The Sick Man of Europe & The Sick Man of Balochistan
دراصل سلطنت عثمانیہ کو بوجوہ اپنی سیاسی سماجی انتظامی اور معاشی ناقص پالیسیوں کے یورپ کا “ مردِ بیمار “ کا لقب روس کے بادشاہ نکولس زار اول نے دی تھی، اسکی بنیادی وجوہات یہی تھیں کہ سلطنت عثمانیہ اپنی سلطنت کی بندوست میں شامل کئی اقوام و ممالک پر اپنی کنٹرول بڑی تیزی سے کھوتی جارہی تھی، عسکری بنیادوں پر وہ شان و شوکت نہیں بچی جو دنیا پر دھاک بٹھاتے کبھی ہوا کرتی تھی اور ساتھ ساتھ یورپ کے دیگر ممالک انکی معاشی و عسکری پالیسی سازی کے عمل میں دخل اندازی بھی کررہے تھے اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف خود ترک قوم کے اندر ایک قوم پرستی کا جذبہ جوش مار رہا تھا سو ان تمام کمزوریوں اور کمزور پڑتی گرفت اور یورپ میں شامل دیگر ممالک کے نسبت گرتی ہوئی سیاسی معاشی و عسکری ساکھ و معیار کے باوصف سلطنت عثمانیہ کو یورپ کا مردِ بیمار کہا گیا۔
لہذا سیاسی ابلاغ و علوم کے میدان میں اس “ مردِ بیمار “ کی اصطلاح کو خاصی پزیرائی ملی اور انیس سو ستر کی دھائی میں معاشی جمود، افراط زر کی بڑھتی ہوئی شرح، مزدوروں کی ہڑتال اور خراب صعنتی کارکرگی کی وجہ سے برطانیہ کے لئیے بھی اس اصطلاح کا استعمال دیکھنے میں آیا پھر انیس سو نوئے میں خود سویت روس کے بارے میں بھی اس اصطلاح کے چرچے رہے اور ابھی حالیہ عرصے میں اٹلی اور فرانس کی معاشی زبوں حالی نے انکو بھی اسی میدان کا شریک کھلاڑی بنا دیا۔
” مردِ بیمار “ کوئی ریاست ہو یا کوئی گروہ، پارٹی، تنظیم یا کوئی فرد لہذا ضروری نہیں کہ وہ مرجائے معدوم ہوجائے یا ختم ہوجائے، معاشی سیاسی سماجی اور عسکری اصلاحات کرکے بہت سارے کیسز میں “ مردِ بیمار “ کے اصطلاح کے حامل ممالک نے دوبارہ اپنے پاؤں پر خود کو کھڑا کیا، لیکن سلطنت عثمانیہ اور سویت روس کے کیس میں ایسا نہ ہوسکا وہ دونوں اس بیماری کا علاج ڈھونڈنے سے قاصر رہے اور سیاسی مسابقت کی اس دنیا میں اپنی جگہ اہمیت اور قوت کو برقرار نہ رکھ سکے۔
بی ایس او کے ساتھ منسلک ہونے کے دور میں ہمارا ایک دوست ہوتا تھا، نام لینا مناسب نہیں ہے وہ شروعاتی دنوں میں بلوچ تحریک آزادی کی جد و جہد کو لے کر بہت جذباتی اور نہایت ہی سرگرم رہے، بھانت بھانت کی سرگرمیاں نبھائیں اور بہت سارے کام بھی کئیے، لیکن دو تین سالوں کے اندر اندر ان تمام سرگرمیوں سے خاموشی کے ساتھ کنارہ کش ہوکر اپنی ہی دنیا میں مگن ہوگئے، نہیں معلوم عملی زندگی کی سختیوں نے ایسا کیا یا پھر اپنے دوستوں کی نادان رویوں کی وجہ سے ایسا ہوا، اللہ و اعلم بالصواب، لیکن جب بھی دوستوں کی بیٹھک لگتی تو از راہِ تفنن کچھ دوست موصوف کو بی ایس او کا ” مردِ بیمار ” کہہ کر یاد کرتے، اور ان ہنسی مزاق کی محفلوں میں یہ لقمہ بھی گاہے بگاہے ضرور سننے کو ملتا کہ “ مجموعی طور پر بلوچ تحریک کا آزادی کا مردِ بیمار کون ہے “؟ اور سب دوست ایک کھسیانی ہنسی ہنس کر چھپ سادھ لیتے ہمیں واقعی میں معلوم نہ تھا کہ دوہزار دس گیارہ میں کچھ دس بارہ دوستوں کی نشست میں کھسیانی ہنسی ہنس کر ٹالی جانی والی “ بلوچ قومی تحریکِ آزادی کا مردِ بیمار کون“ والی مزاحیہ بات محض دوہزار سترہ اٹھارہ میں آکر حقیقت بن جائیگی، اس وقت امیدوں کے بھرآنے کے امکانات کچھ زیادہ ہی لگتے تھے اور ہم یقین کی حد تک سوچتے تھے کہ کوئی بھی معاملہ مسئلہ یا اندرون خانہ سیاسی و عسکری انتظام کاری کولے کر جو نفاق موجود ہے وہ سلطنت عثمانیہ یا سویت روس والی ” مردِ بیمار ” نہیں بنے گی بلکہ تبدیلی، مراجعت اور اصلاحات کے ذریعے بلوچ تحریک آزادی کی جد و جہد کے صفوں میں موجود الجھی ہوئی گھتیاں سلجھ جائیں گی۔ ایک وقت میں“ مردِ آہن “ کے عنوان سے ایک کتاب چھپ کرمارکیٹ آئی تھی جس میں ایک مخصوص موضوع پر شائع ہونے والی مضامین کو جمع کرکے کتابی شکل دی گئی تھی، میں اور میرا ایک دوست لیمارکیٹ میں گھومتے گھومتے روزنامچوں اور کتابوں کی پہلو بہ پہلو لگائے ہوئے دو میں سے ایک اسٹال پر رکے، زمانہ طالبعلمی اور اخراجات کی بھرمار کے وسط میں کتاب کے لئیے بجٹ بنانا کافی محال لگتا تھا سو میں نے اس سے اور اُس نے مجھ سے کہا کہ “ میں نے یہ کتاب نہیں لینی اگر آپ خریدیں تو مجھے پڑھنے کو ضرور دیجئیے گا “ اس کتاب کا نام تھا “ مردِ آہن “ ورق گردانی کرتے دیکھا تو اس میں “ بلوچ قوم کے مردِ آہن “ پر لکھے گئے نگارشات پر مبنی ایک کتاب مرتب کی گئی تھی، خیر وہ کتاب بوجوہ نہیں خریدی گئی لیکن بعد میں اسکو دیکھا پڑھا لہذا جذباتیت سے بھرپور تصورات کے تحت گھڑے ہوئے جملہ بازیوں کے سوا کچھ خاص اس میں نہیں تھا۔
بلوچ قومی تحریک آزادی کی “ مردِ آہن سے مردِ بیمار “ کا سفر محض چند سالوں میں پایہ تکمیل کو پہنچا، بلوچ قوم کی طرف سے دی گئی طاقت کو بلوچ قوم کے خلاف استعمال کرنے سمیت ہر سیاسی وطلبہ تنظیم کے معاملات میں دخل اندازی اور مبینہ کنٹرول کے بچگانہ رویوں سے تحریکی عمل کو جو نقصان پہنچا اس پر بے شمار تحاریر پڑھنے کو مل سکتے ہیں، سو بلوچ قوم کی دی ہوئی اس محدود طاقت پر ناز و گھمنڈ میں مبتلا “ مردِ بیمار “ کی پالیسیوں نے بلوچ قومی تحریک کے سامنے بے پناہ مشکلات کھڑی کیں، شعور کو جذبات کی باندی بنایا گی،ا اصول پر ذاتی بارشیوں نے فوقیت پائی، جنگی و سیاسی اصولوں کی جو جو پائمالیاں ہوسکتی تھیں وہ ہوتی رہیں، منشیات کے روک تھام کے نام پر ذاتی بغض و بیرگیریوں نے اودھم مچائی، بھتہ خوری کی لعنت اسکے سوا تھا، سماجی بے راہ رویوں کی ناسور کو ذاتی یارباشیوں کی بنیاد پر نظرانداز کیا گیا، کبوتر بازی کی طرح بندوق بازی کی شوق کو پروان چڑھایا گیا، معیار پیچھے رہ گیا اور مقدار پر توجہ مرکوز رہی، اورپھر مقدار کا کیا کہنے کہ بعد میں عالم یہ رہی کہ “ مردِ بیمار “ کو خود سمجھ نہیں آیا کہ اس بے ہنگھم عددی تعداد کا کرنا کیا ہے، بلوچ قوم کے بعد خود اپنے صفوں کے اندر دشمنیاں نکالنے اور پالنے کا حال یہاں تک تھا کہ ایک دوسرے کی مخبریاں کرتے رہے، سیاسی و جنگی طریقہ کار پر اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے جان کے درپے ہوگئے، ( کمبر قاضی، حکیم سوسالی، غنی و حلیم و دیگر دسیوں کی شہادت سمیت، واحد کمبر کی ایران سے مبینہ پراسرار گمشدگی فی الحال زیر بحث )
