ وہ تمہاری زبان، تمہاری زمین، تمہاری پہچان سب کچھ مٹانے کے درپے ہے۔ اب بلوچ کے پاس صرف دو راستے ہیں۔
یا تو وہ سر جھکا کر غلامی کو قبول کرے، یا سر بلند کر کے آزادی کی راہ پر نکلے بغیر کسی دھوکے، بغیر کسی فریب کی امید کے- جو اب بھی کہتا ہے “میں ریاست کو سمجھاؤں گا”، وہ شاید تاریخ نہیں پڑھتا، یا وہ سمجھتا ہے کہ قاتل کے ساتھ مکالمہ ممکن ہے۔ اور یہ سب سے بڑا فریب ہے، جو ہم خود کو دیتے آئے ہیں۔ تو مجھے کوئی سمجھائے اس بےرحم استحصالی ڈھانچے میں بلوچ کے لیے کیا باقی ہے؟ سوائے بغاوت کے۔
کوئی بھی یہ کہے کہ “میں قابض کی آئینی حدود کے اندر رہ کر جدوجہد کروں گا”، ہم فوراً پہچان لیتے ہیں کہ یہ بلوچ قوم کے لیے نہیں، اپنی ذات کے لیے بول رہا ہے۔
یہ وہی لکیر ہے جو سب کچھ واضح کر دیتی ہے قوم پرستی اور موقع پرستی کے بیچ کی لکیر۔
یہ شخص چاہے جس زبان میں بات کرے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا مخاطب ہم نہیں، وہ طاقت ہے جس کے ساتھ اس کی کوئی پوشیدہ مفاہمت ہے۔
کچھ آزادی پسند عناصر دانستہ یا نادانستہ طور پر اس لکیر کو دھندلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی بھی مجبوری ہے کہیں ذاتی مفادات، کہیں پارٹی کی سیاست، کہیں وقتی مصلحتیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ جو قابض کے قانون میں نجات تلاش کرتا ہے، وہ یا تو تاریخ سے غافل ہے یا اپنی وفاداری کا مرکز بدل چکا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں نظریہ نیچے دب جاتا ہے جہاں جدوجہد کا نام لے کر دراصل مفاہمت کی راہ چُنی جاتی ہے۔
لیکن یاد رکھو آزادی اور غلامی کے درمیان کوئی آئینی پل نہیں ہوتا۔ یہ وہ لکیر ہے جس کے آر پار صرف کردار کھڑے ہوتے ہیں، اور کردار کبھی دھند میں نہیں چھپتے۔