انسان کا جسمانی وجود فانی ہے، مگر جب وہ ظلم، جبر اور قبضے کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے، تو اس کی سوچ لافانی انقلابی پیغام میں ڈھل جاتی ہے۔ ایسے لوگ تاریخ میں کبھی نہیں مرتے؛ وہ نسل در نسل شعور بیدار کرتے ہیں۔ بلوچ سرزمین پر بھی ایسے ہی انقلابی جنم لیتے رہے، جنہوں نے قابض پاکستانی ریاست کے خلاف مزاحمت کو اپنا نظریہ اور آزادی کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔
بلوچستان، جو صدیوں سے خودمختار رہا، گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستانی فوج کے جبر، قبضے اور خونریزی کا شکار ہے۔ اس قبضے کے خلاف جاری مزاحمت اب محض ردِعمل نہیں رہی، بلکہ ایک مکمل نظریاتی اور مسلح تحریک میں ڈھل چکی ہے۔ بلوچ سرمچار آج صرف گولیاں نہیں چلاتے بلکہ ہر وار میں ایک نظریہ، ہر کارروائی میں ایک پیغام اور ہر شہادت میں آزادی کا نیا چراغ روشن کرتے ہیں۔
یہ جنگ اب سستی نہیں رہی بلکہ پوری شدت اور برق رفتاری کے ساتھ جاری ہے، اور اس رفتار کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ دشمن، جو بلوچ عوام کو کمزور سمجھتا تھا، سرمچاروں کی مسلسل ضربوں سے لرز چکا ہے۔ مگر یہ کافی نہیں۔ جب تک قابض پاکستانی فوج بلوچستان چھوڑ کر بھاگ نہ جائے اور اس کے قدم اس سرزمین سے اکھڑ نہ جائیں، ہر محاذ کو مزید سخت، منظم اور بے رحم بنانا ہوگا۔
بلوچ شہداء کی قربانیاں صرف ماضی کی یادگاریں نہیں بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے رہنمائی کے چراغ ہیں۔ یہ ہمیں سکھاتی ہیں کہ آزادی خون مانگتی ہے اور غلامی کو شکست صرف مزاحمت، نظم، اتحاد اور مسلسل جدوجہد سے دی جا سکتی ہے۔ ہر شہادت اس جنگ کی تپش کو بڑھاتی ہے اور ہر خون کا قطرہ دشمن کے لیے عبرت بن جاتا ہے۔
بلوچ عوام پر قومی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس جنگ میں محض تماشائی نہ بنیں بلکہ سرمچاروں کے بازو بنیں۔ جو بھی دشمن کے خلاف کھڑا ہے، وہ اکیلا نہیں بلکہ پوری قوم کا نمائندہ ہے۔ آج کا وقت تقاضا کرتا ہے کہ یہ جنگ صرف پہاڑوں اور مورچوں تک محدود نہ رہے بلکہ ہر گاؤں، ہر شہر اور ہر دل میں آگ بن کر بھڑکے۔ بلوچ عوام کو اپنی انقلابی صفوں کو مزید تیز کرنا ہوگا تاکہ دشمن کی ہر سازش ناکام ہو اور قابض فوج پسپائی پر مجبور ہو جائے۔
راشون حیربیار مری جیسے انقلابی رہنما بخوبی جانتے ہیں کہ جدوجہد کی سمت کیا ہونی چاہیے۔ ان کی رہنمائی میں پیش کیا گیا بلوچستان لبریشن چارٹر (BLC) نہ صرف ایک سیاسی منشور ہے بلکہ ایک مکمل قومی خاکہ بھی ہے، جس میں آزاد ریاست کے عدالتی، تعلیمی، عسکری اور سیاسی اصول وضع کیے گئے ہیں۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ بلوچ جدوجہد محض ردِعمل نہیں بلکہ ایک مکمل نظریاتی انقلاب ہے۔
گوریلا جنگ بلوچ سرمچاروں کی پہچان بن چکی ہے — تیز، منظم، بے رحم اور ناقابلِ پیش گوئی۔ دشمن جہاں اپنی طاقت پر ناز کرتا ہے، سرمچار وہاں اس کا غرور توڑتے ہیں۔ ان کی تیز رفتاری نے پاکستانی فوج کے حواس پر قابو پا لیا ہے۔ جب یہ جنگ مزید شدت اختیار کرے گی، دشمن کے پاس بلوچستان چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہ بچے گا۔ یہ جنگ دشمن کے لیے زمین تنگ کرنے کی حکمتِ عملی ہے، اور یہی تنگی اسے عبرت بنا دے گی۔
اب وقت آ گیا ہے کہ بلوچ عوام — نوجوان، مائیں، بزرگ — سب یک زبان ہو کر سرمچاروں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ ان کے بازو، ان کی سپلائی لائن، ان کے نگہبان اور ان کے نظریے کے محافظ بنیں۔ جتنی تیز یہ جنگ ہوگی، دشمن اتنی جلدی پسپا ہوگا، اور جوں جوں دشمن کی پسپائی ہوگی، آزادی کی کرن قریب آتی جائے گی۔
یہ تحریک اب رکنے والی نہیں۔ ہر بلوچ دل میں ایک سرمچار زندہ ہے، ہر شہید کے لہو میں ایک تحریک بولتی ہے، اور ہر دشمن کی لاش پر بلوچ آزادی کا جھنڈا بلند ہوگا۔ بلوچ قوم دشمن کو صرف شکست نہیں دے گی بلکہ اسے عبرت کا نشان بنائے گی تاکہ دنیا جان لے کہ جو قوم اپنے حق کے لیے لڑتی ہے، وہ ناقابلِ شکست ہوتی ہے۔