تنقید کو شجرممنوعہ قرار دے کر اسے اپنی کامیابیوں اور تنظیمی مقدار و حجم کے خلاف سازشی منصوبہ گردانا گیا اور باقاعدہ اسکے لئیے زہن سازی کرکے ممکنہ اصلاحات و مراجعت کی راستوں کو مسدود کیا گیا، جوابدہی سے فرار، پاکستانی پارلمینٹری طرز سیاست کی طرح بین التنظیمی فلور کراسنگ کی شدت سے حوصلہ افزائی کی گئی، تنظیموں کو توڑنے والوں کی حوصلے بڑھائے گئے، آزادی پسند سیاست و جنگی میدان کے درمیان فرق اور محدودات کو ملیامیٹ کرکے اپنی عددی تعداد و حمایت کو بڑھانے کے لئیے ایک نری حماقت کی گئی جس سے بلوچستان کے اندر پاکستانی کریک ڈاؤن کی شدت اور سیاسی کارکنان کی کثیر تعداد میں بعد از گرفتاری شہادت نے ایک ایسی سیاسی جمود کو جنم دیا جسکے گہرے بادل ایک دہائی بعد بھی برقرار ہیں جو ہنوز محسوس کیئے جاسکتے ہیں، آزادی کی جد و جہد سیاسی یا جنگی دونوں محاذوں پر انتہا کی راز داری کا تقاضا کرتی ہے، لیکن عددی برتری کی نشے میں چُور “ مردِ بیمار “ نے ” قبولیت بشرطِ آمادگی ” کے تحت ہرکسی ایرے غیرے نتو خیرے کو بندوق چلانا سکھا کر اسے جنگی محاذ کا مہمان بنایا، ان بے ہنگھم بھرتیوں کے دوران بھرتی ہونے کے لیئے آئے ہوئے لوگوں کی پس منظر، نیت، مقاصد یا بلوچستان کے سماجی جدلیات و تضادات کی باریکیوں کے حوالے سے مکمل چشم اغماض برتی گئی، اس بے ہنگھم بھرتی کا نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک آزادی کے لئیے اولین تقاضا رازداری کے نقطے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور تحریک کی کمر توڑ کے رکھ دی، بی ایس او آزاد کی آخری کونسل سیشن ( بمقام مشکے ) اور اس میں سیاسی نالائقیوں کی پہلو فی الحال بحث کا حصہ نہیں، “ جنگی سیاسی کارکن “ کا اصطلاح اسی زمانے زبان زدِ عام ہوئی اور بازاروں دیہاتوں چھوٹی آبادیوں میں گوریلہ سنگر بناکر سہل پسندی و آرام دہ خصلتوں نے ایسی رویوں کو جنمایا کہ اب پہاڑوں کی جان کن آزمائشیں بہت دقت طلب لگنے لگیں سو سب آپس میں مدغم ہوئے اور ایک مخلوط سیاسی جنگی ڈھانچہ تشکیل پائی جو اس بات پر مصر تھا کہ گوریلہ طرز کے برعکس پاکستانی فوج کا روایتی جنگی بنیادوں پر مقابلہ کرنا ہے، آواران و کولواہ اورتمپ کے گرد و نواح میں جنگی تنظیموں کے سیکیورٹی کے زیر انتظام سیاسی تنظیموں کی طرف سے عوامی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلسوں کا انعقاد ان تمام سیاسی بیوقوفیوں سے سوا ہیں۔
ان تمام سیاسی و جنگی غفلتوں اور لاپراہیوں کے بیچوں بیچ ایک خون آشام دن آتا ہے آواران کا خوفناک ذلزلہ، جس نے کئی جانیں نگل لیں وہ الگ لیکن سیاسی و جنگی شعبدہ بازیوں اور لاابالیوں کی وجہ سے فوج اور فوج کے کارندے جوق در جوق امدادی کاموں کے بہانے آواران و مشکے میں وارد ہوئے، گوریلہ طرز کے برعکس بازاروں اور آبادیوں میں رہ کر روایتی انداز سے پاکستانی فوج کے ساتھ جنگ لڑنے کی تمام تدبیریں الٹ پڑنے لگیں، اور پایہ استقامت پر لرزہ طاری ہونے کو تھا کہ بلوچ آزادی پسند جد و جہد کی تاریخ کا سب سے بھیانک و بھونڈا فیصلہ لیا گیا ” ایران دوستی ” کا فیصلہ۔
بلوچ قومی جہدِ آزادی کا یہی ایک سنگھم تھا جہاں مردِ آہن کے پاس دو رستے تھے، اپنی کوتاہیوں کو سدھار کر پایہ استقامت کو برقرار رکھتے ہوئے اس بحران کا مردانہ وار مقابلہ کرنا اور اس ساری صورتحال میں ” مردِ بحران ” بن کر نکل جانا اور دوسری طرف بلوچ قوم کے ازلی دشمن ایران دوستی کا عیادہ کرکے بلوچ تحریک آزادی کا “مردِ بیمار” بن کر خود سمیت باقی قوم کے تمام اداروں اور پارٹیوں اور کام کرنے والوں کی مشکلات و مصائب میں اضافے کا سامان پیدا کرنا۔